English   /   Kannada   /   Nawayathi

ایم جے اکبر کے نام رويش کمار کا خط

share with us

اکبر جی، میں یہ خط تھوڑی تلخی سے بھی لکھ رہا ہوں۔ مگر اس کی وجہ آپ نہیں ہیں، آپ سہارا بن سکتے ہیں۔ گزشتہ تین سال سے مجھے سوشل میڈیا پر دلال کہا جاتا رہا ہے۔ جس سیاسی تبدیلی کو آپ جیسے عظیم صحافی بھارت کے لئے عظیم بتاتے رہے ہیں، ہر خبر کے ساتھ دلال کہنے کی ثقافت بھی اسی تبدیلی کے ساتھ آئی ہے۔ یہاں تک کہ میری ماں کو رنڈی لکھا گیا اور آج کل میں بھی اس طرح میری ماں کے بارے میں لکھا گیا۔ جو کبھی اسکول نہیں جا سکی اور جنہیں پتہ بھی نہیں ہے کہ اینکر ہونا کیا ہوتا ہے، پرائم ٹائم کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کبھی این ڈی ٹی وی کےا سٹوڈیو تک کو نہیں دیکھا ہے۔ وہ صرف اتنا ہی پوچھتی ہیں کہ ٹھیک ہو نا اخبار بہت غور سے پڑھتی ہیں۔ جب انہیں پتہ چلا کہ مجھے اس طرح سے گالیاں دی جاتی ہیں تو گھبراہٹ میں بہت رات تک سو نہیں پائیں۔
اکبر جی، آپ جب صحافت سے سیاست میں آئے تھے تو کیا آپ کو بھی لوگ دلال بولتے تھے، گالی دیتے تھے، سوشل میڈیا پر منہ کالا کرتے تھے جیسا میرا کرتے ہیں۔ خاص کر سیاہ سکرین والے ایپی سوڈ کے بعد سے۔ پھر جب کانگریس سے صحافت میں آئے تو کیا لوگ یا خاص کر مخالف ٹیم، جس میں ان دنوں آپ ہیں، آپ کی ہر تحریر کو دس جن پتھ یا کسی پارٹی کی دلالی سے جوڑ کر دیکھتے تھے؟ اس کے بعد آپ خود کو کن دلائل سے سہارا لیتے تھے؟ کیا آپ مجھے وہ سارے دلائل دے سکتے ہیں؟ مجھے آپ کا سہارا چاہئے۔
میں نے صحافت میں بہت سی رپورٹیں خراب بھی کی ہیں۔ کچھ تو انتہائی شرمناک تھیں۔ لیکن تین سال پہلے تک کوئی نہیں بولتا تھا کہ میں دلال ہوں۔ ماں بہن کی گالی نہیں دیتا تھا۔ اکبر سر، میں دلال نہیں ہوں, But do Tell me what should I do to become Akbar ۔ واجپئی حکومت میں مرلی منوہر جوشی جی جب وزیر تھے تب تعلیم کے بھگوا کرن پر خوب تقریریں کرتا تھا۔ تب آپ کی پارٹی کے دفتر میں مجھے کوئی نفرت سے بات نہیں کرتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب تو انٹرویو کے بعد چائے بھی پلاتے تھے اور مٹھائی بھی پوچھتے تھے۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ تم کانگریس کے دلال ہو اس لئے یہ تمام سوالات پوچھ رہے ہو۔ عمر کی وجہ سے جوشی جی غصہ بھی کرتے تھے لیکن کبھی انکار نہیں کیا کہ انٹرویو نہیں دوں گا اور نہ ایسا اشارہ دیا کہ حکومت تم سے چڑھتی ہے۔ بلکہ، اگلے دن ان کے دفتر سے خبریں اڑا کر پھر انہیں دوبارہ کرید دیتا تھا۔
اب سب بدل گیا ہے۔ سیاسی کنٹرول کا نیا کلچر آگیا ہے۔ ہر رپورٹ کو سیاسی پیمانے پر تولنے والوں کی جماعت آگئی۔ یہ جماعت طوفانی گالی دینے لگی ہے۔ گالی دینے والے آپ کے اور ہمارے وزیر اعظم کی تصویر لگائے ہوئے رہتے ہیں اور کئی بار آر ایس ایس سے منسلک علامات کا استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی وزراء کو فالو کرتے ہیں اور ان کو وزیر۔ یہ لوگ کچھ صحافیوں کو بی جے پی مخالف کے طور پر ٹیگ کرتے ہیں اور باقی کی تعریف کرتے ہیں۔
یقینی طور پر صحافت میں کمی آئی ہے۔ آپ کے دور میں بالکل نہیں آئی تھی جب آپ انتخابات لڑے ، ہارے اور پھر سے ایڈیٹر بنے۔ وہ صحافت کا سنہری دور رہا ہوگا۔ جسے اکبر کے زمانہ کہا جا سکتا ہے اگر ان گالی دینے والوں کو برا نہ لگے تو۔ آج کل بھی صحافی ترجمان کا ایک غیر اعلانیہ چہرہ بن گئے ہیں۔ کچھ علانیہ بن کر بھی ہیں۔ مجھ غیر جانبداری کی امید کرنے والی گالی دینے والوں کی جماعت ان کو کبھی دلال نہیں کہتی۔ اب جواب میں انہیں بھی دلال اور نہ جانے کیا کیا گالی دینے والی جماعت آ گئی ہے۔ یہ وہی جماعت ہے جس کی یاد ایرانی کو ٹرول کے کرتی ہے۔
آپ وزارت خارجہ میں ساتھی کے طور پر جنرل وی کے سنگھ سے ملیں گے جنہوں نے صحافیوں کے لئے 'پراسٹ ٹيوڈ' کہا۔ ان سے متفق لوگوں کی جماعت کے لوگ ہندی میں ہمیں 'پریشيا' بلاتے ہیں۔ چونکہ میں این ڈی ٹی وی سے منسلک ہوں تو N کی جگہ R لگا کر 'رنڈی ٹی وی' بولتے ہیں۔ جس کے کیمروں نے آپ کی باتوں کو بھی دنیا تک پہنچایا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ صحافی سخت سوال کرتے ہوئے کسی پارٹی کی دلالی کرتے ہیں؟ کون سا سوال کب دلالی ہو جاتا ہے اور کب صحافت اس پر بھی کچھ روشنی ڈال سکیں تو آپ جیسے ایڈیٹر سے کچھ سیکھ سکوں گا۔ نوجوان صحافیوں کو کہہ سکوں گا کہ رويش کمار مت بننا، بننا تو اکبر بننا کیونکہ ہو سکتا ہے اب رويش کمار بھی اکبر بن جائے۔
میں تھوڑا جذباتی انسان ہوں۔ ان حملوں سے ضرور میرا اعتماد متزلزل ہوا ہے ۔ تبھی تو آپ کو دیکھ کر لگا کہ یہی وہ شخص ہے جو مجھے سہارا دے سکتا ہے۔ گزشتہ تین سال کے دوران ہر رپورٹ سے پہلے یہ خیال بھی آیا کہ وہی حامی جو بھارت کی ثقافتت کی تخلیق نو کی میں 'تورہی' بجا رہے ہیں، مجھے دلال نہ کہہ دیں اور میری ماں کو رنڈی نہ کہہ دیں۔ جبکہ میری ماں صرف اصلی اور واحد بھارت ماتا ہے۔ ماں کا ذکر اس لیے بار بار کر رہا ہوں کیونکہ آپ کی پارٹی کے لوگ ' ماں کے جذبات' کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ماں کا نام لیتے ہی بحث آخری دیوار تک پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے۔
اکبر جی، میں یہ خط بہت امید سے لکھ رہا ہوں۔ آپ کا جواب مستقبل کے صحافیوں کے لئے نظیر بنے گا۔ جو ان دنوں دس سے پندرہ لاکھ کی فیس دے کر صحافت پڑھتے ہیں۔ میری نظر میں اتنا پیسہ دے کر صحافت پڑھنے والی نسل کسی ردی سے کم نہیں لیکن آپ کا جواب ان کا حوصلہ بڑھا سکتا ہے۔
جب آپ سیاست سے لوٹ کر صحافت میں آتے تھے تو لکھتے وقت دل دماغ پر اس سیاسی پارٹی یا نظریے کی خیریت کی فکر ہوتی تھی؟ کیا آپ غیر جانبدار رہ پاتے تھے؟ غیر جانبدار نہیں ہوتے تھے تو اس کی جگہ کیا ہوتے تھے؟ جب آپ صحافت سے سیاست میں چلے جاتے تھے تو آپ کی تحتریروں پر شک ہوتا تھا؟ کبھی لگتا تھا کہ کسی انعام کی امید میں یہ سب لکھا ہے؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم صحافی اپنے وقت کے دباؤ میں لکھ رہے ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ چند سال بعد وہ خود کو بیکار لگے لیکن کیا آپ کے لکھنے میں کبھی سیاسی وفاداری حاوی ہوئی ہے؟ کیا وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے اخلاقی بحرانوں سے آزاد رہا جا سکتا ہے؟ آپ رہ سکے ہیں؟
میں نے ٹوئٹر کے ٹرول کی طرح گجرات سمیت بھارت کے تمام فسادات پر لکھا آپ کے مضمون کا ذکر نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے صرف ذاتی تناظر میں یہ سوال پوچھ رہا ہوں۔ آپ سے پہلے بھی بہت سے اداروں کے مالک راجیہ سبھا گئے۔ آپ نے تو کانگریس سے لوک سبھا انتخاب لڑا اور بی جے پی سے راجیہ سبھا کا۔ بہت سے لوگ دوسرے طریقے سے سیاسی جماعتوں سے رشتہ ادا کر رہے۔ صحافیوں نے بھی یہی کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ وزیر اعظم مودی نے کانگریسی حکومتوں کی اس روایت کو برقرار رکھا ہے۔ بھارتی ثقافت کے استقبال میں 'ترہی' بجانے والوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ اٹل جی خود صحافی تھے اور وزیر اعظم بننے کے بعد بھی اپنے اخبار ويرارجن کو پڑھنا ترک نہ کر سکے۔ بہت مثال آج بھی مل جائی گی ۔

مجھے لگا کہ اب اگر مجھے کوئی دلال کہے گا یا ماں کو گالی دے گا تو میں کہہ سکوں گا کہ اگر اکبر دی گریٹسٹ ہے تو رويش کمار بھی دی گریٹ ہے۔ ویسے میں ابھی سیاست میں نہیں آیا ہوں۔ آ گیا تو آپ میرے بہت کام آئیں گے۔ اس لیے آپ بھی بتائیے کہ صحافیوں کو کیا کرنا چاہئے۔ کیا انہیں انتخابات لڑ کر، وزیر بن کر دوبارہ صحافی بننا چاہئے۔ تو کیا وہ صحافت کر پائیں گے؟ کیا صحافی بنتے ہوئے ملک کی خدمت کے نام پر سیاسی امکانات تلاش کرتے رہنا چاہئے؟ You can say so many things on journalism not one sir'!
میں امید کرتا ہوں کہ غیر جانبداری چاہت میں گالی دینے والے آپ کو خوش آمدید کہہ رہے ہوں گے۔ انہیں پھول برسانے بھی چاہیے۔ آپ میں بے شک قابلیت ہے۔ آپ توہم سب کے ہیرو رہے ہیں۔ جو صحافت کو مذہب سمجھ کر کرتے رہے مگر یہ نہ دیکھ سکے کہ آپ جیسے لوگ اسے كرم كانڈ سمجھ کر ادا کرنے میں لگے ہیں۔ چونکہ آج کل اینکر ٹی آر پی بتا کر اپنی اہمیت بتاتے ہیں تو میں صفر ٹی آر پی والا اینکر ہوں۔ ٹی آر پی میٹر بتاتا ہے کہ مجھے کوئی نہیں دیکھتا۔ اس لحاظ سے چاہیں تو آپ اس خط کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ مگر وزیر ہونے کے ناطے آپ بھارت کے ہر شہری کو اصولی طور پر جوابدہ ہو جاتے ہیں۔ اسی کی خیریت کے لئے اتنی قربانی دیتے ہیں۔ اس وجہ سے آپ کو جواب دے سکتے ہیں۔ نمبر ون ٹی آر پی والا آپ سے نہیں پوچھے گا کہ زیرو ٹی آر پی والے صحافی کا جواب ایک وزیر کیسے دے سکتا ہے، وہ بھی خارجی امور کا وزیر مملکت ۔ once again عید مبارک سر۔ دل سے۔
آپ کا ادنیٰ
رویش کمار
بہ شکریہ این ڈی ٹی وی انڈیا

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا