English   /   Kannada   /   Nawayathi

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں: سورت کے جواں عزم کاروانِ علم ودعوت سے امیدیں (سفر گجرات ۵)

share with us

✍️محمد سمعان خلیفہ ندوی 
استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل

عصر بعد چائے سے فارغ ہوکر ہم “ساحل” سے نکلے اور دار الحمد پہنچے، یہ ایک علمی وتحقیقی ادارہ ہے، جس کے روح رواں ہمارے اس سفر کے محرک اور میزبان مفتی طاہر صاحب سورتی ہیں، نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو، اہل اللہ کے فیض یافتہ، رقیق القلب، شیریں زباں، تواضع اور سادگی کا پیکر۔ حلقۂ علم وکتاب کے واسطے سے مولانا سے شناسائی تھی مگر غائبانہ۔
حتی التقینا فلا واللہ ما سمعت
أذناي بأحسن مما قد رآی بصري
دار الحمد کے باب الداخلہ پر تھے کہ دو ننھے منے بچے نظر آئے اور ایک دم سے مولوی زفیف کو دیکھ کر گنگنانے لگے ؀
نبی نبی نبی نبی 
نبی نبی جانم
یہ نعت نبی جانم فدائے دل بری کی ابتدا میں پڑھے جانے والے اشعار تھے، ان اشعار کو سن کر راقم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ ننھا منا بچہ گنگنائے جارہا تھا اور مولوی زفیف سے پوچھ رہا تھا کہ تم وہی ہو نا؟ نبی نبی والے؟ اور تمھارا بیٹا کہاں ہے؟ اس کو چھوڑ کر کیوں آگئے؟ (عتبان میاں کو اس نے زفیف میاں کا بیٹا سمجھ کر یہ کہا)۔

معصوم بچے کی زبان پر جو آیا کہ تم نبی نبی والے ہو نا؟ خدا ہم سب کو اسی طرح بنادے، ہم سب نبی والے بن جائیں، یہی ہماری پہچان ہو اور یہی ہماری شان ہو، دنیا بھی اسی سے پہچانے اور سب سے بڑھ کر خالق ومالک اور اس کے محبوب نبی بھی ہمیں اپنا کہہ کر پکاریں، اور نعت پڑھنے والے کے ساتھ لکھنے والے اور سننے والوں کو بھی حوض کوثر پر نبیِ محبوب یاد فرما کر اپنے مبارک ہاتھوں سے جامِ کوثر عنایت فرمادیں۔ بس یہی حسرت وارمان اور یہی آرزو اور مدعا ہے۔
اس سفر میں بارہا ایسے مواقع آئے کہ زفیف میاں اسی لب ولہجے اور اسی نعت سے پہچانے گئے۔ اور اجنبی ہو کر بھی اسی نسبت سے لوگ ان سے ملتے رہے۔
پھر دار الحمد میں ہم داخل ہوئے، اس ادارے نے قلیل مدت میں کئی علمی موضوعات پر کتابیں تیار کی ہیں، مولوی داؤد میمن، مولوی مصعب منیار، مولوی عبد الاحد فلاحی وغیرہ اس کے فعال کارکن ہیں، عوام کی دینی رہ نمائی کے لیے مختلف موضوعات پر کتابیں تیار کی گئی ہیں، بالخصوص حضرت مفتی خان پوری دامت برکاتہم کے ارشادات اور شیخ الحدیث مولانا یونس صاحب نور اللہ مرقدہ کے علمی افادات کے کئی مجموعے مرتب کیے گئے ہیں، نیز نکاح، ازدواجی وعائلی زندگی، فقہ البیوع وغیرہ پر مختلف انداز سے اردو اور گجراتی زبان میں رہ نمائی کا کام جاری ہے، اور تقریباً اٹھائیس کتابیں یا رسالے شائع ہوچکے ہیں، مختلف موضوعات پر ورک شاپ بھی منعقد کیے جاچکے ہیں، نیز واٹس ایپ پر آڈیو کے ذریعے سے روزانہ کتابوں کو پڑھ کر بھیجنے کا سلسلہ بھی جاری ہے تقریباً ڈیڑھ درجن کے قریب کتابیں پڑھی جاچکی ہیں، اس طرح مختلف نوعیتوں سے الحمد للّٰہ یہ کاروان علم اپنی علمی ودینی ذمے داریوں کی ادائی میں ہمہ تن مصروف ہے، اور سب سے بڑی بات یہ کہ دوستانہ ماحول میں باہمی تعاون سے یہ سب کام انجام پاتے ہیں، پھر دل کے نہاں خانے میں سلگ رہی آتش عشق اور محبوب حقیقی کی یاد میں ہلنے والے ہونٹ بھی اس قافلۂ ایمانیاں کو ممتاز بنا کر زندگی کی راہوں میں گرمِ سفر رکھتے ہیں۔ اللہ کرے یہ کارواں نئی نئی منزلوں سے آشنا ہوتا رہے اور آسمانِ علم وتحقیق پر خوب کمندیں ڈالتا رہے۔
اس موقع پر مولانا عبد المتین منیری صاحب نے موجودہ علمی انحطاط پر روشنی ڈالتے ہوئے اہم ترین باتوں کی طرف اشارہ کیا اور علم وادب کے فروغ نیز دعوتی تقاضوں اور معاصر اسلوب کے تئیں موجودہ بے اعتنائی پر سیر حاصل گفتگو کی اور زبان وقلم میں تاثیر کن چیزوں سے پیدا ہوتی ہے اور کن اہل قلم کا اسلوب موجودہ زمانے میں مؤثر ہوسکتا ہے اس پر بھی آپ نے روشنی ڈالی۔ الغرض گفتگو بڑی مرتب اور دل پذیر تھی، شاید ریکارڈ بھی کی گئی ہو، اور اگر اس کو قلم بند کرکے زیور طبع سے آراستہ کیا جائے تو طلبۂ علم کے لیے بڑی مفید بھی ہوگی۔
پھر مغرب کی نماز کے لیے ہم رفاعی سلسلے کی ایک مسجد پہنچے جہاں مسجد سے متصل خانقاہ اور خانقاہ میں کئی ایک قبریں موجود تھیں، مغرب کی نماز ادا کی گئی، جس کے بعد امام صاحب نے کچھ مخصوص رسمیں بھی ادا کیں، ملاقات پر معلوم ہوا کہ اس خانقاہ کے سجادہ نشین بھی وہی ہیں، ان سے گفتگو ہوئی تو کئی ایک موضوعات زیر بحث آئے، مولانا نے تاریخی معلومات بھی حاصل کرنی چاہیں مگر جوابات میں استنادی پہلو کم اور سنی سنائی زیادہ نظر آئی، عجیب بات یہ کہ مختلف داستانیں بھی انھوں نے سنائیں، کئی ایک قبروں کے متعلق بھی بتایا بلکہ ایک قبر کے متعلق بتایا کہ یہ ایک صحابی کی قبر ہے جو خانقاہ کی تعمیر کے موقع پر دریافت ہوئی، اتنا اندازہ ضرور ہوا کہ یہاں جو قبریں ہیں وہ کئی سو سال پرانی ہوں گی لیکن یقین سے صحابہ اور تابعین یا تبع تابعین کی قبریں کہنے کے لیے دلائل کی جو کمک چاہیے وہ شاید علمی سرمایوں میں نہ مل پائے۔ پھر بھی ہم سے وہ بزرگ خوشی خوشی ملے اور بہت کچھ قصے جلدی جلدی ہی میں ہمارے گوش گزار کرتے رہے۔
وہاں سے ہمیں پھر ایک اور خانقاہ لایا گیا جہاں عیدروس باعلوی خاندان کے کئی مشائخ تہہ خاک محو خواب تھے، یقیناً اس خانقاہ کی تاریخ بھی کئی سو سال پرانی ہوگی۔ تفصیل ان شاء اللہ مولانا منیری صاحب کے قلم سے معلوم ہوگی۔
وہاں مقیم عیدروس خاندان کے ایک فرد (جو بھٹکل سے قریب مرڈیشور میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں) نے اپنے مکان پر بلاکر ہماری ضیافت کی اور اس سلسلے کے متعلق کئی باتیں بتائیں، یہیں کے شیخ جمال الدین محمد بن عبد اللہ بن شیخ العیدروس باعلوی رح کی کسی عربی کتاب کا انھوں نے ذکر کیا جو مولانا عبد اللہ کاپودروی رح کو کسی بیرونی سفر کے دوران میں حاصل ہوئی اور انھوں نے اس کتاب کا نسخہ لاکر ان کے خاندان والوں کے حوالے کیا اور اس کو اردو میں شائع کرنے کا مشورہ دیا، تو اس طرح “اللہ والوں کی مقبولیت کے راز” کے نام سے یہ کتاب اردو میں شائع ہوکر مقبول ہوئی۔ 
یہاں سے ہمیں جلد فارغ ہوکر مسجد انوار پہنچنا تھا جہاں عشا کی نماز کے بعد ایک عمومی پروگرام رکھا گیا تھا اور اس میں مولانا عبد المتین منیری صاحب کو راندیر اور سورت کی تاریخ کے حوالے سے خطاب بھی کرنا تھا۔
اس لیے وہاں سے ہم نے مسجد انوار کا رخ کیا جہاں مدرسہ رحمانیہ کے طلبہ و اساتذہ و دیگر حاضرین چشم براہ تھے۔
پروگرام کا آغاز تلاوت (مولانا عبد المقیت) اور نعت (مولوی زفیف) کے ذریعے ہوا پھر مفتی طاہر صاحب نے مولانا عبد المتین صاحب منیری، نیز بھٹکل میں جاری مختلف کاموں کے تعارف کے لیے راقم کو آواز دی۔ پھر مولانا نے تفصیلی خطاب فرمایا جس میں طلبہ کو علم دوستی اور طالب علمانہ زندگی میں کتاب سے وابستگی اور اس کے آداب پر روشنی ڈالی۔ پروگرام راست طور پر دار الحمد کے یوٹیوب چینل پر نشر بھی کیا گیا۔
تقریبا گیارہ بجے شب عشائیہ کے لیے ہم “ساحل” پہنچے اور پرتکلف عشائیہ سے فارغ ہوئے۔ 
مولانا حذیفہ وستانوی صاحب کی اکل کوا حاضری کے لیے محبت بھری دھمکیاں اور دھمکی بھرے محبت آمیز پیغامات مستقل موصول ہورہے تھے، مگر وقت کی تنگ دامانی! صرف تین دن کے لیے یہ غریب الدیار گجرات کا چپہ چپہ چھان مارنے کی خواہش لے کر آئے تھے! ایسے میں سرزمین علم وفن کی خاک ہی میسر آجائے بہت بڑی بات تھی! اس لیے خواہش کے باوجود ہم لوگ اکل کوا کا اس سفر میں حوصلہ نہ کرسکے اور چوں کہ علی الصباح احمد آباد کے لیے نکلنا تھا اور راستے میں کئی ایک مقامات کھروڈ، بھروچ وغیرہ سے ہوکر گزرنا تھا اس لیے بھی وقت اپنی تنگ دامانی کی شکایت کررہا تھا اور ہم اس کی سوئیوں کے سامنے ناچار!
دیر رات تک “ساحل” پر جو عرفانی ونورانی مجلسیں منعقد ہوئیں ان کا تذکرہ آچکا ہے۔ اس لیے فی الحال اتنا ہی۔ پھر آئندہ۔

محمد سمعان خلیفہ ندوی
سورت سے احمد آباد کے راستے میں 
8 صفر  1443ھ مطابق 16 ستمبر 2021

 

سلسلہ وار مضامین کی شائع گذشتہ قسطیں ان لنکس پر کلک کرکے پڑھ سکتے ہیں۔

 

ایک یادگار شب - جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں

 

چلتے چلتے مگر حیرت کی تصویر بنتے | جامعہ اصلاح البنات، سملک- خواتین کی ایک مثالی درس گاہ قسط 2

 

تاریخ کے سینے میں مدفون یادیں- راندیر اور سورت کا ایک مختصر سفر قسط 3

 

'بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر' : سورت کے اربابِ “ساحل” سے وابستہ خوش گوار یادیں (سفر گجرات 4)

 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا