English   /   Kannada   /   Nawayathi

رپورٹ کارڈ کامیابی نہیں ناکامی کی رپورٹ ہے۔

share with us

’’مشک آنست کہ خود بگو ید نہ کہ عطار بگوید‘‘ مشک وہ ہے جو خو دکہتا ہے کہ میں مشک ہوں، وہ نہیں ہے جس کے بارے میں عطار بتائے۔ مودی سرکار نے اگر دو سال میں ایسے ایسے کام کر دئے ہیں کہ آئندہ ہر جگہ ہر کسی کو صرف بی جے پی کو ووٹ دینا چاہئے تو اس کے بتانے کی ضرورت نہیں ہونا چاہئے ۔ بلکہ ہم یا آپ جب گھر سے باہر نکلیں تو آپ کو نظر آجائے کہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ 
اس پروگرام میں شری کلراج مسرا نے زور دیکر کہا کہ مودی جی نے دو سال میں اتنے کام کر دئے جو کانگریس نے ساٹھ سال میں نہیں کئے۔ مسرا جی کو تو اگر وزیر بنے رہنا ہے تو اس سے بھی بڑھ کر اور کہنا ہے۔ حیرت ہے کہ اترپردیش کے رہنے والے ہونے کے باوجود نہ ان چھ برسوں کو الگ کر رہے ہیں جس میں اٹل جی کی یعنی کلراج مسرا کی پارٹی کی حکومت رہی۔ نہ ان تین برسوں کو الگ کر رہے ہیں جس میں جنتا پارٹی کی حکومت تھی اور وہ برابر کے حصہ دار تھے اور نہ راجہ وشنو پرتاپ سنگھ کے دور حکومت کو الگ کر رہے ہیں۔ اور حد یہ ہے کہ نہ ان برسوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جن دس برسوں میں اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت رہی۔ اور نہ ان ساٹھ برسوں میں ان صوبوں کے برسہا برس حکومت کو نظر انداز کر رہے ہیں جن میں بی جے پی حکومت کر رہی ہے۔ 
یہ تو کلراج مسرا اور رام ولاس پاسوان دونوں جانتے ہیں کہ پورے ملک میں پوری طرح کانگریس کی حکومت 1947 سے 1967 تک صرف 20برس رہی۔ اس کے بعد صوبوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ اور اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کانگریس کے پاس ملک اور تمام صوبے رہے ہوں۔ اور یہ کامیابی نہیں ناکامی ہے کہ ہر وزیر اور ہر ایم پی کورپورٹ کا رڈ لیکر ملک میں پھیلا دیا ہے۔ جن کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کروڑوں ان ہندوستانیوں کو جن کی نگاہ کمزور ہے اور جن کو نظر نہیں آرہا ہے کہ مودی سرکار نے وہ سب کر دیا جو 60برس میں کانگریس نہیں کر سکی تھی۔ اگر ہم اپنے دل کی بات کہیں تو وہ یہ ہے کہ ہم واقعی یہی چاہتے تھے کہ کوئی تو ایسا ہو جو وہ کردے جو جمہوریت میں ہونا چاہئے۔ یعنی عوام کی حکومت عوام کے ذریعہ اور عوام کے لئے یہ کام پنڈت نہرو سے لیکر آج تک نہ ہوسکا۔ ہم نے سوچا تھا کہ شاید مودی یہ خواب پورا کر دیں گے کہ شیر اور بکری ایک ساتھ پانی پیتے نظر آئیں گے لیک یہ بھی نہ ہوسکا۔ 
ایک مذاکرہ میں رپورٹ کارڈ زیر بحث تھاایک ماہر معاشیات نے بتایا کہ گزشتہ ایک مہنے میں ارد کی دال 30روپئے مہنگی ہوئی ہے۔ اس کے جواب میں بی جے پی کے ترجمان پھٹ پڑے کہ یہ بھی تو دیکھئے کہ پیاز جو سو روپئے کلو تک بک چکی ہے اس وقت ایک روپئے کی چار کلو مل رہی ہے۔ اور وہ بتاتے وقت یہ نہ بتا سکے کہ اس میں مودی سرکار کا کیا کارنامہ ہے۔ ؟ اور اگر یہ کارنامہ ہے تو اسے کیا کہیں گے کہ ایک کاشتکار جو نو ایکڑ میں بوئی گئی پیاز جب فروخت کر کے گھر واپس آیا اور اس نے حساب لگایا کہ اسے کیا ملا تو وہ ایک روپئے کا سکہ دکھا کر کہہ رہا تھا کہ یہ ملا ہے۔ اس میں ہزاروں کا بیج بھی ہے کھاد بھی ہے آب پاشی بھی ہے اور اپنی محنت بھی۔
وجہ صرف یہ ہے کہ ہر سال بے موسم بارش کی وجہ سے آدھی سے زیادہ فصل خراب ہو جاتی تھی۔ اس لئے دوچار مہینے کے بعد پیاز کی قیمت 20 - 30 - 40 - 50اور اس سے زیادہ بھی ہو جاتی تھی۔ اس بار اللہ نے کرم فرمایا تو خریداروں کی تو عید ہو گئی لیکن غریب کسان بے موت مارے گئے۔ اب اگر یہ بھی مودی سرکار کا کارنامہ ہے تو کسانوں کی بربادی کی ذمہ داری بھی ان کو لینا چاہئے۔ ماہرین معاشیات بتا رہے ہیں کہ 2010میں 12لاکھ لڑکوں کو نوکری ملی پھر اس کے بعد کم ہوتی رہی لیکن اتنی نہیں جتنی 2015میں ہوئی کہ صرف ایک لاکھ 75ہزار نوکریاں ملیں۔ یہ ان جوانوں کے ساتھ مودی سرکار کا مذاق ہے جنہوں نے مودی کے وعدوں پر یقین کر کے 2014میں ایسی کامیابی دلائی تھی جو تیس برس سے کسی کو نہیں ملی تھی۔
مودی کے ترقیاتی کاموں کے رپورٹ کارڈوں میں وہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر انہوں نے الیکشن لڑا تھا۔ 2014 کے الیکشن کا سب سے اہم موضوع کالا دھن تھا، دوسرا مہنگائی تھی۔ روزگار تھا اور بھرشٹا چار تھا یا اچھے دن تھے۔ا ن میں سے رپورٹ کارڈ لئے ہوئے کلراج مسرا نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ روزگار جیسی پریشانی کو بھی سدھارنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ میں وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔ کلراج مسرا نے پریس کانفرنس میں ڈینگ مارتے ہوئے کہا کہ ہم جب بیرون ملک جاتے ہیں تو غیر ملکی کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ملک میں آکر کام کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ مودی صاحب دنیا کے ہر ملک میں خوشامد کر آئے اور دو سال ہو گئے کوئی ایک صنعت کار بھی نہیں آیا۔ مجبور ہو کر اور جھک مار کر مسلمانوں کے ملکوں میں گئے اور ابوظہبی ، سعودی عرب اور ایران نے ان کے بڑھے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ان کی مدد کرنے کا بھروسہ دلایا۔ 
وزیر اعظم نے دو سال کے اقتدار کی سالگراہ پورے تام جھام سے منائی ہے سالگراہ اس کی نہیں ہے کہ انہوں نے کیا کیا۔ اور ملک کو کیا بنا دیا؟ بلکہ صرف اسکی ہے کہ ہم دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک کے دو سال سے بے تاج بادشاہ ہیں۔ اس کی سال گرہ نہیں ہے جو انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ میں اس مندر کو گندے لوگوں سے پاک کر دونگا۔ ایک سال میں جو گناہ گار اور خطا کار ہو نگے انہیں جیل بھجوا دوں گا جو صاف ستھرے ہو نگے سنسد میں نظر آئیں گے۔ ہم اگر مودی سرکار میں کچھ ہوتے اور ہم سے کہاجاتا کہ یہ ترقیاتی کاموں کا رپورٹ کارڈ لیکر جاؤ تو ہم تو استعفیٰ دے دیتے کارڈ لے جانے کا پاپ نہ کرتے اور وی وی آئی پی گیسٹ ہاؤس کی پریس کانفرنس میں لکھنؤ آنے والے وزیر وں نے چبھتے ہوئے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔ ان کے پاس ہر بات کا جواب کانگریس تھا۔ سوال یہ ہے کہ اب کانگریس کا کیا ذکر؟ اگر اس نے ہمیں مایوس نہ کیا ہوتا یا ملک کو اس کے وزیروں نے نچوڑا نہ ہوتا تو آج وہ مرغی کی طرح صرف 45انڈوں کو پروں میں دبائے کیوں بیٹھی ہوتی؟ رپورٹ کارڈ میں جو کام نہیں کئے یا نہیں ہو سکے ان کے لئے عوام سے مافی مانگی ہوتی۔ لیکن کسی ایک بھی ناکامی کا ذکر نہ کرنا اور ان کاموں کی فہرست چھاپنا جن کا الیکشن کے وقت ذکر بھی نہیں تھا اس کا ثبوت ہے کہ وہ بھی کانگریس کے ہی راستہ پر چل پڑے ہیں۔ وزیر اعظم اور ہر وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو نمونہ بنائیں جو چلتا پھرتا رپورٹ کارڈہیںَ جن کے کاموں کو بنگالیوں نے دیکھا اور 27سیٹیں زیادہ دے دیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا