English   /   Kannada   /   Nawayathi

سیرتِ نبوی ﷺکا اہم پہلو عفو و تحمل

share with us

فوز و فلاح کی ضمانت کے خواہاں ہو تو اسوۂ نبی پر چلو! اللہ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو کامل و مکمل بنا کر مبعوث فرمایا ؟اور آقا ﷺ نے تما م شعبہ ہائے حیات کی طرف اپنی امت کی مکمل رہنمائی کی ،رحم و کرم ،جود و سخا ، ایثار و قربانی ، معاملات و معاشرت ،ایفاء عہد و پیماں،خوش اخلاقی و خوش گفتاری ،سادگی و غمخواری ،عجز و انکساری ،انصاف و مساوات ،صبر وقناعت اور عفو و تحمل کا وہ درس دیا جس کی نظیر رہتی دنیا تک کوئی پیش نہیں کر سکتا،حیات بنوی سے ناواقف ،تاریخ اسلام سے نابلدکچھ خود ساختہ مسلمان دانشوران بھی مہاتما گاندھی کو اہنسا کا سب سے بڑا پجاری گردانتے ہیں تاہم اگر یہ لوگ حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی حیات مبارکہ کا باب عفو و تحمل اور حسن اخلاق کا مطالعہ کر لیں تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اورذہن و دل کے دریچے کھل جائیں گے ۔آئیے رحمۃ للعٰلمین کے ساتھ پیش آئے چند دلسوز واقعات و حادثات پر نظر ڈالتے ہیں اور آپ ﷺ کا رد عمل بھی دیکھتے ہیں ۔
نور نظر ،راحت قلب و جگر حضرت زینب رضی اللہ عنہا اونٹ پر سوار ہوکر مدینہ کی طرف ہجرت کر رہی تھیں ،راستہ میں ہبار بن اسود نے حضرت زینبؓ پر نیزہ اس شدت سے مارا کہ کجاوہ سے گر پڑیں جس کی وجہ سے ان کا حمل بھی ساقط ہوگیا اوراسی حادثہ میں اللہ کی پیاری ہو گئیں ،جب مشفق والد مکرم محسن امت محمد ﷺ تک یہ اندوہناک خبرپہنچی تو آپ شیشے کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئے اس کے بعد جب جب حضرت زینبؓ کی یاد آتی فطرت انسانی کے مطابق آپ غصہ سے تلملا اٹھتے لیکن جب قاتل زینبؓ ہبار بن اسود نے اسلام لایا اور انہوں نے آپ سے اپنی غلطی کے لئے معافی مانگی تو آپ نے فراخ دلی سے معاف کر دیا ۔
اسلامی تاریخ کا بد ترین حادثہ سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے ،وحشی بن حرب نے آپ ﷺ کے سب سے قریبی اور چہیتے چچا حضرت حمزہؓ کو شہید کر ڈالا تھا ،یہی وحشی بن حرب جب مشرف باسلام ہوئے تو وہ اپنے وحشیانہ عمل کی معافی کے لئے دربار نبوت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ مجھے معاف کر دیا جائے ،آپ ﷺ نے کہا : وحشی !پہلے بتاؤ ! میرے چچا کوکس طرح تم نے شہید کیا تھا؟ جب وحشی نے واقعہ سنایا تو آپ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور غصہ سے چہرہ سرخ ہو گیا ،پھر فرمایا : وحشی تمہارا قصور معاف ہے لیکن تم میرے سامنے نہ آیا کرو ،تمہیں دیکھ کر میرے پیارے چچا جان یاد آجاتے ہیں ۔
طائف کی سنگلاخ زمیں میں آپ ﷺ دین اسلام کے پھول کھلانے کے لئے گئے تو مشرکین و کفار نے پاگل کہہ کر آپ کے اوپر اتنے پتھر بر سائے کہ جوتیاں خون سے تر بتر ہوگئیں اور پیروں سے چپکنے لگیں ، آپ کے لئے چلنا دشوار ہو رہا تھا بالأخر پہاڑوں کا فرشتہ حا ضر ہوا اور عرض کیا :یا رسول اللہ ! اگر حکم ہو تو ان دونوں پہاڑوں کو ملادوں اور ان ناہنجاروں کو، ان نالائقوں کوصفحۂ ہستی سے مٹا دوں ، آپ نے فرمایا : مجھے امید ہے ان کی آئندہ نسلوں میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو خالص اللہ کی عبادت کریں گے ،اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔(بخاری و مسلم )
لبید بن اعصم نے آپ ﷺ پر جادو سے حملہ کیا ،وحی کے ذریعہ سے آپ کو اللہ نے سب کچھ بتلا دیا مگرآپ نے اس کی گرفت نہیں کی، اسی طرح خیبر میں زینب نامی ایک یہودیہ نے آپ کو زہر دیکر مارنے کی کوشش کی مگر آپ نے اس سے انتقام نہیں لیا ۔
فتح مکہ کا دن ہے ،آج وہ سارے مجرمین آپ کے سامنے سرنگوں ہیں جنہوں نے آپ کو ،آپ کے اہل خانہ کو ، اصحاب کرام کو اورکمزور مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھائے تھے ،وہ ابو سفیان بھی ہے جس نے غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ خندق کی لڑائیوں میں کفار و مشرکین کی قیادت کی تھی ،اورنہ جانے آپ ﷺ کو کتنے دفعہ تہہ تیغ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی ،آپ چاہتے تو ایک ایک مجرم سے چن چن کر ان کے گناہوں کو گنا گنا کر بدلہ لے سکتے تھے ،کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ تھا ،اگر چاہتے تو مکہ کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہا دیتے ،کھوپڑیوں کے مینار لگا دیتے ،مگر قربان جائیے آپ نے فرمایا :جاؤ ! آج تم سب آزاد ہو ،آج کسی سے کسی طرح کا بدلہ نہیں لیا جائے گا ، جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا آج اس کو بھی امن ،جو ہتھیارڈالے گااس کو بھی امن اور جو دروازہ بند کر لے گا اس کو بھی امن ہے ۔(مسلم)
مذکورہ واقعات و حادثات کو دیکھیں کس طرح آپ میں عفو و تحمل کی قوت تھی ، دنیا میں کون ہے جو اپنی لاڈلی بیٹی کے قاتل کو فراخدلی سے معاف کردے؟ کون ہے جو شیر اسلام اور اپنے مشفق چچا کے خونی کو درگزر کر دے ؟کون ہے جو پتھروں سے مار مار کر لہو لہان کرنے والوں کو بخش دے؟کون ہے جو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے زہر دینے والے سے انتقام نہ لے ؟کون ہے جو ہلاک کرنے کی کوشش کرنے والے کو اف تک نہ کہے ؟کون ہے جو دشمن سے آسانی کے ساتھ بدلہ لینے کی طاقت و قدرت کے باوجود بدلہ نہ لے ؟آپ ﷺ نے عفوو تحمل کا وہ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا کہ آج تک اس جہاں میں بسنے والے اعلٰی سے اعلیٰ فرد بھی پیش نہ کر سکا اور نہ کر سکے گا،آپ نے اللہ غفور رحیم کے اس قول پر مضبوطی سے عمل کر کے دکھایا ’’معاف کرنے کی عادت اپناؤ ،نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے منھ نہ لگاؤ ،،(الاعراف:۱۹۸) یہ آیت مبارکہ جب نازل ہوئی تو آپ نے حضرت جبرئیل سے اس آیت کی وضاحت چاہی ،انہوں نے کہا :آپ کو بہترین اخلاق عطا کئے گئے ہیں ،جو آپ سے قطع تعلق کرے اسے جوڑیں،جو آپ پر ظلم کرے اسے معاف کر دیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ نے اپنے ذاتی معاملہ میں کبھی کسی کو سزا نہیں دی ،لیکن جب اللہ کے حدود کو کوئی توڑتا تو آپ اس کو اللہ تعالیٰ کے فرمان کی وجہ سے سزا دیتے تھے ۔ (بخاری )
اس لئے ہم غلامان محمد ﷺ کو چاہئے کہ اپنے اندر وہ تمام صفات پیدا کریں جو محبوب ﷺ میں تھیں خصوصاًقوت عفو و تحمل اور اخلاق حسنہ کہ یہ بہت بڑی نعمت ہے اور آپ ﷺکی بہترین سنت ہے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا