English   /   Kannada   /   Nawayathi

نجیب کی گمشدگی پر بولے کنہیا: جے این یو میں 3000 بیئر کے کین مل گئے، ایک لاپتہ طالب علم نہیں مل رہا(مزید اہم ترین خبریں)

share with us

کنہیا بی جے پی لیڈر گیاندیو آہوجا کے اس بیان پر بول رہے تھے، جو انہوں نے فروری میں یونیورسٹی میں جاری مظاہروں کے دوران دیا تھا۔ اپنے بیان میں آہوجا نے کہا تھا، 'جے این یو میں روزانہ 3000 بیئر کے کین، 2000 شراب کی بوتلیں، 10 ہزار سگریٹ کے ٹکڑے، 4 ہزار بیڑی، 50 ہزار ہڈیوں کے ٹکڑے، 2 ہزار چپس کے پیکٹ، 3 ہزار استعمال کئے گئے کنڈوم اور 500 اسقاط حمل کے انجکشن ملتے ہیں۔ ' ان کے اس بیان پر خوب ہنگامہ بھی ہوا تھا۔جے این یو کے طلبہ تبھی سے ہی مشتعل ہیں جب 14 اکتوبر کو ہاسٹل میں ہوئے تنازعہ کے بعد سے نجیب احمد نام کا طالب علم لاپتہ ہو گیا۔ بائیں بازو کی جماعتوں سے وابستہ آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا الزام ہے کہ غائب ہونے سے پہلے نجیب کو بی جے پی کے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے کارکنوں نے بری طرح پیٹا تھا۔ تاہم اے بی وی پی نے اس معاملے میں کسی بھی طرح کے ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔اتوار کو ہی دہلی کے انڈیا گیٹ پر مظاہرہ کر رہے سینکڑوں طالب علموں کو پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔ نجیب احمد کی ماں کے ساتھ بھی بدسلوکی کی گئی اور انہیں بھی حراست میں لے لیا گیا تھا


مانو اسٹاف کے بچوں کے لیے ثقافتی پروگراموں کا انعقاد

حیدرآباد،08؍نومبر (فکروخبر/ذرائع)تمام بچوں میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں اور خود اعتمادی ان کے چہروں سے عیاں ہے۔ جس اپنائیت کا مظاہرہ انھوں نے اسٹیج پر آنے جانے اور نشست وبرخاست کے دورا ن فطری انداز میں کیا اس سے صاف ظاہر تھا کہ اس یونیورسٹی سے ان کا کس قدر قربت کا رشتہ ہے ۔ ان کے والدین بھی قابل تعریف ہیں جنھوں نے اس مقابلے میں اپنے بچوں تک وہ ہنر پہنچایا جو تعلیم کے ساتھ ساتھ دور حاضر میں بے حد اہم اور ضروری ہے ۔مقابلے کے اس دور میں بچوں کا اور خاص طور سے اردو داں بچوں کا باخبر اورفعال ہونا لازمی ہے ۔ یہ بچے خوش نصیب ہیں کہ انھیں آس پاس کے لوگ نام سے جانتے ہیں ورنہ دہلی یا دیگر بڑے شہروں میں تو بغل کے فلیٹ میں رہنے والے بھی ایک دوسرے سے واقف نہیں ہوتے ۔یہ یگانگت اور محبت کا ماحول اردو یونیورسٹی کی خاص خوبی ہے ۔یہ بچے خوش نصیب ہیں کہ ان کو اسکول کی تعلیم کے دوران یونیورسٹی کے پلیٹ فارم پر پرفارم کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔ان خیالات کا اظہار جناب انیس احسن اعظمی ،مشیر اعلیٰ ، مرکز برائے اردو زبان، ادب و ثقافت، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے یومِ آزاد تقاریب 2016 کے تحت اسٹاف کے بچوں کے لیے منعقدہ ثقافتی پروگراموں کے اختتامی اجلاس میں کیا ۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں چارنومبرسے گیارہ نومبر تک مختلف ثقافتی و کھیل کود کے مقابلے منعقد کیے جا رہے ہیں جن کی ایک اہم کڑی کے طور پر ابتدائی سے بارھویں جماعت تک پڑھنے والے اسٹاف کے بچوں کے لیے ڈرائنگ وپینٹنگ اور پوسٹر سازی،مضمون نویسی، نظم اور نعت خوانی، تقریری مقابلہ اور کوئز کا اہتمام کیا گیا۔مضمون نویسی کے لیے پانچویں اور چھٹی جماعت کے طلبہ کے لیے ’’چڑیا گھر کی سیر ‘‘ساتویں اورآٹھویں جماعت کے بچوں کے لیے’’موبائل فون کی لت ‘‘ ،نویں اور دسویں جماعت کے لیے ’’تندرستی ہزار نعمت ہے ‘‘، اور گیارھویں سے بارھویں کے لیے ’’ علمی معاشرے کی تشکیل و تعمیر ‘‘ جیسے موضوعات شامل تھے۔ڈرائنگ ، پینٹنگ اور پوسٹر سازی کے مقابلے میں چھوٹے بچوں نے مختلف خاکوں میں رنگ بھرا جب کہ پانچویں اور چھٹی جماعت کے بچوں کے لیے ’’فضائی آلودگی‘‘ ، ساتویں اورآٹھویں کے لیے ’’سبزی بازار ‘‘ نویں اور دسویں کے طلبہ کے لیے ’’بزرگوں کی نگہداشت ‘‘ اور گیارھویں و بارھویں کے لیے"پانی کے بغیر زندگی‘‘ جیسے موضوعات تھے۔ تقریری مقابلے کے لیے پانچویں اور چھٹی جماعت کے لیے ’’یومِ اطفال‘‘، ساتویں اور آٹھویں کے لیے ’’دوران سفر حفاظتی تدابیر ‘‘ ، نویں اور دسویں کے لیے ’’کثرت میں وحدت ‘‘اورگیارھویں اور بارھویں کے طلبہ کے لیے’’تعلیم کے میدان میں مولانا آزاد کی خدمات‘‘ جیسے موضوعات شامل کیے گئے تھے۔ان پروگراموں کے انعقاد کے لیے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں۔ڈرائنگ وپینٹنگ اور پوسٹر سازی ‘‘ میں محمد زبیر احمد،پی حبیب اللہ،وسیم راجا، دھرم جیت کماراور محمد محمد عمران’’مضمون نویسی‘‘ میں مصباح الانظر، ڈاکٹر بی بی رضا خاتون، ڈاکٹر اشونی، جناب ابرار احمد اور جناب ظہیر اللہ ’’کوئز ‘‘میں جناب امتیاز عالم،ڈاکٹر قیصر احمداورجناب عبیداللہ ریحان ’’نظم اور نعت خوانی‘‘ میں ڈاکٹر شبانہ کیسر ، جناب محمد جمال الدین خاں ، ڈاکٹر ظفر گلزار اور جناب سالار محی الدین اور ’’تقریری مقابلے ‘‘میں ڈاکٹر جاوید ندیم ندوی ، سید محمود کاظمی ، ڈاکٹروقارالنسااور ڈاکٹراطہر حسین وغیرہ شامل تھے۔ان پروگراموں کے انعقاد میں ڈاکٹر فیروز عالم ، شریک کنوینر محمد زبیر احمد،ڈاکٹر ظفر گلزار ، پی۔ حبیب اللہ، محمدامتیاز عالم اور عبیداللہ ریحان نے اہم کردار ادا کیا۔ ڈیڑھ سو سے زائد بچوں نے ان مقابلوں میں شرکت کی۔مختلف پروگراموں میں پروفیسر فریدہ صدیقی، پروفیسر مشتاق احمد پٹیل ، محمد جمال الدین خاں،ڈاکٹر محمد یوسف خاں، ڈاکٹر کفیل احمد،ڈاکٹر اطہر حسین ، ڈاکٹر اشونی،جناب شکیل احمد ، ڈاکٹر وقار النسا،ڈاکٹر محمد مشاہد ، ڈاکٹر بی بی رضا خاتون، ڈاکٹر شبانہ کیسر،ڈاکٹر خورشید عالم، جناب محمد عبدالمنیر، روحی غزالہ، عذرا رشید اور وجیہ الشمس نے جج کے فرائض انجام دیے۔
تقریری مقابلے میں پا نچویں اور چھٹی جماعت میں مریم شادان کو اول ،عافیہ جمال کو دوم اورماریا حسن سوری کو سوم انعام ملا۔ ساتویں اور آٹھویں جماعت میں زویا احمد کو پہلا ، بشریٰ خاتون کو دوسرا اوراے منو سونل اور امِّ فضل کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔نویں اور دسویں جماعت میں فصیح الدین کو اول ، محمد تنز یل مجتبیٰ کو دوم اور قمر حیدر کو سوم انعام کا حق دار کرار دیا گیا۔ گیارھویں اور بارھویں جماعت کے زمرے میں شگفتہ کوپہلا انعام حاصل ہوا۔نظم اور نعت خوانی کے مقابلے میں اریبہ خاں کو اول ، عثمان کفیل کو دوم اور خلیق اشرف کو سوم انعام حاصل ہوا۔
چوتھی سے ساتویں جماعت کے کوئز مقابلے میں زید فیروز، سفورا خانم اور عافیہ جمال کو پہلا انعام، شہر تبشم، سید امیر حمزہ کو دوسرا انعام اور عبدالرحمن، ماریہ حسن سوری اور شیخ محمد ریحان کو تیسرا انعام حاصل ہوا۔ آٹھویں سے بارھویں جماعت کے کوئز مقابلے میں فضا فردوس، صوفیہ ثنا الٰہی اورامِّ فضل کی ٹیم پہلے انعام، شگفتہ اورسیدہ منیبہ مہناز کو دوسرے انعام اورفرحان احمد، احمر حیدراور اے سویچھا سونل کو تیسرے انعام کا حقدار قرار دیا گیا ۔
پروگرام کے اختتام پر بچوں میں انعامات تقسیم کیے گئے۔تعلیمی اور ثقافتی پراموں کے کو آرڈنیٹر اور یوم آزاد تقاریب آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر فیروز عالم نے ا س موقعے پر شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان تمام پروگراموں کے انعقاد میں ان کی ذاتی دلچسپی اورتوجہ شامل رہی ہے اور انھی کی ایما پر یونیورسٹی طلبہ کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچوں کے لیے بھی پروگرام ترتیب دیے گئے- ان پروگراموں کے کامیاب انعقاد میں رہنمائی اور بھرپور تعاون کے لیے انھوں نے یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر شکیل احمد، یوم آزاد تقاریب آرگنائزنگ کمیٹی کے صدر نشیں جناب انیس اعظمی، کنوینر جناب میر ایوب علی خاں ، پی آر او جناب عابد عبدالواسع، او ایس ڈی کیمپس ڈیولپمنٹ جناب ضیاء الدین ملک ،تمام پروگرام کمیٹیوں کے ارکان اور جج حضرات کا خاص طور سے شکریہ ادا کیا جن کی خصوصی توجہ کی بدولت تمام پروگرام بخیر وخوبی منعقد کیے جا سکے۔


دربار موو کے بعد جموں میں پی ایچ کیو کا کام کاج شروع 

راجندرا نے افسران کی میٹنگ کی صدارت میں پولیس کے کام کاج کا جائیزہ لیا 

جموں ۔08؍نومبر (فکروخبر/ذرائع)دربار موو کے بعد پولیس ہیڈ کوارٹر جموں میں آج باضابطہ کام کاج شروع ہوا۔ پولیس کے سربراہ کے راجندرا نے آج پی ایچ کیو کے مختلف شعبوں کا معائینہ کر کے محکمہ کی مجموعی کارکردگی کا جائیزہ لیا ۔ پولیس کے سینئر افسران نے پی ایچ کیو کے صحب میں کے راجندرا کا استقبال کیا اور آرمڈ پولیس کے ایک دستے نے انہیں گارڈ آف آرنر پیش کیا ۔ سپیشل ڈی جی کارڈینیشن ( لا اینڈ آرڈر ) ڈاکٹر ایس پی وید اور اے ڈی جی پی ( ہیڈ کوارٹر ) وی کے سنگھ بھی اُن کے ہمراہ تھے ۔ پولیس محکمہ کے دفاتر کھولنے کیلئے بہترین انتظامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ڈی جی پی نے کہا کہ روز مرہ کے کام کاج میں بہتری لانے کیلئے کوششوں میں تیزی لانی ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ ذیلی یونٹوں کو مزید فعال بنانے سے متعلق معاملات کے فوری نپٹارے کو پی ایچ کیو سطح پر کام کیا جانا چاہئیے ۔ کے راجندرا نے پولیس افسران کی ایک میٹنگ کی صدارت کی اور محکمہ کی کارکردگی میں مزید بہتری لانے کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا ۔ کے راجندرا نے نوجوانوں کیلئے جموں اور سرینگر کیلئے سرمائی کھیل کے کلینڈر ترتیب دینے کی ہدایت دی ۔ انہوں نے کہا کہ پول۸یس محکمہ نوجوانوں کی بہبود کیلئے ہمیشہ کام کرتا رہا ہے ۔ بعد میں ڈی جی پی نے پولیس کے دیگر شعبوں بشمول ٹریفک ، سی آئی ڈی ، ریلویز ، آرمڈ اور ایس ایس جی ہیڈ کوارٹر کا معائینہ کیا ۔ انہوں نے افسران کے ساتھ تبادلہ خیال کے دوران عوام کو بہترین خدمات فراہم کرنے کی تلقین کی ۔ اس سے پہلے ڈی جی پی نے ریل ہیڈ میں پولیس یاد گار کا دورہ کیا اور شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا ۔ میٹنگ میں اے ڈی جی پیز ، ڈائریکٹر ایس کے پی اے ، ڈی پی ڈی ، اے آئی جی پیز ، ایس ایس پیز اور دیگر افسران بھی موجود تھے ۔ 


نائب وزیراعلیٰ K2K سوچھ بھارت ٹورکو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا

جموں ۔08؍نومبر (فکروخبر/ذرائع)نائب وزیراعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ نے ملک میں صفائی ستھرائی کے پیغام کوعام کرنے کے لئے ایک مہینے تک جاری رہنے والی کشمیرسے کنیاکماری تک( K2K )’سوچھ بھارت ٹور ڈی روٹری ‘کو روٹری بھون جموں سے جھنڈی دکھا کر روانہ کیا۔آئی جی پی جموں دانش رانا اور کمشنر جے ایم سی منموہن سنگھ بھی اس موقعہ پر موجود تھے۔اس ریلی کا انعقاد شہری ترقی کی مرکزی وزارت نے جموں میونسپل کارپوریشن کے اشتراک سے کیا تھا۔اس کاانعقادروٹری فاؤنڈیشن کی طرف سے دی جارہی خدمات کے سو سال منعقد ہونے کی یاد میں کیا گیا۔یہ فاؤنڈیشن انسانی فلاح و بہبود کے پروجیکٹوں کے لئے رقومات جمع کرتی ہے جن میں صاف اور سرسبز انڈیا پروجیکٹ بھی شامل ہے۔اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعلیٰ نے کہا کہ پورے ملک سے تعلق رکھنے والے سائیکل سوار اس مقابلے میں حصہ لے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی قومی سطح کی ریلیاں منعقد کرنے سے ایک طرف ملک میں اندرونی روابط مستحکم ہوتے ہیں اور دوسری طرح یکجہتی کے جذبے کو بھی فروغ حاصل ہوتا ہے۔نائب وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ ا س ریلی سے ملک میں امن، بھائی چارے اور قومی یکجہتی کے پیغام کو عام کرنے میں مدد ملنے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں سوچھ بھارت مشن سے متعلق بیداری کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ انہوں نے کہاکہ سائیکل سوار وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے شروع کئے گئے سوچھ بھارت مشن کو عام کرنے میں ایک کلیدی رول ادا کرے گی۔ ڈاکٹرنرمل سنگھ نے کہا کہ ریلی کے شرکاء مثبت سوچ کے برانڈ ایمبسڈر کی حیثیت سے کام کر کے گوناں گن ثقافتی ورثے سے لوگوں کو روشناس کرنے کے علاوہ مہمان نوازی اور امن کے پیغام کو تقویت بخشے گے۔ نائب وزیراعلیٰ نے کہا کہ آج کل کے مشکل دور میں ریاست سے باہر رہنے والے لوگوں کو ریاست میں شورش کے علاوہ ہورہی اچھی چیزوں کے بارے میں باخبر رکھنا نہایت ہی ضروری ہے ۔ریلی میں 22سائیکل سوار 33دنوں کے اندرملک بھر میں 4500کلومیٹر مسافت طے کریں گے۔ یہ ریلی دلی ،جے پور ، گاندھی نگر ، ممبئی، بنگلور ، چینئی ، تھیورو ننتھا پورم سے ہوتے ہوئے 9؍ دسمبر 2016ء کنیا کماری پہنچ جائے گی۔اس موقعہ پر اور لوگوں کے علاوہ روٹری کلب مدراس کے صدر امبالا ونن کے کواڈنیٹر ڈاکٹر دوشنت چودھری ،روٹری کلب جموں توی کے صدر بی آر چندن ، چینئی اور جموں کے روٹری اور معزز شہریوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھیں۔


اسکولوں کو جلانا دہشت گردی کی بھیانک کارروائی،ایسے عناصر کو بخشا نہیں جائیگا ۔۔محبوبہ مفتی 

سرینگر۔08؍نومبر (فکروخبر/ذرائع)اسکولوں کو نذر آتش کرنے کی کارروائیوں کو دہشت گردی کا سب سے بھیانک چہرہ قرار دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ عسکریت کی طرف مائل ہونے والے نوجوان اگر سنگین کارروائیوں میں مطلوب نہ ہو تو انہیں راحت پہنچا نے کیلئے اقداما ت اٹھا ئے جا سکتے ہیں ،بھارت پاکستان کے درمیان مذاکرات کی وکالت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دو ہمسایہ ملک ہمیشہ تناؤ اور کشیدگی کے ماحول میں نہیں ر ہ سکتے ہیں اور دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے قریب آنے کیلئے بات چیت کا سلسلہ شروع کر ے تاکہ خطے میں کشیدگی اور تناؤ کا جو ماحول بنا ہوا ہے اسے ٹالا جا سکے ،لوگوں کو ان کے دہلیزوں پر انصاف فراہم کرنے کا یقین دلاتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ عوامی مسائل حل کرنے کیلئے سرکار وعدہ بند ہے تاہم ریاست کے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ امن قائم کرنے میں حکومت کو اپنا تعاون فراہم کرے ۔ یو این این کے مطابق سرمائی راجدھانی جموں میں سیول سیکریٹریٹ کے دفاتر کھلنے کے موقعے پر گارڈ آف آنر کا معائنہ کرنے اور مار چ پاس پر سلامی لینے کے بعد پُر ہجوم پریس کانفرنس کے دوران ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے جانب سے پوچھے گئے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسکولوں کو نذر آتش کرنا دہشت گردی کی سب سے بڑی بھیانک کارروائی ہے اور شر پسند عناصر ریاست خاصکر وادی کے طلبا کو تعلیم سے محروم کرنے کے در پے ہیں تاہم ان کے منصوبوں کو کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائیگا ۔ ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اسکولوں اور کالجوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے سرکار خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتی ہے اور آنے والے ایک ہفتے کے دوران اسکولوں اور کالجوں اور دوسری سرکاری عمارتوں کو بھر پور تحفظ فراہم کرنے کیلئے مزید اقدامات بھی اٹھا ئے جائیں گے ۔ اسکولوں کو نذر آتش کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچا نے کا عندیہ دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ایسے عناصر کو یاد رکھنا چاہیے کہ سرکار ان کے خلاف کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی اور نہ ہی کسی کو امن میں رخنہ ڈالنے ،سرکاری یا پرائیویٹ املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت دی جائیگی ۔ ریاست خاصکر وادی کے حالات میں آہستہ آہستہ بہتری آنے کی امید جتاتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے بھارت پاکستان کے مابین مذاکرا ت کی پھر وکالت کرتے ہوئے کہا کہ 2003میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور خود کاروان امن بس کے ذریعے لاہور کے دورے پر گئے تھے اور اپنے دورِاقتدار میں دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات قائم کرنے کیلئے پاکستان کے فوجی صدر پرویز مشرف کو آگرہ بلایا تھا اور اٹل بہاری واجپائی کے اس طرز عمل سے نہ صرف ناجنگ معاہدے کا قیام عمل میں لایا گیا تھا بلکہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ مضبوط رشتے قائم ہونے کے امکانات بھی پیدا ہو گئے تھے ۔ ویزر اعلیٰ نے کہا کہ اٹل بہاری واجپائی کے طرز عمل کو اپناتے ہوئے وزیر اعظم ہند نریندر مودی بھی لاہور کے دورے پر گئے تھے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں کو مضبوط اور مستحکم بنایا جا سکے جبکہ ان کے دورہ کے فوراً بعد پٹھانکوٹ فوجی ائیر بیس پر فدائین حملہ ہوا اور دونوں ملکوں کے درمیان تلخیاں مزید بڑھ گئی جس کے نتیجے میں خطے کی صورتحال کافی ابتر ہو چکی ہے ۔ حدمتارکہ پر بھارت پاکستان فوج کے درمیان نا جنگ معاہدے کی خلاف ورزی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بندوقوں سے نہ توماضی میں مسائل حل ہوئے ہیں اور نہ مستقبل میں اس کی توقع کی جا نی چاہیے ۔ وزیر اعلیٰ نے بھارت پاکستان پر زور دیا کہ وہ ایک دوسرے کے قریب آکر بات چیت کا سلسلہ شروع کرے تاکہ مسائل کو حل کرنے کیلئے راہیں نکل آسکے ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بھارت پاکستان کے درمیان بات چیت سے اعتماد سازی بحال ہو گی اور امن کی فضاء قائم ہو جائیگی ۔ انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ جو نوجوان عسکریت پسند وں کے صفوں میں شامل ہو گئے ہیں اور سنگین کیسوں میں ملوث نہ ہوں انہیں راحت پہنچا نے کیلئے سرکار کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گی ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں سوپور میں ایک عسکریت پسند نے ہتھیار ڈال دئیے اور اپنے آپ کو قومی دائرے میں شامل کیا ۔ وزیر اعلیٰ نے بندوق اٹھا نے والے نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر وہ تشدد کا راستہ ترک نہیں کریں گے اور پولیس وفورسز کے خلا ف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے تو ان سے نمٹنے کیلئے پولیس و فورسز اپنی خدمات انجام دینے کیلئے تیار ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے عوامی مسائل کا ازالہ کرنے کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو ان کے دہلیزوں پر انصا ف فراہم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائیگا تاہم لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ امن قائم کرنے کیلئے حکومت کا ساتھ دیں تاکہ عوامی مشکلات کا ازالہ کرنے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی کاموں کو یقینی بنایا جا سکے ۔


LOCپر ہند ۔ پاک فوج کے درمیان شدید گولہ باری 2خواتین ،

کانسٹیبل سمیت 3افراد جاں بحق فورسز کے 2اہلکار زخمی

جموں۔08؍نومبر (فکروخبر/ذرائع)ہند ۔ پاک فوج کے درمیان حدمتارکہ پر ناجنگ معاہدے کی خلاف ورزی کے دوران عام شہریوں کی جانیں ضائع ہونے کا سلسلہ جاری ،بین الاقوامی کنٹرول سرحد پر ہند ۔ پاک فوج کے درمیان نا جنگ معاہدے کی خلاف ورزی دوسرے دن بھی جاری رہی ، مینڈھر بالا کوٹ سیکٹر میں شدید گولہ بھاری کے باعث حدمتارکہ کے قریب درجنوں رہائشی مکانوں کو نقصان پہنچا تاہم جانی نقصان کے بارے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی،ادھر سرحدی قصبہ اوڑی میں فورسز نے عسکریت پسندو ں کی دراندازی کو ناکام بنا نے کا دعویٰ کیا ،شدید گولہ بھاری کے دوران سرحدی حفاظتی فورسز کے 2اہلکار شدید طور پر زخمی ،کئی رہائشی مکان تباہ جبکہ اتنظامیہ نے مقامی مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکروں سے اعلان کراتے ہوئے لوگوں کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کی تلقین کی،ادھر پاکستانی دفاعی ترجمان کے مطابق بھارتی سرحدی حفاظتی فورس اور فوج کی جانب سے بلا اشتعال گولہ بھاری کے دوران نکیال سیکٹر کے دھارا علاقے میں 30سالہ کانسٹیبل اور 2 خواتین سمیت 3افراد جاں بحق اور 5عام شہری زخمی ہوئے ۔یو این این کے مطابق حدمتارکہ اور بین الاقوامی سرحد پر بھارت پاکستان فوج کے درمیان دوسرے دن بھی نا جنگ معاہدے کی خلاف ورزی جاری رہی ،دفاعی ترجمان کے مطابق مینڈھر کے بالا کوٹ سیکٹر میں پاکستانی رینجرس نے صبح 9بجے کے قریب بغیر کسی اشتعال کے گولہ بھاری شروع کی جس کے دورا ن پاکستان رینجرس نے شہری آبادی پر مارٹر شلوں کی بارش کی جس کی وجہ سے کئی رہائشی مکانوں کو نقصان پہنچا ہے ۔ دفاعی ترجمان کے مطابق پاکستانی رینجرس کی گولہ بھاری کافی دیر تک جاری رہی تاہم حدمتارکہ پر تعینات سرحدی حفاظتی فورس نے بھی جوابی کارروائی شروع کی اور پاکستانی رینجرس کی گولہ بھاری کا سختی کے ساتھ جواب دیا گیا ۔ ادھر سرحدی قصبہ اوڑی میں حدمتارکہ کے قریب اس وقت سنسنی اور خوف و دہشت کا ماحول پھیل گیا جب سرحدی حفاظتی فورس اور فوج نے وسیع علاقے کو محاصرے میں لے لیا اور تلاشی کارروائی شرو ع کی ۔ دفاعی ترجمان کے مطابق کمان پوسٹ سیکٹر میں فورسز کو 6اور7نومبر کی درمیانی رات کو عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت محسوس ہوئی اور حدمتارکہ پر تعینات سرحدی حفاظتی فورس نے دراندازی کرنے والے عسکریت پسندوں کو للکارا اور خود سپردگی کی پیشکش کی تاہم جدید ہتھیاروں سے لیس عسکریت پسندوں نے خودکار ہتھیارو ں سے گولیاں برسائیں ،فورسز نے بھی پوزیشن سنبھال کر جوابی کارروائی شروع کی اور فریقین کے درمیان کافی دیر تک گولیوں کا تبادلہ جاری رہا اور رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر عسکریت پسندپاکستانی زیر انتظام کشمیر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ۔ ادھر دفاعی ترجمان نے مینڈھر سیکٹر میں پاکستانی رینجرس کی گولہ بھاری کے دوران سرحدی حفاظتی فورس کے 2اہلکار زخمی ہوئے جبکہ رینجرس کی گولہ بھاری سے کئی رہائشی مکان تباہ ہوئے ۔ ادھر سیول انتظامیہ نے مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکروں سے اعلان کے دوران لوگوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نہ آئے اور گولہ بھاری سے محفوظ رہنے کیلئے اپنے گھروں میں ہی قیام کرے ۔ سیول انتظامیہ کی اس کارروائی پر مقامی لوگوں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شدید گولہ بھاری کے دوران رہائشی مکانوں پر مارٹر گولے برس رہے ہیں ،انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور انتظامیہ انہیں محفوظ مقامات کی طر ف لے جانے کے بجائے گھروں میں ہی رہنے کی تلقین کر رہی ہے ۔


200سے300کے قریب عسکریت پسند ریاست میں سرگرم ،صورتحال نازک اور تشوشناک ۔۔پولیس سربراہ 

سرینگر۔08؍نومبر (فکروخبر/ذرائع)کشمیر کی موجودہ صورتحال کو انتہائی نازک اور تشویشناک قرار دیتے ہوئے جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ نے انکشاف کیا کہ ریاست میں 200سے 300کے قریب عسکریت پسند سرگرم ہے جبکہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کے بڑی تعداد کو لانچنگ پوئنٹوں پر پہنچا دیا گیا ہے اور برفباری ہونے سے پہلے عسکریت پسند اس طرف آنے کی بھر پور کوشش کریں گے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ریاست کی تازہ ترین حفاظتی صورتحال کی اعلیٰ سطحی میٹنگ سرینگر میں منعقد ہوئی جس کی صدارت وزیرا علیٰ نے کی۔ اس موقعے پر جموں وکشمیر پولیس کے سربراہ ڈاکٹر کے راجندر نے کشمیر کی موجودہ صورتحال کو نازک اور تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاست میں 200سے 300کے قریب عسکریت پسند سرگرم ہیں جوپولیس و فورسز کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔ جموں و کشمیر پولیس کے سربرا ہ نے کہا کہ عسکریت پسند ریاست میں نا مساعد حالات کو قائم کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر کارروائیاں عمل میں لا سکتے ہیں اور عسکریت کے خلاف دباؤ قائم کرنے کیلئے اگر چہ پہلے ہی اقدامات اٹھا ئے گئے ہیں تاہم مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے ،کشمیر کے موجودہ حالات کو انتہائی ناز ک اور تشویشناک قرار دیتے ہوئے جموں و کشمیر کے سربراہ نے کہا کہ پھونک پھونک کر اقدامات اٹھا نے ہونگے ،امن قائم کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں اعتما د پیدا کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے جبکہ عسکریت سے نمٹنے کیلئے پولیسی اور فورسز پوری طرح سے چوکنا ہے اور نوجوانوں کو عسکریت سے دور رکھنے کیلئے جموں و کشمیر پولیس کے ساتھ ساتھ سیول انتظامیہ کو بھی کارگر اقداما ت اٹھا نے ہونگے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں لانچنگ پوئنٹوں پر بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں کو پہنچا دیا گیا ہے جو برفباری سے پہلے ریاست کے حدود میں داخل ہونے کی بھر پور کوشش کریں گے تاہم حدمتارکہ اور بین الاقوامی کنٹرول لائن پر فورسز پوری طرح سے چوکس ہے اور عسکریت پسندوں کے ارادوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائیگا ۔ 



بھوپال فرضی انکاؤنٹر:انکاؤنٹرنہیں آٹھ مسلم نوجوانوں کو منصوبہ بند شازش کے تحت قتل کیا گیا ہے 

جمعیۃ علماء کے وکلاء کا بھوپال دورہ ، جبل پور ہائی کورٹ سے رجو ع کیا جائے گا، گلزار اعظمی 

ممبئی08؍نومبر (فکروخبر/ذرائع)مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال میں آٹھ مسلم نوجوانوں کے فرضی انکاؤنٹر کو جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کے وکلاء کی ٹیم نے بھوپال کا دوہ کرنے کے بعد اسے ’’مرڈریعنی قتل‘‘ قرارد یا ہے اور اس فرضی انکاؤنٹر پر درجنوں سوالات اٹھائے ہیں ۔جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت اور سیکریٹری قانونی امداد کمیٹی گلزار اعظمی کی ایماء پر گذشتہ دو دنوں سے جمعیۃ علماء کے وکلاء بھوپال میں خیمہ زن تھے اس دوران انہوں نے بھوپال سینٹرل جیل کا اور فرضی انکاؤنٹر کے علاقے کا معائنہ بھی کیا نیز دفاعی وکیل پرویز عالم سے ملاقات کی ۔ سخت سیکوریٹی ہونے کی وجہ سے وفد کو جیل کے اندر ان بیرکوں تک نہیں جانے دیا گیا جہاں قیدی مقید تھے۔بھوپال سے ممبئی پہنچنے کے بعد ایڈوکیٹ شاہد ندیم انصاری نے ممبئی میں اخبار نویسوں کو بتایا کہ بھوپال سینٹرل جیل سے اچاری پور کا فاصلہ تقریباً ۶ سے ۷ کلومیٹر ہے جہاں ۳۱؍ اکتوبر کی صبح مبینہ سیمی کے آٹھ ارکان کو گولیوں سے بھون دیا گیا جبکہ پولس انہیں زندہ پکڑ سکتی تھی کیونکہ ملزمین پولس پر جوابی کارروائی نہیں کررہے تھے بلکہ وہ تو مدد مانگ رہے تھے نیز یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی شخص آٹھ گھنٹوں میں صرف ۷؍ کلومیٹر کا فاصلہ طئے کرے گا اور وہ بھی ریاستی شاہرہ چھوڑ کر جنگلوں اور پہاڑیوں میں بھاگے گا ؟ ایڈوکیٹ شاہد ندیم انصاری نے بتایا کہ آٹھوں ملزمین کو جیل کے انتہائی سخت حفاظتی بندوبست والے تین الگ الگ بیرکوں میں قید کر کے رکھا گیا تھا اور یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا کہ کوئی بھی قیدی لکڑیوں کی چابیوں سے لوہے کے تالوں کو بیرک کے اندر سے کھول کر راہ فرار اختیار کرسکے کیوں کہ جیل کے اندر پولس کا سخت بندوبست ہوتا ہے اور کسی بھی قیدی کی ایک ایک حرکات وسکنات پر پولس کی گہری نگاہ ہوتی ہے نیز جیل کے اطراف کی فصیل سے کود کر راہ فرار اختیار کرنا کسی لطیفہ سے کم نہیں ہے کیونکہ ایک آئی ایس(ISO) او میعار کی جیل کی فصیلیں بہت اونچی ہوتی ہیں اور دیوار کے چاروں طرف بڑے بڑے ٹاور بنے ہوئے ہیں جس پر ۲۴؍ گھنٹہ پولس کا پہرہ ہوتا ہے اور وہ دو ر بین سے دیکھتے رہتے ہیں ۔ایڈوکیٹ شاہد ندیم انصاری نے مزید بتایا کہ ۲۸؍اکتوبر کو جب ملزمین کو بھوپال کی ضلعی عدالت کے روبرو پیش کیا گیا تھا اس وقت تمام ملزمین کے چہروں پر داڑھیاں تھیں لیکن فرضی انکاؤنٹر کے وقت ان کے چہروں سے داڑھیاں ندارد تھیں یعنی کے ملزمین کو قتل کرنے سے قبل ان کی داڑھیاں مونڈوائی گئیں اور انہیں دوسرے لباس مہیا کرائے گئے۔ایڈوکیٹ شاہد ندیم کے مطابق پوسٹ مارٹم کے فوٹوز دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہیکہ ملزمین کو کمر سے اوپر سینے ،سر اور چہرے پر گولیاں ماری گئیں تاکہ وہ زندہ نہ بچ سکیں حالانکہ سپریم کورٹ کے رہنمایانہ اصولوں کے مطابق ایسے معاملات میں پولس کو کمر سے نیچے گولیاں مارنے اور ملزمین کو زندہ پکڑنے کی حتی الامکا ن کوشش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ۔
ایڈوکیٹ شاہد ندیم انصاری نے بتایا کہ فرضی انکاؤنٹر میں قتل کیئے گئے ملزمین امجد خان، ذاکر حسین، شیخ محبوب، محمد سالک، خالد احمد، عقیل خلجی، مجیب شیخ جمیل اور ماجد ناگوری کے مقدمات کی سماعت بھوپال ضلعی عدالت کے جج بھوشن یادو کے روبرو چل رہی تھی اور ملزمین پر الزام عائد تھا کہ انہوں احاطہ عدالت میں پاکستان زندہ آباد اور طالبا ن زندہ آباد کے نعرے لگائے تھے حالانکہ ملزمین کے وکیل پرویز عالم کا کہنا ہیکہ کہ پولس نے ملزمین پر جھوٹا مقدمہ قائم کیا تھا کیونکہ ملزمین نے کبھی بھی اس قسم کے نعرے بھوپال عدالت میں لگائے ہی نہیں تھے بلکہ ملزمین کو ہندوستانی قانون اور عدلیہ پر مکمل یقین تھا اور وہ ان کے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کرنا چاہتے تھے لیکن پولس نے انہیں فرضی انکاؤنٹر میں ماردیا کیونکہ وہ دیگر مقدمات کی طرح ان مقدمات سے بھی بری ہونے والے تھے ۔
ایڈوکیٹ شاہد ندیم انصاری نے بتایا کہ آٹھوں مسلم نوجوانوں کے مقدمات ایڈوکیٹ پرویز عالم بھوپال کی عدالت میں دیکھ رہے تھے اور انہیں کے صلاح و مشورہ سے ان فرضی انکاؤنٹر کے خلاف جبل پو ر ہائی کورٹ میں اگلے چند دنوں میں پٹیشن داخل کردی جائے گی ۔
جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے بتایا کہ وہ وزیر اعلی مدھیہ پردیش شیوراج چوہان کے ذریعہ معاملے کی تحقیقات کرائے جانے سے مطمئن نہیں اور وہ جبل پور ہائی کورٹ میں آزادنہ تفتیش اور دیگر مطالبات کو لیکر جلد ہی ایک کریمنل رٹ پٹیشن داخل کریں گے نیز اس تعلق سے بھوپال اور جبل پور کے وکلاء سے گفت شنید جاری ہے ۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ بھوپال جیل اور حادثہ کی جگہ کا معائنہ ایڈوکیٹ شاہد ندیم انصاری(ممبئی)، ایڈوکیٹ محرم علی(جبل پور)مفتی محمد احمد ،مفتی ضیاء اللہ (نائب صدور جمعیۃ علماء مدھیہ پردیش)پر مشتمل ایک وفد نے کیا اور اپنی رپورٹ میں بتایا کہ دماغ قطعی طور پر یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیکہ یہ حقیقی انکاؤنٹر ہوسکتا ہے کیو نکہ ثبوت وشواہد اور زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ ایک قتل ہے جس کی اعلی سطحی تحقیقات ہونا چاہئے اور خاطیوں کو سخت سے سخت سزائیں دی جانی چاہئے اور خاطیوں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات 302 اور 120B کے تحت مقدمہ قائم کرنا چاہئے ۔
واضح رہے کہ ۳۱؍ اکتوبر کی شب بھوپال کی سینٹرل جیل سے آٹھ مسلم قیدی کے فرار ہونے کی خبر موصول ہوئی تھی اور پھر اسی دن صبح دس بجے کے قریب آٹھوں مسلم نوجوانوں کو ایک انکاؤنٹر میں ماردیا گیا ، انکاؤنٹر ہونے کے بعد سے ہی اس کی حقیقت پر سوال اٹھنے لگے تھے کیونکہ جس طریقہ سے یہ پوری کارروائی انجام دی گئی وہ انکاؤنٹر نہیں بلکہ مسلم نوجوانوں کو قتل کرنے کی ایک منظم سازش تھی ۔


ڈراما’’ دادی اماں مان بھی جاؤ‘‘ کی اردو یونیورسٹی میں شاندار پیش کش

پروفیسر شمیم حنفی اور جناب انیس احسن اعظمی کے خطابات

حیدرآباد08؍نومبر (فکروخبر/ذرائع) ’’ڈرامے سے میری طویل وابستگی رہی ہے اور میں نے عظیم اداکاروں اور فنکاروں کو اپنی اداکاری کا جوہر دکھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ بچوں کے ڈراموں کا اسکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی تک میں نے بذات خود مشاہدہ کیا ہے، یہ بات کہتے ہوئے مجھے بے حد فخر محسوس ہو رہا ہے کہ میں نے نہ تو آج تک اتنا اچھا تلفظ دیکھا اور نہ ہی ایسی بے تکلفانہ برجستگی، جس کا مظاہرہ آج ان چھوٹے بچوں نے کیا ہے۔ ان ننھے اداکاروں نے بغیر نروس ہوئے جس طرح کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور ڈرامے کو سنبھالا وہ ناقابل یقین تھا ۔ یہ میری زندگی کا بہترین تجربہ بھی تھا۔انیس اعظمی ڈرامے کے میدان کی معروف شخصیت ہیں اور یہ نہایت خوش آئند امرہے کہ وہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے وابستہ ہو گئے ہیں اور مختلف علمی اور ثقافتی پروگراموں کے ذریعہ کیمپس میں ان کی موجودگی نظر بھی آرہی ہے۔‘‘ ان خیالات کا اظہار ممتاز نقاد ، دانشور، ڈراما نگار اور صدر غالب اکیڈیمی ، دہلی ،پروفیسر ایمریٹس جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی شمیم حنفی نے یونیورسٹی کے اوپن ایئر تھیئڑ میں یومِ آزاد تقاریب 2016کے موقع پر منعقدہ بچوں کے ڈرامے ’’دادی اماں مان بھی جاؤ‘‘ کی پیش کش کے بعد بحیثیت مہمان خصوصی کیا۔مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے مرکز برائے اُردو زبان، ادب وثقافت کی جانب سے منعقدہ ایک ماہ کے تھیئٹر ورکشاپ میں تیار کردہ اس ڈرامے کے مصنف اور ہدایت کار معروف ڈراما فنکار اور مرکز کے مشیر اعلیٰ جناب انیس اعظمی تھے۔ اس موقع پر میڈیا کنسلٹنٹ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اور یوم آزاد تقاریب2016 کے کنوینر جناب میر ایوب علی خاں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں پروفیسر شمیم حنفی کا بے حد شکر گزار ہوں کہ وہ یہاں تشریف لائے اور اپنی موجودگی کے ذریعے ہم سب کی حوصلہ افزائی کی۔ انھوں نے شروع سے آخر تک پورا ڈراما نہایت انہماک سے دیکھا اور خوب محظوظ ہوئے۔طلبہ کی کثیر تعدادجو یقیناًڈیڑھ ہزار سے زیادہ ہی رہی ہوگی نہایت صبر وتحمل کا ثبوت دیا اور ڈرامے کے اتار چڑھاؤ میں ان کا پورا انوولو منٹ نظر آیا۔ڈرامے کے مصنف اور ہدایت کار اور یوم آزاد تقاریب 2016 کے صدر نشیں جناب انیس اعظمی نے اس موقعے پر ڈرامے کے اداکاروں کے ساتھ ساتھ اردو یونیورسٹی کے طلبہ اور طالبات کی خوب تعریف کی جن کی محنت کے سبب یہ ڈراما انتہائی کامیاب رہا۔
ابتدامیں چھ بچے زید فیروز، سید محمد مشرف ،شیخ محمد راحیل،ابوذر فیروز، شیخ محمد ریحان اور تنیشا پالگری راوی کی شکل میں اسٹیج پرآئے اور انھوں نے بہت دلچسپ انداز میں سامعین کو ڈرامے کے کرداروں اور ا س کے موضوع سے متعارف کرایا۔ بعد ازاں ڈرامے کا آغاز ہوا۔اس میں راحت فیروز نے دادی اماں، فضا فردوس نے اماں، عاکفہ خان نے پھوپھی،اے منو سونل نے کام والی بائی، مریم شادان نے روبینہ ،زویا احمد نے ثمینہ،استوتی مہیما نے فہمینہ اور تنیشا نے نند کی لڑکی کا کردار موثر انداز میں ادا کیا۔ خاص طور سے راحت فیروز ، منو سونل،مریم شادان، زویا احمد اور استوتی مہیما نے اپنی فطری اداکاری کے ذریعے ناظرین کو خوب محظوظ کیا۔
ڈرامے میں روایتی مسلم گھرانوں کی تصویر کشی کی گئی تھی جن میں لڑکیوں کی تعلیم کو اُس سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اورجس کی اشد ضرورت ہے ۔ اس میں تعلیم خصوصاً تعلیم نسواں کی اہمیت و ضرورت پر نہایت فنکارانہ انداز میں روشنی ڈالی گئی تھی۔ڈرامے میں دادی دقیانوسی خیالات کی حامل ہیں اور لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ تعلیم ان کی شخصیت میں بگاڑ پیدا کرے گی۔ لیکن لڑکیاں، ان کی والدہ اور پھوپھی تعلیم کو بے حداہم تصور کرتی ہیں۔ڈرامے میں دادی کے علاوہ ایک بے حد دلچسپ کردار کام والی بائی کا تھا۔
ڈرامے کے اختتام پر جناب انیس اعظمی نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور اس تیقن کا اظہار کیا کہ مستقبل میں بھی اس طرح کے ثقافتی پروگرام پیش کیے جاتے رہیں گے اور طلبہ کی ذہن سازی اور ان کی خود اعتمادی و صلاحیت کی بہتری کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔ڈراما دیکھنے کے لیے یونیورسٹی کیتدریسی و غیر تدریسی عملے کے ارکان، طلبہ و طالبات کے علاوہ شہر سے بھی خاصی تعداد میں لوگ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ آئے تھے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا