English   /   Kannada   /   Nawayathi

مہارشٹراسمبلی کا غیر آئینی فیصلہ

share with us

ان کی معطلی کی تجویز کی حمایت کرکے کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی نے اپنے منہ پر کالک پوت لی ہے کیونکہ نہ تو آئین اور نہ ہی ایوان کیاصول وضوابط میں کہیں اس بات کا ذکر ہے کہ ممبران کے لئے بھارت ماتا کی جے کانعرہ لگانا لازمی ہے اسپیکرصاحب سے جب دریافت کیا گیا کہ وارث پٹھان کو کس ضابطہ کے تحت معطل کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ایوان کے جذبات کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسپیکر کو کسی بھی ممبر کو معطل کرنے کا اختیار ہے لیکن اس معاملہ میں فیصلہ اسپیکر کا نہیں بلکہ پورے ایوان کا ہے یعنی فیصلہ اصول وضوابط کے تحت نہیں بلکہ ایوان کی اجتماعی مرضی سے کیا گیا ہے اس دلیل کے تحت دہلی اسمبلی کے 70میں سے 67ممبران جن کا تعلق حکمران عام آدمی پارٹی سے ہے بی جیپی کے باقی ماندہ تینوں ممبران کو معطل کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ایوان کی اجتماعی مرضی کا اظہار ہوگا یہ ناقابل فہم اور ناقابل قبول دلیل صرف انبوہ گردی(Mobocracy)میں کی قبولکی جاسکتی کے۔ جمہوریت قانون اصول اور ضوابط کی پابندی کرتی ہے۔ صحیح صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے لوک سبھاکے سابق سکریٹر ی جنرل پی ڈی ٹی آچاری نے کہا کہ کسی ممبرکو صرف اس وقت معطل کیا جاسکتا ہے جب وہ ایوان کی کاروائی میں رخنہ ڈال رہا ہو اور اسپیکر کی حکم عدولی کر رہا ہو اس کے علاوہ کسی بھی ممبر کی ایوان سے معطلی کی اور کوئی وجہ نہیں ہوسکتی اس لئیاس معاملہ میں اہم سوال یہی ہے کہ کیا مسٹر وارث پٹھا ن ایوان کی کاروائی میں رخنہ ڈال رہے تھے اور کیاانھوں نے اسپیکر کی حکم عدولی کی تھی اگر ایسا نہیں ہے تو ممبر کی معطلی کا کوئی جواز نہیں دکھائی دیتا۔ایک دوسرے برسرکار عہدیدار نے کہا کہ کاروائی یاتو نازیبا بیان پر ہوتی یا نازیبا حرکت پر جس کے لئے باقاعدہ اصول وضوابط موجود ہیں لیکن وارث پٹھان نے نہ تو کوئی نازیبا حرکت کی اور نہ ہی کوئی نازیبا بات کہی تو پھر یہ کاروائی کیوں ہوئی یہ سمجھ میں نہیں آتا سب سے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وارث پٹھان کو اپنا موقف پیش کرنے کا بھی موقع نہیں دیا ان کو اس بات کی شکایت ہے کہ اتنی سخت اور ایک طرفہ کاروائی کرنے سے قبل انہیں کم سے کم اپنی بات کہنیکا موقع تو دیا جاتا۔یہ نہ صرف قانون اصول اور ضوابط کی خلاف ورزی ہے بلکہ فطری انصاف کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے کیونکہ سپریم کورٹ تک ملزم کو اپنی بات کہنے اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع دیتا ہے۔
یہ معاملہ اس وقت اور بھی حیر ت انگیز بلکہ مضحکہ خیز ہوجاتا ہے جب یہ بحث کا موضوع بالکل الگ تھا۔ ایوان کی کاروائی کے دو ران وارث پٹھان اپنی تقریر میں اس بات پر زور دے رہے تھے کہ یادگاروں وغیرہ کے لئے رقم مختص کرنے سے بہتر ہے کہ یہ رقم مفاد عامہ مثلا اسپتالوں وغیرہ کی بہتری پر خرچ کی جائے اس پر بی جے پی اور شیو سینا کیممبروں نے شور مچانا شروع کردیا اور کہا کہ کیا آپ محبان وطن کی عزت نہیں کرتے پہلے بھارت ماتا کی جے کانعرہ لگاؤ اس پر وارث پٹھان نے نعرہ لگانے سے انکار کر دیا ،وارث پٹھان کے اس انکار پر دوسرے ممبران بھی مشتعل ہوگئیگانگریس کے عبد
الستار اور دیگر ممبران نیز نیشنلسٹ کانگریس کے ممبران بھی وارث پٹھان کیخلاف اٹھ کھڑے ہوئے ،وارث پٹھان کا کہنا تھا کہ وہ جے ہند اور ہندوستان زندہ باد کا نعرہ لگا سکتے ہیں لیکن بھارت ماتا کی جے کا نعرہ نہیں لگا سکتے۔وارث پٹھان کی معطلی غیر آئینی اور غیر اصولی ہے بہتر ہوگا کہ و ہ اس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں حالانکہ عدالت ایوان کے اندورونی کاروائی میں مداخلت سے گریز کرتی ہے لیکن یہ معطلی کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک آئینی بحران ہے جس پہ سپریم کورٹ کو حتمی فیصلہ دینا چاہئے کیونکہ یہ بات اور یہ مہم یہیں نہیں ختم ہوگی کسی بھی ایوان میں اکثریت کے بل پر ایسی غیر آئینی اور غیر اصولی کاروائی ہوسکتی ہے۔دراصل اس ایک واقعہ نے ہمارے پورے جمہوری اور آئینی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے 
۔ویسے ایمانداری کی بات یہ ہے کہ بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگا نایا نہ لگانا ہر شہر ی کی اپنی مرضی کا سودا ہے مسلمان اگر یہ نعرہ لگا دیں گے تو انکا ایمان قطعی خطرہ میں نہیں پڑے گا کیو نکہ اللہ نیت دیکھتا ہے۔آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ایک عمومی بات کہی تھی کہ سب کو بھارت ماتا کی جیکانعرہ لگا نا چاہئے لیکن اسد الدین اویسی صاحب نے ہی اس پر رد عمل ظاہر کرنا کیوں ضروری سمجھا اور وہ بھی اتنا شدید رد عمل کہ گردن پر چھری رکھ دی جائے تو بھی یہ نعرہ نہیں لگائیں گے صاف ظاہر ہے کہ بھاگوت اور اویسی دونوں عوام کی جذبات سے کھیل کر اپنی سیاسی روٹیاں سینک رہے ہیں بھاگوت اگر قومی جذبات بھڑکا رہے ہیں تو اویسی صاحب مذہبی دونوں کامقصد خالص سیاسی ہے اورسامنے یوپی سمیت متعدد ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا