English   /   Kannada   /   Nawayathi

اجمیر میں منعقدہ جمعیۃ علماء ہند کاتاریخ سازدو روزہ تینتیسواں اجلاس عام پوری کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر

share with us

جمعےۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے اس موقع پر کہاکہ آج کا اجلاس عام قومی یکتا ، اتحاد امت اور امن عالم کے لیے ہے ، ہم نے خواجہ کی نگری کا اس لیے انتخاب کیا ہے تاکہ یہاں سے اس پیغام امن ومحبت کو عام کیا جائے ، انہوں نے کہا کہ مجلس عاملہ کے اراکین کا جس بہتر طریقے سے استقبال ہوا اس کی خوشبو پورے عالم میں پھیلے گی اور ان شاء اللہ یہاں سے خدمت خلق ، مخلوق سے محبت اور دلوں کو جوڑنے کا پیغام گھر گھر پہنچے گا۔مولانا مدنی نے طلاقِ ثلاثہ او ریکساں سول کوڈ جیسے حساس مسائل پر مرکزی حکومت کی نیت پر سوال کھڑے کیے اور دوٹوک جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہماری شریعت میں خواتین کو جتنے حقوق اور تحفظ فراہم کیے ہیں وہ کسی پرسنل لاء میں حاصل نہیں ہیں۔ مولانا اس موقع پر مسلکوں کے درمیان پیدا کردہ تفریق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اجتماعیت اسلام کی بتائی ہوئی معاشرتی اقدار میں ایک بہت بنیاد قدر ہے۔ اجتماعیت کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں میں باہمی اختلاف رائے نہ ہو بلکہ اجتماعیت کا مطلب ہے کہ مسلمان اختلافِ رائے رکھتے ہوئے بھی باہم متحد رہیں۔ ملحوظ رہے کہ اس اجلاس میں عائلی قانون شریعت کے تحفظ کے لیے عدالتی ، پارلیمانی ،او رمیڈیا میں مرکوز جدوجہد ، قومی وملی معاملات میں باہمی اتحاد ، دلت ومسلم اتحاد ، فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لیے قانون سازی ، مسلمانوں کے لیے ان کی پسماندگی کی بنیاد پر ریزرویشن اور اسکول کے بچوں پر مخصوص مذہبی رسومات لازم کرنے کے موجودہ رویے کے انسداد وغیرہ جیسی تجاویزقابلِ ذکر ہیں۔ 
اس اجلاس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ رہی ہے کہ اس میں مسلمانوں نے بلا تفریق مذہب وملت شرکت اور دلت طبقہ اور دیگر پسماندہ ذات کے ذمہ داروں نے بھی اس میں شرکت کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔دلت طبقہ کی نمائندگی کرتے ہوئے ا شوک بھارتی صاحب نے سب سے پہلے جمعےۃ علماء ہند کی جانب سے طئے شدہ تجاویز کی حمایت کرتے ہوئے پورے دلت طبقہ کی طرف سے ساتھ دینے کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے ملک کے حالات کے تناظرمیں کہا ہے کہ گجرات کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر ریاستوں کو ایک لیبوریٹی کی شکل دینے کی کوشش کررہی ہے اور اس میں اقلیتوں کو پیسا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ملک میں انسان اور انسان کے درمیان برابری ہونی چاہیے اور ظلم کے نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے ، ہماری لڑائی کا مقصد یہی ہے کہ کسی بھی حال میں چاہے وہ کسی بھی لحاظ سے کسی پر ظلم نہیں ہونا نہیں چاہیے۔چاہے وہ ظلم غریبی کی وجہ سے یا ذات پات پات کی وجہ سے ہم کسی کو بھی برداشت کرنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ ہزاروں سال سے ہمارے اچھے دن نہیں آئے اور جنہوں نے دلت اور آدی واسیوں کو ختم کرنے کی ٹھان لیتی وہ ختم ہوگئے لیکن ہم اُس دور میں بھی تھے جب ہمارے خلاف ظلم کی آواز اٹھائی جارہی تھی اور آج بھی ہم موجود ہیں جب ہماری زندگی کا جینا دوبھر کردینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے یکساں سول کوڈ پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے ملک میں انسان او رانسان میکے مابین برابری کیا جائے۔ اس سے پہلے ہم کسی بھی صورت میں یکساں سوڈ کوڈ ہمیں منظور نہیں ہیں او راس کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑا ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ جناب سوامی سرسوتی جی مہاراج نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ وقت آچکا ہے جب بھارت میں ہندو اور مسلمان ایک ہوکر اپنے یکتا کی لڑائی لڑیں اور اپنے ملک کی حفاظت کے لیے آگے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ ماحول بدلنے سے ملک بدل جاتا ہے اورآج اس عظیم الشان جلسہ سے ایسے لگ رہا ہے کہ ماحول بدل رہا اور جب ماحول بدل جائے گا تو ملک کے حالات بھی ضرور بدلیں گے۔ انہوں نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قومی یکجہتی کے پروگرام تو حکومت کو منعقد کرنا چاہیے۔ انہوں نے مسلمانوں کی بدنامی کے سد باب کے لیے کوششیں کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک طبقہ کے کچھ لوگ اگر غلطی کرتے ہیں تو اس کی وجہ سے پوری قوم کو بدنام نہیں کیا جاسکتا۔ یونیورسل پیس فاؤنڈیشن کے چیر مین جناب پنڈت ایم کے شرمانے سب سے پہلے اس پروگرام کے انعقاد پر جمعےۃ علماء ہند کے قومی جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خوشی ہورہی ہے کہ میں بھی اس پروگرام کا حصہ بنا ہوں۔ للہ کے فضل سے جمعےۃ سو سال مکمل کرنے جارہے ہیں اور ہم جنوری 2017سے ملک میں منشیات مخالف مہم چلائیں گے اور ملک کے مختلف شہرو ں میں سوسالہ پروگرام کا انعقاد کرتے ہوئے اس کو منانے کی کوشش کریں گے۔مولانا نے ملک کے حالات کے تناظر میں کہاکہ ملک وملت کے فلاح کے لیے یہ تقاضہ ہے کہ ہم سب مل کر اس کے لیے کوشش کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں دین وایمان کے سلسلہ میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے بھی ہمیں آگے آنا ہے۔ انہوں نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ ہمارے پرسنل لاء میں ترمیم کرنے کی کوشش کی جائے تو ہماری حیثیت ایک آزاد ہندوستان سے زیادہ نہیں رہے گی۔ 
عالمی نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد 
جمعےۃ علماء ہند کا دستور رہا ہے کہ جب بھی اجلاس عام منعقد کیا جاتا ہے تو عالمی مشاعرہ کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے اور اسی روایت کو باقی رکھتے ہوئے آج کا یہ عظیم الشان عالمی نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں ہندوستان وبیرون سے مشہور ومعروف شعراء پنے کلام سے نوازا اور حاضرین کو داد دینے پر مجبور کیا ۔ شعراء نے آقائے نامدار تاجدار مدینہ سرورِ کائنات فخر الرسل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی میں اپنے بہترین کلام سے نوازا اور ان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے عملی پیغام بھی دیا۔ اس مشاعرہ کے کنونیر اترپردیش اردو اکیڈمی کے چیرمین جناب نواز دیوبندی نے کی اور نظامت بہترین ناظمِ مشاعرہ انور جلال پوری نے کی ۔اس عالمی مشاعرہ میں ہندوستان کے جن ممتاز شعراء کرام نے شرکت کے ان کی فہرست کچھ اس طرح ہے ۔بیکل اُتساہی ، جناب انور جلال پوری صاحب، نواز دیوبندی صاحب ، عمر بن سالم العیدروس صاحب، زبیر فاروق صاحب ، پروفیسر وسیم بریلوی صاحب، امجد علی سرور صاحب ،ڈاکٹر کلیم قیصر صاحب ،عقیل نعمانی صاحب ،سردار پنچھی صاحب ،ساگر ترپاٹھی صاحب،عزم شاکری صاحب ،فاروق کمال صاحب ،خالدزاہد صاحب ، الطاف ضیاء۔ ملحوظ رہے کہ اس موقع پر درگاہ اجمیر شریف کے سجادگان اور صابری و چشتیہ سلسلہ سے تعلق رکھنے والے مختلف رہنماؤں نے شرکت کرتے ہوئے اتحاد کا ثبوت دیا اور کہاکہ ہم سب ایک ہیں، مسلکی اختلافات کی بنا پر دوریاں پیدا ہونے نہیں دیں گے۔
ملحوظ رہے کہ اس موقع پر کئی خواجہ غریب النواز کے درگاہ سے تشریف فرماانجمن خواجگان کے ذمہداران اور جناب توقیر رضا خان صاحب بھی موجود تھے انہوں نے بھی اس تاریخی اجلاس میں اختلافات کو بھلا کر ایک ہونے کی اپیل کی اور صدر جمعیۃ حضرت مولانا عثمان صاحب منصورپوری کے دعائیہ کلمات پر جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا