English   /   Kannada   /   Nawayathi

طارق فتح اور زی نیوز کے خلاف کرناٹک ہائی کورٹ میں کارروائی شروع(مزید اہم ترین خبریں)

share with us

مسعود مدنی پر حملہ کوئی نئی بات نہیں یہ ہماری غلطیوں کا خمیازہ ہے؟

اقلیتی طبقہ ہندو شہریوں کانہی بلکہ سرکاری مشینری کے عتاب کاشکار؟

سہارنپور۔یکم اپریل(فکروخبر/ذرائع) دیوبند کے مسعود مدنی جو کسی الزام میں یہاں گزشتہ کتنے ہی دنوں سے جیل میں بند ہیں کل جب پولیس انکو دیوبند لائی تو عدالت کے راستہ میں چند شرارت پسندوں نے انکو روکنے اور پولیس پر حملہ کرنیکی ناکام کوشش کی گئی پولیس انکو عدالت میں نہ لیجاکر واپس لے گئی ایسے حالات قابل مذمت ہیں مگر اس طرح کے حالات کو ہندو مسلم سے جوڑنا نہایت ہی بیوقوفی بھرا نظریہ ہے؟ملک میں مسلم مخالف ماحول بنانے کیلئے کے لئے ہم صرف بھگواجماعتوں، بھاجپا اور آر ایس ایس کو ہی ذمہ دار نہی ٹھراسکتے کیونکہ گزشتہ عرصہ میں مئی ۲۰۱۴ تک یعنی دس سال تک لگاتار ملک کے مرکزی تخت پر منموہن سنگھ کی سرکار قابض رہی تب بھی مسلم اقوام کے ساتھ بڑے پیمانہ پر سوتیلا برتاؤ کیاگیا کوئی نہی بولا جو لوگ دس دس سالوں بعد جیلوں سے باعزت بری کئے جارہے ہیں انکی گرفتاری منموہن سرکار کے رہتے ہی کیگئی تھی۔ پچھلی سرکاروں کے دور اقتدار ہی میں ملکی اہم خفیہ یونٹ نے بیقصور اور مظلوم مسلمانوں پردہشت گردی کیبے تحاشہ فرضی الزامات لگائے اور انکو جیلوں میں ٹھونسا دہلی ، ممبئی ، حیدرآبا، لکھنؤ ، دیوبند، سہارنپور، رامپور ، بریلی اور میرٹھ سے گزشتہ عرصہ میں جس قدر بھی مسلم افراد کی گرفتاریاں ہوئیں وہ سبھی منموہن سنگھ سرکار کے دور اقتدار ہی میں عمل میں لائی گئیں ، پچھلے پانچ سالوں میں یوپی جو سیکڑوں دنگے ہوئے وہ سماجوادی سرکار ہی میں رونما ہوئے بھاجپا مرکز میں تین سال سے اور یوپی میں بارہ دنوں سے اقتدار میں قائم ہے اس کے لئے ہندو شہری کسی بھی صورت ذمہ دار نہی ان سبھی بیہودہ اقدام کیلئے مفاد پرست کرسی کے بھوکے لالچی سیاست داں ہی ذمہ دار ہیں۔ مسلمانوں کی زیادتی کا بدلہ ان موقع پرستوں اور گندی سوچ والوں کو از خد ہماری قابل قدر عدالتیں مسلم ملزمین کو باعزت بری کرتے ہوئے لگاتار دیتی آرہی ہیں۔ ملکی پولیس اور خفیہ ایجنسیز کی لاپرواہی اور مسلم ملزمین کی گرفتاری کی اصلیت لمبے عرصہ بعد عدالتی کاروائی میں ججوں کے سامنیلائی گئی کہ کس انداز میں جبریہ طور پر کسی اہم سازش کے تحت ہی بیقصور مسلم افراد کو جیل میں ٹھو نساگیااس اصلیت کے اجاگر ہوجانیکے کے بعدہی معزز عدالتوں نے اپنے لمبے چوڑے فیصلوں میں پولیس کے خلاف بیڈ ریمارکس دیتے ہوئے اس حرکے کی مذمت کی اور اب چودہ سال، دس سال، نو سال اور چھ سال کے لمبے عرصہ بعد عدالتی کاروائی مکمل ہو جانیکے بعد ملک کی معزز عدالتیں ان مسلم افراد کو باعزت بری کر رہی ہیں سہی معنوں میں بلاوجہ مسلمانوں کو آدھی زندگی جیل میں ٹھونسنے والوں کے خلاف مجرمانہ دفعات میں کرمنل معاملہ درج کئے جانے آئینی طور پر جائز ہیں مگر؟ مسلم اور ہندو پچھڑا سماج اور پسماندہ سماج کی فلاح اور بہبودگی کیلئے گزشتہ۴۰سالوں سے مختلف اضلاع میں مختلف عملی کام انجام دیتے آرہے ۔سابق سماجوادی رہبر سرگرم ملی قائد ڈاکٹر فرقان احمد غوری سے آج ہماری ان حالات پر گفتگو ہوئی تو آپنے صاف طور سے کہا کہ آزادی کے۷۰ سال بعد سپریم کورٹ ، ممبئی ہائی کورٹ، پٹنہ ہائی کورٹ، ہریانہ پنجاب ہائی کورٹ ، اتراکھنڈ ہائی کورٹ اور الٰہ آباد ہائی کورٹ کی فل بینچ اور کچھ جسٹس کھلے عام بیقصور مسلم ملزمان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے متعلقہ خفیہ ایجنسیز ، اے ٹی ایس اور آئی بی کے ساتھ ساتھ پولیس کو لمبے عرصہ مسلم ملزمان کو جیل میں رکھے جانیکے بعد بھی انکے خلاف عدالت کے سامنے پختہ ثبوت پیش نہی کرسکی مندرجہ بالا قابل قدر عدالتوں کے مہذب جسٹس صاحبان نے اسی نظیر کے ساتھ چودہ، بارہ، دس اور سات سات سالوں سے بلا وجہ جیل میں قید مسلمانوں کو باعزت بری کرتے ہوئے درجن بھر مقدمات میں خفیہ ایجنسیز اور مقامی پولیس کی زبردست تنقید کی اتناہی نہی بلکہ سہی طورپر یوپی ہائی کورٹ میں اپنے بیباک فیصلوں کیلئے مشہور قابل جسٹس کاٹجو ،ریاست کے سینئر آئی پی ایس افسر وبھوتی نارائن رائے بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار کے علاوہ مہذب خاتون اور بنگال کی انقلابی چیف منسٹر ممتا بینرجی جیسے لوگ اکثر بیس سال قبل سے اور آج بھی مسلمانوں کی حمایت میں کھلے طور پر سہی اور حق پر مبنی بیان دے رہے ہیں یہ ذمہ دار قائد جہاں مسلم اقوام کی حالت میں سدھار کی بات کرتے ہیں وہیں بیروزگار مسلم نوجوانوں کو باروزگار بنانیکی زبردست وکالت کرنے کیساتھ ساتھ ا ردو کی کھلے عام حمایت کر رہے ہیں جبکہ مسلم طبقہ کے ووٹ حاصل کر کے پچھلے ۲۶ سالوں سے اقتدار کا مزہ لوٹنے والے ہمارے نام نہاد سیکولر مرکزی اور صوبائی وزر ا ممبران لوک سبھا اور قانون سازاسمبلی کے ممبر ان خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اس ملک کو نقصان اس ملک کے نام نہاد قومی سیاست دانوں سے ہی پہنچا ہے اورمسلمانوں کو سب سے زیادہ نام نہاد اور دینی تعلیم سے نا بلد نام نہادمسلم سیاسی قائدین اور سیاسی علماء نے تو اس قوم کی درمیانی نسل کو فساد اور فرقہ پرستی کی آگ میں جھلستا جھوڑ کر تباہ و برباد ہی کر دیاہے۔
سابق سماجوادی رہبر سرگرم ملی قائد ڈاکٹر فرقان احمد غوری نے صاف کہاکہ یہاں یہ بھی امر قابل غور ہیکہ کسی بھی مسلم وزیر ، ممبر لوک سبھا اور ممبر اسمبلی نے پچھلے۷۰ سالوں سے ملک میں ہونے والے دنگوں پر یا پھر بابری مسجد کی شہاد ت پر اپنے عہدوں سے استعفیٰ تکٰ نہی دے سکے سبھی کے سبھی ذمہ دار اپنے اپنے مفاد کی طرح اپنے اپنے عہدو ں پر قائم رہے یہ مسلم سیاسی ذہن ٹھیکیدار آج بھی اسی پرانی روش پر قائم رہکر امن پسند قوم کو سیاسی جماعتوں کیلئے استعمال کرتے ہوئے اپنے گھروں کو روشن اور مسلم اقوام کے گھروں کو تاریک کر رہے ہیں اگر یقین نہ ہوتو گزشتہ ۷۰ سالہ سرکاری ریکارڈ اٹھاکر دیکھیں مسلم قوم کی وفاداریاں اور مسلم قائدین کی قلابازیاں خد بہ خد ظاہر ہوجائیں گی! سابق سماجوادی رہبر سرگرم ملی قائد ڈاکٹر فرقان احمد غوری نے بھی اپنے ایک مکتوب کے ذریعہ کل پریس کو بتاکہ مہاراشٹر ، گجرات، راجستھان، اتر پردیش ، جموں وکشمیر اور مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کے ساتھ آزادی کے بعد سے جو ظلم اور جبر سرکاری مشینری نے انجام دیا وہ قابل مذمت عمل ہے جسکی جانچ اشد ضروری ہے۔ ملک نے کہاکہ جس طرح سے ان ریاستوں میں سازش کے تحت مسلمانوں کو لوٹا اور قتل کیا گیا وہ پوری دنیا کے سامنے ہے مسلمان گجرات ، بھاگل پور ، راجستھان مظفر نگر، شاملی ،میرٹھ ،سہارنپور، کانپوراور فیض آباد کے علاوہ درجنوں افسوسناک فسادات کو اور پھر ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت کے سنگین معاملات کو کسی بھی صورت بھول کر بھی بھلایا نہی جاسکتاہے آپنے کہاکہ یہ سبھی سنگین جرائم کانگریس، سماجوادی پارٹی اور نام نہاد سیکولر جماعتوں کے دور اقتدار میں ہی رونماہوئے ہیں جو قابل شرم قابل ندامت عمل ہے ۔ کمشنری کے سابق سماجوادی رہبر سرگرم ملی قائد ڈاکٹر فرقان احمد غوری نے صاف کہاہے کہ چند فیصد ایک خاص فکر اور ذہنیت کے لوگ ہماری ان وفاداریوں کو دہشت گردی کا نام دیکر ہمیں پوری دنیا میں ذلیل و خوارکرنے کا کام انجام دے رہے ہیں اور ہماری قوم پر طرح سے حملہ کر رہیہیں یہ قابل ندامت برتاؤ ہے یہ ہمارے عظیم ملک ہندوستان کی قابل قدر تہذیب کیلئے بھی شرم کی بات ہے ،سابق سماجوادی رہبر سرگرم ملی قائد ڈاکٹر فرقان احمد غوری نے کہاکہ پچھلے سالوں میں مرکز اور ریاستی سطح پر اقتدار پر قابض لوگ صرف مسلم اقوام کو ہندو مسلم فسادات ،دہشت گردی اور ملک سے دغابازی کا خوف دکھاکر اس فرقہ کو محض اپنے ووٹ کے لئے استعمال کر رہے ہیں جو ملک کے آئین کے خلاف ہونیکے علاوہ ملک کے صاف شفاف جمہوری چہرے کے لئے زیادہ شرمناک ثابت ہوگیاہے اب موجودہ حکمرانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آئینی طریقہ سے مسلم اقوام کو تحفظ فراہم کرائیں تاکہ ملک میں امن وچین قائم رہے اسی غیر ذمہ دارانہ روش پر اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے سوشل رہبر ڈاکٹر فرقان غوری نے بیباک لہجہ میں کہا کہ آج ملک کو بے لوث،بیباک ، کھلے ذہن اور با شعور مسلم قیادت کی ضرورت ہے ہم نے اپنے اکابرین کو اور اکابرین کی تعلیمات کو اور اکابرین کے تجربات کو نظر انداز کرکے قوم پر اپنے فیصلہ تھونپ کر گزشتہ ۷۰ سالوں میں اپنا اور اپنی امن پسند قوم کابڑا نقصانکر چکے ہیں کشواہا نے کہا کہ ہمیں ملک میں کسی کے رحم و کرم کی اور مدد کی ضرورت نہیں ہمیں تو مرکزی سرکار ہماری اوقاف کی جائیدادیں اور صوبائی سرکاری بھی ہماری اوقاف کی جائیدادیں ہی سونپ دے اور انکو محفوظ کر ا دے تو ان اوقاف کی جائیدادوں کی آمدنی کے ذرائع ہی مسلم قوم کی نسلوں کو خوشحال بنانے کیلئے بہت کافی ہے فوٹو۔۔ڈاکٹر فرقان احمد غوری 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا