English   /   Kannada   /   Nawayathi

'بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر' : سورت کے اربابِ “ساحل” سے وابستہ خوش گوار یادیں (سفر گجرات 4)

share with us

✍️ محمد سمعان خلیفہ ندوی
استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل

راندیر سے متصل سورت کا شہر آباد ہے، دونوں کے بیچ میں دریائے تاپتی بہتا ہے، صرف ایک پل دونوں شہروں کو ملاتا ہے، کسی زمانے میں حجاج کے قافلے یہاں سے سفر حج پر نکلتے تھے، اس کی یادگار کے طور پر ایک بوسیدہ عمارت بھی دریا کے کنارے موجود ہے، دور ہی سے اس کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہم لوگ سورت کے ایک ایسے دیار میں پہنچے ہوئے جس کو “ساحل” کا نام دیا گیا ہے، نام کی طرح حقیقت میں بھی وہ ساحل ہے، اس بستی میں جو لوگ بستے ہیں ان کی اپنائیت اور محبت واقعی ایسی چیز ہے جو ہنگامۂ الم سے چھٹکارے کا احساس دلا دیتی ہے۔ یہاں منیار خاندان آباد ہے، علم دوست، ادب نواز، صاحب ذوق اور مہمان نواز۔ آٹھ بھائیوں کے مکانات ایک احاطے میں موجود ہیں، اسی احاطے کو “ساحل” کہا جاتا ہے، باہم محبت والفت سے رہتے ہیں، یہاں تک کہ مہمان نوازی میں بھی حصہ لینا ہر گھر اپنا فرض سمجھتا ہے، دوپہر کا کھانا جس محبت سے پیش کیا گیا اور جس جذبۂ مہمان نوازی سے اس کو سجایا گیا اور ہم مہمانوں کی مدارات کی گئی اس نے غریب الوطنی کا احساس ختم کرکے طویل مدت سے ایک دوسرے کی شناسائی کا احساس ہمارے اندر پیدا کردیا، کیا چھوٹا کیا بڑا ہر ایک دیدہ ودل فرش راہ کیے جارہا تھا۔ اس خاندان سے ہماری واقفیت اب تک بس ایک شخص بلکہ شخصیت کی بنا پر تھی جو حلقۂ “علم وکتاب” میں علم وتحقیق کے موتی رولنے میں اپنا بھرپور حصہ ادا کرتی رہی ہے، بلکہ فن قراءت، تجوید اور قراءت کے مقامات کے متعلق بساط علم کے ہم جیسے نووارد ان سے حلقۂ علم وکتاب میں فیض یاب ہوتے رہتے ہیں، میرے عزیز شاگرد نما دوست مولوی سعود شنگیٹی اور مولوی مفاز شریف دونوں ان کے قدرداں اور علوم حدیث وقراءت کے متعلق ان کے خوانِ علم سے خوشہ چینی کرتے رہتے ہیں، میری مراد شیخ طلحہ بلال منیار حفظہ اللہ سے ہے، میں بھی حلقۂ علم وکتاب کے واسطے سے ان کے علم وفضل نیز تجوید میں صحت مخارج اور اداء الفاظ میں ان کے کمال کا معترف ہوں۔ مگر “ساحل” میں پہنچتے ہی خبر ملی کہ وہ کل ہی سعودیہ کے لیے نکل چکے ہیں اور تنزانیہ میں چودہ روز کے لیے قرنطینہ میں ہیں۔ ان سے فون پر بات ہوئی اور الحمد للّٰہ بات کرکے خوشی کا احساس ہوا۔
اس خاندان کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس وقت ان آٹھ گھروں میں تقریباً پچھتر حفاظ موجود ہیں اور ان میں ہر چھوٹا بڑا حافظ حسن ادا اور رعایت مخارج میں اپنی مثال آپ ہے، نیز تواضع اور مِلن ساری بھی ان کو ممتاز بناتی ہے۔ قرآن سے تعلق کی بنا پر ادارہ لرن قرآن کے کام اور پیغام کو انھوں نے پسند بھی کیا اور اس مشن سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا بلکہ اپنی کئی ایک غیر مطبوعہ چیزیں بھی مولوی شریح کے سپرد کیں۔
یہیں پر دوپہر میں ہم نے آرام کیا اور رات میں بھی قیام کیا۔ رات میں تقریباً ساڑھے تین بجے تک ان حفاظ نے مولوی شریح اور مولوی زفیف کے ساتھ بیٹھ کر جو کمال دکھایا وہ اپنی مثال آپ ہے، اتنی دیر بیٹھ کر بھی ان کی بشاشت دیدنی تھی۔ پھر یہ مجلس ایمان وعرفان کے نور سے منور تھی، جتنے احباب موجود تھے سب نے فرمائش پر بلا تکلف ایک ایک کرکے قرآن مجید سنایا اور اپنے فن کا مظاہرہ کیا، دوسری طرف مولوی زفیف سے نعتیں سن سن کر اپنے دلوں کو نعت نبی کے نور سے منور کیا اور دلوں کی سرد انگیٹھیوں کو گرمایا۔ اس موقع پر اگر ہم خاندان کے محترم بزرگ اور ملی اداروں کے محسن اور کرم فرما جناب خالد منیار صاحب (اللہ ان کا سایہ تادیر سلامت رکھے اور ان کو سلامت با کرامت رکھے) کا تذکرہ نہ کریں تو یہ داستان ادھوری اور بے مزہ ہوجائے گی! کیسی پر لطف ان کی مجلس تھی! کیسی شفقت سے بھرپور ان کی باتیں تھیں! بھٹکل اور احباب بھٹکل سے ان کی شناسائی مدتوں پرانی تھی، اس کا ہمیں پہلے سے اندازہ نہ تھا، پھر جناب شاہد حذیفہ اور جناب نجم الثاقب سے ملاقات اور ان کی محبت بھری باتوں نے اس مجلس کو ایک یادگار شام میں تبدیل کردیا۔ رات کا کھانا بھی یہیں پر ہوا۔ لذت سے بھرپور، مہمانوں کے ذوق کا خیال رکھتے ہوئے مختلف چیزوں سے سجا دسترخوان۔ پھر اس کے بعد جناب خالد منیار صاحب کی محبت بھری پر لطف باتیں، ماضی وحال کی تاریخ بھٹکل کے ایک ایک نمایاں فرد کا تذکرہ اور دعوت وتبلیغ کے مختلف اسفار کی کارگزاری۔ پھر اس کے بعد منعقد ہونے والی محفلِ نعت جس میں پیمانۂ دل چھلکا، نہ صرف چھلکا بلکہ چھلک چھلک کر بہتا گیا اور طوفانِ محبت آنکھوں کی راہ سے اشکوں کی صورت میں ڈھلتا گیا۔ اس مجلس کی لذت اور اس میں ان اصحابِ دل کے تڑپنے کا لطف الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا! اندازہ ہوا کہ سادگی کی پیکر ان صورتوں میں کیا کچھ پوشیدہ ہے! اہل اللہ کا فیض پانے والی ان روحوں نے کیا کچھ نفس گرم پایا ہوگا اور مناجات کی ساعتوں میں یہ روحیں کیسی مچلتی ہوں گی اور محبوب حقیقی کی یاد میں کیسی پھڑکتی اور تڑپتی ہوں گی۔ اللہ تعالی ہم سیہ کاروں کا نصیب بھی جگادے، ایسی کچھ ساعتیں ہمیں بھی نصیب فرمادے، اس درد کا کوئی شمہ ہمارے پتھر جیسے دلوں کو بھی عطا فرما کر ہمارے لبوں پر ذکرِ حبیب جاری فرما دے کہ یہ درد ہی زندگی کا حاصل ہے۔
عصر بعد ہمارے میزبان مفتی طاہر صاحب کے قائم کردہ علمی و تحقیقی ادارے دار الحمد اور مغرب میں رفاعی اور پھر عیدروس خانقاہوں کی زیارت اور اس خاندان کے افراد سے ملاقات نیز عشا بعد مسجد انوار میں منعقد ہونے والے پروگرام کی حکایت لے کر اگلی قسط میں پھر حاضر ہوں گے۔ تب تک کے لیے اجازت دیجیے۔ اللہ حافظ۔

محمد سمعان خلیفہ 
سورت سے بھروچ جاتے ہوئے
8 صفر  1443ھ مطابق 16 ستمبر 2021

 

سلسلہ وار مضامین کی شائع گذشتہ قسطیں ان لنکس پر کلک کرکے پڑھ سکتے ہیں۔

 

ایک یادگار شب - جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں

 

چلتے چلتے مگر حیرت کی تصویر بنتے | جامعہ اصلاح البنات، سملک- خواتین کی ایک مثالی درس گاہ قسط 2
 

تاریخ کے سینے میں مدفون یادیں- راندیر اور سورت کا ایک مختصر سفر قسط 3

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا