English   /   Kannada   /   Nawayathi

عیدالفطر اور اس کا پیغام

share with us

یہ تو تمدن پسند انسان جہاں بھی رہتا ہے۔ اجتماعی زندگی سے بہر حال اس آئے دن کا سابقہ لازمی ہے اور اس اجتماعی زندگی کے کچھ فطری تقاضے ایسے بھی ہیں جو کسی بھی معاشرے میں ایک خصوصیت بن کر سامنے آتے ہیں۔ انہیں معاشرتی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ ہر جگہ سماجی طور پر کچھ دن ایسے ضرور متعین ہوتے ہیں جنہیں تہوار اور جشن کی حیثیت حاصل ہو اوراس کی نسبت بھی مذہبی روایات کی طرف ہوتی ہے۔ کبھی قوی تاریخ سے تعلق رکھنے والے بعض اواقعات کی طرف اور کبھی کچھ دوسرے سماجی عوامل کی جانب یہ ایک تاریخی تسلسل ہے جس کا رشتہ انسانی فطرت سے جڑا ہوا ہے اورآج بھی معاشرے سے مشاہد ے سے اس کی تصدیق ہو جاتی ہے ۔ چنانچہ کوئی بھی گروہ اور سماج اس سے مستشنیٰ نہیں ملے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپ نے وہاں بھی یہ دیکھا کہ چند یوم مخصوص ہیں جن میں لہوہ لعب کے مظاہرے ہوتے ہیں اورتمام متعلقہ لوگ اس میں شریک رہتے ہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ان تہاروں کے دن ہیں جن کا سلسلہ برسوں سے چلا آرہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے تمارے لئے دو دن مقرر کئے ہیں جو ان سے کہیں بہتر ہیں اور وہ ہیں عید الفطر اور عید الضحیٰ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ہر سال ان عیدوں کو اسلامی طریقے پر منا کر قیامت تک آنے والے حضرات کی مستقل رہنمائی فرمادی ۔ احادیث میں تفصیل سے ان سب اعمال کا تذکرہ موجود ہے۔ جن کی رو سے بنیادی حیثیت اور عیدالفطر میں نماز عید اور صدقہ فطر کو حاصل ہے دیگر تفصیلات میں ان کی جذئیات بیان ہوئی ہیں مثلاً یہ کہ نماز عید کا اہتمام صبح ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ لوگ طارت اور لباس کی معدگی کا خیال بھی رکھتے تھے۔ عطریات کا استعمال بھی کرتیاور سویرے جلد ہی عید گاہ کے لئے روانہ ہو جاتے ۔ راستے میں تکبیر کہتے ہوئے جاتے اور اس سلسلے میں یہ بھی خیال رہتا کہ ایک راستے سے جائیں اور دوسرے سے واپس آئیں۔ نماز عید شہر سے باہر ایک ساتھ ادا کی جاتی اورسبھی لوگ وہاں حاضر ہوجاتے۔ اس نامز میں نہ اذان کی جاتی نہ اقامتاور نہ نماز عید سے پہلے کوئی خطبہ بھی نہ ہوتا البتہ نماز عید سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ اور آپ کے بعد حضرارت حلفا کے راشدین خطبہ دیتے اورصدقہ فطر کے احکام وغیرہ سے لوگوں کو باخبر کرتے۔ بعض مرتبہ آپ نے عورتوں کو ان کی مجلس میں جا کر مستقل وعظ و نصیحت بھی فرمائی۔ صدقہ، فطر کے سلسلے میں یہ ہدایت تھی کہ جو لوگ بھی حیثیت رکھتے ہیں، اپنے اوراپنے اہل وعیال کی طرف سے صدقہ فطر نکال کر مساکین کو دے دیا کریں اور یہ اشارات بھی مل جاتے ہیں کہ اسے جتنا جلد ہو سکے ادا کر دیاجائے۔ اس تفصیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ عید کے بنیادی عناصر دو ہیں ۔ سب کریم کی بندگی کے لئے سجدہ ریزہ ہونا جس کے لئے دوگانہ عید کو واجب قرار دیا گیا ور غریبوں کی غمخواری اور باخبر گیری کرنا جس کے لئے صدقہ ، فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ ان نکات پر غور کرنے سے ہم خود بھی سمجھ سکتے ہیں کہ عید بے شک ہمارا تیوہار ہے لیکن اس کی نوعیت وہ ہرگز نہیں ہے جو دوسروں کے یہاں ان کے تہواروں کی ہے ۔ ان کا اپنا نقطۂ نظرتو یہ ہے کہ پورا معاشرہ اور معاشے کا ہر فرد اس دن آزاد ہے کہ جتنی بے اعتدالیاں چاہے کرے اور غیبی خرافات میں بھی مبتلا ہو، سب درست ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس نظریے کو ماننے والے حضرارت کس طرح تہواروں میں بد مست اچھلتے کودتے اورعقل و خروسے بیگانہ یا ایسے ہی اعمال و افعال میں مشغول رہنے کو اپنا یا ایسے ہی اعمال و افعال میں مشغول رہنے کو اپنا کما ل سمجھتے ہیں۔اسلام نے انسان کو اس طرح کی مطلق العنان آزادی کبھی نہیں دی بلکہ اسلامی نظریہ ہر ہر قدم پر اطاعت فرماں برداری کا ہے اور اس کے لئے اسلامی تعلیمات میں مکمل ہدایات موجود ہیں اور عید کا معاملہ بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ چنانچہ انسانی مزاج کی رعایت کرتے ہوئے اسلام نے خصوصی دن متعین تو کر دئے ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ اجتماعیت کو اور اجتماعیت کے اظہار کو اچھا سمجھا گیا ہے لیکن اس کو عبادت سے ہم آہنگ کردیا گیا ہے جس میں بندگی کا بھرپور اظہار بھی ہے اور قوم کے بے کس اور بے سہارا اشخاص کا تعاون بھی ہے۔ عید کے یہی وہ بنیادی عناصر ہیں جنہوں نے اسلامی عید کو دوسرے تہواروں سے ممتاز کر دیا ہے اور اس سے اسلام کا یہ مزاج بھی ظاہر ہو کر سامنے آجاتا ہے، کہ بندگی کے تقاضوں کو پورا کرنا ہر حال میں مقدمد ہے چاہے وہ خوشی کا موقع ہو یا رنج و گم کا البتہ اسلام نے خدمت خلق اور قوم کے سہارا افراد کی رعایت کو بھی کار ثواب قرار دیا ہے اوراسے یا تو ایک فرض کی حیثیت دی ہے اور جہاں فرض نہیں ہے اس حالت میں بھی اسے بہت بڑے اجر و و ثواب والا عمل بتایا گیا ہے ۔ حتیٰ کہ وہ موقع جن میں عام لوگ صرف خرافات میں بدمستی کو اصل موضوع سمجھتے ہیں، اسلام نے ان مواقع میں بھی ان چیزوں کو اہمیت اوراولیت دی ہے۔ عید کی ایک حیثیت انعام اور تحفہ کی بھی ہے۔حسب توفیق جی بھر کر عیادتیں کیں۔ دن بھر اللہ کی رضا کے لئے بھوکے پیاسے اوردوسری تمام نفسانی خواہشات سے دور ہے اور ایک دن یا ہفتہ نہیں پورا ایک مہینہ اس حال میں گزارا پھر راتوں کو سب سے پہلے تراویح میں مشغول رہ کر نماز اور قرآن سننے کی سعادت حاصل کی پھر حسب توفیق نوافل تسبیحات اور تہجد وغیرہ میں ان کاوقت مصروف رہا۔ قرآن کی تلاوت سے گھر اور مسجدوں کے دوردیوار گونجتے رہے۔ مانگنے والوں نے خدا سے خیر و سلامتی کی دعائیں مانگیں اوراس کے فضل و کرم اور بخشش و مغفرت کے حقدار قرار پائے جنہیں اللہ پاک نے توفیق دی انہوں نے اعتکاف کی فضیلات بھی حاصل کی ۔ صدقہ خیرات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا غرضیکہ خیر اور بھلائی کے جتنے ذرائے تھے ان سب میں پیش پیش رہے۔ عید کا دن انہیں عبادت گزاروں کا دن اوراللہ پاک کی طرف سے آج ان کو انعام دیا جانے والا ہے گو یا حقیق معنوں میں اصل عید تو انہیں کی ہے جنہوں نے رمضان کو رمضان گزارا اور بندگی کے تقاضے پورے کئے مگر ان کے طفیل میں دوسرے بھی اس خوشی میں شریک قرار پائے اور عید کے منانے کا حق انہیں بھی عطا کردیا گیا۔ اس موقع پر ایک بات بھی قابل توجہ ہے کہ عبادت اور نیکیاں جو رمضان میں کی جاتی ہیں اور جس طرح مسجد میں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں۔ لوگ خیر اوربھلائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں او جس طرح زیادہ سے زیادہ عبادت گزار بندے بن کر اپنا وقت گزارتے ہیں یہ صرف رمضان ہی کے لئے نہیں تھا۔ 
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت محبت انگیز لہجہ میں مسلمانوں کو تلقین فرمائی’’لوگو! اسلام کو پھیلاؤ (سب کو سلام کرو سب کو سلامتی کی دعائین دو) اور بھوکو کو کھانا کھلاؤ اور رات کو سوتے سے اٹھ کرتہجد کی نماز ادا کرو اس کیصلہ میں جنت میں داخل ہو جاؤگے یہ ہے خالق کی عبادت اورمخلوق کی خدمت (مسلم) فرمایا اللہ کا شکر گزار بندہ وہی ہوتا ہے جو لوگوں کاشکر گزار ہو(مسلم ارشاد فرمایا اگر لوگ اپنی دعاؤں کو قبولیت کے مقام تک پہنچانا چاہتے ہیں اور اپنی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو خدا کے بندوں کی ضروریات پوری کریں۔ پریشان حال بندگان خدا کی حاجت روانی کریں۔ (مسلم) اسلام نے انسانی زندگی کا پورا نقشہ اور معلومات زندگی کا پورا خاکہ پیش کر دیا ہے اوریہ بھی واضح کردیا ہے کہ خدا کا یہ دین ، دین اسلام، انسانیت کا مذہب ہے اوریہ مذہب پیشہ و ر مذہبی لوگوں کے کسی طبقہ کو تسلیم نہیں کرتا اور عبد معبود کے دریامیں کسی قسم کی اجارہ داری کو حائل نہیں ہونے دیتا، ہر روح کسی پادری، پنڈت، پروہت، پیر ، ملا کی وساطت کے بغیر اپنے پیدا کرنے والے کی طرف صعود کرتی ہے ایک مضطرب دل کو تسکین دینے والی ہستی کے حضور میں جانے کے لئے ذاتی مفادات کے مدعیوں کی ایجاد کردہ راہوں اور رسموں کی کوئی گنجائش نہیں ہر انسان اپنا وکیل وشفیع ہے ۔اسلام میں کوئی شخص کسی کو غلام نہیں بنا سکتا ۔ سب خدا کے بندے اور غلام ہیں بہ حیثیت انسان سب مساوی درجہ رکھتے ہیں صرف تقوی قابل اعزاز ہے، ارشاد گرامی، کلکم را و کلکم مسؤل (حدیث) تم میں ہر شخص راعی ہے۔ نگراں ہے اورمسؤل ہے۔ ہر ایک کو جو ابدہ ہونا ہے۔ عید الفطر اسلام کا عظیم تہوار ہے یہ تہوار خدا پرستی اوراسلامی تہذیب کا آئینہ دار ہے، عید الفطر میں فرزنندان اسلام کی ذمہ جو فرائض عائد کئے گئے ہیں وہ پوری انسانیت کے لئے رحمت اورسلامتی کے ضامن ہیں، امن ، سلامتی، عدل ، مساوات ہمہ گیر بھائی چاری عالمگیری محبت و اخوت اور فرقہ دارانہ ہم آہنگی کے روشن مینار ہیں اس عظیم تہوار عید الفطر میں فضول خرچی، رسم و رواج اور غیر معقول طرز زندگی کی گنجائش نہیں ہے،، اسراف تبذیر ، رنگ رقص اور لہوہ لعب یعنی غیر معنی کوئی فعل وعمل ، عید الفطر کے مقدس پروگرام سے خارج ہیں، یا د رکھئے قومی کرداراور صحت مند معاشرہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل سے وجود میں آتا ہے ، مسلمان صححیح الفکر اور صحیح الدماغ ہوتا ہے، اور اسی صحت فکر و ذہن کی بنیاد پر مسلمان اسلام کا ترجمان بنتا ہے اوریہ مسلمان اسلام کی تصویر کی صحیح عکاسی کرتا ہے ، ایک طرف اس کی بے پناہ مسرت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ پوری گرم جوشی کے ساتھ رمضان المبارک کااستقبال کرتا رمضان کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے تعلق مع اللہ کے ہر عنوان کو سرانجام دیتا ہے اور دوسری طرف خدا کی مخلوق خدتم اور انسانی حقوق کی ادائیگی میں سر گرم عمل ہوتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے ، بیوی بچوں، قرابت داروں اوررشتہ داروں کے حقوق ادا کرتا ہے، پڑوسیوں دوستوں، بیواؤں یتیموں، بیماروں، مسکینوں اورتمام انسانوں کے حقوق ادا کرتا ہے ، سب کو خوش کرتا ہے مسرت و راحت سے ہمکنار کرتا اور دشمنوں کی دشمنی کو دوستی سے بدل دیتا ہے اس طرح انسانی معاشرہ پر مسرت و انسباط کی لہر دوڑ جاتی ہے ، ماحول خوش گوار بن جاتا ہے اور عید الفطر کی خوشویں سے اسلامی تہذیب کا جلوہ فضا میں طاری ہو جاتاہے۔
نماز ، روزہ ، زکوٰۃاور حجد دین کے ستنو ہیں ان اہم عبادات کے بغیردین اسلام کا تصور نہیں کیا جاسکتا لیکن ان ستونوں کا وقار اور عظمت باہمی تعلقات سے وابستہ نہیں اور حقوق العبادی سے ان عبادتوں میں جان آتی ہے ورنہ حقوق العبادی کے بغیر حقوق اللہ کی قبولیت مشکل ہے اسلام نے عید الفطر منانے کا جو عمل بر پا کیا ہے ہم مسلمان اسی جذبۂ اسلامی سے اسلام کے اس تہوار کو منائیں تاکہ انسانی اسلام کے فیوض و برکات سے مالا مال ہو جائیں سر پرستی اور اسلامی تہذیب سے آشنا ہو!(

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا