English   /   Kannada   /   Nawayathi

 آج خواتین کو امہات المومنین کا اسوہ اختیار کرنا چاہئے۔مولانا خالد رشید فرنگی محلی 

share with us


علم ہی سے انسان اپنا دین، اپنی دنیا اور اپنے حقیقی مقصد کو پہچانتا ہے۔محترمہ بلقیس فاطمہ 


 بیدر۔: 03نومبر2022(فکروخبر/ذرائع)۔آج بیدر شہر کے فیض پورہ میں واقع ایس کے فنکشن ہال میں شاہین ادارہ جات بیدر کی جانب سے خواتین و طالبات کا ایک دینی اجتماع کا انعقاد عمل میں آیا۔اس اجتما ع میں فیض پورہ اور اس کے اطراف و اکناف و دیگر علاقوں سے خواتین و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔اس پروگرام کو مولانا خالد رشید صاحبفرنگی محلی خطیب عیدگا ہ و قاضی شہر لکھنؤ و چیئرمین اسلامک سنٹر آف انڈیا نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ آج خواتین کو امہات المومنین کا اسوہ اختیار کرنا چاہئے۔حضرت خدیجۃ الکبری ؓ ‘ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی ازدواجی‘علمی و عملی زندگی سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔انھوں نے معاشرے میں سودی لین دین اور اس کے بُرے اثرات و نتائج پر تفصیلی روشنی ڈالی۔انھوں نے کہا کہ سماج کی اصلاح میں عورتیں ایک بہتر اور مثبت کردار ادا کرسکتی ہیں یہ اسلام نے عملاثابت کرکے دکھایاہے۔عورت کو بحیثیت بیٹی رحمت کہا گیا،اس کی پرورش میں برابری کا حکم دیاگیا،بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لئے یکساں ہدایت اور اس پر عمل کرنے پر جنت کی بشارت دی گئی۔اور انھوں نے کہا کہ اسلام نے عورت کو جتنے اورجیسے حقوق دئے ہیں اور آج نہیں بلکہ چودہ سوسال پہلے دے چکا ہے اس کی ایک جھلک بھی حقوق نسواں کے علَم بردار ٹھیک سے دیکھ لیں تو حیرت زدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔اسلام نے پستیوں میں گری ہوئی عورت کو اٹھا کرعملاً ایک اعلیٰ مقام پر فائز کیا ہے۔مولانا محترم نے کہا کہ آج عورتوں کے بارے میں یہاں تک تصورپایاجاتاہے کہ بالعموم انہیں تو بس واہیات رسومات کو پورا کرنے،لعن طعن کرنے اور غیبت و چغلخوری کرنے سے فرصت ہی نہیں ملتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ صورت حال محض اس وجہ سے ہے کہ عورتیں اسلام سے دوری بناکر اور فیشن کا دیوانہ ہوکر اپنی عظمت کو گنوا بیٹھی ہیں،مسلم سماج میں ایک طرح سے لڑکیوں اور عورتوں کو فیشن پرستی و آزادی کا بخار چڑھا ہوا ہے۔حالانکہ موجودہ روش کوبہتربنانے اور اپنے کھوئے ہوئے مقام کو واپس پانے کے لئے مسلم لڑکیوں و عورتوں کو چاہئے کہ اپنی عزت و عظمت کو پہچانیں اور دین داری کو اپنائیں،اسلامی طورطریقوں کو سیکھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں،غیرشرعی رسومات سے دور رہیں،فحش گوئی نہ کریں اور نہ ہی غیرذمہ دارانہ زندگی بسر کریں،اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا خیال رکھیں،دینی تعلیم و تربیت حاصل کریں۔مولانا نے کہا کہ عورتوں کی عزت وعظمت اور صالح معاشرہ کی تشکیل کے لئے پردہ کی بڑی اہمیت ہے۔بے پردگی اور بے حیائی بہت گندی بات ہے۔انھوں نے کہا کہ صالح معاشرہ کی تشکیل اورمردوزن کے رشتوں کوپروقار بنانے میں نکاح کوبڑااہم مقام حاصل ہے۔ نکاح پاکیزہ اور مقدس رشتے کی بنیاد ہے۔آج کے دور میں ہم لوگوں نے نکاح کو ایک بہت مشکل اور مہنگا عمل بنا دیا ہے۔اس کی وجہ سے نکاح میں بہت تاخیر بھی ہونے لگی ہے،غلط رسم اور رواج نے معاشرے کو کھوکھلا کردیا ہے۔ضرورت ہے کہ نکاح کوسستا اور آسان بنایاجائے۔ انھوں نے حدیث  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ساللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ”سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو“۔جلد نکاح کا سسٹم بناناچاہئے، جو نقصانات سماج اٹھارہا ہے وہ بیان کرنے کے قابل نہیں ہے۔ہرذی شعور آدمی اپنی نظروں سے نکاح میں تاخیر ہونے کے نقصانات دیکھ سکتا ہے۔قرآن اور احادیث کی بھی یہی تعلیم ہے کہ بغیر کسی شرعی وجہ کے نکاح میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔نکاح میں جلدی کرنی چاہئے،شریعت کو فالو کرنا،مذہب اسلام کا مطالعہ کرناازحد ضروری ہے۔مسلمانوں کوغلط رسم اور رواج میں پڑکر اپنی دنیا و آخرت تباہ نہیں کرناچاہئے۔اس موقع پر آئیٹا خواتین اسٹیٹ کنوینر برائے شمالی کرناٹک محترمہ بلقیس فاطمہ صاحبہ نے اپنے پُر اثر و پُر مغز خطاب میں کہا کہ قرآن کریم کی سب سے پہلی وحی جو ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس میں حصول علم کا ہی حکم ہے اور یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ذریعہ آپ کی امت کے ہر فرد کو شامل ہے۔ محترمہ نے کہا کہ علم زندگی کا نور ہے، تمام بھلائیوں، عظمتوں، بلندیوں اور شرف کے حصول کا واحد ذریعہ ہے، علم ہی سے انسان اپنا دین، اپنی دنیا اور اپنے حقیقی مقصد کو پہچانتا ہے۔ زندگی کی بہت سی مشکلات ہم علم کے ذریعہ ختم کرتے ہیں، علم ہی کے ذریعہ ہم اپنے اندر کی چیزوں کو تنقیدی زاویہ سے سوچنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ علم ہماری زندگیوں میں خوشیاں لاتا ہے، علم زندگی کے ہر موڑ پر ہماری مدد کرتا ہے اور علم کا سب سے بڑا فائدہ ہماری زندگی میں یہ ہے کہ یہ ہمیں ہماری حقیقت سے آگاہ کرتا ہے۔ علم اس گھر کو بھی رفعت بخشتا ہے جس کے پائے نہ ہوں اور جہالت عزت وشرف والے مکان کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ دنیا اور آخرت کی سعادت کی بنیاد علم ہے۔ انھوں نے کہا کہ قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ”اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ“اورحدیث مبارکہ ہے کہ ”تم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی نگہبانی کے متعلق پوچھاجائے گا۔اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی نگہبانی کے متعلق پوچھا جائے گا“۔والدین اور سرپرست حضرات اپنے نونہالوں اور افراد خاندان کی تربیت کا خاص اہتمام کریں تاکہ اپنے آپ کو اور افراد خاندان کو جہنم کی آگ سے محفوظ رکھ سکیں۔محترمہ نے کہا کہ نوجوان نسل کی دینی تربیت کا خصوصی اہتمام کریں بچوں کو اخلاقی بگاڑ اور سماجی خرافات سے بچانے کے لئے دینی تربیت کو لازمی بنائیں کیونکہ دینی فکر سے انسان اچھے اور برے میں تمیز کے لائق بنتا ہے۔موبائل اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے نوجوان نسل بے حیائی اور اخلاقی بگاڑ کا شکار ہورہی ہے۔سوشل میڈیا کی جانب سے اخلاقی بگاڑ کے علاوہ بچے مذہب سے متنفر ہونے لگے ہیں۔فیس بک،واٹس ایپ کی لعنت بچوں اور بڑوں سے نشے کی لت کی طرح چمٹ گئی ہے۔پب جی ایک کالا جادو ہے جس سے نوجوان نسل تباہ ہوکر اپنی جان گنوا بیٹھ رہے ہیں۔ انھو ں نے کہا کہ اپنے خاندان میں، بالخصوص بچوں کے ساتھ ممکنہ حد تک زیادہ وقت گزارا جائے۔ اپنی معاشی جدوجہد و دیگر مصروفیات کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ لازماً کچھ وقت اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزارا جاسکے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے، تربیت کا تمام تر بوجھ ماں پر ڈال دینا ایک مناسب اور غیر معقول طریقہ ہے۔ مدرسے میں بچوں کی مصروفیات، دوستوں کی صحبت وغیرہ سے واقفیت کیلئے ضروری ہے کہ والدین ان کے ساتھ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت گزاریں۔ بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جائے، تاکہ ملک وملت اور انسانیت کو ان کی ذات سے فائدہ ہو۔ موجودہ دور میں ہر شخص اپنے حقوق کے بارے میں بہت حساس ہے مگر اپنے فرائض کی ادائیگی کے بارے میں انجان بن جاتا ہے، اس رویے کو تعلیمی عمل کے دوران ہی تبدیل کرنا ہوگا۔گھر میں ایک بہتر ماحول قائم کیا جائے۔ ماں باپ کو چاہئے کہ وہ بالخصوص بچوں کے سامنے غصے اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں۔ خاندان کے بڑوں میں باہم میل جول، ایک دوسرے کی قدر و منزلت اور احترام بچوں پر خوش گوار اثر ڈالتا ہے۔بچوں کو اپنی زندگی کے مقصد کا شعور دیا جائے۔ مقصد زندگی کا واضح تصور انھیں دنیا میں اپنا مقام متعین کرنے میں مدد دے گا۔ مستقبل کیلئے بلند عزائم اور ان عزائم کی تکمیل کیلئے بچوں میں شوق، محنت اور جستجو کے جذبات پیدا کرنے میں والدین کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔وقت کی تنظیم اور قدر والدین خود بھی کریں اور بچوں کو ابتدا سے ہی وقت کے صحیح استعمال کی عادت ڈالیں۔ وقت کا ضیاع ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اس قیمتی دولت کا بہترین استعمال کامیابی کی کلید ہے۔اپنے بچوں کی غلطیوں اور جرائم کی صفائی نہیں پیش کرنی چاہئے۔ بچوں کو غلطی کا احساس دلانا اور حسب موقع تا دیب انھیں اصلاح کا موقع فراہم کرے گی اور وہ عدل، انصاف اور اعتدال کے تقاضوں سے واقف ہوں گے۔پروگرام کا آغاز قراء تِ کلام پاک ہوا۔نظامت کے فرائض محترمہ بلقیس فاطمہ صاحبہ نے بحسن خوبی انجام دئیے۔اور استقبالیہ کلمات بھی ادا کئے۔پروگرام میں شاہین ادارہ جات کے ڈائریکٹرس محترمہ مہر سلطانہ صاحب و ذکیہ بیگم صاحبہ موجود تھے۔دعا کے بعد پروگرام کا اختتام عمل آیا۔
تصویر ای میل:بیدر میں شاہین ادارہ جات بیدر کی جانب سے خواتین کا اجتماع کا انعقاد

 

رپورٹ :محمدامین نواز

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا