English   /   Kannada   /   Nawayathi

اپنی کثرت پہ نہ اتراؤ،خداتم بھی نہیں!

share with us

ایسے موقع پر اسمبلی اور پارلیمنٹ میں نہ جانے کتنے نام نہاد مسلمان تھے لیکن کسی نے ٹھیک سے اپنے منھ کو نہیں کھولا اورسب اپنے آقاؤں کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے،لیکن اس وقت بھی اس مرد مجاہد نے ایوان سے لیکر سڑکوں تک اس ظلم و جبرکے خلاف آواز بلند کی تھی۔ اِس وقت بھی بھارت ماتاکی جے کے مسئلے پران کا بیان سو فیصد درست اور عین مصلحت ہے کیوں کہ موجودہ حکومت کا جو نظریہ ہے وہ یہی ہے کہ اس جمہوری ملک کو ہندو راشٹر بنادیا جائے اورفرضی حب الوطنی کی تلوار سے مسلمانوں کو ایوانوں سے، سیاست سے، سماج سے اس قدر تیغ و تہیہ کردیاجائے کہ وہ چھٹپٹا کربالآخربات کو ماننے کیلیے تیار ہو جائیں، اگر بے باک قائد وہاں ڈر جاتے ہیں تو اس مطلب یہ ہوتا ہے کہ راشٹر وادکے نام پر غنڈہ گردی کرنے والوں کو اس ملک میں جینے اور رہنے کا اپنا اختیار سونپ دیاجائے، یہ ڈرنے کا وقت نہیں ،ڈٹ کر کھڑے ہونے کا وقت اور ڈنکے کی چوٹ سے حق بات کہنے کا وقت ہے، ایک ساتھ مل کریہ کہنے کا وقت ہے کہ یہ وطن ہمارا ہے، ہمارا رہے گا، ہم اس سے محبت کرتے ہیں، لیکن اس کی عبادت نہیں اور جب عبادت نہیں کرتے ہیں تو بھارت ماتا کی جے بھی نہیں کہیں گے، کیوں کہ یہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے کیونکہ یہ کلمہ کفر ہے کیونکہ یہ بنگالی زبان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے ناول ’’آنند مٹھ‘‘ کا حصہ ہے ،جوانگریزوں کی تائید و حمایت میں ہندؤوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کے لیے لکھے گئے اس ناول میں ایک گانا’وندے ماتر م ‘ شامل کیا گیاہے۔ یہ ایک ایسا ناول ہے جو فرقہ وارانہ تعصب اور نفرت سے پوری طرح آلودہ ہے۔ یہ ناول وطن کے مشرکانہ تصور پر مبنی ہے۔اس میں مادر وطن کو ایک مذہبی دیوی کہہ کر پکارا گیا ہے اور اس کو معبود کا درجہ دیا گیا ہے۔ارض وطن کی پرستش کی دعوت دی گئی ہے، اس گانے کے ایک ایک لفظ سے اس مشرکانہ عقیدہ کی بو آتی ہے جو نت نئے بھگوان تراشنے والوں کی پہچان کا درجہ رکھتا ہے۔اس مشرکانہ گیت کا اردو ترجمہ یہ ہے :
(۱)میں تیری حمد کرتا ہوں اے میری ماں؛ اچھے پانی ،اچھے پھلوں بھینی خشک جنوبی ہواؤں، شاداب کھیتوں والی میری ماں(۲) حسین چاندنی سے روشن رات والی، شگفتہ پھو لوں والی، گنجان درختوں والی، میٹھی زبان والی، میٹھی ہنسی والی، سکھ دینے والی، برکت دینے والی میری ماں (۳)تیس کروڑ لوگوں کی پر جوش آوازیں؛ ساٹھ کروڑ بازؤں میں سنبھلنے والی تلوار یں؛ کیا اتنی قوت کے ہوتے ہوئے بھی اے ماں تو کمزور ہے؟ توہی ہماری بازؤں کی قوت ہے ؛میں تیرے قدم چو متا ہوں اے میری ماں! تو میرا علم ہے ؛تو میرا دھرم ہے؛ تو میرا باطن ہے؛ تو میرا مقصد ہے؛ تو ہی میرے جسم کے اندر کی جان ہے ؛تو ہی بازؤں کی قوت ہے؛ دلوں کے اندر تیری ہی حقیقت ہے ؛تیری ہی محبوب مورتی ہے ایک مندر میں (۴)تو ہی درگا ہے دس مسلح ہاتھوں والی؛ تو ہی کملا ہے،کنول کی پھولوں کی بہار؛ تو ہی دانی ہے علم سے بہرہ ور کرنے والی؛ میں تیرا غلام ہوں؛ غلام کے غلام کا غلام ہوں؛ اچھے پانی والی، اچھے پھولوں والی میری ماں! میں تیرا بندہ ہوں (۵)لہلہاتے کھیتوں والی مقدس موہنی،آراستہ پیراستہ، بڑی قدرت والی قائم و دائم ماں! میں تیرا بندہ ہوں۔
مذکورہ ناول اور اس کا گیت اور نعرہ آج ہی نہیں جنگ آزادی میں بھی متنازعہ رہا ہے؛ اسے کبھی بھی ہندوستان کے قومی گیت کا درجہ نہیں دیا جا سکا اگرچہ جار حانہ ہندو قومیت کا تصور رکھنے والوں میں اس کا چلن چلا آرہا ہے اور چند راشٹر وادی اس موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ وطن کی پرستش سے انکار کو مسلمانوں کی وطن سے بے رغبتی سے تعبیر کرسکیں مگرخود متعدد ہندو لیڈروں نے تسلیم کیا ہے کہ یہ ایک قابل اعتراض گیت ہے۔ مشہور لیڈر ایم این رائے نے کہا ہے’’وندے ماترم کے خلاف مسلمانوں کی نکتہ چینی صحیح بنیاد پر قائم ہے ‘‘۔ڈاکٹر رام منوہر لو ہیا نے۱۹۳۸ میں صاف طورپر کہا تھا کہ آنند مٹھ ناول ہماری تحریک پر ایک داغ ہے۔آنجہانی سبھا ش چندر بوس بھی اس گیت کو ناپسند کرتے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے آزادی کے قبل ہی اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ مسٹر
جواہر لال نہرو اس گیت کو قومی ترانہ نہیں مانتے تھے۔ سی پی ایم کے سیکرٹری سروج مکھر جی نے اعلان بھی کیا تھا کہ ’’ بنکم چندر جی ا پا دھیا ئے کی تصنیف آنند مٹھ ایک ایسا ناول ہے کہ اسے جلاکر اس کی راکھ دریاے ہگلی میں بہا دی جائے‘‘۔اس ناول میں اسلام کے خلاف زہر اگلتے ہوئے کہا گیا ہے۔ ’’ بھائی وہ دن کب آئے گا جب ہم مسجدوں کو مسمار کریں گے‘‘۔
توایسے میں ایم آئی ایم سربراہ کا یہ بیان کہ گردن پر چھری بھی رکھ دی جائے تو ہم بھارت ماتا کی جے نہیں بولیں گے وہ صرف اس وجہ سے تھا کہ مسلمان شرک سے سمجھوتا نہیں کرسکتے کیونکہ شرک ایک ایسی برائی ہے جس سے اسلام کہیں بھی اور کبھی بھی سمجھوتا نہیں کرتا۔یہ ایسا ناقابل معافی جرم ہے کہ اگر اسی حالت میں انسان مر جاتا ہے تو خدا اس کی مغفرت نہیں کریگا۔شرک عظیم ترین گناہ ہے اور افسوس ناک جہالت بھی۔یہ اندھیرا ہے ،اور روشنی اور اندھیرا ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے توحید اور شرک میں اتحاد نہیں ہوتا، نہیں ہو سکتا۔ جہاں توحید ہے وہاں شرک نہیں رہتا ،جہاں شرک ہوگا وہاں توحید کا سوال نہیں۔ اور کیوں نہ ہو کہ توحید مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے اور شرک اس کی ضد ہے۔اس لیے فطری اور قدرتی طور پر مسلمان شرک بیزار ہوتا ہے اور اسے ہو نا ہی چاہیے۔ اب ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مذہبی آزادی کے حق کو دستور ی طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور اسی کے تحت پتھروں، درختوں دریاؤں اور جانوروں کی پوجا کرنے والوں پر قانونی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی توآخر کس طرح خدائے واحد کی بندگی پر یقین رکھنے والوں کو پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ مشرکانہ خیالات اور افکار پر مبنی کسی نعرہ کو قوم وو طن کے نام پر قبول کرلیں۔ اگر اپنے عقیدہ اور عمل کے معاملہ میں ہندوستان کے شہری آزاد ہیں تو کس منطق سے مسلمان کو قائل کیا جا سکتا ہے کہ وہ وطن کی خدائی کے تصور کو گلے لگا لیں حالانکہ وہ ان کے عقیدۂ توحید کی ضد ہے۔ اگر ایسا کرنا ہے تو دستور ملکی ،شہری حقوق اور جمہوریت کو دیش سے نکال دو اور کوئی ایسا دستور بناؤ جس میں من مانی کرنے کا حق کسی ایک طبقہ یا ایک پارٹی کو دے دیا گیا ہو۔ بصورت دیگر وندے ماترم جیسے گیت اور بھارت ماتاکی جے کو سب کے لیے لازم قرار دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ معلوم رہنا چاہئے کہ مسلمانوں سے بھارت ماتا کی جے کا نعرہ کا مطالبہ کرنا اسلام دشمنی کے ساتھ ساتھ ملک دشمنی بھی ہے۔آخر کسی ملک سے اس سے بڑی دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے باشندوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے اور ان کی آزادی سلب کرلی جائے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا