English   /   Kannada   /   Nawayathi

عوام کی جان کنی کے عالم میں بھی وزراء کی نااہلی جاتی نہیں!

share with us

ہسپتالوں تک میں علاج کے لئے پانی کی قلت ہے۔سپریم کورٹ کی ہدایتوں کے باوجود سرکار فلاحی اقدامات کرتے نظر آتی نہیں، اس کے منصوبے صرف کاغذ ،پیپرتک محدود ہیں۔خاطر خواہ مددکرنے انہیں اس بھیانک صورت حال سے راحت دلانیکی خاطر، مرکزی حکومت بھی سنجیدگی سے غور وفکروعمل کرتے ہوئے نظر نہیں آرہی ہے۔
ریاست مہاراشٹرا میں سوکھے کی انتہائی بری صورت حال ہے۔پانی کے تمام ذخیرے ختم ہو چکے ہیں۔ تمام تالابوں میں پانی نہیں ہے۔یہی حال کنوؤں کا ہے۔مہاراشٹرا کا ودربھ علاقہ سوکھے سے انتہائی متاثر ہے۔ مرا ٹھہ واڑہ ،لاتور اور آس پاس کے علاقوں میں گویا انتہائی برا اور خستہ حال ہے۔پانی کی اک اک بلند کے لئے انسان ترس رہاہے۔کوسوں دور تک مرد خواتین بچے پانی کے خالی برتن لئے پانی کی تلاش میں ،کڑی دھوپ میں پیدل چلتے نظر آرہے ہیں۔جہاں پانی ہے،وہان انسانوں میں پانی حاصل کرنے کے لئے بھگدڑ نہ ہو جائے، پولیس کا بندوبست ہیکہ امن وامان کی صورتحال نہ بگڑ جائے۔اب تو ٹرینوں سے لاتور میں پانی پہنچایا جا رہا ہے۔پانی نہ ہونے سے جانوروں کے لئے چارہ نہیں۔ انسان اپنے کو نہیں سنبھال پا رہا جانوروں کو کیسے سنبھالے۔کسان پہلے تو خاص کر ناکارہ جانور فروخت کر کے،اپنی ضرورتیں پوری کر لیتا تھا۔جب سے صوبے مہاراشٹرا میں ہندوتواوادی بی جے پی سرکار آئی ہے۔بڑے جانوروں پر ذبیحہ کے سخت قانون کو نافذ کر دیاہے۔بیلوں کے ذبیحہ پر پابندی عائد ہو گئی ہے۔جس سے بڑے پیمانے پر بیل کے گوشت کی تجارت کرنے والے غریبوں کے ساتھ اور غریب جنکی خوراک میں بیل کا گوشت شامل تھے۔ان کو بھی اور بیل کے گوشت سے جڑی صنعتیں بھی متاثر ہیں۔ان میں بطور مزدور غریب جڑے تھے۔اب خشک سالی سے انتہائی شدت کی تکالیف جھیلتے غریب کسان ،اپنے بال بچوں کے ساتھ،اپنے جانوروں کی جان کیسے بچائے۔خود کو پینے کے لئے پانی نہیں ہے جانوروں کے پینے کے لئے پانی اورچارہ کہاں سے لائے۔ہندوتواوادی حکومت،انسانی اقدار دستور، ائین کو بازو میں رکھ کر،ہندوتواواد کے مدنظر قاعدے قانون بنا کر،مذہبی سماجی آزادی کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے۔جس سے بنائی امتیاز بھید بھاؤ،عوام کی اکثریت کو ہزیمتیں ہیں۔قانون قاعدے بناتے وقت دستوری تحفظات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
ملک کی بڑی آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔زراعت ہی جہاں کا اہم پیشہ ہے۔آدھے سے بھی زیادہ،دیہاتی آبادی کے پاس زمین ہے جس پر کھیتی باڑی زراعت کے ذریعہ کسان اپنے گھر کا پیٹ پالتا ہے، زراعت ہونے کی بنا پر روزی روٹی کے دیگر ذرائع بھی پیدا ہو جانے سے ،وہ افراد جن کے پاس کھیتی کرنے کے لئے زمین نہیں ہے۔ انکی روزی روٹی کا مسئلہ بھی حل ہو جایا کرتاہے۔ پانی نہ ہونے سے خشک حالی نے مہاراشٹرا کے ہزاروں دیہاتوں کے انسانوں کی زندگی کو اجیرن کرد یا ہے۔ان علاقوں کو حکومت مہاراشٹرا نے سوکھا زدہ علاقے ہونے کا اعلان کردیا ہے۔۔ پریشان حال عوام دیہاتوں سے، اپنے گھروں کو چھوڑ کر شہروں کی طرف کوچ کررہے ہیں ۔
ہمارے یہاں جمہوریت میں حکومت کا کام کاج چلانے کے لئے بذات خود عوام اپنے ووٹ سے حکومت کے نمائندوں کو چنتے ہیں ۔ یہ سیاستداں حکمراں ایمانداری سی اپنے فرائض پر چلنے کی قسم اور حلف اٹھاتے ہیں۔ حالات سب کچھ سازگار ہونے کے باوجود ،یہ حکمرانوں سیاستدانوں کی نا اہلی ہے کہ عوام خاص کر غریب عوام اور بالخصوص وہ کسان جو پورے ملک کو اناج کی شکل میں پیٹ پالنے کے لئے خوراک مہیا کرتا ہے۔اس کی زندگی اکثر وبیثتر تکالیف وہزیمتوں کا سامنا کرتی نظر آتی ہے۔وہ خود اپنا پیٹ پالنے کے لئے دانے دانے کا محتاج ہو جا تا ہے۔حکمرانوں کے ہاتھوں غریب رعیت کب تک یہ ستم اٹھاتی رہے گی۔ظلم کا یہ لامتناہی سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ ظلم کی گھٹا ٹوپ راتوں کے بعد امید کی صبح کب آئے گی؟کہ بڑی تعداد میں آج مہاراشٹرا میں دیہاتوں سے انسان پیٹ بھرنے کی خاطر شہروں کی طرف کوچ کر رہے ہیں ۔لگتا ہی کہ حکومت مہاراشٹرا کو سوکھا زدہ علاقوں کا احساس نہیں ۔
مہا راشٹرا ملک کی اہم ترین ترقی یافتہ ریاست ہے۔جدید تعلیم معیشت سائینس ٹیکنالوجی میں یہ آگے آگے ہے ۔ اگر اس ریاست کے حکمرانوں کو غریبوں کسانوں کی فکر ہوتی تو وہ پہلے ہی سے ،لاتور ودیگر سوکھا زدہ ،مہاراشٹرا کے علاقوں کی خیال رکھ سکی تھی۔اتنی صلاحیت حکومت مہاراشٹرا میں ہے۔ آج وہاں کے عوام کو ا س قدر جان کنی کے عالم سے نہ گذرنا پڑتا۔ساری سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال ،مہاراشٹرا کی حکومت ، پیشگی طور پر سوکھا سے متاثرہ علاقوں میں،انسانوں اور جانوروں کی آج کی انتہائی بد حالی دور کرنے کے لئے کرسکتی تھی،عوام کا اس قدر یہ براحال نہ ہوتا۔غریبوں کی حالت زار کا لگتا ہے، حکومت مہاراشٹرا کے وزراء کو خیال نہیں ۔ان کا رہنا سہنا، اٹھا بیٹھنا، کھانا پینا، رئیسوں امراء ہی کی طرح ہے۔کہتے ہیں کہ جمہوریت ہی اک طرز حکومت سے بڑھ کر کوئی اور طرز حکومت عوام کے لئے بہتر نہیں۔یہاں عوام کے لئے ،حکمراں ہی مائی باپ سمجھے جاتے ہیں۔ مہاراشٹرا کے ہزار وں گاؤں دیہات سوکھا زدہ،سرکاری سطح پر قرار دے دئے گئے ہیں۔لاکھ ہا لاکھ انسانی زندگیاں،سوکھے سے ہزیمتیں اٹھا رہی ہیں ۔مگر مہاراشٹرا کے وزراء کی نوابیت قائم ہے۔ان کا وجود،دھرتی پر بوجھ سے کم نہیں ۔انکی شان و شوکت میں کمی نہیں ۔گویا وہ رعایت کے نمائندے نہیں۔وہ جمہوریت کے نمائندے نہیں۔ وہ اپنی شاہی حکومت چلا رہے ہیں۔درحقیقت ان غیر میعاری وزراء کے لئے ہی یہ کہا گیا ہے کہ 
تخت بدل دو تاج بدل دو 
ان نکمون کا راج بدل دو
مہاراشٹرا کے یہ وزراء سوکھا زدہ علاقوں کاجائیزہ لینے جارہے ہیں مگر وہ بھی لاؤ لشکر اور امیر زادوں کی طرح،کیا غم زدہ علاقوں کا سرکاری دورہ ایسے ہی کیا جاتا ہے؟یہ ہماری جمہوریت کا مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟مہاراشٹرا کے وزیر ہیں، ایکناتھ کھڑسے،وہ سوکھا زدہ علاقہ لاتور،ہیلی کاپٹر کے ذریعہ پہونچتے ہیں ۔ہیلی کاپٹر اتارنے کے لئے وہاں ہیلی پیڈ بنایا جاتاہے۔جس میں دس ہزار لیٹر پانی کا استعمال کیا جاتاہے۔اک ایسا 
علاقہ جہاں پانی کی اک اک بوند کے لئے انسان ترس رہا ہو وہاں اک منسٹر کے ہیلی کاپٹر کے اترنے کے لیے ہیلی پیڈ بنانے کے لئے دس ہزار لیٹر پانی کا استعمال ضروری ہے؟جب کہ لاتور میں ،وزیر کے ہیلی کاپٹر کے ہیلی پیڈ کے قریب ریلوے اسٹیشن اور ہوائی اڈہ قریب میں موجود ہو۔ اسی طرح مہاراشٹرا کی اک وزیر پنکجامونڈ ے ہیں۔وہ بھی سوکھا زدہ لاتور،سو کھازدہ علاقوں کا جائیزہ لینے پہنچتی ہیں مگر یہاں وہ اپنے اسمارٹ فون سے اپنی سیلفی لیتی نظر آتی ہیں۔
گویا وہ یہاں سیر و سیاحت کے لئے آئی ہیں۔کیا،غم زدہ علاقوں کے لوگوں کا حال جاننے کے لئے،عوام کے ووٹوں سے منتخب وزراء اس طرح بادشاہی ٹھاٹ باٹ کے ساتھ ،دورہ کرتے ہیں؟
یوں قدم قدم پر عوام کو جمہوریت جیسے اہم طرز حکومت میں،حکمرانوں کے چہروں سے واضح طور پر نقاب الٹتی نظر آتی ہیں کہ انہوں نے حق انصاف کے نام پر ،خدمت خلق کے نام پر، کس خباثت پر چہرہ چھپا رکھا ہے۔پہلے راجا مہا راجا بادشاہ نواب ہوا کرتے تھے۔ ریاست کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر جو من میں آیا کیا کرتے تھے۔ویسیا آج کی جمہوریت میں وزراء ہیں۔لگتا ہے یہ لوگ اپنے کو پرانے راجے، مہاراجے سمجھ رہے ہیں۔ حکومت کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ لیا ہے۔دستور پر ایمانداری سے چلنے کی قسم کھانے کے باوجود،ان میں دستور کی پاسداری کا خیال نہیں۔جو جمہوریت پر بدنام داغ کے سوا کچھ نہیں ۔
مودی جی کی حکومت کے دو سال مکمل ہوئے،اپنے طور پر ہندوتواوادی کتنے ہی جشن منا لیں کہ مودی سرکار نے دو سالوں میں ،عوام کے لئے بہت کچھ کیا۔۔الیکٹرک میڈیا ،وہ بالکل بکاؤنظر آرہا ہے۔میڈیا پر ملک کے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کا اکثر و بیثتر قبضہ ہے۔اپنے مفاد کے لئے مودی جی کے حق میں میڈیا کا استعمال دھڑلے سے جاری ہے۔مگر کب تک؟عوام کو ایک بار بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ بار بار نہیں۔
جو تم کو پسند ہے وہ بات کریں گے
تم دن کو رات کہو ہم رات کہیں گے
ملک کا اکثر وبیثتر الیکٹرک میڈیا مودی جی کے لئے اسی شعر پر گامزن ہے۔مودی جی کے حق میں اس قدر میڈیا حامی ہونے کے باوجود بھی،حالیہ پانچ صوبوں کے اسمبلی الیکشن کے نتائیج مودی جی کے موافق بالکل نہیں۔ آسام میں بی جے پی کا اقتدار مودی جی کی پارٹی کوئی وہاں کی دو سری علاقائی پارٹیوں سے سیاسی مفاہمت کی بناء پر ملا ہے،تن تنہا نہیں۔اس سے کئی گنا بڑھ چڑھ کر ،ممتا بنرجی کو مغربی بنگال میں ، اسمبلی الیکشن میں کامیابی ملی ہے۔یہ کامیابی ممتا بنرجی کو، کسی سیاسی پارٹی کی مفاہمت کے بغیر اپنی شاندار سماجی کارگذاری کی بناء پر تن تنہا ملی ہے۔ الیکٹرک میڈیا اس پر کوئی ڈھول بجاتے نظر نہیں آتا ،جتنا آسام میں کئی سیاسی علاقائی پارٹیوں سے سیاسی مفاہمت کی بناء پر بی جے پی کی کامیابی پر نظر آرہا ہے۔دیش کا کسان خشک سالی سے خودکشی کررہا ہے۔مودی جی اپنی حکومت کی دوسالہ کارگذاری کو ترقی سے تعبیر کررہے ہیں۔ ملک کی راجدھانی دہلی میں اپنی سرکار کی دو سالہ کارگذاری پر فلمی ستاروں کے ہمراہ اچھل کود و ناچ گانے کررہے ہیں ۔ہزاروں کروڑ روپیہ بی جے پی کی سرکار اپنی جھوٹی شہرت پر خرچ کررہی ہے،یہ مرے پرسو درے لگانے کے مترادف ہے۔ آخر سیاست دانوں کے ہاتھوں ملک کے غریب عوام کا استحصال کب تک؟آخر مودی جی کے دو سالہ راج میں کیا رفاہ عامہ کے کام ہوئے کہ اس کا جشن منایا جائے یہ اپنا منہ مٹھاس بننے کے سوا اور کچھ نہیں ۔


اک طرف ریاست مہاراشٹرا میں ہزاروں اضلاع میں لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔دوسری جانب وزیراعلی کا پرانے راجے مہاراجوں کی طرح، استقبالیہ میں بے پناہ روپیہ اور پانی کا بلاء وجہ استعمال جاری ہے۔ تازہ یہ خبر آئی کہاامراوتی میں ودیراعلی کے دورہ سے قبل ہزاروں لیٹر پانی بہا کر سڑکیں دھونے کا معاملہ سامنے آیا۔ایک طرف وزیراعلی عوام کو بوند بوند پانی نہ ضائع کرنے کا مشورہ دے گئے ہیں۔دوسری طرف سرکاری سرپرستی میں،خشک سالی سے انتہائی متاثرہ افراد کے ساتھ کھلواڑ جاری ہے۔ کیوں نہیں بلاوجہ کے وضع کردہ،وزیروں کے لئے بنائے گئے سرکاری آداب کو یک لخت ختم کر دئے جائیں کہ جس میں انتہائی کثیر سرکاری روپیہ پانی کی طرح،نوا بی وضع میں ،سالہا سال سے صرف کیا جارہاہے۔یہ آج کی جمہوریت میں ،مسخرہ پن نہیں تو کیا!۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا