English   /   Kannada   /   Nawayathi

مرے دکھ کی دوا کرے کوئی

share with us

اسی سال یوم عالمی کار نجات دن منعقد بھی کیا گیا، لیکن اپنی سطح پر قومی مہم چلانے والا برطانیہ ایسا پہلا ملک تھا جس نے غیر رسمی طور پر 1997 کے دوران اپنے یہاںکار فری ڈے شروع کردیا اور اس کے بعد فرانس نے بھی 1998 کے دوران ان ٹاو ن، ودآوٹ مائی کار 145نعرے کیساتھ کار فری ڈے منعقد کیا۔اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ تیل کے بحران سے شروع ہونے والی یہ تحریک ایک دن فضائی آلودگی سے نجات کا ذریعہ بھی ثابت ہوگی۔ آج نوبت یہاں آپہنچی ہے کہ مرکزی دارالحکومت دہلی میں کاروں کی کثیر تعداد نے انتظامیہ کی چولیں ہلادی ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ روڈ ٹیکس وصول کرتے وقت اور گاڑیوں کو لائسنس جاری کرنے سے قبل حکومت کو ادراک نہ تھا کہ فضائی آلودگی میں اضافہ خطرہ کی کس حد کو پار کر چکا ہے۔
عالمی برادری کو کیا نظر انداز!
یہ الگ بات ہے کہ دنیا بھر کے سروے کہتے رہے ہیں کہ دہلی میں پائی جانے والی فضائی آلودگی کا معیار خوفناک بن چکا ہے۔ ہوش تو اس وقت آیا جب ہندوستان میں ہوا کے گرتے ہوئے معیار کی وجہ سے عوام کا غصہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ تارکین وطن ناروے سے موصول ہونے والی ان اطلاعات پر تشویش میں مبتلا ہیں جن میں دہلی کی فضائی آلودگی کی درجہ بندی کو ایک مصیبت قرار دیا گیا ہے۔ ان اطلاعات میں یہ بھی کہا گیا کہ دہلی کی فضائی آلودگی کی وجہ سے وہاں موجود ایک بین الاقوامی اسکول نے باہر کی سرگرمیوں کو معطل کر دیا ہے۔ حتی کہ ملک کی ایک عدالت نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے ہوئے کہا کہ دہلی فضائی آلودگی کی وجہ سے 146گیس چیمبر145 بن چکا ہے۔
حکومت کی ناقص پالیسیاں:
یہ حقیقت ہے کہ دنیا کا پانچویں بڑا شہر دہلی ایک عرصہ سے سردیوں کے موسم کسی گیس چیمبر سے کم ثابت نہیں ہو تا۔ دہلی کی گندی ہوا کا بڑا سبب ڈیزل کا اخراج، تعمیراتی گرد، اینٹوں کا بھٹہ اور شہر کے ارد گرد کھیتوں میں فصل کی کٹائی کے بعد رہ جانے والی جڑیں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق شہر میں 85 لاکھ گاڑیاں چلتی ہیں جبکہ اس میں 1400 گاڑیاں شہر کی گنجان آباد گلیوں میں روزانہ چلتی ہیں جو اس کی فضائی آلودگی کی بڑی وجہ ہے۔ہندوستان میں پٹرول کی قیمتوں میں دی جانے والی رعایت کی وجہ سے لوگ ڈیزل والی گاڑیاں خرید رہے ہیں۔ یہ رعایت کاشتکاروں کیلئے تھی کہ وہ آبپاشی کیلئے ٹیوب ویل چلا سکیں۔ ملک میں 2012 کے دوران کا ایک سروے شاہد ہے کہ دہلی میں رہنے والے بچوں کے پھیپھڑے خراب ہونے کے کیسوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دہلی میں سرد موسم کے دوران ایمرجنسی وارڈوں میں آنے والے افراد کو سانس کی تکلیف کی شکایت رہتی ہے۔ جبکہ 15 برس قبل دہلی میں فضائی آلودگی کی صورتحال اتنی بدتر نہیں تھی۔ حکومت کو کون سمجھائے کہ دہلی کی فضائی آلودگی کو بہتر بنانے کیلئے اس کے میٹرو اسٹیشنوں کے گرد گنجان آبادیوں کو صاف رکھنے کی ضرورت ہے۔ دہلی میں آلودگی ٹیکس نافذ کرنے اور پارکنگ فیس بڑھانے سے شہر میں آنے والی گاڑیوں کی تعداد کو کم کرنے سے بھی مدد مل سکتی ہے۔

ووٹ بینک کی گندی ذہنیت:
مرکزی دارالحکومت میں ڈیزل پر دی جانے والی رعایت کو ختم کرنے یا ڈیزل کی گاڑیوں پر زیادہ ٹیکس عائد کرنے سے بھی فضائی آلودگی کم ہو گی ۔ حکومت ہند کو اپنی ووٹ بینک کی گندی ذہنیت سے نجات ملے تو وہ زیادہ آلودگی والے دنوں کے دوران ڈیزل کے اخراج کو کم کرنے سے ہنگامی اقدامات کرے۔ تو کیا دہلی کی حکومت اس موسمِ سرما کے دوران آلودگی کو کم کرنے کیلئے کوئی اقدام کرے گی؟ ماحولیاتی وکیل رتوک سمجھتے ہیں کہ جیسے ہی سردی کی شدت میں کمی آئے گی حالات نارمل ہو جائیں گے اور اس وقت تک کوئی بھی فصائی آلودگی کے بارے میں بات نہیں کرے گا۔جبکہ درحقیقت نہ صرف دہلی میں بلکہ ملک بھر میں فضائی آلودگی کے بارے میں سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس حوالے سے 1981 کے دوران بنائے جانے والے قوانین پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔
امیروں کے دوست، عوام کے دشمن :
حکومت کی عوام دشمن پالیسیوںکو شمار کرنا مشکل ہے۔حالیہ معاملہ میںضوابط کو ایسا بالائے طاق رکھا گیا ہے کہ فضائی آلودگی کے حوالہ سے موجود قوانین کے تحت کسی ایک فرد کو بھی سزا نہیں دی گئی حالانکہ اس کی کم سے کم سزا 18 ماہ قید ہے۔ وجہ صاف ہے کہ ہندوستان میں برسر اقتدار آنے والی حکومتیں ان رعایتوں کو ختم کرنے سے کتراتی رہی ہیں جن کا حتمی فائدہ غربا کو ہوتا ہے اور تمام سیاست دانوں کو146خواص145کی مخالفت کا خوف لاحق ہوتا ہے۔ گذشتہ ہفتہ نیشنل گرین ٹربیونل نے حکومت سے پوچھا تھا کہ کیا پرانی گاڑیوں کو دہلی سے دوسرے شہروں میں بھیجا جا سکتا ہے جہاں فضائی آلودگی کم ہو؟ اس حوالہ سے میڈیا کا کردار بھی مددگار اور معاون ثابت نہیں ہوتا۔ جب ملحقہ ریاست ہریانہ، اترپردیش اور پنجاب کے کھیتوں میں آگ لگائی جاتی ہے اور ان کا دھواں دہلی کی فضا پر چھا جاتا تو میڈیا میں اس حوالے سے کوئی خبر نہیں دی جاتی کہ اس سے خود متعلقہ ریاستوں میں رہنے والے افراد کی زندگی کیسے متاثر ہو رہی ہیں۔
پالیسی سازی کی کوتاہی :
حالانکہ ملک بھر میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی ایک قومی آفت ہے لیکن نہ جانے کیوں میڈیا اور پالیسی میکر اسے محض دہلی کا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ دنیا کے 20 بڑے شہرگنجان آباد شہروں میں سے 13 تو صرف ہندوستان میں ہیں، تو باقی 12 شہروں کے بارے میں کیا کہا جائے۔ جبکہ ماحولیاتی وکیل رتوک دتا کا کہنا ہے کہ ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں دہلی کی فضائی آلودگی کے بارے میں حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنا چاہئیں تاہم اس حوالہ سے اقدامات کو نظر انداز کرنا یا فضائی آلودگی کو ہمسایہ ریاستوں تک منتقل کرنا خود کو تباہ کرنے کے مترادف ہو گا۔
کاروں نے کیا بیکار :
دہلی کی ریاستی حکومت نے طاق اور جفت نمبر پلیٹوں کی حامل کاروں کا فارمولا اب پیش کیا جبکہ کاروں سے نجات پانے کی پہل ہندوستان میں سب سے پہلے دہلی این سی آر کے سب سے مصروف صنعتی شہر گڑگاو 191ں میں کی گئی تھی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس گاڑی کے زور پر ملک کی تیز اقتصادی ترقی کا خواب دیکھے گئے اور جس گاڑی کی بدولت لوگوں کی زندگی آسان ہونے کی بات کہی جا رہی ہے، اس کے بغیر ایک شہر کے چلنے کی ضرورت آخر کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ آلودگی سے قطع نظر بنیادی طور پر، طویل عرصے سے گڑگاو 191ں کی سڑکوں پر جام لگنے کی خبریں مسلسل آ رہی تھیں۔ ریاستی حکومت چوڑی سڑکیں، فلائی اوور وغیرہ بنا کر اس مسئلہ کے حل کی یقین دہانی کرواتی رہی، لیکن ٹریفک جام بڑھتا ہی رہا۔ گڑگاو ں ایک مثال ہے، ملک کے زیادہ تر شہروں کا اس سے بھی برا حال ہے کیونکہ وہاں کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور خراب ٹریفک کا نظام نے گاڑیوں کو ریسر کی بجائے داخلے کیلئے مجبور کر رکھا ہے۔ دور حاضر کی سب سے بڑی ستم ظریفی ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آج شہروں کی سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک جام ہے، گاڑی کی صنعت میں تیز اضافہ کی خواہش کی جا رہی ہے۔ اب مہنگی سے مہنگی کاریں فروخت لگی ہیں، اگرچہ ان کے چلنے کیلئے نہ تو جگہ میسر ہو اور نہ ہی فضا اجازت دیتی ہو۔ دنیا میں کاروں کی پیداوار اس مقصد سے شروع ہوئی تھی کہ کھاتے پیتے لوگ اپنی منزل پر فوری طور پر اور آرام سے پہنچ سکیں گے، بھوکے ننگے لوگ بھلے ہی آلودگی سے مرجائیں ۔۔۔
قدرت کا انتقام :
قدرت کا نظام دیکھئے کہ ہو رہا ہے اس کا الٹا۔ کاروں سے کسی جگہ پہنچنے میں اب زیادہ وقت لگنے لگا ہے۔ اس کی وجہ ہے ٹریفک جام، جو گاڑیوں کی بھیڑ کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی مسئلہ ہے۔ جام سے صرف گاڑی میں بیٹھے مسافر پریشان نہیں ہوتے، اسکوٹر اور سائیکل سواروں کو بھی پریشان ہونا پڑ رہا ہے۔ کہیں کہیں تو پیدل چلنا بھی ممکن نہیں رہ گیا ہے۔ دیگر ممالک میں بھی ایسے ہی پریشان کن حالات ہیں۔ ایک مثال آسٹریلیا کی ہے، جہاں پرامتتا نامی شہر سے سڈنی پہنچنے میں سو سال پہلے گھوڑاگاڑی سے ایک گھنٹے کا وقت لگتا تھا، آج اس سے زیادہ وقت کار سے پہنچنے میں لگتا ہے۔ اندازہ ہے کہ اب سے پانچ سال بعد 2020 میں آسٹریلیا میں گاڑی کے سفر کا وقت موجودہ وقت سے دوگنا ہو جائے گا۔ لیکن کاریں ہیں، تو اورودھوں اور مسائل کے باوجود فروخت بھی رہی ہیں۔ آخر ان کی فروخت میں کچھ تو فائدہ ہوگا۔ کاروں کی فروخت کو ملک کی ترقی کیساتھ شامل کیا جاتا ہے۔ چونکہ کاریں زیادہ تعداد میں فروخت ہو رہی ہیں، ان اعداد و شمار میں اقتصادی ترقی بھی نظر آتی ہے۔ آج ہندوستان مسافر اور پیشہ ورانہ کاروں کی تعمیر میں دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ 2011 کے دوران ہندوستان میں انتالیس لاکھ کاروں کی مینو فیکچرنگ ہوئی اور اس تعداد نے برازیل کو پیچھے چھوڑ دیا۔
تیزی سے بڑھتا ہوا آٹو سیکٹر:
اسپتال بھلے ہی آلودگی کے شکار مریضوں سے کررہا رہے ہوں لیکن ایشیائی سطح پر 2009 میں جاپان، جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ کے بعد ہندوستان چوتھا سب سے بڑا کار برآمد ملک تھا اور اگلے دو سال میں اس نے تھائی لینڈ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 2010 میں تیسرا مقام حاصل کر لیا۔ 2010 کے اعداد و شمار کی رو سے ہندوستان میں مجموعی طور پر سینتیس لاکھ گاڑیوں کے سالانہ پیداوار ہے اور چین کے بعد دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھتا ہوا آٹو سیکٹر ہندوستان میں ہی ہے۔ تاہم ہندوستان میں ابھی کاروں کی کھپت کو146 کم 145سمجھا جاتا ہے۔ 2009 کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ابھی فی ہزار لوگوں پر چودہ کاریں ہیں جبکہ پاکستان میں یہ اعداد و شمار انیس، سری لنکا میں اٹھائیس، سنگاپور میں اڑسٹھ، یوروپ میں پانچ سو سے ایک ہزار اور امریکہ میں سات سو چالیس ہے۔ یعنی کاروں کے معاملہ میں ہم اب بہت پیچھے ہیں جبکہ فضائی آلودگی میں غضب ڈھارہے ہیں۔

مرض بڑھتا گیا ....
دوسرے ملکوں کے مقابلے ہمارے ملک میں کم کاریں ہیں، پر وہ مسائل زیادہ پیدا کر رہی ہیں۔ آخر کیوں؟ ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے شہروں میں کاروں کی تعداد سڑکوں کی صلاحیت سے زیادہ ہے۔ اس کا ایک حل اس تجویز کردہ جاتا ہے کہ سڑکیں چوڑی کر دی جائیں اور فلائی اوور بنا دیئے جائیں۔ لیکن اس سے بھی کوئی حل نہیں نکلا۔ فلائی اوور بنانے کے چار چھ ماہ بعد ہی شہر کے ان علاقوں میں گاڑیوں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہو جاتی ہے کہ ایک بار پھر ٹریفک جام لگنے لگتا ہے۔ بنیادی طور پر، اس کے پس پشت ملک کے متوسط طبقہ میں کاروں کو لے کر پیدا ہونے والا زبردست جنون ہے۔ یہ شوق جاپان کی سوزوکی کمپنی کے تعاون سے ماروتی کاروں کی تعمیر کی بدولت ملک کے متوسط طبقہ میں پیدا ہوا تھا ، جس کے نتیجہ میں آج سڑکوں پر کروڑوں کاریں دوڑتی ہوئی اور آلودگی پھیلاتی پوئی دیکھی جا سکتی ہیں۔
ماحول کیساتھ کھلواڑ :
ماروتی اور پھر بعد میں ٹاٹا کی نینو کار کی طاقت پر مندرجہ ذیل متوسط طبقہ کیلئے بھی چھوٹی کار جو خواب دیکھا گیا، اس نے بھی کچھ لاکھ لوگوں کی زندگی میں شدید تبدیلی تو کی ہے، لیکن ایک طرف یہی کاریں ماحول کی دشمن ثابت ہوئی ہیں اور دوسری طرف اس ٹریفک مسئلہ کوئی خاص اختیار نہیں بن پائی ہیں جس حل کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ البتہ زیادہ تر خاندانوں کیلئے مہنگی سے مہنگی کاریں اسٹیٹس سمبل ضرور ہیں لیکن درحقیقت اسٹیٹس بڑھانے والی کاریں کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتیں۔
تعیش پسند نوجوان نسل:
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق آج کی تعیش پسند کثیر الاقومی اداروں میں اونچی تنخواہ وصول کرنے والی نوجوان نسل کہیں آنے جانے کیلئے بسوں، میٹرو یا آٹو ٹیکسی پر انحصار نہیں رہنا چاہتی ، بلکہ وہ ذاتی نقل و حمل کی حامی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک میں مختلف قسم موسمی حالات کے پیش نظر بھی گاڑیوں کی ضرورت کو سمجھا جانا چاہئے۔ کبھی تیز دھوپ، گرمی، دھول، کبھی برسات اور کڑاکے کی سردی۔ ایسے میں ایک ائیر کنڈیشنڈ گاڑی بہت ضروری لگتی ہے۔ ان شہزادوں کو کیا معلوم کہ ان گاڑیوں کے قریب سے جب کوئی پیدل یا ٹو وہیلر سوار شخص گذرتا ہے تو اسے کس تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے باجود بہت سے کاروباری اداروں اور ملازمتوں میں رابطہ اور ٹریفک کا سلسلہ اتنا زیادہ بڑھا ہے کہ اس کیلئے عوامی نقل و حمل پر منحصر ہونے کا رواج کمزور پڑتا جارہا ہے ۔ کبھی ماروتی نے ہمارے معاشرے کے اس خواب کیساتھ مغالطہ میں ڈالا تھا لیکن اب اس خواب کا دائرہ مزید بڑھ چکا ہے، گاڑیوں کی بھرمار نے جام کیساتھ ساتھ آلودگی کا مسئلہ بھی پیدا کیا ہے۔
بنیادی ڈھانچے کا فقدان :
اس کے باوجود کاروں کو مسئلہ تسلیم کرنے کے مخالفین کی مختلف آرا بھی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اصل دشواری کاروںسے نہیںہے بلکہ سڑکیں اور نقل و حمل کے انتظامات خراب ہیں۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر سڑکیں کاروں کے مطابق ڈیزائن نہیں گئیں۔ پارکنگ کے مناسب انتظام نہیں کئے گئے۔ قانون میں نئی کالونیوں گھروں کیلئے یہ ضروری نہیں کہ ان گاڑیوں کی پارکنگ کیلئے بنیادی طور پر جگہ ہو۔ دہلی میں سینکڑوں غیر قانونی کالونیاں ایسی ہیں جہاں کاریں باہر گلی میں کھڑی کی جاتی ہیں اور وہاں ایسا کرنے پر کوئی روک ٹوک نہیں ہیں۔ اس صورتحال کے سبب کاریں خود ایک مسئلہ بن گئی ہیں۔
ائیویٹ موٹرائزیشن کو فروغ:
اگرچہ کاروں کے سبب سنگین اور جان لیوا مسئلہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ ماحولیاتی ماہرین بنیادی سوالیہ نشان قائم کرتے ہیں کہ آخر ملک میں کاروں کی ضرورت ہی کیا ہے ، جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر کرکے نقل و حمل سے متعلق ضروریات کا آسانی سے حل نکالا جا سکتا ہے۔ انہیں یہ بے معنی اور صرف کار کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے والا لگتا ہے کہ حکومت ہر قیمت پر پرائیویٹ موٹرائزیشن کو فروغ دے رہی ہے۔ بسوں پر ٹیکس کاروں سے زیادہ ہے اور گاڑیوں کی تعداد کنٹرول کرنے کی تو کہیں کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ نجی گاڑیوں کو فروغ دینے کا کام عوامی نقل و حمل کی قیمت پر کیا جا رہا ہے۔

سنگین انتظامی غلطی :
ہمارے ملک میں آپ کو جتنی چاہیں اتنی کاریں خرید سکتے ہیں، چلا سکتے ہیں، لیکن اس کے اختیارات میں جو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت لوگوں کے پاس ہونا چاہئے، وہ تقریبا ندارد ہے۔ جیسے، دہلی کل ٹریفک کا 75 فیصد حصہ نجی گاڑیوں کا ہے لیکن ان کے سفر کی 20 فیصد سے بھی کم ضرورت پوری ہوتی ہے۔ یہ حالت اس وقت ہے جب اس شہر کے صرف تیس فیصد خاندانوں کے پاس گاڑی کی سہولت میسر ہے۔ اندھا دھند سستی چھوٹی کاروں کا آنا اس شہر کے ٹریفک کا کیا حال کرے گا، اس کے بارے میں غور کیا جانا چاہئے۔لوگ اگر دور کے سفر کیلئے اپنے پاس کار رکھنا چاہتے ہیں تو رکھیں لیکن ان روزمرہ کا سفر ضروریات اچھے اور آسان عوامی نقل و حمل سے ہی مکمل ہونا چاہئے۔ شہر میں عام نقل و حرکت کیلئے نجی گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنا ضروری ہے اور اس کام میں قیمتوں کا تعین، ٹیکس، پارکنگ پالیسی، قوانین سمیت ہر ممکن اقدامات آزمائے جانے چاہئے۔ طاق اور جفت پالیسی کے علاوہ سال میں ایک دن کار فری ڈے منا لینے سے بیداری کی سطح ضرور کچھ بڑھے گی، لیکن یہ امید بے معنی ہے کہ اس مسئلہ کا کوئی مستقل حل نکلے گا۔ایسے ہی حالات میں غالب تڑپ کے کہا کرتے تھے کہ،
ابن مریم ہوا کرے کوئی
مرے دکھ کی دوا کرے کوئی

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا