English   /   Kannada   /   Nawayathi

چلکا ٹ رپورٹ پر رویش کمار نے عالمی لیڈروں سے کیا سوال ؛کہا بھلا بتائیں ،

share with us

سر چلكاٹ کو کہا گیا تھا کہ وہ 2001 سے 2009 کے درمیان عراق کو لے کر برطانیہ کی پالیسیوں کا مطالعہ کریں اور بتائیں کہ کیا 2003 میں عراق پر حملہ کرنا صحیح اور ضروری تھا، سر چلكاٹ کی رپورٹ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ برطانیہ نے جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنے سے پہلے پرامن طریقوں کا انتخاب نہیں کیا۔ فوجی کارروائی آخری آپشن نہیں تھی۔
اس وقت جنگ کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہو رہے تھے۔ برطانیہ میں ہی دس لاکھ سے زیادہ لوگ سڑکوں پر اتر آئے تھے۔ جنگ کے خلاف بات کرنے والوں کو دہشت گردی کا حامی بتایا جاتا تھا۔ جارج بش جسے تاریخ کی نذرہو گئےان کو دہشت گردی سے لڑنے والا مسیحا بتایا جاتا تھا۔
اب اسی امریکہ کے صدر کے عہدے کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ صدام حسین بہت برا آدمی تھا، لیکن کیا آپ کو پتہ ہے اس نے کیا صحیح چیز کی۔
اس نے دہشت گردوں کو مارا۔ آج عراق دہشت گردوں کا ہاورڈ بنا ہوا ہے۔ ممکن ہے قوم کا سربراہ اپنے ملک کے عوام سے جھوٹ بولے۔ جب بھی لیڈر کہے کہ وہی ملک ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ اب جھوٹ بول رہا ہے۔
فیصلہ بلیئر کا اور معافی مانگی لیبر پارٹی کے لیڈر جیرمی كوربن نے
كوربن نے کہا کہ میری معافی عراق کے لوگوں سے ہے، وہاں سینکڑوں جانے چلیں گئیں، وہ ملک ابھی بھی جنگ کو جھیل رہا ہے۔
عراق جنگ میں مارے گئے لوگوں کی گنتی کے لئے ایک ویب سائٹ وجود میں آ گئی ہے۔ یہ ہوئی ہے تبدیلی۔ اس کے مطابق 2003 سے لے کر اب تک جنگ اور دھماکوں میں 16 لاکھ سے زیادہ شہریوں کی موت ہوئی ہے۔ فوجیوں کی تعداد اس میں شامل کر دیں تو آپ کے دماغ کی یاد داشت جواب دے سکتی ہے۔
کیا واقعی دنیا بہتر ہوئی ہے۔ جس کا ڈر دکھا کر عراق پر جنگ مسلط گیا اور لاکھوں لوگ مار دیئے گئے، اب اسی ملک کی رپورٹ کہہ رہی ہے کہ اس ڈر کا کوئی جواز نہیں تھا۔ صدام کے پاس کیمیائی ہتھیار ہونے کی بات غلط تھی۔18 مارچ 2003 کو ٹونی بلیئر کی تقریر جو انہوں نے ہاؤس آف کامنس میں دیا تھا، اس میں کہتے ہیں کہ 'یہ مسئلہ اتنا ضروری کیوں ہے؟ کیونکہ اس کا نتیجہ عراقی حکومت کی تقدیر سے زیادہ اور عراقی عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا جو صدام کے دور میں بری طرح پریشان ہیں۔ یہ طے کرے گا کہ اکیسویں صدی میں سیکورٹی کے اہم چیلنجوں سے برطانیہ اور دنیا کس طرح پیش آئے گی۔ یہ اقوام متحدہ کا آگے کا راستہ طے کرے گا، یورپ اور امریکہ کے تعلقات کو طے کرے گا، یوروپین یونین کے اندرونی رشتوں کو طے کرے گا اور یہ بھی کہ امریکہ باقی دنیا کے ساتھ کس طرح سلوک کرے۔ یہ اگلی نسل کے لئے بین الاقوامی سیاست کے طور طریقوں کو طے کرے گا۔ '
ایک جنگ سے اتنا کچھ طے ہونے والا ہے جیسے بلیئر صاحب کی پہلی تاریخ کو تھیلے لے کر راشن کی دکان سے راشن لانے نکلے ہوں۔
اگر یو ٹیوب پر موجود تقریروں سے دہشت گردی پھیلی ہے تو بلیئر جیسوں کے فیصلے سے دنیا میں جو آج تک تباہی مچی ہے، اسے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔
مارچ 2003 میں بلیئر برطانوی پارلیمنٹ میں جھوٹ بول رہے تھے کیونکہ آٹھ مہینہ پہلے ہی جولائی 2002 میں وہ امریکہ کے صدر بش کو لکھ چکے تھے کہ "I will be with you، whatever۔" کچھ بھی ہو جائے میں آپ کے ساتھ ہوں۔
اب آئیے میڈیا کا کھیل دیکھیں 
میڈیا جب بھی قوم پرستی کا نعرہ لگائے تب سمجھ جائیےگا کہ کچھ ایسا کھیل ہے جو آپ کی سمجھ سے باہر ہے۔ امریکی میڈیا سپر پاور ملک ہونے کے نشے کی گولی بانٹ رہا تھا۔ اس وقت میڈیا کی کچھ هیڈلانس نکالی ہیں۔
لندن کا ایک اخبار ہے دی سن۔ 2003 میں دی سن نے پہلے لکھا تھا 'سن بیكس بلیئر'۔ بلیئر کے ہاتھ میں سن ہے اور سن اخبار بلیئر کی حمایت میں ہے۔
جب اخبار یا ٹی وی وزیر اعظم کی کھلے عام حمایت کا دعوی کرے تو بغیر ایناسن کھائے سمجھ جائیے گا کہ اس میں کوئی کھیل ہے۔
یہی سن اخبار چلكاٹ رپورٹ کے بعد هیڈلان بناتا ہے کہ 'ویپن آف ماس ڈسیپشن'۔ جسکا ہندی میں مطلب ہے اجتماعی دھوکے کا ہتھیار۔
بھارت میں بھی کئی میڈیا ادارے ٹھیک یہی کر رہے ہیں
ایسا نہیں ہے کہ اخبارات نے تنقید نہیں کی ہوگی مگر جنگ کا جنون میڈیا نے پھیلایا۔ سپر پاور کا خواب بھی اسی جنون کا پروجیکٹ ہے۔ جو آپ کو رکھے گا غریب مگر دکھائے گا اڑتے ہوئے راکٹ کا خواب۔
ڈیلی مرر برطانیہ کا اخبار ہے
اس اخبار نے تب جو کہا تھا وہ دس سال بعد صحیح نکلا۔ 29 جنوری 2003 کے اخبار کے پہلے صفحے پر چھپا تھا، بلیئر کی دونوں ہتھیليا خون سے سنی ہیں۔ لکھا تھا بلڈ آن ہز هینڈس ۔
چلكاٹ رپورٹ سے پہلے ہی اکتوبر 2015 میں ڈیلی مرر نے لکھا تھا دس سال بعد معافی مانگنے کا کوئی مطلب نہیں۔
رپورٹ کے بعد اس اخبار نے بلیئر کے اس خفیہ بیان کو لکھا ہے جس میں انہوں نے بش سے کہا تھا۔ میں ہر حال میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔
مجھے نہیں معلوم اس وقت برطانیہ میں آج کل ٹائپ کے اندھے دیش بھکت ہوتے تھے یا نہیں۔ تب ڈیلی مرر کو کتنی گالی پڑی ہوگی۔ میڈیا ، کارپوریٹ اور ملک کے سربراہوں کے کھیل کو ٹھیک طریقے سے سمجھنا ہوگا۔
یہ کھیل اتنا باریک ہوتا ہے کہ آپ کے لئے کیا میڈیا کے لئے بھی سمجھنا آسان نہیں ہوتا ہے۔
عراق جنگ نے میڈیا کو بھی بدل دیا تھا
جنگ کا لائیو کوریج کرایا گیا۔ اس وقت امبیڈیڈ جرنلزم کا جملہ کافی مشہورہوا تھا ۔ ٹی وی کے رپورٹر ٹینکوں میں لاد کر محاذ پر لے جائے گئے اور میدان جنگ کی کوریج دکھانے لگے۔ رپورٹروں کو بہادری کا انعام ملا، وہ جنگ کی کوریج کے ماہر بنے اور بدلے میں لاکھوں لوگ مر گئے۔
پوری دنیا میں یہ جنگ براہ راست نشر کی گئی 
لوگوں کو تو راکٹ اور بم دھماکوں سے سہم جانا چاہیے تھا مگر ٹی وی نے ان کے اندر میزائل اور ٹینک کی مہم جوئی نے جنگ کو تفریح کا سامان بنا دیا ۔
183 چلكاٹ رپورٹ کے بعد برطانیہ کے اخبار بدل گئے ہیں
The Times لکھتے ہیں Blair's Private war۔ Daily Star لکھتے ہیں Blair is world's worst Terrorist۔ Daily Mail - A monster of delusion۔
یہ رپورٹ عراق جنگ کے بارے میں ہماری سمجھ بدلتی ہے
آخر یہ کھیل کیا تھا ؟ جس کے بہانے ہم پر عراق پر اور اس کے بعد کے نتائج پر پوری دنیا پر جنگ مسلط کر دی گئی ، دہشت گردی مسلط کر دی گئی ؟
بہ شکریہ این ڈی ٹی وی انڈیا 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا