English   /   Kannada   /   Nawayathi

عبادت کے نام پر خرمستیاں

share with us

ہم نے حدیث کی کتابوں میں خود بھی دیکھا تھا اور حدیث کے استاذ عالموں سے بھی اسکی تصدیق کی تھی کہ اگر وہ عبادت کی کوئی رات ہوتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ آقائے کائنات ﷺ تمام اہل خانہ سے نہ فرماتے کہ یہ رات سونے کی نہیں عبادت کی ہے ؟اور کیا صحابہؓ کو ہدایت نہ فرماتے پوری رات عبادت کرو اور سب جنت البقیع جاؤ۔
گذشتہ سال ہمارے مضمون کے جواب میں بعض محترم حضرات نے وہی سب لکھا جس کی بنیا د پر مسلمان اپنے بزرگوں کی قبروں کو رنگتے ہیں ۔لکھنو کی عید گاہ سے قبرستان تک درجنوں ٹھیلے لگتے ہیں جس پر بریانی کے پتیلے رکھے ہوتے ہیں یا موم بتیاں اور اگر بتیاں فروخت ہورہی ہوتی ہیں ۔اور16شعبان کو یہ خبریں سن لی کہ لکھنؤ میں بھی جوانان ملت نے وہی کرتب دکھائے جس کے لئے دہلی بدنام تھی کہ ایک ایک موٹر سائیکل پر تین یا چار۴ فرزندان اسلام سوار ہیں سر پر ٹوپی بھی ہے اور جسم پر کرتا پاجامہ بھی جس سے اعلان ہوتا ہے کہ ہم فرزندان اسلام ہیں اور وہ سپاقبرستان سے عیش باغ وہاں سے پیپر مل کالونی والے نشاط گنج قبرستان اور وہاں سے اجریاؤں کے گنج شہیداں ہوتے ہوئے ڈالی گنج کے قبرستان کے تمام مردوں کو بخشواکر صبح ہوتے گھر آتے ہیں ۔اور سیدھے سادھے ماں باپ سمجھتے ہیں کہ بیٹا پوری رات عبادت کرکے گھر آیا ہے اب اسے سونے دو اور جب آنکھ کھل جائے تو اسے حلوہ کھلا دینا۔
اس سال ہمارے کالم گواہ ہیں کہ ہم نے ایک لفظ بھی اس لئے نہیں لکھا کہ اگر ہم کسی بات کو صحیح اور کسی کو غلط سمجھتے ہیں تو وہ ایک بار کہدینے یا لکھ دینے سے اپنا فرض ادا ہوجاتا ہے ہر سال وہی باجا بجانے سے مقابلہ کی شکل پیدا ہوتی ہے ۔اور یہ مضر ہے ۔25مئی کے سہارا میں اداریہ کا عنوان ہے ’’نوجوانوں کی خرمستیاں ‘‘ہر اردو اخبار پڑھنے والا اتنا تو ضرور جانتا ہے کہ خر کے معنی گدھا ہیں ۔رہیں اسکی خرمستیاں تو وہ انہوں نے دیکھی ہونگی جنہوں نے گدھے پالے ہیں ۔لکھنے والے نے خرمستیاں ان حرکتوں کو کہا ہے جو برسوں سے شعبان کی 15ویں شب میں دہلی میں مسلمان نوجوان کرتے ہیں ۔اور ہر سال ہر ٹی وی چینل اہتمام کے ساتھ رک رک کر دن بھر دکھا تا رہتا ہے اور ہم جیسے سن رسیدہ بوڑھے شرم سے پانی پانی ہوتے رہتے ہیں ۔اسلئے کہ اسکے دکھانے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ ملک میں ہندو نوجوانوں کو ہی چھوٹ نہیں ہے کہ وہ خرمستیاں کرنے کے لئے موٹر سائیکلوں پر کرتب دکھائیں ۔مسلمان نوجوان بھی سا ل کی ایک پوری رات خرمستیاں کرتے ہیں اور شریف راہ گیروں کا سڑکوں پر چلنا حرام کردیتے ہیں ۔
اس سال کی خبر کے مطابق دو ہزار چار سو چالان کاٹے ۔دو سو موٹر سائیکلیں ضبط کیں ۔اور تین ہزار ان نوجوانوں کو نوٹس بھیجے ہیں جو پولس کی گرفت میں نہیں آسکے ۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ دہلی کی سڑکوں پر چھ ہزار موٹر سائیکلیں دوڑ رہی تھیں جن پر سوار کم از کم بیس ہزارفرزند اسلام خرمستیوں کے ذریعہ اپنے مرحوم عزیزوں کو ایصال ثواب کررہے تھے ۔اور خود عبادت کررہے تھے ۔ظاہر ہے یہ وہ نہیں تھے جنہوں نے ہمارا یا ہم جیسوں کا مضمون پڑھا ہو ۔جس میں کہا گیا تھا کہ شعبان کی 15ویں شب بھی ایسی ہی ایک شب ہے جیسی 14ویں شب اور ان کے بعد 16ویں شب ۔ہر شب میں عبادت اس لئے کرنا چاہئے کہ حضور اکر ﷺ نے اسکو اپنا مہینہ کہا ہے ۔
جس رفتار سے ملک میں موٹر سائیکلیں بن رہی اور بک رہی ہیں اور محنت کرنے اور کمانے والوں کے پاس جس رفتار سے پیسہ آرہا ہے ۔ہمیں تو قع کرنا چاہئے کہ دہلی میں اگلے سال 12ہزار موٹر سائیکلیں مسلمانوں کے پاس ہوچکی ہونگی اور خرمستیوں جیسی عبادت رات بھر کرنے والوں کی تعداد بھی چالیس ہزار ہو چکی ہوگی ۔اسکے بعد دیکھئے کہ مودی سرکار کے کنٹرول میں رہنے والی دہلی پولس ان 40ہزار عباد ت گزاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے ؟انہیں تہاڑ جیل میں عبادت کراتی ہے یا وہیں سڑکوں پر اسوقت تک مرغا بناتی ہے جب تک دہلی کے سارے مرغ اذان نہ دینے لگیں ۔اس لئے کہ شرم وغیرت انہیں تو ہے نہیں کیو نکہ شرمندہ ہونے اور معافی مانگنے کے لئے گھروں میں ہمارے جیسے سفید بالوں والے موجود ہیں ۔اور بشرط ضرورت ضمانت کرانے والے باپ اور بھائی ہیں ۔
سہارا کے جس اداریہ کا ہم نے حوالہ دیا ہے اسکے لکھنے والے صحافی کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ رات جس میں اللہ تبارک و تعالی ٰبندے کی قسمت کا فیصلہ ایک سال کے لئے صادرفرماتے ہیں۔ وہ رات جو رَبّ سبحانی کی تسبیح ، تلاوت، قرآن نوافل اور اپنے گناہوں پرپشیمانی، و گریہ زاری کر کے ندامت کے چند آنسو گرا کر اپنی عاقبت سنوارنے کی رات ہے۔ اس رات میں اس طرح کی خرمستیاں اس بات کا مظہر ہیں کہ بقول علامہ اقبال’ احساسِ زیاں جاتا رہا‘۔
اس اداریہ میں عزیز ساتھی نے لکھا ہے کہ قوموں کا وقار قربانی و ایثار سے قائم ہوتا ہے۔ ہلّڑ بازی ہنگامہ آرائی خرمستیاں اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے۔
ہم نے گزشتہ سال لکھا تھا کہ جب اتنی ہی اہم رات ہے تو لیلۃ القدر کی طرح قرآن عظیم میں کہیں ایک بار ہی اس کا ذکر یا اشارہ ہونا چاہئے تھا۔جبکہ اس چھوٹی سی صورت میں تین بار لیلۃ القدر کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔ہر مسلمان جانتا ہے کہ رمضان المبارک کی ہر رات عبادت کی رات ہے اسکے فضائل سے کتابیں بھر ی پڑی ہیں ۔ہر شب تراویح کی مزید 20رکعات پڑھی جاتی ہیں ۔ہر کسی نے دیکھا ہوگا کہ جب تک تراویح میں پورا قرآن عظیم نہ پڑھ لیا جائے مسجد یں لبالب بھر ی رہتی ہیں اور تراویح میں قرآن پورا ہونے کے بعد بھی کسی نے نہ دیکھا ہوگا کہ مسلمان نوجوان موٹر سائکلیں نکال کر خرمستیاں کرنے کے لئے جھنڈ کے جھنڈ نکل پڑیں ۔
شعبان کی 15وی شب اور 15ویں تاریخ کے بارے میں مبالغہ کرنے والوں نے جو کچھ لکھا اور کہا ہے اس سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شب برأت لیلۃ القدر سے تو کم ہے مگر رمضان شریف کی عام راتوں سے زیادہ افضل اور اہم ہے ۔لیکن رمضان شریف کی 30راتوں میں سے کسی ایک رات میں ایسی مستیاں بھی نہ ہونا اور شعبان کی 15ویں شب میں دہلی تو کیا لکھنو میں بھی خرمستیاں ہونا کیا یہ اشارہ نہیں کرتا کہ شعبان کی 15ویں شب شب برأت ہے نہیں بنا دی گئی ہے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا