English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہمارے فہم و ادراک سے بہت زیادہ

share with us

وہ کیا کرتا ہے۔ کوئی بھی ہوگا وہ آپ سے یہ انٹرویو ضرور لے گا۔ اس سے وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ آپ جس سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس کے بارے میں کچھ جانتے بھی ہیںیا نہیں ۔ اگر آپ بتا دیں کہ مطلوبہ شخص یہ کام کرتا ہے۔ تو پھر اس کے بارے میں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ کس جگہ ملے گا۔ آپ سے ایک او ر سوال بھی کیا جاتا ہے کہ آپ جس سے ملنے یہاں آئے ہیں اس سے کیا کام ہے۔ اسی طرح جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم یہ جو کام کررہے ہیں۔ اس کو اللہ پاک کے نام سے شروع کررہے ہیں تو آگے اس کا تعارف ہے۔ ہم اس اللہ کے نام سے یہ کام شروع کررہے ہیں جو بڑا مہربان نہایت رحم فرمانے والاہے۔ ہر نماز میں ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے۔ اس کامفہوم ہے کہ تمام تعریفیں اللہ کیلئے اب اس سے آگے بھی اللہ کا تعارف ہے کہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اس کے ساتھ دوسری آیت مبارکہ میں وہی تعارف ہے جو بسم اللہ میں کرایا گیا ہے۔ کہ جو بڑا مہربان نہایت رحم فرمانے والا ہے۔ اس سورۃ مبارکہ میں اللہ پاک کا اور تعارف بھی ہے۔ تاہم ہم نے اسی پر ہی بات کرنی ہے۔ سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ ہر جائز کام بسم اللہ سے شروع کیاکرو اس سے برکت ہوتی ہے۔ اللہ پاک کے ننانوے مشہور نام ہیں۔ ان میں سے ایک (اللہ) اس کا ذاتی نام ہے باقی اس کے صفاتی نام ہیں۔ اس کا تعارف ہیں۔ جب ہم کوئی کام کرنے لگتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم فرمانے والا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ بڑاسزادینے والا ہے۔ وہ سخت عذاب دینے والاہے۔ وہ حساب لینے والا ہے۔ وہ قہار ہے۔ وہ جبار ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ ہم جس کام کا بھی آغاز کررہے ہیں۔ ہم لاکھ کوشش کریں کہ ہمارا یہ کام غلطیوں سے فری ہو۔ تاہم انسان ہونے کے ناطے یہ امکان پھر بھی موجود رہتا ہے کہ اس میں غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ جب ہم کسی سکول یا کالج کے امتحان میں کسی سوال کا جواب لکھتے ہیں۔ چاہے ہم جتنا ہی اچھا جواب کیوں نہ لکھ آئیں اس میں غلطیوں کا شائبہ بہر حال رہتا ہے۔ غلطیاں کم ہوں گی تو کم نمبر کٹیں گے۔ زیادہ ہوں گی تو زیادہ نمبر کاٹے جائیں گے۔ ویسے نمبر کاٹنے میں جو ناانصافی دنیا میں ہے وہ اللہ پاک کے ہاں نہیں۔ وہ کیسے یہ ہم آپ کو آگے چل کر بتائیں گے۔ اب جب ہمارا امتحانی پرچہ چیک کیا جائے گا۔ تو اگر چیک کرنے والا استاد یا پروفیسر مہربان ہوگا تو وہ بہت سی غلطیاں نظر انداز کردے گا۔ بہت سی غلطیوں کی معافی دے گا اور کوشش کرے گا کہ طالب علم کامیاب ہو جائے۔ اگر چیک کرنے والا استاد یا پروفیسر سخت ہوگا تو وہ ایک ایک غلطی پر نظر رکھے گا۔ جس سے وہ زیادہ نمبر کاٹ لے گا ۔ اس کو ا س سے کوئی غرض نہیں ہوگی کہ طالب علم کتنے نمبر لے رہاہے۔ اسی طرح جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم جس کام کا آغاز کررہے ہیں یہ ہم اللہ کے نام سے کررہے ہیں۔ جو بڑا مہربان نہایت رحم فرمانے والا ہے ۔تو اس کا یہ مفہوم ہوتا ہے کہ ہم سے اس کام کے انجام دہی کے دوران غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ وہ رحمن بھی ہے اور رحیم بھی۔ اس لیے وہ ہماری غلطیوں ، کوتاہیوں کو معاف کردے گا۔ ہمارے کم نمبر کاٹے گا۔ ہم نے اس تحریر میں بات کی کہ نمبر کاٹنے میں جوناانصافی دنیا میں ہوتی ہے وہ اللہ پاک کے ہاں نہیں ہوتی وہ اس طرح کہ دنیا میں چاہے کوئی سوال پچاس الفاظ کا ہو ۔ سو الفاظ کا ہو یا دو سو الفاظ کا ۔ اور اس کے نمبر دس ہوں اور دو سو الفاظ کے جواب میں سے آٹھ غلطیاں نکل آئیں تو آپ کے آٹھ نمبر کاٹ لیے جائیں گے۔ یوں ایک سو بانوے الفاظ کے آپ کو صرف دو نمبر ملیں گے۔ یوں اس سوال جواب میں آپ فیل تصور کیے جائیں گے۔ اس کے برعکس اللہ پاک کے ہاں ایک لفظ نہیں ایک حرف پر دس نمبر ملتے ہیں۔ جب ہم قرآن پاک پڑھتے ہیں تو ہر حرف تلاوت کرنے کے بدلے دس نیکیاں ملتی ہیں۔ قرآن پاک میں ایک جگہ نہیں بہت سی جگہوں پر اللہ پاک کی یہ صفتیں بیان ہوئی ہیں ۔ کہ وہم بڑا مہربان بھی ہے اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔ وہ کتنا مہربان اور رحیم ہے۔ اس کی ایک جھلک تو ہم آپ کو دکھا چکے ہیں۔ کہ دو سو الفاظ میں سے آٹھ غلطیاں نکل آئیں تو دنیا کے امتحان میں ایک سو بانوے الفاظ کے صرف دو نمبرملتے ہیں ۔ اس کے برعکس اللہ پاک ایک لفظ نہیں ایک حرف پر دس نمبر (نیکیاں )دیتا ہے۔ ایک اور بات بھی کہ دنیامیں غلطی ہوتے ہی نمبر کاٹ لیا جاتا ہے۔ اصلاح کی گنجائش نہیں دی جاتی۔ جب کہ اللہ پاک کے ہاں ایسا نہیں۔ یہاں تو ایک ایک غلطی کی اصلاح یا ازالہ کیلئے ایک نہیں ایک سے زیادہ مواقع دیے جاتے ہیں۔ مسلمان اس کی معافی مانگ لے۔ اپنی اصلاح کرلے یا کفارہ ادا کردے تو وہ غلطی نہیں لکھی جاتی اور نہ ہی نمبر کاٹے جاتے ہیں۔ اللہ پاک کے ہاں تو نمبر کاٹے ہی نہیں جاتے۔ہماری جو غلطیاں ہوتی ہیں ان کو الگ لکھا جاتا ہے۔ وہ بھی اس صورت میں لکھی جاتی ہیں۔جب مسلمان اپنی اصلاح نہ کرے یا اس غلطی کا ازالہ نہ کرے۔ دنیا میں ایسی کوئی رعایت نہیں دی جاتی۔ اللہ پاک کتنا مہربان ہے۔اس کی ایک مثال اور پڑھیے کہ دنیا کا کوئی بھی کام چاہے وہ دنیا کا ہو یا دین کا۔ جب تک آپ اس کام کو مکمل نہیں کر پائیں گے ۔ اس وقت تک آپ کو دنیا کے کسی بھی فرد یا تنظیم یا کسی بھی ادارہ کی طرف سے کوئی انعام، کوئی سند نہیں ملیں گی۔ کام چاہے کتنا اچھا اور معیاری کیوں نہ ہو۔ ضروری نہیں کہ آپ کے اس کام کی تعریف کی جائے اور آپ کو اس کا نیگ دیا جائے۔ اس پر تنقید بھی ہوسکتی ہے۔ آپ کے اس کام کو رد بھی کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ اللہ کریم کے ہاں ایسانہیں ہے۔ آپ ابھی کسی بھی نیک اور اچھے کا م کے کرنے کا ارادہ کرتے ہی ہیں۔ آپ کے نامہ اعمال میں اس کام کے کرنے کا اجر لکھنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ کسی بھی معقول مجبوری کی وجہ سے آپ وہ کام نہیں کرسکے۔ آپ کو اس کام کے کرنے کا اجر مل جائے گا۔ دنیا میں آپ کوئی بھی کام کریں جس کاکام کریں وہ چاہے کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو وہ آپ کو اس کی مزدوری یا وقت کے تناسب سے دے گا۔ یا وہ کام کی نوعیت کے مطابق دے گا۔ جہاں اس کو فائدہ نظر آئے گا وہ ویسا ہی کرے گا۔ بہت سے ایسے کام ہیں وہاں فی کس یا وقت کے تناسب سے مزدوری نہیں دی جاتی۔ بلکہ طے کر دیا جاتا ہے کہ اس کی اتنی مزدوری ہے ۔ اب اس کام کو جتنے افراد یا مزدور کریں گے وہ مزدوری ان سب میں تقسیم ہو جائے گی۔ آپ کسی بھی سبزی فروٹ منڈی میں چلے جائیں یا اس کاروباری مرکز میں چلے جائیں جہاں ٹرکوں پر سامان لادا جاتا ہواور ان سے اتارا جاتا ہو۔ اب ٹرک پر سامان لادنے یا اس سے اتارنے کی مزدوری مقرر ہوتی ہے۔ ایک ٹرک کی اتنی مزدوری دی جائے گی۔ اب اس کام کو چاہے چار افراد کریں یا دس ۔ ٹرک کی مزدوری ان میں تقسیم ہوجائے گی۔اب اس سے مالکان کوئی غرض نہیں ہوگی کہ وقت کتنا لگا۔ جب کہ اللہ پاک کے ہاں ایسا نہیں ہے۔ آپ کوئی بھی نیک اور اچھا کام کریں۔ اس کام کو دو چار تو کیا لاکھوں افراد ہی کیوں نہ مل کر کریں۔ اللہ پاک کے ہاں اس کا اجر تقسیم ہو کر نہیں ملے گا بلکہ سب کو اس کام کا جو اجر ہو گا سب کو برابر ملے گا۔ اس کو یوں سمجھیے کہ آپ ایک اچھائی کا کام کرتے ہیں ۔ اس کی ہزار نیکیاں ہیں۔ اب اس کام کو سو افراد نے مل کر کیا ہے۔دنیا کے دستور کے مطابق تو ہر ایک کو دس ، دس نیکیاں ملنی چاہییں۔ نہیں اللہ کریم کے ہاں ایسا نہیں ۔ اللہ پاک ہر ایک کو دس، دس نہیں بلکہ ہر ایک کو ہزار، ہزار نیکیاں عطا کرے گا۔ دنیا میں چاہے آپ کتنا ہی اچھا کام کیوں نہ کرلیں اس کا انعام یا اس کی اجرت آپ کو کام کی نوعیت او ر کام دیکھ کر دی جائے گی۔ اس کام کے انجام دینے میں آپ کی نیت چاہے کتنی ہی خالص کیوں نہ ہو ۔ آپ کو اجرت یا انعام کام کی کوالٹی کے مطابق ہی ملے گا۔ اور یہ بھی ہے کہ کام بڑا اورمعیاری ہوگا تواجرت یا انعام بھی زیادہ ملے گا۔ اور اگر کام معمولی ہوگاتو اجرت بھی اسی تناسب سے ملے گی۔ جبکہ اللہ پاک کے ہاں ایسا نہیں۔ آپ کوئی بھی نیکی کاکام ، انسانیت کی بھلائی کاکام صرف اللہ کی رضا کیلئے کریں چاہے وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو ۔ اس کو معمولی نہ سمجھیں۔ اللہ پاک کے ہاں اس کی بہت اہمیت ہے۔ یہ کام چاہے بظاہر کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ اس کام کے کرنے میں آپ کی نیت خالص ہے ۔تو آپ کو اس معمولی نظر آنے والے کام کا بھی اللہ کی طرف سے بہت بڑا اجر ملے گا۔ویسے تو دنیا میں بہت سے ایسے پیمانے پائے جاتے ہیں۔ جس سے بہت سی چیزوں کو ماپا جاسکتاہے۔ لمبائی ناپنے کے پیمانے بھی ہیں اور وزن کرنے کے بھی۔ درجہ حرارت معلوم کرنے کے پیمانے بھی موجود ہیں۔ بارش ناپنے کے پیمانے بھی ہیں۔ اخبارات اور نیوز چینلز پر آپ کو روزانہ بتا یا جاتا ہے کہ آج کون سے شہر میں کتنا درجہ حرارت رہا اور کتنا درجہ حرارت رہے گا۔ جب بھی بارش ہوتی ہے تویہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کون سے شہر میں کتنی بارش ہوئی۔ سائنس نے آج بہت ترقی کرلی ہے۔ تاہم اب تک ایسا کوئی پیمانہ ایجاد نہیں کیا گیا جس سے محبت ، پیار، انس اورالفت کو ناپا جاسکے۔ آج تک ایسا کوئی پیمانہ ایجاد نہیں ہوا جس سے یہ ناپا جاسکے کہ کون کس سے کتنی محبت کرتا ہے۔ یہ صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کون کس سے کتنی محبت کرتا ہے اور کس کو کس سے کتنی الفت ہے۔ ویسے تو محبت کی کئی اقسام ہیں۔ جیسے کاروباری محبت، دفتری محبت، سرکاری محبت، سیاسی محبت ، مطلبی محبت۔ تاہم ان میں دوستوں کی محبت اور رشتہ داروں کی محبت اصلی محبت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جتنی بھی محبتیں ہیں وہ سب کی سب مصنوعی اور دکھاوے کی ہوتی ہیں۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے۔ کہ اصلی محبت تو اللہ پاک اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ پاک او ر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ محبت تو سب محبتوں کی جان ہے۔ جو اللہ تعالیٰ اور رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت نہیں کرتا اور مخلوق سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے ۔وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے۔کس کو کس سے کتنی محبت ہے۔ اس کا اندازہ اس کی باتوں سے لگایا جاتا ہے۔ ان دو کے آپس کے تعلقات کو دیکھ کرلگایا جاسکتا ہے۔ دنیا میں رشتہ دار سب سے زیادہ آپس میں محبت کرتے ہیں۔ کوئی شخص خدا نخواستہ بیمار ہوجائے تو اوراس کو کسی ہسپتال میں داخل کرانا پڑجائے۔ تورشتہ دار ہی اس کے ساتھ ہسپتال میں رہتے ہیں۔ دوست تو صرف عیادت کو ہی جاتے ہیں۔ ایسے دوست بہت کم ہی ہوتے ہیں۔ جو کسی مریض دوست کے ساتھ ہسپتال میں قیام کرتے ہیں۔ رشتہ دار وں میں والدین، بہن بھائی اولاد ایک دوسرے سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ ان میں ماں سب سے زیادہ اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے۔ یہ ماں ہی ہوتی ہے جو خود تو بھوک برداشت کر لیتی ہے۔ مگر اپنے بچے کو بھوکا نہیں رہنے دیتی۔ یہ ماں ہی ہے جو خود تو سردی برداشت کرلیتی ہے مگر اپنے بچے کو سردی نہیں لگنے دیتی۔ یہ ماں ہی ہے جو خود تو گیلی جگہ پر سو جاتی ہے مگر اپنے بچے کو خشک جگہ پر سلاتی ہے۔ایک ماں اپنے بچے سے کتنی محبت کرتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ امیر الموئمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس دو عورتیں آئیں۔ ان کے پاس ایک بچہ تھا۔ اب دونوں میں سے ہر ایک کایہی دعویٰ تھا کہ یہ بچہ اس کا ہے۔ اور وہ اس کا فیصلہ کرانے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس آئیں تھیں۔ مولا علی کرم اللہ وجہہ نے بہت کو شش کی کہ جس کا یہ بچہ نہیں ہے وہ خود ہی کہہ دے کہ یہ بچہ اس کا نہیں دوسری عورت کا ہے۔ اس وقت ڈی این اے ٹیسٹ توہوتا نہیں تھا جو کرایا جاتا۔ دربار میں سناٹا چھایا ہوا تھا اور اس بات کا انتظارتھا کہ اس کا کیا فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جلاد کو حکم دیا کہ اس بچے کے دو ٹکڑے کردو۔ اور پھر دونوں کو ایک ایک ٹکڑا دے دو۔ یہ سن کرایک عورت بولی اس بچے کے ٹکڑے نہ کرو اسے دوسری عورت کو ہی دے دو۔مگر اس کے ٹکڑے نہ کرو۔ فیصلہ ہوگیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وہ بچہ اسی عورت کو ہی دے دیا۔ کیونکہ اصلی ماں تو اپنے بچے کے جسم میں کانٹا ہی برداشت نہیں کرسکتی۔ یہ وہ کب برداشت کر سکتی تھی۔ کہ اس کا بچہ دو ٹکڑے ہوجائے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم بھی اس بچے کے دوٹکڑے نہیں کرانا چاہتے تھے۔ ایساحکم انہوں نے اس لیے دیا تھا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس بچے کی اصلی ماں کون سی ہے۔اب آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ایک ماں اپنے بچے سے کتنی محبت کرتی ہے۔ یہ ماں جو اپنے بچے سے اتنی محبت کرتی ہے وہ کبھی نہیں چاہتی کہ اس کا بچہ آگ میں جل جائے۔ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ پاک اپنی مخلوق سے ایک ماں سے ستر گنا زیادہ پیار کرتا ہے۔ جب ایک ماں نہیں چاہتی کہ اس کا بچہ آگ میں جلے۔ تو پھر سوچیئے کہ جو اللہ پاک اپنی مخلوق سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہے وہ کب چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق دوزخ کی آگ میں جلے۔ جس طرح ایک ماں اپنے بچے کو موسمی اثرات سے بچانے کیلئے حفاظتی اقدامات کرتی ہے۔ بچے سے کہتی ہے کہ ننگے سر باہر نہ جایا کرو۔ پاؤں میں جاتا پہن کر جایا کرو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی مخلوق کو دوزخ سے بچانے کیلئے بہت سی حفاظتی تدابیر بتائی ہیں۔ کہ اس کے احکامات کے مطابق زندگی گزاریں۔ انسان خطا کاپتلا ہے۔ بار بار غلطیاں کرتا ہے۔ اس نے ان غلطیوں کی تلافی کے طریقے بھی بتائے ہیں۔ مسلمان ہر وقت روزی روٹی کے چکر میں رہتا ہے۔ اس کے پاس عبادت کرنے اور اللہ کو راضی کرنے کا بہت کم ہی وقت بچتا ہے۔ اس کا ازالہ بھی اللہ پاک نے کردیا ہے۔ اس نے مسلمانوں کو اس سلسلہ میں رمضان المبارک عطا کیا ہے۔ ان مسلمانوں پر افسوس ہوتا ہے جنہوں نے اس ماہ مبارک کو لوٹ مار کا مہینہ سمجھا ہوا ہے۔ یہ وہ ماہ ہے جس میں نیک کاموں کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے۔ ایک فرض ستر فرضوں ا ور ایک نفل ایک فرض کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ بھی تمام نیک کاموں کا اجر عام دنوں کی نسبت زیادہ ملتا ہے۔ اسی ماہ مبارک میں شب قدر بھی ہے۔جو ہزار ماہ سے بہتر ہے۔ ایک ماہ تیس دن کا ہوتا ہے۔ رات اور دن کو الگ الگ شمار کیا جائے تو یہ ساٹھ بنتے ہیں ۔ شب قدر کی ایک رات کی عبادت ساٹھ ہزار راتوں کی عبادات کے برابر ہے۔ یوں اس رات میں کی گئی ایک نیکی ساٹھ ہزار نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ علماء کرام تو یہ بھی بتاتے ہیں۔ کہ اس رات میں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔ اللہ پاک نے ہمیں شب برات بھی عطا کی ہے۔ اس رات میں بھی عبادات کا ثواب عام دنوں کی نسبت زیادہ ملتا ہے۔ شب معراج ، شب جمعہ سمیت اور بھی بہت سی ایسی راتیں ہیں جن میں عبادات کرنے کا ثواب عام دنوں کی نسبت زیادہ ملتا ہے۔ آپ کسی دفتر میں کسی دکان پر کسی ہوٹل میں کسی گھر میں ملازمت کرتے ہیں۔ آپ کو مالک کی ہر جائز ناجائز بات ماننا پڑتی ہے۔ اس کے ہر حکم پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ آپ اپنے اس مالک کا حکم نہ مانیں پھر دیکھتے ہیں کیسے وہ آپ کو برداشت کرتا ہے۔ وہ ایک بار معاف کردے گا دو بار کرے گا۔ ایک نہ ایک دن کہے گا ۔ بھاگ جاؤ یہاں سے۔ میرے پاس آپ کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ آپ کسی سرکاری یاپرائیویٹ دفتر میں کام کرتے ہیں۔ آپ بار بار اپنے افسرکا کہا نہ مانیں تو وہ آپ کو دفتر سے نکال دے گا۔ یا تبادلہ کرادے گا۔ یہ سب تو رہے ایک طرف آپ گھر والوں کی بات نہ مانیں وہ بھی گھر سے نکال دیتے ہیں۔ کام نہ کرنے کی پاداش میں تنخواہ بھی روک لی جاتی ہے۔ گھر سے جیب خرچ بھی نہیں ملتا۔ مگراللہ پاک کے ہاں ایسا نہیں۔ اس کی کتنی ہی نافرمانیاں کرتے ہیں۔ وہ نہ تو اپنی خدائی سے نکالتا ہے۔ نہ وہ کسی کا روزگار بند کرتا ہے۔ اور نہ ہی کسی کے رزق میں کمی کرتا ہے۔ اس نے شرک کے علاوہ تمام گناہ معاف کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اپنے گناہوں سے نادم ہو کر اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں آجائیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سفارش کردیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی مل جائے گی۔ اس کی بارگاہ سے اپنی غلطیوں کی معافی کیلئے سچے دل سے اپنی کوتاہیوں کا اقرار کرنا ضروری ہے۔ اللہ پاک اپنی مخلوق پر کتنا بڑا مہربان ہے۔ اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ وہ بخشنے پر آئے تو معمولی سی نیکی پر بخش دیا کرتا ہے۔ اور پکڑنے پرآئے تو بھی چھوٹی سی بات پر پکڑ لیتا ہے۔ اس لیے اس امید پر گناہ نہ کریں کہ معافی مل جائے گی۔ اللہ مہربان ضرور ہے۔ مگر جان بوجھ کر گناہ کے کام کرکے اس کی رحمت کا امتحان نہ لیا جائے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا