English   /   Kannada   /   Nawayathi

کبھی خو شی کبھی غم

share with us

ان کا چھوٹا چچا بھی ان کے پاس ہی ناشتہ کا منتطر تھا اور بچوں کو گڑ بر کرتے دیکھ کر وہ اداس ہو گیا اس کو اپنی بھابھی اچھی لگتی تھی وہ اس کا بہت خیال رکھنا چا ہتا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا بھا بھی اچھی بھلی ناتہ لیکر اندر گئیں تھیں وہاں کیا ہوا ؟ ضرور بھا ئی صاحب کی جھرپ ہو ئی ہو گی شاید سالن میں نمک زیادہ نکلا ہو گا یا چائے ٹھنڈی ہو گی ۔ بھا ئی صاحب کا دل نہیں کڑھتا بھا بھی کو روتا دکھ کر ۔ فرحان کو دوسرے کے دکھوں کا بڑا خیا ل رہتا تھا ابھی وہ ساتویں ہی سال میں تھا کہ اماں اللہ کے گھر چلی گئیں تھیں اور ابا تو اس کو بالکل یاد نہ تھے ۔ چچا پھو پھیوں خالہ مامو ؤ ں میں بٹ کر وہ پلے تھے خدا خدا کر کے بھا ئی صاحب نے میٹرک کیا تو ان کو دفتر میں کلرک کی نو کری مل گئی اور سب رشتداروں کی جان میں جان آئی اس مصیبت سے چھٹکا رے کا وقت آ گیا مگر ان دو بھا ئیوں کا رکھنا اور کھانے پینے کا انتظام بھی ان کی نگاہوں میں کھٹک رہا تھا ۔ پہلی تنخواہ کی اٹھا کر سب کو مٹھا ئی تقسیم کئے اس کے بعد سب نے ذور دیا کہ رفیع روز گا ر ہو گیا ہے ۔ اسے معزز شریف آدمیوں کی طرح علا حدہ گھر لے کر رہنا چا ہئے اس نے بہت چاہا کہ وہ علاحدہ نہ ہو اتنا بڑا گھر تھا کہ ایک روم میں ان دو بھا ئیوں کی پلنگ اور ایک ٹرنک پڑا رہتا تو کیا حر ج تھا ۔ اب وہ اپنے اور فرحان بھا ئی کے کھانے کے پیسے بھی دیا کریگا اور اس کی تعلیم کا سارا خرچ بھی اٹھا لے گا کپڑے جو تے سے بھی ان کو بے فکری ہو جا ئے گی رہنے کو اپنے گھر ہی میں دے دیں اس کو وہاں سے نکلنے کو نہ کہیں ، ان کے چچا کا دل تو کچھ پسیج چلا تھا مگر چچی نہیں مانی اور اس دن بھا ئی صاحب شام کے وقت روم میں جا کر خوب روئے تھے ۔ ان کی آنکھیں سرخ سرخ گوشت کے ٹکروں کی طرح ہو گئی تھی فرحان دیر تک بھا ئی کو کھڑا دیکھتا رہا ۔ اسے وہ دن یا د آگیا جب بڑے زورکی آندھی چلی تھی ۔ اور سامنے بڑ ا درخت جھولا جھو ل رہاتھا ۔ اس کا اپنا حلق کڑوا ہو رہا تھا اس سے برداشت نہ ہوا تو آگے بڑھا اور بھا ئی کے گلے میں باہیں ڈال کر لیٹ گیا اور اسے دھیمے دھیمے لہجہ میں سسکیوں کے درمیان تسلیاں دینے لگا ۔ آپ کیوں گھبڑا تے ہیں ہم نیا گھر لے لیں گے ۔ سارے کام میں کر دیا کروں گا آپ کا بستر بچھا دیا کروں گا مجھے کپڑے دھو نے بھی آتے ہیں ۔ با زار سے سو دا بھی لا دیا کروں گا ۔ آپ کو کچھ فکر کرنا نہیں پڑ ے گا معصوم بھا ئی کی با تیں نرم نرم پھواروں کی طرح اس کے دل پر پڑیں اور وہ غم کی آگ مدھم ہو نے لگی ۔ ایک چھو ٹا سا مکان ان کو مل ہی گیا اور آہستہ آہستہ مختصر سی چیزیں جما ہو گئیں اکثر تو با زار ہی میں کھانا کھا لیتے تھے ۔ مگر فر حان کو اس کا بہت شو ق تھا کہ گھر کے چو لہے میں بھی ضر ور آگ جلے اس کے شوق کو دیکھ کر رفیع نے نا شتہ گھر ہی پہ تیا ر کر لیتا فرحان دودھ اور بسکٹ خرید لیتا آگ جلتی اس کی بھا پ اس کی چا ئے بنتی دونوں بھا ئی چپ چا پ چا ئے پیتے پھر فرحان بر تن دھو کر الما ری کا تختہ پر رکھ دیتا گھر بن کر کے دونوں بھا ئی نکلتے ایک دفتر کی راہ لیتا ایک اسکول کی ۔ چا بی فرحان کے پاس رہتی کیوں کے وہ جلدی واپس آجایا کر تا تھا ۔ 
ایک سال اسی طرح گزر گیا ان کی پھو پھی کی کو ئی رشتہ دار بیوہ ہو گئیں اور ان کو پھو پھی کے گھر آکر رہنا پڑا ۔ ان کو فکر ہو ا کہ ان کی سیانی اولاد کسی ٹھکانے لگے تو بد نصیب بیوہ کا بوجھ ہلکہ ہو ۔ بڑی لڑکی جو ان تھی غریب بیوہ لڑکی کا اٹھنا سہل نہیں ہو تا ان کا دھیا ن رفیع کی طرف گیا ۔ دونوں بھا ئیوں نے کہنے کو مکان تو لے گیا مگر وہ اجرا سن سان اداس گھر ، گھر کہلانے کا مستحق کہاں تھا نہ وہاں چو ڑیا ں کھنکتیں ، نہ آنچل لہراتے سردی کی شاموں میں ، نہ آ گ نہ دھنواں ، نہ گھر کی دہلیز نہ پکوان کی خشبو با ورچی خانے کی طرف گھسیٹ لے جا تی اس کا دل تو چا ہتا تھا کہ گھر میں دلہن ہو تی مگر اپنی کم ما ئیگی کا خیا ل کر کے خا موش ہو جاتا کہ یہ مرحلہ جب تک ٹل سکے ٹلتا ہی رہے تو اچھا ہے ۔ حالات ذرا بہتر ہو تو پھر دیکھا جا ئیگا ۔ اور جب پھوپھی نے پکڑا ور اونچ نیچ سمجھا ئی تو وہ تیا ر ہو گیا ۔ 
اور جب پہلے دن بھا ئی صا حب نے فرحان کو آہستہ آہستہ یہ خبر سنا ئی تو وہ خو شی کے ما رے دیوانہ سا ہو گیا اسے یقین نہ آ رہا تھا کہ ان کے گھر میں بھا بھی آنے وا لی ہے ۔ یعنی بہا ر آنے والی ہے خزاں کا دور ختم ہو گیا اس اجرے سنسان گھر میں بہا ر انگڑائی لے کر گو شہ گو شہ میں رنگ و نغمہ بکھیر دے گی ۔ وہ بڑی بے چینی سے اس دن کا انتظا ر کر نے لگا ۔ جب چھم چھم کر تی شرخ کپڑے پہنے مہندی لگا ئے گھر میں اند ر با ہر پھرتی دکھا ئی دے گی ، اس خو شی میں بھا ئی صاحب نے اسے سفید لٹھے کا پا جا مہ آسمانی پا ئلن کی قمیص شیا ہ چپل اور سیلٹی رنگ کی ٹو پی لا کر دی اور جب فرحان نے یہ کپڑے پہنے بارات میں جا نے کے لئے تو اس ے کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے وہ خو د ہی دلہا ہے ۔ بھا بھی گھر آگئی جب فرحان نے اسے دیکھا تو وہ اسے ایسی اچھی ایسی پیا ری لگی کہ سمجھ میں نہیں آیا وہ اسے کس چیز سے تشبیہ دے اس نے سو چا اس کی ماں بھی ایسی ہی تھی اس خیا ل نے اس کی نگا ہوں عجب سا پیا ر بھر دیا ۔ فرحا نہ نے شر ما تے شرماتے ہلکے سے گھونگھٹ اٹھا کر فرحان کو دیکھا اس کی نگاہوں میں پیا ر کو مچلتے دیکھ کر وہ مسکرا دی اور اس وقت دونوں میں چپکے سے دوستی کا بندھن پر گیا گھر میں اتنا ہی بڑا پنا بھا ئی چھوڑ کر آئی تھی بھا ئی صا حب کپڑے پہن کر دفتر جا نے لگے تو فرحان اٹھ کر پا س جا کھڑا ہوا انہوں نے اسے دیکھا تو پو چھا کیا بات ہے فرحان بو لا میرخیا ل ہے کہ اکیلے گھر میں بھا بھی گھبرا ئیں گی اور ڈریں گی اگر آپ کہیں تو میں ایک دو دن کی چھٹی لے لوں ، بھا ئی صاحب مسکرا دئے اور کہاکہ فرحان ان سے زیادہ عقلمند نکلا ان کو تو اس با ت کاخیال ہی نہ آیا تھا ۔ ایک دن چھوڑ ایک ہفتہ کی چھٹی لینی چا ہئے کھا نے وغیرہ کا انتظام بھی تو فرحان ہی کو کرنا ہوگا ۔ اورانہوں نے کچھ رو پئے بھا ئی کے ہاتھ پر رکھ دئے کہاجس جس چیز کی ضرورت ہو لے آئے ۔ بھا بھی سے پو چھ کر کھانا خرید لانا ۔ اپنی اہمیت کے احساس سے فرحا ن کا سینہ پھو ل گیا ۔ وہ بھا ئی صاحب کے جا تے ہی بھا ئی کا چا رج سنبھالنے پہنچ گیا بھا بھی تنہا ہی آئی تب بھی گھر بھرا بھرا لگتا ۔ مگر اسکے ساتھ تو اور بہت سی چیزیں آگئیں تھی ۔ 
نیا بستر تھا ، پلنگ تھا ، نئے دو بکس تھے ۔ نیا لوٹا تھا ، چا ئے کے لئے پیا لے تھے سو نے کی طرح چمکتا ہوا چھوٹی بڑی پتیلیاں تھی، ڈھکن تھے ، چمچے تھے ۔ ایک میز تھی دو کرسیاں تھیں ، میزپو ش تھا ، بھا بھی اکیلی کب تھی اس کی ذات میں پو ری گریستی جمع ہو کر آگئی تھی ۔ گھر تو ایک دم بھر گیا تھا فرحان کی خو شی کا کو ئی ٹھکانا نہ تھا یہ سب چیزیں ان کے گھر کیلئے تھیں ان کے گھر میں رہے گی ۔ بر تن گھر میں بے کا ر نہ دھرے رہیں گے ان میں کھانہ پکے گا ان کے گھر میں دونوں وقت آگ روشن ہو ا کرے گا سوندھا سوندھا دھنواں اٹھا کرے گا چوریوں کے کھنکتے نغموں میں روٹیاں پکا کریں گی ۔ وہ گھر کی روٹی کے لئے ترس گیا تھا کب وہ وقت آئے کہ وہ چو لہے کے پا س بیٹھ کر گرم گرم پھلکے کھا ئے ۔ اب اس آرزو کی مجسم تعبیر سامنے تھی ۔ اسکا دل چا ہتا تھا کہ وہ بھا بھی کی ایک ایک چیز اٹھا کر اپنے دل میں سجا تا چلا جا ئے اس نے ایک ایک چیز کو اچھی طرح دیکھا پھر بھا بھی سے پو چھ کر برتن با ور چی خا نہ میں پہنچا آیا با قی سامان کو کمرے کے اندر ہی سنبھال سنوار کر رکھ دیا ۔ اسے یا د نہیں تھا کہ را ت وہ کہاں تھک تھکا کر سو گیا تھا اس نے اس وقت اپنی پرانی چو کی اوربو سیدہ سا بستر چپکے سے سامان والی چھو ٹی سی کو ٹھلی میں اڑا پھنسا کر رکھ دیا ۔ اس کا جی نہ چاہا کہ وہ رنگین بستر کے مکابلہ میں اپنی چار پا ئی وہیں پڑے رہنے دے سب کا موں سے فارغ ہو کر وہ بھا بھی کے منہ کو تکے گیا ۔ تب اسے ایک دم یا د آیا کچھ کھانے کو ہو نا چاہئے اس کی جیب میں بہت سے پیسے تھے آج بھا بھی جو چا ہے خرید کر لا سکتا ہوں ۔ 
اس نے بھا بھی سے ہو چھا وہ کیا خرید کر لائیں اس پر فرحانہ نے حیران ہو کر پو چھا کیا کھاناخریدا جا ئے اس نے اس پر بتایا کہ وہ دونوں بھا ئی دکان پر کھا تے ہیں تب فرحانہ نے سو چا ہو گا کہ وا قع وہ دونوں مرد کہاں پکانا کی جھنجھٹ میں پرتے ہوں گے فرحانہ کچھ دیر سوچتی رہی پھر اس نے رفیع کو مخا طب کیا ایسا کیوں نہ کریں کہ تم مجھے تھو را سا پکا نے کا سامان لا دو پھر ہم گھر میں کھانا تیا ر کریں بازار کے کھانے میں کیا مزہ آئے گا ۔ فرحان اچھل پڑا با لکل ٹھیک آپ بتا دیجئے بلکہ لکھ دیجئے میں سب کچھ لا دوں گا ۔ بازا ر قریب ہی ہے مجھے سا ری دکانوں کا پتہ ہے ۔ فرحان نے مہنیوں آتے جا تے ایک ایک دکان دیکھی تھی یہاں گو شت ملتا ہے ، ادھر بھی مرچ مسالا دال چاول اور وہاں سبزی کی دکان بھی ہے ۔ 
ٖ فرحانہ نے ضرو رت کی سب چیزیں لکھ دیں آدھے گھنٹے کے بعد فرحا ن لدا پھدا سب سامان لے کر آگیا اور اپنی طرٖف حلوہ کی فرما ئش کر دی کہ اور جو دل چاہے پکا ئیں مگر اس کی طرف سے تھو ڑا سا حلوہ ضرور پکا لیں ۔ اس رو ز پہلے دن با ور چی خانہ کی قسمت جا گی تھی قسم قسم کی خو شبو ئیں کھلی تھیں ۔ فرحان کی صلاح سے حلوہ پھراٹے اور سبزی فرحانہ نے پکا ئی ۔ بھا ئی صاحب بھی اس روز کھانے کے وقفہ میں چھٹی لیکر گھر چلے آئے تھے ۔ فرحان نے پہلا لقمہ اٹھایا ہی تھا کہ دروازہ پہ بھا ئی صاحب دکھا ئی دئے اسے ایک دم معلوم ہوا کہ چو لہے کے پاس زلزلہ سا آگیا ہے ۔ فرحانہ جو پو ری تندہی اور انہماک کے ساتھ کام میں مشغول تھیں انہیں دیکھتے ہی برتن چھو ڑ چھاڑ کر کمرہ میں بھا گ گئی ۔ بھا ئی صاحب کے چہرہ پر دلنشیں مسکراہٹ پھیل گئی جو فرحان نے برسوں سے نہ دیکھی تھی ۔ میرا آنا ہی نا گوار گزرا ہے تو لو میں چلا جاتا ہوں فرحان دوڑ کر بھا ئی کی آستین پکڑ لی ایسی کو ئی بات نہیں ہے آپ آئیے تو صحیح ۔ میں لاتا ہوں بھا بھی کو بلا کر ۔ اس نے منہ ہاتھ دھو نے کے لئے بھا ئی کو پانی کا لوٹا دیا اور میز کرسی اٹھا لایا ۔ آپ بیٹھئے کھا نا کھا کر دیکھئے گا بھا بھی نے کیسا مزیدار پکا یا ہے ۔ اب ہم کھا نا بازار سے نہیں خریدا کریں گے نہ دکان پر جا یا کریں گے ۔ سارا سامان گھر ہی میں آگیا ہے اور فرحان بڑی مشکلوں سے اس مسکراتی ، لجاتی ، سمٹی سمٹا ئی دلہن کو پکڑ کر وہیں لے آیا ۔ وہ پیڑھی پر رخ پھیڑ کر بیٹھ گئی ، فرحان نے دیکھا وہ اپنی مہندی لگے نرم نازک ہاتھوں سے کس نرمی اور آہستگی سے کھانا نکال رہی ہے ۔ اس کی پتلی پتلی انگلیاں ہلکے ہلکے لرز رہی تھیں ۔ اس نے اپنی پیا ر بھڑی آنکھیں پہلے بھائی پر ڈالیں پھر بھا بھی پر اور اس کے ہا تھوں سے پلٹے پکر کر بھا ئی کے سامنے میز پر رکھ دیں ۔ 
اس ننہے سے گھر کی خوشیاں اور رونقیں اور آہستہ آہستہ بڑھتی اور پھیلتی رہی ننہے بھتیجہ بھتیجی آگئے پھر جا نے کیا بات ہو ئی کہ بھا بھی کی تندرستی گرنے لگ گئی وہ کمزور ہو تی چلی گئی اس کو بہت کام کرنا پڑتا تھا ۔ صبح شام تک مشقت کی چکی میں پستی تھی بچوں کے سا تھ آرام تو مل ہی نہ سکتا تھا مشکل یہ تھی کہ کو ئی قوت بخش خوراک بھی اس کو مہیا نہ ہو سکتی تھی ۔ پہلے اسکو چلتے پھرتے کام کرتے دیکھ کر فرحان کا دل کو شی سے جھوم اٹھتا تھا اور اب وہ اپنے کمزوری کے ساتھ چلتا پھرتا دیکھ کر سکی انجانے خوف سے دل کو دھک دھک محسوس کرتا ۔ دو سال پہلے اس نے دیکھا کہ ان کی چھوٹی سی جنت میں تنگد ستی کہ سانپ نے سر نکال لیا ہے بھا ئی صاحب کی مختصر سی اور محدود آمدنی تھی ضرورتیں پو ری ہو نا مشکل تھا ، گھر والے کی جان کے فکروں نے گھلا دیا تھا بھا ئی صاحب سب کچھ محسوس کرتے ہوں گے مگر ان کے بس میں کیا تھا وہ حلال روزی کو حرام خو ری میں تبدیل نہیں کر سکتے تھے اور بھابھی کو ایسی تھی کہ اگر کسی کو صحیح عورت کو دیکھنا ہو تو اسے دیکھ لیں ۔ صبر و رضا کی پتلی ، سوکھا کھا کر موٹا پہن کر بھی قناعت کا نو ر اس کے چہرے پر برستا تھا ۔ فرحان کبھی آمدنی بڑھانے کی تجویز سوچتا اور بھا بھی سے صلا ح مشورہ کرتا تو وہ ہنس کر ٹا ل دیتی ۔ بھیا روزی رزق خدا کے اختیا رمیں ہے جتنا وہ دینا چاہتا ہے اسے کو ئی روک نہیں سکتا ۔ اور جو کچھ اس نے ہما رے مقدر میں نہیں لکھا وہ ہم کسی صورت میں حاصل نہیں کر سکتے ۔ دل کی اطمنان کے لئے دعا کرنی چا ہئے سب سے بڑی دولت دل کا اطمنان اور قناعت ہے مجھے کسی سے کو ئی شکوہ شکایت نہیں تمہا رے بھائی صاحب جو کچھ کما کر لاتے ہیں چھپا کر نہیں رکھتے سب کچھ میرے سامنے رکھ دیتے ہیں ۔ ان سے کیا کہوں بچے ہیں دکھ بیما ری ہیں ، آج تنگی محسوس ہو تی ہے ساید کل اللہ خود کو ئی سبیل پیدا کر دے شا ید ضرورتیں ہی مختصر کر دیں یا اسی میں برکت ڈال دیں اور یہ تنگی کا زمانہ ختم ہو جائے ۔ فرحان کہتا بھا بھی میں کو ئی ٹیوشن کر لوں اتنے پیسے تو مل ہی جائیں گے کہ آپ پاؤ بھردودھ روز پی سکیں کبھی کہتا بھابی ایک مشین خرید لیں میں بچوں کو سنبھال لوں گا آپ ایک دو کپڑے سی لیا کریں کچھ پیسے تو مل ہی جایا کریں گے یہ تجویز فرحانہ کے دل کو لگتی تھی مگر مشین کو خرید نے کو روپیہ کہاں تھا دونوں قرض کی با بت سوچتے مگر قرض ادا کیسے ہو گا ۔ بس ہمیشہ کی طرح یہ تجویز بھی یوں ہی رد ہو جا تی فرحان کہتا بھا ئی صاحب سے کہئے اگر دفتر سے کچھ قرض مل سکے ان کو نہیں معلوم تھاکہ تیسری زچگی کے مو قع پر وہ ایک دوست سے پچا س ہزار روپیہ قرض لے چکا تھا ۔ اور وہ اپنے ہاتھ خرچ کے پانچ سو روپیہ مہینہ اس قرض میں کٹوا رہا تھا اورمزید قرض لینے کی اس میں ہمت نہ تھی فرحانہ کی حالت بہت خراب ہو گئی اور اسے مجبورااس کے دوا علاج کیلئے کچھ قرض لینا پڑا تھا ورنہ فرحانہ ایسی سلیقہ والی تھی کہ وہ زچگی خیال سے ہی کچھ پانچ روپیہ بچا کر رکھ لیتی تھی گھر کی حالت دن بہ دن بد تر ہو تی جا رہی تھی بھا ئی صاحب کے پاس صرف دو جوڑے کپڑے تھے کف اور کالر پھٹے ہو ئے نظر آرہے تھے جو تے کا تلہ گھس چکا تھا ۔ بھا بھی کی سلوا رپر پیوند چڑھتے چلے جا رہے تھے ، سر پر ایک ہی دپٹہ تھا جس کی کلر اڑگئی تھیں ، روکھے بال آنکھیں کاجل کو ترشی ہو ئی بچوں کا حال چال الگ تباہ اکثر میلے دکھا ئی دیتے تھے ۔ ننگے پا ؤں ، پھٹے جو تے ، پیٹ بھڑاجائے تو تن ڈھانکنے کا آسرہ نہیں اور تن ڈھکنے کی فکر کریں تو پیٹ بھوکا رہے ۔ فرحان سوچتا تو اس کا دل کٹنے لگتا کہ کب وہ اس قابل ہو سکے گا کہ وہ بھی بھا ئی کا ہاتھ بٹا سکے اور اس بھا بھی کو آرام پہنچا سکے اس نے ماں بن کر اپنے سینے کی آنچ اس کو دی جس نے بہن بن کر اس کا دل بہلا یا ۔ 
پھر ایسے ہو اکہ اس نے چپکے ہی سے ٹیو شن کر لیا اور دوبچوں کو گھنٹہ بھر پڑھا یا اور مہینہ ہو نے پر دو سو روپیہ لاکر بھا بھی کے ہاتھ پر رکھ دئے ۔ وہ حیران ہو کر فرحان کا منہ تکنے لگی اس نے بتا یا کہ اس کی کما ئی دو سوروپیہ کچھ پیسہ وہ مشین کے ناپر جمع کرتے جا ئے اور کچھ روپیہ خاص اس کے دود ھ کیلئے ہیں ۔ فرحا نہ یہ سن کر رو پڑیں کہنے لگی تم سب کے بغیر میرے حلق سے دودھ کیسے اترے گا۔ فرحان تم میرے بھا ئی ہو میرے بیٹے کی طرح ہو شروع سے تم نے میرے ساتھ جس طرح محبت کا بر تا ؤ کیا ہے ا س کا بدلہ میں دے نہیں سکتی ۔ یہ زیادتی نہ کرو فرحان نے کچھ پیسے اٹھا لئے وہ روزانہ شام کو ایک پاؤ دودھ لاتا اور اپنے سامنے دوا کی طرح زبردستی پلواتا اور وہ رو کر پیتی ۔ جس دن اسے کپڑے دھو تے دیکھ لیا تو ایک انڈا بھی لے آتا اور کہتا ابا ل کر کھا لو بہت دیر ٹھنڈے پا نی میں ہاتھ دئے ہو ئی تھی اس چھو ٹی سی دیکھ بھال ہی سے دو تین مہینہ کے اندر صحت پر نما یا اثر پر گیا تھا ۔ آنکھوں کے گرد جو سیاہ سے ہلکے پر گئے تھے وہ مٹ گئے چہرہ کی چمک لو ٹنے لگی ۔ چال میں چشتی سی آگئی افسر د گی کی جگہ مسکراہٹ نے لے لی ۔ ایک ماہ کا تنخواہ ملنے پر جب قرض کا قصہ پاک ہو گیا تو بھا ئی صاحب اس کے لئے چوڑیاں خرید کر لائے ۔ اس روز بھا بھی کی جی میں جان کیا آئی انہوں نے کہا دھو کر کہیں سے صاف اور ثابت کپڑے نکال کر پہنے سر میں تیل ڈالا کاجل لگایا اور چو ڑیاں پہنیں ۔ اس روز گھر والے اپنے بہت خوش تھے جیسے عید آگئی ۔سب کی نگاہیں با ربا رچہرہ پر جا رہی تھیں ایک خو شی سارے گھر والوں کے دلوں میں خو شی کی لہر دوڑ گئی بچے لپٹے جا رہے تھے جب چوڑیا ں چمکتی تو بھا بھی کے چہرے پر بجلی سی کوندھ جا تی ۔ فرحان کا دل چا ہا کہ بھا بھی کے چہرے پر ہمیشہ ایسا ہی دل آویز تبسم رہے ۔ وہ روز اچھے کپڑے پہنا کرے بھا ئی صاحب ہمیشہ نئی نئی چوڑیا ں لایا کریں اور سب گھر والے یوں ہی اس سمع کے گرد پروانوں کی طرح ہجوم کئے بیٹھے رہا کریں ۔ فرحان کو میٹرک کے بعد بھا ئی صاحب نے ایک ٹیکنیکل اسکول میں داخلہ کرا دیا تھا فارغ ہو نے میں ابھی دو سال باقی تھے وہ مشین کے لئے روپیہ جمع کرنے میں برابر لگا ہو تھا اس کو دھن لگی تھی کہ وہ کسی طرح تنگ دستی کے بھو ت کا سر کچل دے جو ان کے جنت کی تبا ہی کے در پہ تھا ۔ دو سال میں خا صی رقم جمع ہو گئی تھی مگر مشین کی قیمت سے کم ہی تھی اس کے لئے ابھی سال بھر اور رکنا پریگا ۔ اس عرصہ میں ایک بھتیجی کا اوراضا فہ ہو چکا تھا اس نے بھی خوب قد نکال لیا تھا ۔ اچھی بڑی دکھا ئی دیتی تھیں اس کے سمجھ میں نہ آتا تھا وہ کس طرح رقم بڑھا کر بھا بھی کو مشین خرید دے وہ کب تک انتظا ر کریں دو سال کم نہیں ہو تے اور بھی پہاڑ سا ایک سال با قی ہے وہ دیکھ رہا تھا آہستہ آہستہ بھا ئی صاحب کا مزاج چرچرا ہوتا جا رہا ہے ۔ اپنے کم مائگی کے احساس میں ان کی ہمت کو پست کر دیا تھا ۔ وہ بھی گھر میں ضروریات اور اسائشیں مہیاکرنا چا ہتے تھے اور نہ کرنے سکنے کے غم نے ان کو افسردگی اور چرچراہٹ بخش دی تھی اور یہی غم اندرہی اندربھا بھی کو کھو کھلا بنا ئے دے رہا تھا ۔ اور آج پہلی مرتبہ بھابھی بھا ئی صاحب کے پاس روتی ہو ئی آئی تھیں ورنہ وہ ان کے معمو لی سی بد مزازی کو خا موشی سے برداست کر جایا کر تی تھی فرحان پر ایک عجیب سے بسی کی کیفیت چھا گئی وہ کس طرح پو چھے کیا بات ہے، کس طرح سے وہ دلاسہ دے وہ آہستہ سے اٹھ کر اس کے پاس آیا اس کے منہ سے صرف بھا بھی کالفظ نکلا پھر وہ چپ ہو گیا ۔ فرحانہ کے گالوں پر تیزی سے آنسو بہنے لگے وہ ان کو بار بار پو چھے جا رہی تھی ۔ بچے کھانا بھول کر ماں کو دیکھنے لگے ۔ کیا بات ہو ئی بھا بھی ! اس طرح کیوں رو رہی ہو کچھ نہیں بھا ئی دل بڑا کافر ہو تا ہے بعض دفعہ یوں ہی مچل جا تا ہے اس نے گھٹنوں میں سر دے لیا ۔ بھا ئی صاحب نے کچھ کہا ہے کیا کھانا ٹھیک نہ تھا ، تم کیوں پریشان ہو تے ہو ایسی کو ئی با ت نہیں ۔ میں چا ہتی تھی کہ تم اتنے رو پئے جمع کر لئے ہیں سات آٹھ سو کا انتظام تمہا رے بھا ئی کر دیں گے تو ہم جلدی سے مشین خرید لیں گے بس یہی بات کہی تھی کہ و ہ ان کو نا گوار گزری ۔ فرحان کو یہ با ت معلوم کرکے اتنا دخ ہو کہ پہلے نہ ہو ا تھا ۔ تنگدستی محبت کو قتل کر سکیں اس کو اس کے زہر اور شدت کا ندا زہ نہ تھا ۔ درد اورو اذیت سے اس کو اپنا دل بھی کسا ہو ا محسوس ہو ا ۔ اللہ پاک اس گھر کی خو شحا لی کب لو ٹ کر آئے گی ۔ یہ معصوم بھو لے بھا لے بچے ان کا کیا قصور ہے اس وقت فرحان کی نگاہ نے ایک دم وسعت اختیا ر کر لی ۔وہ سیکروں ہزاروں کنبے اس کی نظروں کے سامنے آگئے جو اسی طرح تنگد ستی کے چنگل میں گرفتا ر سسک رہے ہیں ۔ کو ئی ان کا پر سان حال نہیں ۔ اکیلا فرحان کس کس کے درد کا حل کر سکتا ہے وہ جہاں کا تہاں مبہوت سا کھڑا رہ گیا دن بھر فرحان سخت مضطرب اور پریشان رہا شام کو کچھ سو دا خرید نے دکان پر گیا تو دکاندار نے مذاق میں کہا بھا ئی جی کمیٹی ڈال لو شا دی کیلئے ٹیو شن کرتے ہو پیسے جمع ہو جا ئیں گے فرحان ایک دم چو نک گیا ۔ بو لا اچھی بات ہے مگر پہلی یا دوسری کمیٹی دلادو اس شرط پر مجھے مشین خریدنی ہے ۔ سخت ضرورت ہے اور واقع دکاندار سے با ت ہو گئی اسے بتا دیا کہ اس کے پا س جمع ہے اور تھوڑے ہی پیسوں کی ضرو رت ہے وہ با قائدگی سے کمیٹی ادا کرتا رہے گا ۔ گھر آیا تو اس کا جی چا ہ رہا تھا کہ بچوں کی طرح جا کر نا چ اٹھے اور کہے بھابھی اب مت رو ؤ تمہا ری مشین کاا نتظام ہو گیا ہے اسی وقت بھا ئی صاحب آئے وہ خلا ف معمول بہت خو ش دکھائی دے رہے تھے جیسے خو شی اور مسکراہٹ کو ضبط کر نا چا ہتے ہوں اور نہ کر سکتے ہیں ۔ سب منتظر دیکھیں کیا ظا ہر ہو تا ہے آج انہیں کو بو لنا پڑا ۔ مٹھا ئی کھلاؤ تو ایک خبر سنا ؤں ، فرحانہ بڑی حیران تھی کہ وجہ کیا ہے ، مٹھا ئی کی کو ن سی بات ہو گئی صبح تو کو ئی آثا ر نہ تھے فرحان سے زیادہ انتظار مشکل ہو گیا ۔ خبر تو ہم ضرور بنیں گے لا ؤ بھابھی کچھ پیسے مٹھا ئی لے کر آؤں ۔ 
بھابھی ہنسی میں شریک ہو گئیں پا نچ روپیہ کا گر بہت ہو گا بھا ئی صاحب نے کہا دیکھ لو ! پھر بات بھی پا نچ رو پیہ کے گر والی سنو گی اور جیب سے سو روپیہ کا نوٹ نکال کر فرحانہ کو دیا صبح مانگ رہی تھی نا ، اللہ تعا لیٰ نے کتنے جلدی دے دئے یہ سب تمہا رے ہیں ۔ مشین میں ڈالو جو تمہا را دل چا ہے کرو مجھے کچھ مطلب نہیں خدا کا شکر گزاری میں فرحا نہ کی آنکھیں چھلک آئیں ۔ اس نے نوٹ تو پکر لیا مگر با ری باری نوٹ رفیع کی طرف اس طرح دیکھ رہی تھی جیسے یقین نا آرہا ہو ۔ رفیع تھو ڑی دیر اس کی حیرت اور خوشی سے لطف اٹھا تا رہا پھر کہا خو ش ہو نا صبح نا را ض ہو گئی تھی لیکن پہلے بات پو ری کر لینے دو پھر اس نے جیب میں ہا تھ ڈالا او ر دو نوٹ سو سو کے اور نکا ل کر دئے یہ اور لو ۔ گھر میں کسی کے پاس کپڑے نہیں رہے ۔ کپڑے جو تے ، مٹھا ئی ، کھلونے جو ضرورت ہو سب چیزیں بنا لو ۔ حیرت پر حیرت مار خو شی کے سب دم خود بہ خود رہ گئے آخر فرحان نے پو چھا اتنے روپیہ اچانک کس طرح مل گئے اور کہاں سے ۔ 
سب تمہا ری بھا بھی کی وجہ سے ہے صبح انہوں نے مجھ سے کچھ روپئے ماں گے تھے اس وقت پریشانی میں ان کو سخت باتیں کہہ گیا بعد میں افسوس بھی ہو تا رہا ۔ کما تے ہی ہم با لا بچوں کیلئے ہیں ان کی ضرورتیں پو ری نہ ہو ں تو کس قدر تکلیف ہو تی ہیں ۔ اس پر آپس میں تکرا ر بھی ہو جا ئے یہ اور بھی غضب ہے اس وقت بھی رفیع کے چہرا پیشمانی اور تا ئسف جھکنے لگا ۔ قدر تا مل کے بعد ان جذبات پر مسرت پھر غالب آگئی ۔ میری ترقی رکی ہو ئی تھی اور یہ مسئلہ گر بر میں پر گیا تھا ۔ مدت سے دفتری خط و کتا بت چل رہی ۔ میری پا نچ ہزار رو پیہ مہینہ ترقی ہو ئی ہے اور یہ پچھلا روپیہ ملا ہے ۔ فرحان نے بھا ئی اور بھا بھی کو خو ب مبا رک باد دی ۔ بھا بھی اب تو مٹھا ئی پکی ہو گئی بھا ئی صا حب کی دیانت داری اور بھا بھی کے صبر کا بد لہ آخر خدا کے یہاں سے مل کر رہا ۔ مجھے بے ہد خو شی ہے رفیع نے چھوٹی بچی کو گو د میں اٹھا کر پیا ر کیا بچوں کے جو تے پہلے منگوا لینا اور بھئی میرے اور فرحان میاں کے سوٹ کا خیا ل رکھنا ایک ہی دن میں ایک ہی وقت میں اتنی بہت سی اچھی باتیں ہو گئیں اس کے دل میں خو شی سمع نہ رہی تھی ۔ مشکل سے ضبط ہو رہا تھا بو لنے کے لئے اسے ایک الفاظ نہ ملا ۔ 
کل آپ کی مشین بھی آجا ئے گی بھا ئی صاحب یہ آج بہت رو ئی تھیں شا ید پہلی مر تبہ ان کے آنسوؤں سے دریا ئے رحمت جو ش میں آگیا ۔ اللہ نے بھی رحمت کی جھڑی ہی لگا دی رو پیہ بھی ملا ، ترقی بھی ہو ئی ، واہ بھا ئی واہ اور مزید ترقی کی امید ! اس سے اچھا تھا آپ نے دو تین سال پہلے ہی اس طرح آنسو بہا ئے ہو تے ۔ رحمت تما م سے آپ کی آنکھ میں آنسو نہ دیکھے گئے ۔ اس نے بھا بھی کے ہا تھ سے نو ٹ اٹھا یا اور خو شی سے جھو متے ہو ئے بچوں کے لئے پھل اور مٹھا ئی لینے بھیا بھابھی سے یہ کہتے ہو ئے نکلے کبھی آپ لوگوں سے نہ جدا ہوں گے ہم کبھی خو شی کھبی غم ہے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا