English   /   Kannada   /   Nawayathi

ملی گزٹ اور سول سوسائٹی

share with us

کانگریس کے علاوہ بھی بہت سارے دانشوروں اور جماعتوں کا کہنا تھا کہ یہ اشارہ نریندر مودی حکومت کی طرف تھا ۔اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے ۔ایک سال پرانی یہ باتیں ہمیں جناب ظفرالاسلام خاں جو ۱۵ روزہ انگریزی اخبار ملی گزٹ کے مالک و مدیر ہیں کی خبروں و سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی گزارشات کو دیکھ کر یاد آئیں۔ملی گزٹ کی شاید قسمت ہی خراب ہے کہ وہ اکثر پریشانیوں میں مبتلا ہوتا رہتا ہے ۔سال ڈیڑھ سال پہلے بھی ملی گزٹ کے قریب المرگ ہونے کی خبر آئی تھی۔اور ہم نے دعائے مغفرت کے طور پر ایک مضمون ’’قوم کا نوحہ ‘‘لکھاتھا ۔پھر شاید کسی نے اسے ICU میں داخل کرکے بچا لیا تھا ۔اب بقول جناب ظفرالاسلام خاں مودی حکومت اس کی زندگی کی گاہک بنی ہوئی ہے۔
۱۵ مئی کے انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق پشپ شرما نامی ایک صحافی نے وزارت آیوش کے جواب کی جعلسازی کی تھی جس کی وجہ سے اسے Forgery کے الزام میں دہلی کی ایک عدالت میں پیش کیا گیاجس نے اپنے فرائض منصبی مکمل طور پر ادا کرتے ہوئے صحافی کو دو دن کے لئے جیل بھیج دیا ۔آخری اطلاعات کے مطابق کئی بار ضمانت سے انکار کے بعد نالائق !صحافی پر رحم کرتے ہوئےLearned کورٹ نے بالآخر اسے آزادی نصیب فرمائی ہے۔ ہوا دراصل یوں تھا کہ ڈھائی تین ماہ پہلے محترم پشپ شرما صاحب کو شوق چرایا کہ صاحب دیکھیں وزارت آیوش میں مسلمانوں کی کیا حالت ہے۔یہ دراصل ان کی بہت بڑی حماقت تھی۔جناب دو سال میں مودی حکومت نے پورے ملک میں مسلمانوں کی جو حالت کردی ہے اس سے اندھا بھی ٹٹولے بغیر اندازہ لگا سکتا ہے کہ فلاں شعبے میں مسلمانوں کا کیا حال ہوگا ۔RTI ڈالنے سے بڑی حماقت جناب پشپ شرما سے یہ ہوئی کہRTI کا جو جواب آیا اسے ظفرالاسلام خاں و ملی گزٹ جیسے ’’دہشت گردوں ‘‘ کے حوالے کر دیا ۔آج سچائی کو فروغ دینا دہشت گردی سے بڑا جرم تو ہو سکتا ہے چھوٹا نہیں۔انھوں نے وہی کیا جو ان کا فرض منصبی تھا ۔یہ رپورٹ شائع ہوئی اور میڈیا نے بجا طور پر اس کو اشو بنایا۔وزارت آیوش نے فرار کا کوئی راستہ نہ پا کر وہ کیا جو مودی حکومت کا کارپرداز ہی کر سکتا تھا ۔انھوں نے اپنے ہی دئےRTI کے جواب کو نقلی قرار دے دیا اور جناب پشپ شرما کو جعلساز قرار دے کر پولس میں ایف آئی آر درج کرادی اور دلی پولس نے جو کیجریوال کے اشارے پرہلتی تک نہیں اس معالمے میں پہلے پشپ کو خوب دھونس دھمکی میں لیا اور پھر گرفتار کرکے عدالت کے حوالے کر دیایہاں تک وہ معلومات ہیں جو اخبارات میں ہم پہلے پڑھ چکے تھے اب نئے مسائل یا نئی حرکتیں جناب طفرالاسلام خان کی زبانی سنئے ۔وہ لکھتے ہیں ’’۱۲ مارچ سے RTI کے جواب میں وزارت آیوش میں تقرری کے سلسلے میں مسلمانوں کے خلاف تفریق برتنے پرایک رپورٹ شائع کرنے کے بعدسے ہمیں مودی حکومت سے اپنے وجود کے بارے میں بھی خطرہ محسوس ہونے لگا ہے ‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں وزارت آیوش کا وضاحتی بیان شائع کرنے سے انکار کیا ہوتا تو اسے حق حاصل تھا کہ وہ پریس کونسل آف انڈیا میں ہمارے خلاف شکایت درج کرائے مگر اس نے پولس میں شکایت درج کرادی اور پولس نے بھی اپنا فرض منصبی ادا کرتے ہوئے صحافی سے سختی سے پوچھ تاچھ کی مگر اس کی دیدہ دلیری سے تنگ آکر اسے عدالت کے حوالے کر دیا ۔دو ہفتوں تک عدالتی حراست میں رہنے کے بعد بمشکل اس کی ضمانت ہوئی۔اب مقدمہ حسب معمول رینگتا رہیگا۔ آگے جناب ظفر لکھتے ہیں ’’۲۱۔اپریل کو پریس کونسل آف انڈیا نے ملی گزٹ کے خلاف از خود(سوو موٹو)کیس درج کیا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں(جناب ظفر کی یہ شکایت فضول ہے۔محترم یہ تو دیکھئے کہ سربراہ حکومت کتنا ایکٹیو ہے۔م م)وہ ادارہ جو بظاہر آزادی تحریر کی حفاظت کے لئے قائم کیا گیا ہے اب وہ خود اس آزادی کا گلا گھونٹنے کے درپے ہو گیا ہے(جناب آپ کن وقتوں کی بات کر رہے ہیں۔م م)بہرحال ہم نے پریس کونسل آف انڈیا PCI کے نوٹس کا جواب دے دیا ہے اور اگلی ۱۲جولائی کو اس کیس میں ہماری پہلی پیشی ہے۔
تیسرا جھٹکا ہمیں دلی پولس سے لگا(جو براہ راست مرکزی وزارت داخلہ کے کنٹرول میں ہے)جب ڈی سی پی لائسنسنگ نے ۳۰ مئی کو ہمیں ’وجہ بتاؤ نوٹس‘بھیج کر پوچھا کہ ہمارا پریس اعلامیہ Press Declaration یعنی اخبار چھاپنے کا لائسنس کیوں نہ منسوخ کردیا جائے؟ہم نے اس نوٹس کا جواب فوراً دے دیا ہے لیکن ۳ ہفتے سے زیادہ گزر جانے کے بعد بھی ڈی سی پی لائسنسنگ کے دفتر سے مزید وضاحت کا ہمیں ابھی تک انتظار ہے ‘‘آخر میں انھوں نے لکھا ہے ’’اس نا انصافی کے خلاف تمام قانونی وسائل کے ذریعہ جو ہمیں دستیاب ہے ہم لڑ رہے ہیں اور لڑتے رہیں گے ۔لیکن اگر مودی حکومت ہماری اس کمزور آواز کو خاموش کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ہم کوئی دوسرا پرچہ نہیں نکالیں گے بلکہ اس ظلم کو تاریخ کے حوالے کردیں گے۔
اب اس پورے ایپی سوڈ پر غور کیجئے ۔کیا ایسا نہیں لگتا کہ وطن عزیز میں غیر اعلان شدہ ایمرجنسی نافذ ہے ۔بلکہ یہ ایمرجنسی اندرا گاندھی والی ایمرجنسی کے مقابلے میں بدتر نہیں بدترین ہے ۔اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف مسلمانوں تک ہی محدود رہے گی وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اگر ایسا ہوتا تو نریندر دابھولکر ،گووند پانسرے ملیشپا کلبرگی نہ مرتے اور کنہیا کمار وغیرہ کو زندہ درگور نہ کیا جاتا ۔اندرا گاندھی والی میں تو صرف پکڑ کر جیلوں میں بند کر دیا جاتا تھا ۔اس میں تو سفر آخرت پر ہی روانہ کردیا جاتا ہے ۔اب لوگ معمولی معمولی شکوک پر قتل کئے جا رہے ہیں ۔نہ کہیں زمین پھٹ رہی ہے نہ آسمان ٹوٹ رہا ہے۔عدالتوں میں مسلمانوں کو سزائیں دینا آسان ہے تو بھگوا دہشت گردوں بری کرنا آسان ہے۔ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کو لٹکانا ہی عدالتوں کا فرض منصبی باقی رہ گیا ہے اور یہ جو صورتحال ہے کوئی غیر متوقع نہیں ہے یہ تو منطقی نتیجہ سول سوسائٹی کی بے حسی کا،ناکردگی کا ،خوش فہمی کا ہے۔آزادی کے بعدسول سوسائٹی کو جس واچ ڈاگ کا کردار ادا کرنا تھا معلوم نہیں کیوں اس نے نہیں کیا ۔ پچھلے ۱۵؍۲۰ سالوں سے ہم اور متعدد دوسرے صحافی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اس لڑائی کو بھی تحریک آزادی کی طرح ہی لڑنا ہوگامگر ابھی تک تو کسی کے بھی کانوں پر جوں رینگتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی ۔ایسا لگتا کہ اس ملک میں اگر مسلمان نہ ہوتے تو شاید تحریک آزادی بھی نہ برپا ہوئی ہوتی ۔سنگھ پریوار تو آزادی کے سخت خلاف تھا ۔ انگریزوں کی چمچہ گیری سے اس کی تاریخ بھری پڑی ہے ۔اسے نہ وطن سے دلچسپی ہے نہ ہندو ازم سے ۔انھیں بس برہمنیت سے دلچسپی ہے ۔ہندوازم کبھی دین الٰہی تھا ۔ برہمنوں نے اسے برہمنزم میں تبدیل کردیا ۔کانگریس کو خود انگریزوں نے کھڑا کیا تھا ۔ظاہر ہے اپنے آپ کو بھگا نے کے لئے تو نہ کھڑا کیا ہوگا ۔
آخری بات ۔جناب ظفرالاسلام خانصاحب سے۔خانصاحب!بنگلور سے ایک اردو ہفت روزہ نشیمن کے نام سے نکلتا ہے ۔اس کے ہر شمارے پر ایک شعر لکھا ہوتا ہے ۔ آپ نے بھی یقیناً دیکھا ہوگا مگر آپ شاید بھول گئے۔سنئے۔نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا ؍کہ بجلی گرتے گرتے آپ خود بیزار ہوجائے۔یہ ہے مومنوں والی بات ۔ آپ کے مسائل سرآنکھوں پر ۔مگر ہم آپ سے اسی بات کی توقع کرتے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا