English   /   Kannada   /   Nawayathi

انصاف کے مندر اور بھگوان کے گھر کا فیصلہ؟

share with us

یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ ہائی کورٹ کے فاضل جج نے ان تمام ثبوتوں کو جن کی بنیاد پر سیشن جج نے سزا دی تھی ناکافی قرار دے دیا۔ اور تین دن کی دماغ سوزی کے بعد یہ فیصلہ سنا دیا کہ سلمان خاں کے خلاف اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ شراب پئے ہوئے تھے اور وہی گاڑی چلا رہے تھے اور ان کی اسی حالت کی وجہ سے ایک غریب مرگیا اور چار غریب زخمی ہوگئے۔ اور یہ وہ تھے جن کے لئے منور ؔ رانا نے کہا ہے کہ ؂
سوجاتا ہے فٹ پاتھ پہ اخبار بچھاکر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتا
مقدمے کی روداد سناتے وقت ہر چینل اس گاڑی کو بھی دکھا رہا تھا جس کی حالت ایک شیڈ سے ٹکراکر خستہ ہوگئی تھی اور جس سے ثابت ہورہا تھا کہ شراب کا ہی نشہ تھا جس سے ہاتھ قابو میں نہیں تھے۔ محترم جج صاحب نے فرمایا ہے کہ شراب کا جو بھی ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے وہ 27 تاریخ کا ہے اور حادثہ 28 کو ہوا۔ ہم اگر سرکاری وکیل ہوتے تو کہتے کہ یہی اس کا ثبوت ہے کہ 27 کو پینا شروع کی اور جب 28 آنے لگی تو بل دے کر باہر آئے۔ اگر آدھی رات تک نہ پی ہوتی تو شاید یہ نہ ہوتا۔ کون باذوق ہے جسے یہ شعر یاد نہ ہو۔ ؂
اے زر تو خدا نہ سہی و لیکن بخدا
ستار العیوب و قاضی الحاجاتی
سنبھل میں انگریزوں کے زمانہ میں سب سے اہم شخصیت نواب عاشق حسین صاحب کی تھی ان کو نواب کا خطاب بھی ملا تھا اور تاحیات وہ میونسپل بورڈ کے چیئرمین بھی تھے اور بہت بڑے تعلقہ دار بھی۔ تقسیم کے زمانہ میں سنبھل میں بھی کسی بات پر فساد ہوگیا اور شہرت یہ ہوئی کہ نواب صاحب کے دیوان خانہ سے گولیاں چلیں اور اس وقت عام شہرت تھی کہ نواب صاحب کے قریب ایک کنواں ہندوؤں کی لاشوں سے پٹ گیا تھا۔ بات چونکہ 70 سال پرانی ہے اس لئے بعض باتیں غلط بھی ہوسکتی ہیں۔ لیکن اتنا یاد ہے کہ نواب زادہ محمود حسین تو ضرور تھے اور ان میں کوئی اور تھا یا نہیں؟ لیکن دیپاسرائے کے بڑے بڑے زمینداروں کے لڑکوں کو ملزم بنایا گیا تھا اور دس سے زیادہ کو سیشن سے پھانسی کی سزا ہوئی تھی۔ دیپا سرائے سنبھل کے اس واقعہ کی یادیں تازہ تھیں کہ وہاں کے دو جوانوں کو پھانسی کے بعد بریلی جیل سے لایا گیا تھا اور چوک میں سفید چادروں سے ڈھکے دو جنازے رکھے تھے۔ یہ منظر اپنے بچپن میں ہم نے خود بھی دیکھا تھا۔
ہر زبان پر یہ تھا کہ کیا اب چوک میں دس جنازے دیکھنے کو ملیں گے؟ قارئین کرام کو معلوم ہوگا کہ ہر زمیندار کو مقدمات بہت لڑنا پڑتے تھے۔ سنبھل میں ایک بہت ماہر مقدمے باز تھے۔ انہوں نے ان زمینداروں کو بند کمرہ میں بلایا اور کہا کہ آج فیصلہ کرو کہ دولت پیاری ہے یا جوان بیٹا؟ ہر کسی کی زبان سے بیٹا کیسے نہ نکلتا جبکہ ہر آنکھ میں آنسو تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں مراد آباد جارہا ہوں۔ کوئی یہ نہ پوچھے کہ کیوں؟ اور واپس آکر جتنے جتنے روپئے مانگوں یہ معلوم کئے بغیر دے دینا کہ کیوں؟ اور میرا بھی بیٹا ہے۔ اتنے ہی میں بھی دوں گا اور یہ بات بار بار سنی کہ وہ تھیلا بھرکے روپئے لے گئے اور ہائی کورٹ میں فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کرکے واپس آگئے۔ یاد نہیں کہ کتنے دن کی بات ہے۔ سنبھل میں اس خبر سے زلزلہ آگیا کہ سیشن عدالت سے جو فائل الہ آباد ہائی کورٹ گئی تھی وہ راستہ میں چوری ہوگئی جس میں ایف آئی آر سے لے کر فیصلہ تک کے تمام کاغذات تھے اور اللہ جانے سچ تھا یا جھوٹ کہ مراد آباد میں جس اہلکار کو خریدا تھا اسے اتنے روپئے دیئے تھے جو وہ اگر اپنے عقیدے کے مطابق دو بارہ جنم لے کر بھی خرچ کرتا تب بھی سب خرچ نہ ہوتے۔ اور تمام ملزمین سینہ پھلائے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو آگئے۔ ان کے زندہ واپس آنے کی خوشی اس لئے جائز تھی کہ ہر نام جھوٹا تھا۔
اور اس واقعہ کو تو صرف 37 برس ہوئے ہیں جب 1978 ء میں سنبھل میں فساد ہوگیا تھا۔ اس میں بھی 80 ملزموں میں سے شاید ہی کوئی نام حقیقی ہو۔ اس میں ہمارے بھی کئی عزیز تھے۔ ان کی وجہ سے ہم سب کام چھوڑکر ایک مہینہ سنبھل میں رہے تھے۔ اسی زمانہ میں معلوم ہوا تھا کہ ہر رپورٹ تھانے میں بیٹھ کر وکیل نے لکھی ہے جس میں پولیس بھی شریک تھی ان 80 ناموں میں 20 سے زیادہ وہ تھے جن کے متعلق لکھا تھا کہ حکیم احسن کے دو لڑکے نام معلوم نہیں دیکھ کر پہچان لوں گا۔ حکیم صاحب کے سات لڑکے تھے اب یہ سپاہی کے اوپر تھا کہ وہ جسے چاہے ملزم بنادے۔ اور بہت سے لوگوں کے لڑکے تھے۔
اس رپورٹ میں بھی ہمارے ہندو دوستوں نے یہی حماقت کی تھی کہ جتنے بھی دولتمند اور کاروباری مسلمان تھے ان کے لڑکوں کے نام لکھوا دیئے تھے۔ مسئلہ جین فیکٹری کا تھا جس میں کام کرنے والے 14 ہندوؤں کو مارکر وہیں جلانے کی کوشش بھی کی تھی اور رپورٹ لکھوانے والی پولیس کی بزدلی کا یہ حال تھا کہ فیکٹری کے منیجر نے نہ جانے کتنے فون کئے کہ بلوائی قریب آگئے ہیںَ یا پھاٹک توڑ رہے ہیں یا پھاٹک ٹوٹنے والا ہے اور ایک پولیس چوکی صرف 100 میٹر سے بھی کم تھی اور کوتوالی صرف ایک کلومیٹر لیکن مسلح پولیس بھی ڈر کی وجہ سے نہیں آئی اور جب آئی تو مربھی چکے تھے اور کافی جل بھی چکے تھے۔ اس مقدمہ کے 80 ملزم برسوں تک کسی تاریخ پر بھی جمع نہ ہوسکے۔ اور نہ جانے کتنے ججوں کا تبادلہ بھی ہوگیا پھر ایک بہادر جج آیا اور اس نے یہ دیکھ کر کہ نہ فیصلہ ہوا ہے اور نہ ہوسکتا ہے بند کمرہ میں سودا کیا اور مقدمہ کو سونے کی قبر میں لٹاکر چاندی کے تختے رکھ کر بند کردیا۔ اور 80 گھرانوں میں ایسا ہی جشن منایا گیا جیسا سلمان خاں کے ہاں ہورہا ہے۔
سلمان خاں اور عامر خاں شہرت کے آسمان پر ہیں۔ عامر خاں ہوسکتا ہے مقبولیت میں کم ہوں لیکن وہ سلمان سے بہت سنجیدہ ہیں۔ تین ہفتہ پہلے ہی ’’چلتے چلتے‘‘ پروگرام میں عامر خاں نے جس سنجیدگی سے کہا تھا کہ انصاف یہ ہے کہ سلمان کو سزا ملے اور وہ یا ہم جو پکچروں میں دکھاتے ہیں کہ انصاف ملے چاہے وہ غریب کو ملے چاہے امیر کو۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی ذاتی معلومات کی وجہ سے کہہ رہے تھے کہ گاڑی سلمان ہی چلا رہے تھے اور نشہ میں بے قابو تھے۔ انہوں نے تو یہ بھی کہا کہ بالی ووڈ کے اندر اور باہر بھی ایسی آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ جسے مرنا تھا وہ تو واپس آنے سے رہا اب سلمان کو سزا دینے سے کیا ملے گا؟ یہ ہیں وہ ثبوت جن کے ہوتے ہوئے انصاف کا خون ہوا ہے۔
فیصلہ کی تفصیل پڑھنے کے بعد نہ جانے کیوں سپریم کورٹ کا وہ تلخ تبصرہ یاد آیا جس میں الہ آباد ہائی کورٹ کے لئے کہا تھا کہ ججوں کے بھائی بھتیجے بھانجے اور داماد بڑے سے بڑے مجرم کی منھ مانگی فیس لے کر ضمانت کرادیتے ہیں اور جج صاحب کہہ دیتے ہیں کہ دو لاکھ روپئے کی ضمانت ہے اور ضامن بھی ہمارے قبضہ میں ہے۔ جس پر کورٹ نے واویلا کیا تھا اور کہا تھا ایسا تو ملک کے ہر ہائی کورٹ میں ہوتا ہے۔ تو کیا ممبئی ہائی کورٹ بھی اس فہرست میں ہے؟
خبروں میں بتایا گیا ہے کہ فیصلہ سن کر سلمان رو پڑے۔ یہ نہیں معلوم کہ یہ آنسو خوشی کے تھے یا اس کے کہ وہ سنجے دت کی طرح جیل جانے سے بچ گئے اور 100 کروڑ یا دو سو کروڑ ہفتے کے کلب میں جمے رہیں گے۔ یا ہوسکتا ہے کہ ان کے اندر کے چھپے ہوئے مسلمان نے ان کے ضمیر کو للکارا ہو۔ بہرحال دنیا نے دیکھ لیا کہ اگر کسی کے پاس خزانہ ہے اور وہ یہ نہ دیکھے کہ کیا چیز کتنے میں مل رہی ہے؟ تو وہ ہر چیز خرید سکتا ہے۔ بقول شیخ حسن النبنا شہیدؒ ۔ جو نہیں بکا اسے ناقابل فروخت نہ سمجھو بلکہ یہ سمجھو کہ ابھی اس کی صحیح قیمت نہیں لگی وہ جس دن لگ جائے گی وہ بک جائے گا۔ کسے معلوم ہے کہ سلمان خاں کے مقدمے میں کون کون بکا اور کتنے کتنے میں بکا؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا