English   /   Kannada   /   Nawayathi

اختلاف کے بھی آداب ہوتے ہیں

share with us

ہمارے والد مولانامحمد منظورنعمانی کے ایک زمانہ میں مولانا حشمت علی خاں صاحب سے مناظرے ہواکرتے تھے ۔موضوع حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے مضامین یا انکی کسی کتاب کا کوئی حصہ ہوا کرتا تھا ۔مولانا حشمت علی خاں کا انداز ہمیشہ جارحانہ ہوتا تھا ۔وہ تقریر شروع کرتے ہوئے فرماتے تھے ۔کلّ دیوبندیوّن کافرون۔وکُلّ غیر بریلیّون کافرون۔اسکے بعدوہ کہتے تھے جو کہنا ہوتا تھا ۔ایسے مناظرے نہ جانے کتنے ہوئے ۔
ایک بار والد صاحب حج کے لئے بحری جہاز سے جارہے تھے اسی جہاز سے مولانا حشمت علی خاں صاحب بھی حج کے لئے جارہے تھے ۔والد کو احرام کے مسئلہ میں کوئی اشکال تھا ۔انہیں خیال آیا کہ اس مسئلہ میں مولانا احمدرضاخاں صاحب کا جو فتویٰ ہوگا وہ مولانا حشمت علی کو ضرور معلوم ہوگا ۔وہ اٹھے اور مولانا حشمت علی صاحب کے پاس پہنچ گئے ۔مولانا حشمت علی تو یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ برسوں مناظرے کرنے والے مولوی منظور ان سے ملنے بھی آسکتے ہیں ؟ایک ہی منٹ کے بعد مولانا حشمت علی خاں کھڑے ہوگئے اور گلے ملنے کے لئے ہاتھ پھیلا دئے ۔اور کہا میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’اکرموکریم قوم‘‘اپنی قوم کے معزز لوگوں کی تم بھی عزت کرو ۔اور کہا کہ کیسے ملنے کا خیال آگیا ؟والد صاحب نے کہا کہ احرام کے مسئلہ میں مولانا احمد رضاخاں صاحب کا کیا عمل تھا؟آپ کے ذہن میں ہوتو فرمائیں ۔اور مولانا حشمت علی صاحب نے مسئلہ بتا دیا ۔
برسہا برس ایک دوسرے کے مخالف رہنے کے بعد بھی اور کلُّ غیربریلیّون کافرون کہنے اور ماننے کے بعد بھی بریلوی مسلک کے اپنے وقت کے سب سے بڑے ترجمان نے اکرام اور ملاقات کی یہ گنجائش نکالی کہ فخر کائنات نے فرمایا ہے اکرمو کریم قوم۔شوکت بھارتی صاحب کے نام کے ساتھ’’ صدر ورلڈ وسیلہ فرنٹ ‘‘بھی لکھا ہے جیسے یہ کوئی عالمی تنظیم ہے ۔لیکن اتنی بڑی تنظیم کے اتنے بڑے اور خوب رو صدر کے قلم کا ذائقہ اتنا کڑوا تو نہ ہونا چاہئے کہ ایسا محسوس ہو جیسے کوئی تھری پیس سوٹ زیب تن کئے پانچ لاکھ کی کار سے اترے اور جس سائیکل سے کار پر ذرا سی لائن کھینچ گئی ہے ۔اسے تیر ی ماں کی اور تیری بہن کی کرنے لگے ؟
شوکت صاحب نے شیخ محمد ابن عبد الوہاب، علامہ ابن تیمیہ،حضرت سید احمد شہید ،حضرت مولانا اسمٰعیل شہید،وغیرہ کے بارے میں جو زبان استعمال کی ہے ۔اور ان سے منسوب جو واقعات بیان کئے ہیں او ر جس انداز میں بیان کئے ہیں ۔وہ کم از کم ایسی شکل وصورت اور عالمی تنظیم کے صدر کے بارے میں اگر کوئی بیان کرتا۔ اورہم نے مضمون نہ پڑھا ہوتا تو خدا کی قسم ہرگز یقین نہ آتا ۔ہم خود تو بہت معمولی آدمی ہیں۔لیکن جس خاندان اور خانوادہ سے تعلق ہے وہ دیوبندی مسلک کے ممتاز عالم مانے جاتے ہیں ۔کافی دنوں پہلے بھی ہم نے مولانااحمد رضا خاں صاحب کے ایک فتوے کا ذکر کیا تھا ۔اور اب مولانا توقیر رضا خاں صاحب جو ان کے پوتے ہیں انہیں آج کے علما میں سب سے بڑا لکھا ہے ۔ہمیں لکھتے وقت ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ انکا کس خانوادے سے تعلق ہے ؟اور ہمارے بڑوں اور انکے بڑوں کے درمیان کن کن مسائل میں کتنا شدید اختلاف ہے ؟
شوکت بھارتی صاحب نے صوفیائے کرام کی کانفرنس کی مخالفت کرنے والوں پر گالیاں برسائی ہیں ۔وہ اگر اودھ نامہ ۔اپنا اخبار لکھنو ،جدید خبر دہلی ،اردو نیوز ممبئی ،اخبار مشرق کلکتہ ،اور قومی تنظیم پٹنہ یامنصف حیدرآباد پڑھتے ہوں تو انہیں معلوم ہوگا کہ ہم نے تو ایک دن بھی اس مسئلہ پر نہیں لکھا ۔اور اگر لکھتے تو کوئی گناہ بھی نہیں تھا ۔لیکن ہم یہ نہیں سمجھ سکے کہ جن حضرات نے اس کانفرنس کے خلاف لکھا بھی تو انکے رشتہ علامہ شیخ محمد بن عبدالوہاب یا علامہ ابن تیمیہ سے کیسے مل گئے ۔؟ان کے ماننے والے ہندوستان میں تو کم ہیں ۔لیکن پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔کیا پوری دنیا میں اس صوفی کانفرنس کے خلاف ریلیاں ہو رہی ہیں ؟
ہمیں نہیں معلوم وسیلہ فرنٹ نے شوکت صاحب کو صدر بنایا ہے یا شوکت صاحب نے وسیلہ فرنٹ بنایا ہے ۔؟لیکن اتنا بتا دیں کہ۔ انہیں ان الزامات سے جتنی تکلیف ہوئی ہے ۔اس سے بہت زیادہ ان کے مضمون سے ان مسلمانوں کو تکلیف ہوئی ہے جو واقعی دین دار مسلمان ہیں ۔شیخ بن عبد الوہاب یا دوسرے بہت بڑے بزرگوں پرشوکت صاحب نے جو الزام لگائے ہیں وہ دوسو برس پہلے انکی زندگی میں ہی جہالت اور علم نہ ہونے کی وجہ سے اور انگریزوں کی حکومت کو خوش کرنے کی وجہ سے لگ چکے ہیں ۔ان میں شوکت صاحب نے تبلیغی جماعت کو اس لئے لپیٹ لیا ہے کہ اسکی عمر ابھی سو سال بھی نہیں ہوئی ہے ۔
ہمارے داداکا نام احمدحسین تھا ۔وہ جوانی میں اپنے زمانے کے صوفیوں سے بہت عقیدت رکھتے تھے ۔گھر کی اوپر کی چھت پر ایک کوٹھری تھی جس میں انکی زندگی میں تالا پڑارہتا تھا ۔دادی صاحبہ بتایا کرتی تھیں کہ اس میں تمہارے دادا ابا چلہ کھینچتے تھے جسے بچپن میں ہم نہ سمجھ سکے ۔ہمارے ہوش میں سب انہیں صوفی جی کہتے تھے ۔بچپن میں یہ بھی دیکھا تھا کہ صوفیاء کرام آتے تھے اور انکی مدارات انکے معمول کے مطابق ہوتی تھی ۔انہوں نے اپنے تین بیٹوں کو آخر میں دیوبند میں پڑھایا ۔اسکے بعد گھر کا ماحول بد ل گیا ۔لیکن ایک صوفی میاں صاحب جگائی شاہ دادا ابا کے پاس انکی زندگی کے آخری دن تک آتے رہے ۔اور یہ دیکھ کر تعجب ہوتا تھا کہ عصر کی نماز کے لئے دادا ابا اٹھتے وقت میاں صاحب سے یہ کہہ کر جاتے تھے کہ میں ذرا نماز پڑھ آؤں ۔اور ہم بچے سوچا کرتے تھے کہ ہم نماز کے لئے نہ جائیں تو وہ کان پکڑتے تھے اور میاں صاحب سے کبھی نہیں کہا کہ آپ بھی چلئے ۔
اوریہ تو اس وقت کی بات ہے جب ہم خود پریس کا کاروبار دیکھتے تھے دوحضرات صوفیانہ لباس زیب تن کئے ہر سال عرس کے پوسٹر چھپوانے آتے تھے اکثر ایسا ہوجاتا تھا کہ کا م ہورہا ہے اور اذان کی آواز آگئی اور ہم جسے بھی نماز پڑھنا ہوتی وہ اجازت لیکر نماز کے لئے چلے گئے ۔ایک بار ان میں سے ایک صاحب کو دوسرے سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اب ہمیں بھی نماز پڑھنا ہی پڑے گی؟ اور یہ تو جو چاہے دیوہ جاکر دیکھ لے کہ زعفرانی احرام پوش ایک دوسرے کو سلام نہیں کرتے یا وارث کرتے ہیں لیکن ان باتوں سے انکا کوئی تعلق نہیں ۔ہم تو بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شوکت صاحب جن پر گندگی پھینک رہے ہیں وہ ایسے ہیں کہ ان میں آپس میں اس بات پر اختلاف ہے کہ نماز نہ پڑھنے والا مسلمان مانا جائے یا نہیں؟بعض کہتے ہیں کہ نماز نہیں تو اسلام نہیں ۔بعض کہتے ہیں کہ بہت بڑا گنہگار ہے اور یہ تو شرک ہی ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی بزرگ سے چاہے وہ کتنا ہی بڑا بزرگ ہو مانگا جائے ۔اس وجہ سے ان مزاروں کے گنبد گرادئے گئے کیونکہ لوگ شرک کرنے لگے تھے اور اسمیں تو کسی کوشک نہیں کہ پروردگار شرک کومعاف نہیں کرسکتے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا