English   /   Kannada   /   Nawayathi

وہ زمانہ میں معزز تھے مسلماں ہوکر

share with us

جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ قرآن کے خادم تھے‘ مسجد کے امام اور خطیب تھے۔ تو ان کی حیرانی بڑھ جاتی ہے۔ بھلا قرآن کے خادمین کی اتنی عزت اتنی قدر و منزلت بھی ہوتی ہے۔ مسجد کے امام اور خطیب ہر دلعزیز ہوتے ہیں۔ اب ان غیروں کو سمجھانے سے زیادہ اپنوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بے شک قرآن کے خدمت گزار معاشرہ کے معزز ترین ہوتے ہیں۔ قرآن کے وہ خادمین جو قرآن پڑھتے بھی ہیں‘ پڑھاتے بھی اس پر خود بھی غور کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کا مفہوم سمجھاتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ خود قرآن کی عملی تفسیر بن جاتے ہیں... وہ فرضی خادمین قرآن یقیناًاتنی عزت، قدر و منزلت نہیں پاتے جو اپنے معمولی مفادات کے لئے قرآن کی آیات کو بیچ دیتے ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر قرآن کو قسم کھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جس کے گھروں میں قرآن ریشمی جزدانوں سے نکل کر اب ’’ڈیکوریشن پیس‘‘ کی طرح ڈرائنگ روم میں کسی ایسے اونچے مقام پر رکھا نظر آتا ہے جہاں ہاتھ نہ پہنچ سکے۔ قرآن کی تلاوت ہوتی بھی ہے تو کسی کی موت، فاتحہ سیوم، چہلم یا برسی کے موقع پر ایصال ثواب کے لئے رسمی طور پر یا پھر نئے گھر کو آباد کرنے یا کاروبار شروع کرنے کے موقع پر اس کا اہتمام ہوتا ہے۔ وہ بھی خود افراد خانہ نہیں بلکہ مدارس، یتیم خاتونں کے بچوں کے ذریعہ برکت کے لئے۔
حضرت شیخ عبداللہ قریش الازہری کے وصال پر جس ردعمل کا اظہار ہوا‘ ان کی آخری دیدار کے لئے جس قدر ہجوم امڈ پڑا... اس پر حیرت و تعجب نہیں۔ بے شک نہ تو وہ منصب اقتدار پر فائز تھے نہ ہی کوئی سیاسی اثرات و رسوخ کے حامل تھے اور نہ ہی معاشی طور پر طاقتور تھے۔
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری جانے والی آخری آسمانی کتاب کے پیغام کو عام کرنے والے تاقیامت اس طرح سرخرو رہتے ہیں۔ اللہ رب العزت جس پر مہربان ہوتا ہے اسے دین کا فہم عطا کرتا ہے۔ اس کے لئے قرآن فہمی ضروری ہے، قرآن فہمی کے لئے عربی زبان سے واقفیت ضروری ہے‘ اگر عربی زبان سے واقف نہ ہو تو مستند ترجمہ اور تفسیر سے فیضان حاصل کرنا ضروری ہے۔ اللہ کے کلام کا ترجمہ یا تفسیر کسی کے بس کی بات نہیں‘ صحابہ کرامؓ نے تک یہ اعتراف کیا ہے کہ ان میں نہ تو اتنی ہمت ہے اور نہ ہی اتنی سکت کہ وہ قرآن کی ترجمانی کرسکیں۔
قرآن کا ترجمہ اور تفسیر کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس کی صحیح قرأت لازم ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب تجوید سیکھی جائے۔ قرآن کو رک رک کر پڑھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اگر تلاوت خوش الحان کے ساتھ ہو تو عربی سے ناواقفیت کے باوجود وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اگر قاری اہل زبان ہو اور قرآن کے معنی و مفہوم سمجھ کر قرأت کررہا ہو تو ان آیات پر جس عذاب الٰہی، قہر خداوندی کا ذکر ہو اس پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے آواز میں رقت پیدا ہوجاتی ہے‘ جہاں اللہ رب العزت کے انعامات، احسانات، جنت کے وعدے کا ذکر آجائے تلاوت کے دوران اس کا لحن مسرت سے سرشار محسوس ہوتا ہے۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سبعہ و عشرہ کی قرأت سکھائی تھی‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو سکھایا۔ جن صحابہ کرامؓ نے فن قرأت میں بھی شہرت حاصل کی ان میں حضرت حارث بن نعمانؓ اور حضرت زید بن حارثؓ قابل ذکر ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کو پسند فرماتے تھے۔ آپ کا ارشاد ہے ’’اچھی آواز سے قرآن مجید کو زینت دو‘‘۔ حضرت امام عاصم کوفیؒ کو فن قرأت کا امام مانا جاتا ہے۔ برصغیر میں ان ہی کے طریقہ قرأت کی تقلید کی جاتی ہے۔ قاری محمد حبیب اللہ فرزند جناب محمد ثناء اللہ (مشیرآباد) کے مطابق عام طور پر دو طریقوں سے کلام پاک کی قرأت ہوتی ہے۔ مصری لحن سے جیسے ’مجود‘ کہتے ہیں اور ترتیل کے ساتھ جسے ’’مرتل‘‘ کہا جاتا ہے۔
’’مجود‘‘ کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ خیر! فن قرأت کو ہر اسلامی ملک کے علاوہ ہند۔پاک، بنگلہ دیش میں زبردست فروغ دیا جارہا ہے۔ خوش الحان قراء کرام کی قدر و منزلت ہے۔ یہ خوش الحان انہیں منصب امامت پر بھی فائز کرتی ہے اور حضرت بلالؓ کا جانشین بننے کی سعادت بھی عطا کرتی ہے۔ حضرت عبداللہ قریشی الازہریؒ غالباً حیدرآباد میں پہلے ازہری تھے جنہوں نے فن قرأت کو فروغ دینے میں نمایاں رول ادا کیا۔ آپ کی امامت میں نماز جمعہ اور رمضان المبارک میں تراویح پڑھنے کے لئے دور دراز سے لوگ مکہ مسجد آیاکرتے تھے۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے۔ ویسے تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جن جن حضرات نے قرآن کریم کی مختلف طریقوں سے خدمات انجام دیں‘ انہیں اللہ رب العزت نے ان کی زندگی میں بھی مقام عطا کیا اور ان کے دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی انہیں تاریخ کے اوراق میں محفوظ کررہا ہے۔ چاہے وہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ ہوں کہ حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، حضرت امام احمد رضا خان بریلویؒ ہوں کہ حضرت محمد شفیعؒ یاسرمرماڈک محمد پکھتال‘ رہتی دنیا تک ان کے نام عزت و احترام کے ساتھ لئے جائیں گے۔ ان خادمین قرآن کا یہاں ذکر نہیں ہے جو دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر حالیہ عرصہ تک خدمات انجام دیتے رہے جنہوں نے قرآن مجید کے مختلف زبانوں میں تراجم کئے۔ اس کی تعلیمات کو عام کیا جنہوں نے ترجمہ تفسیر نہ پڑھایا ہو صرف قرآن مجید کی قرأت سکھائی.. یہ بھی کچھ کم خدمت نہیں ہے۔ قرآن کی تلاوت اور سماعت دونوں ہی کا ثواب ہے۔
حضرت عبداللہ قریشی الازہریؒ پچاس برس سے زائد عرصہ تک قرآن پڑھاتے رہے۔ خطبہ دیتے رہے۔ آخری وقت تک بھی اپنی علالت کے باوجود ان کے معمولات میں بہت کم قرآنی آیات وہ بلاشبہ اللہ رب العزت کے محبوب بندے تھے۔ خالق حقیقی سے جاملنے سے پہلے بھی انہوں نے اس کے بندوں کو اس کے کلام کی تلاوت کی مشق کروائی۔ سبحان اللہ بلاوا آئے تو اس حال میں...
حضرت عبداللہ قریشی الازہری دولت مند نہیں تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں جو دولت عطا کی تھی وہ شاہوں کے نصیب میں بھی نہیں تھی۔ اس خادم قرآن کی دہلیز پر ارباب اقتدار حاضری دیتے، اپنے گھر‘ کاروبار میں خیر و برکت کے لئے چند لمحوں کے لئے ہی سہی آپ کو ساتھ لے جاتے۔ آپ سے خطبہ نکاح پڑھنے کی خواہش کرتے۔ حضرت کسی کا دل نہیں دکھاتے... اپنی علالت و مصروفیات کے باوجود ہر ایک کی دعوت کو قبول کرتے۔ ان کے لئے دعائے خیر فرماتے۔
آپ کے وصال پر مسلمانوں کو جس قدر رنج و غم ہوا جس طرح سے اظہار غم کیا گیا اس پر ارباب اقتدار اہل ثروت کو رشک ہوا یا ہوگا۔ بلاشبہ جس کے سینے میں قرآن محفوظ ہے جو اللہ کے کلام کا خادم ہے... ساری دنیا پر اس کا ہاتھ رہتا ہے...۔
وہ زمانہ میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا