English   /   Kannada   /   Nawayathi

ایک یادگار شب - جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں

share with us

 محمد سمعان خلیفہ ندوی
 استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل 

کتاب دوست اور علم نواز شخصیت استاد الاساتذہ جناب مولانا عبد المتین منیری کی قیادت اور فاضل دوست ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی، ہمدمِ دیرینہ مولوی عبد المقیت منا، برادر عزیز مولوی عبد اللہ شریح کوبٹے اور مولوی زفیف شنگیری کی رفاقت میں کل شام کو کوچو ویلی چنڈی گڑھ سوپر فاسٹ ایکسپریس پر اڈپی ریلوے اسٹیشن سے ہمارا قافلہ سوار ہوا، سفر کا مقصد تھا گجرات کی سرزمین میں بکھری ہوئی علم وتحقیق کی خوشبو سے اپنے مشامِ جاں کو معطر کرنا بلکہ اس سے کچھ اور آگے بڑھ کر چشم تصور سے پانچ صدیوں قبل کی تاریخ کا معاینہ کرکے تاریخ کی کچھ گم شدہ کڑیوں کو تلاش کرنا، اور اس جذبے کے اصل محرک بھی مولانا منیری صاحب ہیں، جو کئی دنوں سے آتش شوق کو بھڑکا کر اس سفر کے لیے مہمیز کررہے تھے، آج سے تقریباً ساڑھے پانچ سو سال قبل جب کہ ہمارے وطن بھٹکل کی حیثیت ایک اہم تجارتی منڈی کے طور پر مسلم تھی اور اس وقت حکومت وجیانگر نے یہاں کے مسلمانوں کا بھیانک قتل عام کیا، جس کے بعد یہاں کے اہل نوائط منتشر ہوئے اور انھوں نے دو بڑے شہروں کو آباد کیا، ایک قدیم گوا، دوسرے سورت سے متصل راندیر کا شہر، خیر یہ ایک مستقل موضوع ہے جس پر انگریز مؤرخین نے لکھا ہے اور پھر وہاں ان دونوں شہروں کی جو تباہی کی داستان تاریخ کے سینے میں محفوظ ہے وہ دراز تر ہے اور اس پر مولانا منیری ہی سے خامہ فرسائی کی درخواست بھی ہے۔ اس الم ناک داستان کو اجمالی طور پر جب مولانا سے ہم نے سنا تو فارس شوق نے ایڑ لگائی اور ہم بذریعہ ٹرین سورت پہنچ گئے۔ تقریباً بیس بائیس گھنٹوں کا سفر مولانا کی علمی و تاریخی رہ نمائیوں اور یارانِ قافلہ کی پر لطف مجلسوں سے بہ آسانی طے ہوا۔ 
سہ پہر ساڑھے تین بجے سورت ریلوے اسٹیشن پر ہم اترے تو جواں سال و جواں عزم مولانا طاہر سورتی اور محترم بزرگ مولانا یونس سورتی کو اپنے انتظار میں وقت سے قبل ہی موجود پایا، وقتاً فوقتاً بذریعہ فون وہ خیریت کی خبر لے کر اپنائیت اور جذبۂ مہمان نوازی کا اشارہ دیے جارہے تھے۔ اتر کر سیدھے ایک قریبی ہوٹل پہنچے اور کھانے سے فارغ ہوکر ڈابھیل کے لیے روانہ ہوئے۔
ڈابھیل کا نام آتے ہی ذہن میں نام ور علما وفضلا کی ایک کہکشاں گردش کرنے لگتی ہے، علمی دنیا کی عظمت رفتہ یا دنیائے تحقیق کی فتوحات کی یادیں۔ ذہن کے دریچے کھلتے گئے، حافظے نے اوراق کھولنے شروع کیے اور ڈابھیل سے وابستہ جتنے نام تاریخ میں پڑھے تھے علامہ انور شاہ کشمیری، علامہ شبیر احمد عثمانی، مفتی شفیع صاحب دیوبندی، مولانا یوسف بنوری، مولانا بدر عالم میرٹھی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا ناظم ندوی، قاضی اطہر مبارک پوری سے لے کر مولانا عبد اللہ کاپودروی وغیرہ ایک ایک کرکے سب یاد آتے گئے، ایک دیرینہ خواہش تھی کہ اس سرزمین علم وتحقیق کا دیدار کیا جائے اور اس وقت جن حضرات کے وجود مسعود سے یہ سرزمین بقعۂ نور بنی ہوئی ہے بالخصوص حضرت مفتی احمد خان پوری صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے قلب وذہن کے ظلمت خانے کو منور کرنے کی کچھ فکر کی جائے۔ 
چناں چہ تقریباً پون گھنٹے میں ہم ڈابھیل پہنچ چکے تھے۔ مہمان خانے میں مفتی معاذ چارولیہ اور مفتی اویس گودھروی کو انتظار میں پایا، دونوں حضرات سے شناسائی علم وکتاب کے حوالے ہی سے ہے، ویسے مفتی معاذ تقریباً ڈیڑھ سال قبل اہل علم کے ایک قافلے کے ساتھ بھٹکل تشریف لاچکے تھے اور اس موقع پر ان کے ساتھ کئی نشستیں ہوچکی تھیں جس کی وجہ سے ان سے بے تکلفی بھی ہے اور دوستی بھی، اور“پھول”،“کہکشاں”نیز“ادارہ ادب اطفال”کی کوششوں اور کاوشوں کے وہ بڑے قدردان بلکہ اپنی ہمت افزا باتوں سے تحریک اور تشویق میں اکثر اضافے کا سبب بھی وہ بنتے رہے ہیں۔
ضروریات سے فارغ ہوکر مقررہ نظام کے تحت ہمیں حضرت مفتی خان پوری صاحب کی عصر بعد کی اصلاحی مجلس میں حاضر ہونا تھا، چناں چہ ہم مسجد میں پہنچے، آج منگل کا دن ہونے کی وجہ سے یہ آپ کی ہفتہ واری اصلاحی مجلس تھی، جس میں طلبہ و اساتذہ کے ساتھ دیگر اہل علم اور عوام بھی شرکت کرتے ہیں، ان مجالس کا کیا اثر زندگیوں پر پڑتا ہے اس کو بیان کرنے کی چنداں حاجت نہیں ہے اور یہ بات اہل اللہ کی سوانح پڑھنے والوں سے مخفی نہیں۔ حضرت مفتی صاحب کی مجلس میں حضرت مولانا علی میاں ندوی کی تذکرہ شاہ عبد القادر رائے پوری پڑھی جارہی تھی، پھر ایک نکاح ہوا اور حضرت کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا۔ اس کے بعد مہتمم صاحب مولانا احمد بزرگ مدظلہ العالی (حفید مولانا احمد بزرگ سابق مہتمم جامعہ اسلامیہ ڈابھیل) اور صدر مفتی مولانا عباس بسم اللہ صاحب (حفید مفتی اسماعیل بسم اللہ مفتی اعظم برما) سے ملاقات ہوئی، مغرب کی نماز کے بعد ہمیں حضرت مفتی خان پوری صاحب کے در دولت پر حاضر ہونا تھا اس لیے ہم نماز سے فارغ ہوکر فوراً آپ کی خدمت میں چل دیے۔ 
حضرت مفتی صاحب کا نام اس وقت اہل اللہ کے حلقے میں ایک نمایاں حیثیت کا حامل ہے، علم وتحقیق کی روشنائی کے ساتھ ساتھ جہان قلب کی روشنی بھی آپ کا امتیاز ہے، مادیت کے دور میں ان اہل اللہ کی زندگیاں بڑی قابل قدر ہیں اور ان سے استفادہ وقت کی بہت بڑی ضرورت بھی۔ ورنہ اس کے بغیر ظلمت خانۂ دل میں اجالے کی امید فضول اور اس کی توقع بھی معدوم۔ 
آپ نے جس شفقت اور محبت کا مظاہرہ کیا اس سے آپ کی شخصیت کی مقناطیسیت کا اور اندازہ ہوا اور دل بے ساختہ آپ کی طرف کھنچنے لگا، اس سے قبل آپ کی بھٹکل تشریف آوری پر بھی نیز کوئی پندرہ سولہ سال قبل باندہ میں بھی آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوچکا تھا، آپ کے افادات کا سلسلہ جاری تھا اور مولانا عبد المتین منیری صاحب کی علمی و تاریخی باتیں بھی جاری رہیں اور ایک گھنٹہ کیسے گزر گیا اندازہ نہ ہوسکا اور اگلے پڑاؤ کے لیے حدی خواں نے پیامِ رحیل سنایا اورنہ آپ کی مجلس سے اٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ ساتھیوں نے بھی اسی کیفیت کا اظہار کیا۔ 
وہاں سے فارغ ہوکر مہتمم جامعہ کے یہاں پہنچے جہاں ہمیں عشائیہ سے فارغ ہونا تھا۔ پرتکلف انتظام کیا گیا تھا، فوراً ہم عشائیہ سے فارغ ہوئے۔ مہتمم صاحب مولانا احمد بزرگ صاحب بھی اخلاص اور تواضع کا پیکر نظر آئے۔ وہیں ان کے مکان پر ایک مختصر سی نشست ہوئی جس میں کچھ متفرق باتیں ہوئیں اور سب سے بڑھ کر وہاں حضرت تھانوی اور علامہ کشمیری کی کچھ یادگاروں کا مشاہدہ ہوا۔ وہیں پر قاری عبد اللہ میاں سملکی سے بھی ملاقات ہوئی۔
اتنے میں ہمارے قافلے کو طلبہ سے خطاب کے لیے بلایا گیا۔ وہاں پہنچے تو طلبہ کے ایک جم غفیر کو موجود پایا، پروگرام کے مطابق قرائت کے لیے مولوی عبد المقیت کو بلایا گیا اور نعت کے لیے مولوی زفیف کو۔ مولوی زفیف کا نام اب اہل علم اور حلقۂ طلبہ کے لیے نامانوس نہیں رہا، بلکہ چشم بد دور ان کی آواز کا جادو اب ہر جگہ بول رہا ہے اور“کہکشاں”کے چینل پر ان کی پڑھی گئی بعض نعتیں بفضلہ تعالی مقبولیت کا عنوان بنتی جارہی ہیں، یہاں جلسہ میں چھ سات سو طلبہ سراپا شوق بن کر سماعت کیے جارہے تھے اور مولوی زفیف نعت رسول کے ذریعے ہم جیسے سیہ کار انسانوں کے دلوں میں بھی شوق کی چنگاری بھڑکانے کی کوشش کررہے تھے۔
اس موقع پر مفتی معاذ نے جس عالی ظرفی کے ساتھ بساط علم کے ہم جیسے نوواردوں کا ذکر خیر کیا اس کے مستحق مولانا منیری صاحب اور ڈاکٹر اطہر تو ہوسکتے ہیں ورنہ سچی بات یہ ہے کہ ہمارا سر شرمندگی سے جھک گیا کیوں کہ من آنم کہ من دانم۔ ہاں البتہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی نسبت ہمارے لیے قابل فخر تھی، بلکہ خود دین کی نسبت ہی نے (جو اگرچہ اس سیہ کار کے پاس برائے نام ہی سہی) ہمیشہ اس دنیا میں عزت کا احساس دلایا ہے اور آئندہ بھی اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یہ نسبت حقیقی معنوں میں اپنا اثر بھی کرے گی اور کام بھی دے گی۔ 
ان حضرات کی عالی ظرفی، کشادہ قلبی اور اپنائیت تھی کہ اپنے مہمانوں کا بھرپور خیال بھی رکھا اور ایک ایک کا نام لے کر مجمع کے روبرو پیش کیا اور اتنے بڑے مجمع میں جہاں اہل علم وفضل کی اتنی بڑی تعداد موجود تھی ہم چھوٹوں کو اظہار خیال کا موقع دیا۔ اس جلسے میں طلبہ کی دل چسپی اور ہمہ تن گوش ہوکر ساڑھے گیارہ بجے شب تک مہمانوں کو سننا دل پر اثر چھوڑ گیا اور روشن مستقبل کی امید بھی جگا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ بات رہی کہ شب ڈیڑھ بجے تک طلبہ کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے ذوق کے مطابق استفادے کے لیے بے تاب اور مشتاق رہی اور مولانا منیری، مولانا اطہر، مولوی شریح اور مولوی زفیف اپنے اپنے اعتبار سے طلبہ سے مخاطب ہوتے رہے۔
مفتی ابوبکر پٹنی، مفتی اویس، مفتی معاذ، مولوی شعیب اور دیگر میزبانوں نے جس طرح ایک ایک ضرورت کا خیال رکھا واقعی لائق تقلید اور مثالی عمل ہے۔ یہاں آکر اپنائیت اور قلبی محبت کا احساس ہوا، ان حضرات سے مل کر ایسا محسوس ہوا کہ مدتوں سے شناسائی ہے۔ دوسری طرف عصر حاضر کی بلائے جاں (موبائل کی لعنت) سے دور رکھنے کے لیے یہاں اساتذہ کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کا بھی اندازہ ہوا اور اس بات کا احساس ہوا کہ طلبہ کی ایک ایک ادا پر اساتذہ مستقل نظر رکھ کر ان کے مستقبل کی تعمیر میں کوشاں ہیں۔ مہتمم صاحب بھی خلوص اور تواضع کے پیکر ہیں، سادگی کے ساتھ شروع سے لے کر اخیر تک مستقل ہم لوگوں کے ساتھ رہے۔
چلتے چلتے اخیر میں دار الافتاء اور کتب خانے کی زیارت ہوئی، جہاں بعض قیمتی نوادرات، اکابر کے بعض گرامی ناموں کا عکس اور بالخصوص کتاب“عنوان الشرف الوافي في علم الفقہ والتاریخ والنحو والعروض والقوافي”کے مخطوطے کی زیارت ہوئی۔
خیر یار زندہ صحبت باقی۔ اب رخت سفر باندھنے کی اور اگلے پڑاؤ کی تیاری ہے۔ ع
داتا رکھے آباداں ساقی تیرا مے خانہ
اللہ تعالی اس گلستانِ علمی کو آباد رکھے اور اس کے ساقیوں کو شاد رکھے بالخصوص حضرت مفتی خان پوری صاحب اور مولانا احمد بزرگ صاحب کی عمر میں اللہ برکت عطا فرمائے اور ہم سب کو مزید استفادے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
اب یہاں سے مفتی طاہر سورتی کی رہبری میں سورت اور راندیر جانے کے لیے پا بہ رکاب ہیں۔ اللہ نے چاہا تو پھر ملیں گے۔ فقط والسلام۔

محمد سمعان خلیفہ ندوی 
ڈابھیل سے سورت جاتے ہوئے
7/ صفر المظفر 1443 ہجری - 15/ ستمبر 2021 عیسوی

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا