English   /   Kannada   /   Nawayathi

ملی کونسل کی 18 ویں سالانہ اجلاسِ عمومی ،بھوپال میں ملک و ملت سے متعلق کئی اہم مسئلوں پر غور خوض اور فیصلے

share with us

واضح رہے کہ آل انڈیا ملی کونسل کی نئی میقات کے لئے ڈاکٹر ایس فاروق کو متفقہ طور پر کونسل کا خازن منتخب کیا گیا۔ اس موقع پر مرکزی مجلس عاملہ کے لئے 30 اراکین کا بھی انتخاب عمل میں آیا اور باقی 31 اراکین عاملہ کے انتخاب کے لئے صدر اور جنرل سکریٹری کو مجاز کیا گیا۔ اس موقع پر ممبئی کی معروف شخصیت اور کونسل کی مجلس تاسیسی کے رکن نیز خیر امت ٹرسٹ ممبئی کے ذمہ دار ہارون بھائی موزہ والا کے اچانک سانحۂ ارتحال ر اجلاس عمومی نے اپنے شدید دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لئے دعائے مغفرت کی گئی ۔ اس موقع پر کونسل کی مجلس تاسیسی و عاملہ کے رکن مشرف حسین کے عزیز اور جے ۔ این۔ یو میں تعلیم حاصل کررہے طالب علم نجیب احمد ، بدایوں کی یونیورسٹی کیمپس سے گم شدگی پر سخت ملال کا اظہار کیا گیا اور اہل خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔اجلاس میں محمد اصغر چلبل نے الحاج قمرالاسلام صاحب کا پیام پڑھ کر سنایا ، جسکا اقتباس درج ذیل ہے۔پیام اس اجلاس میں شرکت کیلئے میں نے مصمم ارادہ کیا تھا، مولانا ڈاکٹر منظور عالم صاحب جنرل سیکریٹری آل انڈیا ملی کونسل نئی دہلی سے جب میری ملاقات دہلی میں ہوئی ،اکتوبر کی28اور 29کو اجلاس کے تعلق سے بتایا تو میں نے وعدہ بھی کیا اور مکمل تیاری بھی کی تھی اور ٹکٹ بھی لے لی تھی ۔23اکتوبر کو میں نے مرکزی سیرت کمیٹی کے زیر اہتمام AIMPBکے طلاق ثلاثہ کے حلف نامے کے خلاف میں دستخطی مہم کے بارے میں ایک مشاورتی اجلاس طلب کیا تھا اس اجلاس میں یہ طئے پایا کہ5نومبر کو نہ صرف ضلع گلبرگہ بلکہ حیدرآباد کرناٹک کے6اضلاع پر مشتمل ایک احتجاجی جلسہ عام منعقد کیا جائیگا۔ چنانچہ دستخطی مہم کے تمام فارموں کوAIMPBکے دفتر روانہ کرنے جلسہ عام اور ریالی کے انعقاد وغیرہ کے لئے۔ میرا یہاں رہنا بہت ضروری ہے ۔ صدر محترم و جنرل سیکریٹری سے میں معذرت چاہتا ہوں ، اپنی جانب سے ڈاکٹر محمد اصغر چلبل نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل ضلع گلبرگہ کو بھیج رہا ہوں ۔ اس اجلاس میں جو بھی فیصلے لئے جائینگے میں ان فیصلوں کی قدر کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرونگا۔مجھے خوشی ہوئی ایکAIMPBکی جانب سے مشترکہ پریس کانفرنس کی گئی ۔ جس میں ڈاکٹر منظور عالم صاحب نے بھی ملی کونسل کی جانب سے شرکت کی اور ساتھ ہی ساتھ تمام مسلکوں کے نمائندوں نے بھی اس پر یس کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے اپنے اتحاد کا ثبوت دیا۔ اس پریس کانفرنس کے ذریعہ تمام مسلمانوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ لا ء کمیشن کے سوالنامہ کا مکمل بائیکاٹ کریں ۔ اور ہر جگہ دستخطی مہم چلائیں ۔ اتنا سب ہونے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ ہم کو سیکولر جماعتوں کو لیکر ہمیں آر پار کی لڑائی لڑنا ہوگا، دستوری اقدار میں آزادی مساوات، Humanityکے نام پر جس آئیڈولوجی کو نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ لاء کمیشن کے سوالنامے اسی کا ایک حصہ ہیں ۔ یہ لڑائی ایسا لگتا ہے لمبی چلے گی جیسے شابانو کیس میں چلی تھی ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ تمام مذاہب کی بیٹیاں ایک ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں سمجھنا چاہئے ۔ لیکن اس کے خلاف کون کام کر رہے ہیں ۔ ملک میں ہندو ،مسلم ، سکھ، عیسائی ان کی شادی بیاہ ان کے پرسنل لاء کے حساب سے ہوتی ہے ۔ مسلم لڑکی نکاح سے پہلے اگریمنٹ (اقرار نامہ )کرتی ہے تو ہندو بھائی اپنی بیٹی کا کنیا دان کرتے ہیں جس میں گواہ آگ رہتی ہے ۔ آخر میں کہنا چاہتا ہوں Directive Principleمیں تمام ملک میں شراب بندی کو سب سے پہلے آئین میں تبدیلی لا کر نافذ کرنے کی ضرورت ہے ، ملک میں صرف 4ریاستوں کے علاوہ کسی دوسری ریاست میں شراب پر پابندی عائد نہیں ہے ۔ اس کی کسی کو فکر نہیں ہے ۔ یہ عجیب و غریب صورتحال ہے کہ رہنما اصولوں کو بنیادی حقوق سے ٹکرا کر ملک کے اتحاد و یک جہتی کو سبوتاژ کیا جارہا ہے ۔ رہنما اُصول ملک کے جمہوری اور انسانی عزائم کو ظاہر کرنے والے ہیں ۔ ان کی ترجیحات کاتعین کون کرے۔ آج بھی ملک میں فاقہ کشی اور بھوک مری سے ہزاروں لوگ مرتے ہیں ۔ ویلفیر اسٹیٹ ان کا پیٹ نہیں بھر سکتی ۔ ملک میں کسی مخصوص فرقے کی خواتین سے جھوٹی ہمدردی کی آڑ میں اس کے پرسنل لاء میں تبدیل کی کوشش نہ صرف اس کی شناخت کو ختم کرنے کی سازش ہے بلکہ دانستہ طور پر ملک کی فرقہ وارانہ صورتحال کو بگاڑنے اور یک جہتی کے تانے بانے کو توڑنے کی کوشش ہے ۔ رہنما اُصولوں کو سوائے یکساں سیول کوڈ کے کسی اور انسانی فلاح کے مقصد میں استعمال نہیں کیا جارہا ہے ۔ ان حالات میں ہمیں حکومت کے غیر دستوری فیصلوں کے خلاف ہر سطح پر جدوجہد کرنی ہوگی اور شریعت اسلامی کے تحفظ کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ صدر مولانا عبداللہ مغیثی، جنرل سیکریٹری ڈاکٹر منظور عالم، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور مولانا ڈاکٹر ےٰسین علی عثمانی بدایوں نائب صدور نے قمرالاسلام کی جانب سے روانہ کردہ بیان پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قمرالاسلام ملت کا ایک سپاہیہے اور ملت کے آڑے وقت کا ساتھیہے جب جب بھی ملک میں ایسے اجلاس اور جلسہ عام ملی کونسل کے جانب سے منعقد کئے گئے قمرالاسلام صاحب نے آگے بڑھ کر اس میں حصہ لیتے ہوئے ملت کے لئے اپنیتڑپ اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ قمرالاسلام کا بیان ملت کیلئے ایک فکری پیام ہے اور ان کے اس پیام میں ملک میں مسلمانوں کو اتحاد اور حکمت عملی بنانے کا ایک واضح اشارہ ہے ۔ ڈاکٹر محمد اصغر چلبل مدعو خصوصی آل انڈیا ملی کونسل و نائب صدر آل انڈیاملی کونسل ضلع گلبر گہ نے دو روزہ اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے موجودہ دور میں جاری مسائل پر اپنی رائے پیش کی ۔ اُنہوں نے مرکزی حکومت کی پروگریسیو پنچایت اسکیم کو ایک فریبی اسکیم قرار دیا اور کہا کہ پروگریسیو پنچایت اسکیم کو روبہ عمل لا کر موجودہ حکومت نے ایم ایس ڈی پی کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایم ایس ڈی پی اسکیم کو مستحکم بنانے کے لئے موجودہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ اقلیتوں کو دی جانے والی اسکالر شپس کو بھی روک دیا گیا ان اسکالر شپس کو دوربارہ جاری کروانے کے لئے نمائندگی کرنے پر زور دینے کی ضرورت ہے ۔ اقلیتی طلباء کو اس اسکیم کے تحت فائدہ نا پہنچیں اس لئے دراخواست داخل کی جانے والی ویب سائٹس کو بلاک کیا گیاجس کے لئے بھی نمائندگی کی کوشش کرنی چاہئے۔ملک میں وقف بورڈ کو فعال اور بہتر بنانے کے ایجنڈے پر ڈاکٹر محمد اصغر چلبل نے کہا کہ کرناٹک وقف بورڈ کو قمرالاسلام صاحب نے اپنے دور اقتدار میں بہتر اور مستحکم بنانے کیلئے کئی ایک اہم اقدامات کئے ۔ جن میں C&R رول میں ترمیم کر کے277مسلم نوجوانوں کے تقرر ات ، آئمہ و موذنین کے لئے ہدیہ کی اجرائی، قبرستانوں کی حصار بندی اور سروے کا کام قابل ستائش ہیں ۔ الحاج قمرالاسلام کی جانب سے شروع کی گئی ان اسیکموں سے متاثر ہو کر پڑوسی ریاستوں نے ان اسکیموں کو روبۂ عمل لانے کی خواہش ظاہر کی ۔اصغر چلبل نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کرناٹک وقف بورڈ کی موجودہ اسکیموں کو رول ڈل کے طور پر پیش کرتے ہوئے ملک کی دیگر ریاستوں میں ان اسکیموں کو روبۂ عمل لانے کے لئے ملک کی تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو مکتوب لکھتے ہوئے اُن سے مطالبہ کیا جائے کہ یہ اسکیمیں وہ اپنی ریاستوں میں بھی لاگو کریں ۔ ملک بھر میں مسلمانوں کے درمیان ملی اختلافات پھیلانے کی فرقہ پرست قوتوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ملی کونسل کی طرف سے جاری ’’میثاق اتحاد‘‘ کی تحریک کو زیادہ عملی بنانے کے سلسلہ میں بھی موجودہ اراکین نے تبادلہ خیال کیااور اس تحریک کو مزید مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ملک کی مجموعی صورتحال کے تناظر میں ’’پیوپلس موومنٹ آف انڈیا‘‘ کو مؤثر بنانے ، مرکزی حکومت کی ’’پروگریس پنچایت‘‘ مہم اور ’’نئی قومی تعلیمی پالیسی‘‘ وغیرہ پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا اور حکومت کے در پردہ عزائم پر اظہار تشویش کیا گیا۔ آئندہ سال جنوری و فروری 2017میں ہونیوالے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے سلسلہ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملی کونسل کی ایک پانچ رکنی جائزہ کمیٹی بنائی جائے گی جو متعلقہ ریاستوں میں زمینی سطح پر حالات کا جائزہ لیکر منصوبہ بندی اور فیصلوں کا اعلان کرے گی۔اجلاس میں آل انڈیا ملی یوتھ آرگنائزیشن کو عملی شکل دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ طلاق ثلاثہ اور یونیفارم سول کوڈ پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے موقف کی تائید کرتے ہوئے اس کے دستخطی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا نیز بے گناہ نوجوانوں کی گرفتاریوں کے سلسلہ میں بھی تشویش کا اظہارکرتے ہوئے اور اس کے تدارک کے لئے مناسب اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس نے متفقہ طور پر کئی اہم ایشوز پر قرار داریں بھی منظور کیں۔اس اجلاس میں مولانا حکیم محمد عبداﷲ مغیثی میرٹھ، مولانا اسرارالحق قاسمی ایم۔ پی۔ مولانا یاسین علی عثمانی بدایوں، مولانا عبدالعلیم قاسمی بھٹکل، مولانا سید مصطفیٰ رفاعی ندوی بنگلور، محمدرحیم الدین انصاری حیدرآباد ، مولانا آس محمد گلزار قاسمی اتر پردیش، حافظ رشید چودھری ایڈووکیٹ آسام، مولانا عبدالوہاب خلجی، جناب عارف مسعود بھوپال، مشائخ مفتی سید باقر ارشد قاسمی بنگلور، سید شاہد احمد بنگلور، سلیمان خان بنگلور، عاصم سیٹھ افروز، شیخ نظام الدین شولاپور، محمد جاوید اقبال پٹنہ، مفتی ثناء الھدیٰ پٹنہ، ڈاکٹر وکیل احمد رضوی رانچی، غلام محمد ہگلی، شمیم اختر جاوید کلکتہ، سی۔ آر عبدالرشید بنگلور،عبدالرحیم پٹیل چیننئی، مولانا ڈاکٹر اعجاز احمد دربھنگا، مولانا حبیب اﷲ ہاشمی، ڈاکٹر محمد اصغر چلبل گلبرگہ اور ملک کی مختلف ریاستوں سے تشریف لائے ہوئے اراکین ومدعوئین خصوصی نے اظہار خیال کیا۔ مولانا عبداﷲ مغیثی نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ اسلام کی ۱۴ سوسالہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ملت اسلامیہ پر بارہاحالات آئے ہیں لیکن بدترین حالات میں بھی مسلمان کبھی گھبرایا نہیں اور پورے عزم کے ساتھ اس نے حالات کا مقابلہ کیا ہے، آج بھی جو حالات درپیش ہیں، ان میں ہم ملی کونسل کے رفقاء اور عام مسلمان صبروعزیمت، استقلال اور حوصلہ کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں گے اور انشا ء اﷲ کامیاب ہوکر ابھریں گے۔آل انڈیا ملی کونسل کے اس اجلاس میں آئندہ ماہ کولکتہ میں منعقد ہونے جارہے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس کے پہلے سے حاصل کردہ منظوری کے باوجود ان مقامات پر ریاستی حکومت کی طرف سے اچانک لگائی گئی پابندی پراپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کی سخت مذمت کی گئی اور اس پر لگائی گئی پابندی کو کالعدم کرنے اور متعینہ مقامات پر اجلاس کے انعقاد کی منظوری کی ازسر نو اجازت کاحکومت مغربی بنگال بالخصوص وزیراعلیٰ ممتا بنرجی سے پرزور مطالبہ کیا۔ڈاکٹر منظور عالم جنرل سکریٹری نے اجلاس کی نظامت کے فرائض انجام دئے جبکہ مولانا عبدالوہاب خلجی معاون جنرل سکریٹری نے تمام شرکاء اجلاس، مندوبین نیز مجلس استقبالیہ اور اسکے صدر عارف مسعود کی طویل جدوجہد کی تحسین کرتے ہوئے ان کے تئیں بالخصوص اظہار تشکر کیا۔ صدر محترم کی دعاؤں پر اجلاس کااختتام ہوا۔


’لفظوں کا لہو‘۔ بھوک، جنس اور ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کی ایک کربناک داستان:ڈاکٹر منصور خوشتر
المنصور ایجوکیشنل ٹرسٹ کے زیر اہتمام مسلمان عبدالصمد کے ناول ’’لفظوں کا لہو‘‘ پر بحث
دربھنگہ۔31اکتوبر(فکروخبر/ذرائع )پروفیسر عبدالمنان طرزی صاحب کی رہائش گاہ پر سلمان عبدالصمد کے ناول ’’لفظوں کا لہو‘‘ پر بحث المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ،دربھنگہ زیر عمل آیا۔ ٹرسٹ کے سکرٹری ڈاکٹر منصور خوشتر نے کہا کہ جواں سال قلم کار سلمان عبد الصمد کے ناول ’’لفظوں کا لہو‘‘ کی اشاعت ہو گئی ہے۔ زبان و بیان اور موضوع کے لحاظ سے یہ ایک اچھوتا ناول ہے۔ جس میں صحافت کے پردہ میں رشتوں کے تقدس پر بہت کچھ موجود ہے۔ کردار نگاری اور پلاٹ کی عمدگی کی بنیاد پر اس ناول نے نہ صرف عام قارئین بلکہ مستند لکھنے پڑھنے والوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ ناول کی یہ انفرادیت بھی ہے کہ طباعت سے قبل ہی سیکڑوں لوگوں نے اس کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ امید ہے کہ آنے والے وقتوں میں اس ناول پر مکالمہ و مباحثہ ہوگا۔ مشہور ناول نگار پیغام آفاقی اور شموئل احمد نے ناول کی قرات کے بعد جو رائے دی ہے اس سے ناول کے معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ زبان و بیان کے علاوہ اگر فلسفیانہ اساس اور عورتوں کی نفسیات کے تناظر میں دیکھا جائے تب بھی یہ ناول قابل التفات ہے۔ مرکزی کردار محسن کی صحافت سے علاحدگی کے بعد اس کی بیویوں نے صحافت کے تناظر میں جو کردار ادا کیا ہے ، اس سے ایک طرف جہاں عورتوں کی نفسیات ظاہر ہوتی ہیں وہیں جمہوریت کے چوتھے ستون کی حقیقت بھی منکشف ہوتی ہے۔ امتیاز انجم نے درست لکھا ہے کہ صحافت نے پوری دنیاکو آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے لیکن آج تک کسی نے صحافت کو آئینہ نہیں دکھایا ہے۔ سلمان عبد الصمد قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے ناول کے پردے میں اردو صحافت کی ڈھکی چھپی سچائی کو طشت از بام کر دیا ہے۔ سلمان عبد الصمد خود بھی صحافت سے وابستہ رہے ہیں۔ممکن ہے کہ ناول میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ ان کا ذاتی تجربہ و مشاہدہ ہو۔ سلمان عبدالصمد نے اپنے ناول کا مختصراً تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ ناول خارجی سطح پر صحافت اور سیاست کے مابین سوتیلے رویے سے پردہ اٹھاتا ہے۔ تاہم داخلی سطح یا پھر عمومی تناظر میں فلسفیانہ طور پر رشتوں اور تعلقات کے مبادیات سے ہم آہنگ ہے۔ ہر تخلیق معنیاتی سطح پر دو زمروں میں منقسم ہوتی ہے اس لئے ناول ہو کہ افسانہ انہیں ان دونوں سطحوں پر دیکھنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس ناول نے جہاں فنی سطح پر معاصر فکشن نگاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے وہیں باذوق قارئین کو بھی اپنی طرف ملتفت کیا ہے۔صدر مجلس پروفیسر عبدالمنان طرزی نے اس ناول کے حوالے سے اپنے منظوم تذکرے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس ناول نے واقعی کرداروں کی داخلی دنیا کو توجہ کا مرکز بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ناول جہاں موضوعاتی سطح پر جدت کا احساس دلاتا ہے وہیں بنت کے لحاظ سے بھی اردو ناول نگاری کی دنیا میں اہم ہے۔انہوں نے چند کرداروں کی تحلیل نفسی کرتے ہوئے کہا کہ ناول کا نفسیاتی تجزیہ بھی قابل توجہ ہے کیونکہ ناول کو جہاں فلسفیانہ اساس ایک صحیح رخ دیتا ہے وہیں نفسیاتی تجزیہ بھی تخلیق میں دلکشی پیدا کرتا ہے۔ ناول ’’لفظوں کا لہو‘‘نفسیاتی تجزیہ اورموضوعاتی انسلاکات کی بنیاد پر اردو ناول میں اپنا منفرد مقام بنائے گا اورنوجوان ذہن سے یہی امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں اس سے بھی بڑھ کر عمدہ تخلیق پیش کرے ۔ نوجوان ناقد ڈاکٹر احسان عالم نے اس ناول کے سلسلہ میں کچھ اس طرح کی گفتگو پیش کی۔ ’’لفظوں کا لہو ‘‘ کافی متاثر کرنے والا ہے۔ اس میں سماجی حالات کی عکاسی، آج کی ناکارہ سیاست، تعلیمی معیار کی پستی ، نظام تعلیم کی خرابی، امیر و غریب کے درمیان حائل ہوتی موٹی دیوار، جنسی بے راہ روی ، حکومتوں کی لاپروائیاں ، شادی بیاہ کی پیچیدگیاں اور خاص طور سے ہندوستانی صحافت کا گرتا معیار پر سلمان عبدالصمد نے بڑی خوبصورتی سے قلم اٹھایا ہے۔ آج ہندوستان کی آبادی تقریباً ایک عرب تیس کروڑ ہے اس کے باوجود ملک میں ایک خاموشی، سناٹا، خوف و ہراس کا بولا بالا ہے۔ ان تمام معاملات کوفنی باریک بینیوں سے ناول نگار نے اس طرح پرو دیا ہے کہ ناول واقعی سماج کا رزمیہ بن گیا ہے۔ ڈاکٹر سید احتشام الدین صاحب نے سلمان عبدالصمد کے ناول ’’لفظوں کا لہو‘‘ پر مختصر انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ناول کا انداز بیان اور اس کے کردار عمدہ ہیں۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ناول منفرد ہے۔ سیاست ، صحافت اور سماجی حالات پر خاص انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ نسوانی کرداروں کو بھی بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا