English   /   Kannada   /   Nawayathi

تاریخ کے سینے میں مدفون یادیں- راندیر اور سورت کا ایک مختصر سفر (3)

share with us

✍️ محمد سمعان خلیفہ ندوی

استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل 

سملک کے بعد ہمارا اگلا پڑاؤ راندیر تھا، جہاں خاص طور پر نائط واڑہ ہماری توجہ کا مرکز تھا، اس لیے ڈابھیل اور سملک کے بعد راندیر کا رخ کیا گیا اور تقریباً ساڑھے بارہ بجے راندیر کے نائط واڑہ کی جامع مسجد پہنچے۔ ہمارے اس سفر کا اصل مقصد تاریخ کے سینے میں مدفون کچھ اہم باتوں کا سراغ لگانا تھا، اس لیے نائط واڑہ پہنچ کر جیسے ہی جامع مسجد کے محلے پر نظر پڑی تو ہمارے شہر بھٹکل کے محلے یاد آئے، پرانے گھروں کی بناوٹ اور ان کا طرز تقریباً وہی تھا جو ہمارے قدیم محلوں کا ہے۔ 
جامع مسجد کے علاوہ مزید دو مساجد اہل نوائط کی یادگار کہی جاتی ہیں، اور وہاں کے لوگوں کی زبانوں پر ان تین مساجد کے متعلق مشہور ہے کہ یہ عرب نوائط کی تعمیر کردہ ہیں: جامع مسجد، منشی مسجد اور دہلا مسجد، جن میں منشی مسجد تعمیر نو کے بعد مکمل بدل چکی ہے، دہلا مسجد اور جامع مسجد میں کچھ قدیم نشانیوں کو باقی رکھا گیا ہے، جامع مسجد کی بھی تعمیر نو آج سے تقریباً ایک سو نو سال قبل 1334 ھ میں ہوئی اور حضرت شیخ الہند کی تحریر کردہ اس کی تاریخ تعمیر جدید مسجد کے دروازے پر آویزاں ایک کتبے میں اشعار کی صورت میں درج ہے، جن میں “زیناھا للناظرین است” (1334)، “سجدہ گاہ اغنیائے با صفا” (1334)، “ثانی بیت المقدس ہے سنا” (1334) اور “سال او ثانی بیت معمور” (1334) وغیرہ کی شکل میں آویزاں ہے۔ 
مگر آہ! تاریخ نے کیسا ظلم کیا بلکہ صحیح معنوں میں ہم نے تاریخ پر ظلم کیا کہ اس اہم اور تاریخی شہر کی پانچ سو سال پرانی تاریخ محفوظ نہ رکھ سکے، یہاں تک کہ ڈھائی سو سال قبل کی مستند تاریخ بھی نہیں ملتی، اور حالت بہ ایں جا رسید کہ جس شہر کو ساڑھے پانچ سو سال قبل اہل نوائط نے آکر بسایا آج بجز ان مساجد اور چند قبروں کے اور کچھ موجود نہیں رہا جن کے بارے میں بھی یقینی طور پر کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ حالاں کہ وہاں کے لوگوں کے بقول کچھ باتیں وہاں کے غیر مسلم مؤرخین نے لکھی ہیں مگر اس سے بھی اکثر لوگ ناواقف ہیں، حد تو یہ ہم خود ناواقف ہوتے اگر مولانا منیری صاحب اس سفر کا شوق دلا کر اس کے لیے آمادہ نہ کرتے۔ اس کے اسباب مختلف ہوسکتے ہیں جن میں تاریخ کے سلسلے میں ہماری عدم دلچسپی، جہالت، غربت اور اس سے بڑھ کر پرتگالیوں نے سقوط اندلس کے بعد مسلمانوں پر بالخصوص ہندوستان کی اس ساحلی پٹی کے مسلمانوں پر مظالم کے جو پہاڑ توڑے اور سفاکی ودرندگی کی جو داستانیں چھوڑیں آج ہمیں اس کا پتہ بھی نہیں اور اردو داں حلقہ اس سے یکسر ناواقف ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ کی کڑیوں کو تلاش کیا جائے اور تاریخ کے سینے میں مدفون یادوں کو کریدا جائے اور عظمت رفتہ کی بازیابی کے لیے  جو بس میں ہے اس سے دریغ نہ کیا جائے۔ اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی تو پھر آج جو لوگ موجود ہیں وہ بھی چراغ سحری ہیں اور کسی نہ کسی حد تک علم وتحقیق کے لیے آج وہ رہ نمائی کرسکتے ہیں، اگر ان کے چراغ سے روشنی حاصل نہ کی گئی تو پھر نئے زمانے کی مصنوعی روشنی میں تاریخ کا چراغ بے نور ہوکر رہ جائے گا۔
جامع مسجد میں پہنچ کر وہاں کے نوجوان علما سے ملاقات رہی، مسجد کے امام صاحب نیز مولوی عمار لمباڈا وغیرہ سے ملاقات رہی، مولوی عمار سے میری پہلے سے صاحب سلامت ہے، وہ خاصا تاریخی ذوق بھی رکھتے ہیں، تاریخ کے حوالے سے وہ مختلف سوالات کرتے رہے اور مولانا ان کے جوابات دیتے رہے، اس سے ان کی تاریخ سے دل چسپی کا اندازہ ہوا۔ مولانا کی خواہش پر ایک معمر بزرگ جناب عبد الوہاب صاحب کو بلایا گیا جن کی عمر کوئی اسی پچاسی سے متجاوز ہوگی۔ ان سے کوئی تحقیقی بات تو معلوم نہ ہوسکی مگر ان کے حافظے نے تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے کبھی مدراس کی باتیں ہم تک پہنچائیں تو کبھی کہین اور کی، اور دیر تک ہم مستفید ہوتے رہے، مولانا نے ان کی باتوں کو ریکارڈ بھی کیا۔ نیز راندیر کی زمین میں پوشیدہ گنج ہائے گراں مایہ کے متعلق مولانا نے استفسار کیا، خصوصا شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے شیخ علی متقی کے شاگرد شیخ محمد بن ابی محمد النائطي سے مدینہ منورہ میں ملاقات اور ان کے علم وفضل نیز راندیر سے ان کی آمد کا تذکرہ کیا ہے، وہ اہل نوائط کے شیوخ میں سے ہیں، ان کے متعلق مولانا نے معلوم کرنا چاہا مگر کامیابی نہ مل سکی۔ 
کئی لوگوں سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہاں کئی ایک سیلاب آئے جس کی زد میں یہاں کی قبریں اور مزارات آئے اور ان میں سے کئی ایک قبروں کے نشانات مٹ گئے، نیز راندیر کی تباہی کا بھی بعض مؤرخین نے تذکرہ کیا ہے اس میں بھی بہت کچھ مٹ مٹا گیا، ان باتوں کی تفصیل ان شاء اللہ مولانا کے مفصل سفرنامے میں ہی آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔
یہاں سے فارغ ہوکر ایک مزار پر لے جایا گیا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں تبع تابعین کی قبریں ہیں۔ اسی طرح قریب کی ایک اور مسجد کے باقیات ہیں، بغیر چھت کے ایک چھوٹی سی مسجد، کھلے آسمان تلے ایک محراب، سامنے کی دیوار، اور مسجد کے پیچھے کچھ قبریں جن میں دو قبریں پرانی۔ اس مسجد کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ پہلی صدی کی یادگار ہے۔ مگر یہ سب باتیں وہ ہیں جن کے بارے میں کوئی مستند حوالہ نہیں، بس زبانوں پر مشہور ہیں۔
پھر رفاعی سلسلے کی ایک خانقاہ لے جایا گیا، جہاں خانقاہ کے علاوہ اس سلسلے کے بزرگوں شاہ سیف اللہ شاہ رفاعی (1106)، شیخ سید عبد الرسول رفاعی (1108)، شاہ سید محمد رفاعی (1142) نیز کچھ اور بزرگوں کے مزارات بھی موجود ہیں۔
ظہر کی نماز کے لیے وہیں قریب کی مسجد میں حاضر ہوئے تو اس کا حوض ہمارے یہاں کی قدیم مساجد کے حوض کے مشابہ نظر آیا، نماز کے بعد سورت کے معروف شاعر جناب وسیم ملک سے ملاقات ہوئی اور ان سے نصف گھنٹے سے زائد ملاقات رہی، جس میں راندیر کی تاریخ، قدیم تاریخی آثار، نیز علمی انحطاط وغیرہ موضوعات زیر بحث رہے۔ ہمیں رفع یدین کرتے ہوئے دیکھ کر انھیں اپنا بچپن یاد آیا جب یہاں کچھ شوافع آباد تھے اور نمازوں میں رفع یدین کیا کرتے تھے، پھر مرور ایام کے ساتھ وہ دوسرے لوگوں میں ضم ہوگئے۔ ان سے یا کسی اور سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو رفاعی خاندان یہاں مقیم ہے اس کو چھوڑ کر اور کوئی شافعی یہاں موجود نہیں ہے۔
پھر ہماری توجہ کا مرکز یہاں کی ایک قدیم مسجد کا حوض تھا جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس حوض کو علی حالہ باقی رکھا گیا جب کہ مسجد کی ترمیم مختلف ادوار میں ہوتی رہی، حوض کی تاریخ تقریباً ہزار سال پرانی بتائی گئی، یہ مسجد بھی رفاعی خانقاہ کے دائرے میں ہی موجود ہے۔ حوض کی شکل اس کی قدامت پر مہر تصدیق ثبت کررہی تھی البتہ تاریخ کی تعیین مؤرخ کی توجہ کی طالب ہے۔
خیر، راندیر کے متعلق فی الحال اتنا ہی، کیوں کہ ظہر کی نماز بھی ہوچکی ہے، اور سورت پہنچ کر ہمیں کھانے سے بھی فارغ ہونا ہے اور تھوڑی دیر کے لیے آرام کرکے پھر سورت کی بھی سیر کرنی ہے، کیوں کہ آج صبح سویرے ڈابھیل سے چلے اور رات میں زیادہ آرام کا موقع بھی نہیں مل سکا….
سمعان خلیفہ ندوی 
راندیر سے سورت جاتے ہوئے 
7/ صفر المظفر 1443 - 15/ ستمبر 2021

سلسلہ وار مضامین کی شائع گذشتہ قسطیں ان لنکس پر کلک کرکے پڑھ سکتے ہیں۔

 

ایک یادگار شب - جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں قسط 1
 

 چلتے چلتے مگر حیرت کی تصویر بنتے | جامعہ اصلاح البنات، سملک- خواتین کی ایک مثالی درس گاہ قسط 2

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا