English   /   Kannada   /   Nawayathi

ایغور مسلمانوں کو ’جمعہ کے روز‘ کھلایا جاتا ہے خنزیر کا گوشت، چین نے پار کی ظلم کی تمام حدیں !

share with us

05 دسمبر 2020(فکروخبرنیوز/ذرائع)چین کے ذریعہ ایغور مسلمانوں پر مظالم کی خبریں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔ اب ایک نئی خبر یہ سامنے آئی ہے کہ ’ری ایجوکیشن کیمپوں‘ میں رکھے گئے ایغور مسلمانوں کو خنزیر یعنی سور کا گوشت کھانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خنزیر کا یہ گوشت ایغور مسلمانوں کو جمعہ کے دن کھلایا جاتا ہے، کیونکہ اسلام میں جمعہ ایک خاص اہمیت کا حامل دن ہے۔ خنزیر کا گوشت مسلمانوں کے لیے حرام ہے اور جمعہ کے دن کیمپوں میں رکھے گئے ایغور مسلمانوں کو جبراً اسے کھلایا جاتا ہے، گویا کہ حرام کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

ان باتوں کا انکشاف سراغل سوتبے نامی خاتون نے کیا ہے جو چینی حکومت کے ان مظالم کا شکار بن چکی ہیں۔ ایک انٹرویو کے دوران سراغل نے اس بات کی تصدیق کی کہ ’’ہر جمعہ کو ہمیں خنزیر کا گوشت کھانے کے لیے مجبور کیا جاتا تھا۔ انھوں نے جان بوجھ کر یہ (جمعہ) ایک دن منتخب کیا ہے جو مسلمانوں کے لیے پاک ہے۔ اگر آپ اسے کھانے سے انکار کرتے ہیں تو آپ کو سخت سزا دی جاتی ہے۔‘‘

خبر رساں ادارہ اے این آئی نے سراغل کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک میڈیکل فیزیشین اور سویڈن میں رہنے والی ایک ٹیچر ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے اپنی ایک کتاب شائع کی ہے جس میں انھوں نے اپنے تجربات کی تفصیل بیان کیا ہے۔ سراغل بتاتی ہیں کہ ’’مجھے لگ رہا تھا جیسے میں ایک الگ انسان ہوں۔ میری چاروں طرف صرف مایوسی تھی۔ یہ قبول کرنا حقیقی معنوں میں بہت مشکل تھا۔‘‘

ایغور مسلمانوں کے تئیں چین کے اس رویے کا شکار ہوئی ایک دیگر خاتون نے بھی اپنا تجربہ بیان کیا اور خنزیر کا گوشت کھلانے والی بات کی تصدیق کی۔ ایغور کی تاجر جمریت داؤد بتاتی ہیں کہ افسران نے ان کے پاکستان سے تعلق ہونے پر سوال اٹھائے جو کہ ان کے شوہر کا مادر وطن ہے۔ افسران نے ان سے پوچھ تاچھ کی کہ ان کے کتنے بچے ہیں اور انھوں نے مذہب کا مطالعہ کیا ہے یا نہیں۔ یہ پوچھ تاچھ دو مہینے تک چلی۔ جب ان سے کیمپوں میں ایغور مسلمانوں کو کھلائے جانے والے خنزیر کے گوشت سے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’’جب آپ ایک کیمپ میں بیٹھتے ہیں تو آپ یہ طے نہیں کرتے ہیں کہ کیا کھانا چاہیے، کیا نہیں کھانا چاہیے۔ زندہ رہنے کے لیے جو ہمیں دیا جائے گا وہی گوشت ہمیں کھانا ہوگا۔‘‘

 

سنکیانگ کی مسلم ثقافت پر چینی یلغار

الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا کہ ان تمام واقعات اور شہادتوں سے کم از کم یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چینی حکومت سنکیانگ کی مسلم ثقافت اور مذہبی عقائد کو دانستہ ہدف بنائے ہوئے ہے۔ ان کا واضح نشانہ سنکیانگ کی اقلیتی مسلم برادری ہے۔ سن دو ہزار سترہ سے ان مسلمانوں کے گھروں اور بستیوں کی سخت نگرانی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سنکیانگ کے کسانوں کو زرعی ترقی کے تناظر میں لا دینیت کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ ایغور نسل کے جرمن ماہر بشریات ادریان زینز کا کہنا ہے کہ ایسی دستاویزات اور رپورٹس موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان کسانوں کو مالی منفعت کے تناظر میں سؤروں کے ریوڑ پالنے کی جانب بھی راغب کیا جا رہا ہے۔ سن دو ہزار انیس میں سنکیانگ کے بیجنگ نواز مسلمان انتظامی سربراہ شہرت ذاکر نے بہت جلد سنکیانگ کو سؤر پالنے کا مرکز بنانے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔

مذہبی آزادی کے لیے چین سب سے بڑا خطرہ

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں مذہبی آزاد کے لیے سب سے بڑا خطرہ چین کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار اپنے ایشیائی دورے کے دوران انڈونیشیا پہنچنے پر کیا۔ پومپیو اس وقت سری لنکا، مالدیپ، انڈونیشیا اور ویت نام کے دورے پر ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چینی کمیونست پارٹی کی جنگ تمام مذاہب کے ماننے والوں یعنی مسمان، بدھ مت، مسیحیت اور فالن گونگ عقیدے کے خلاف ہے۔ ان خیالات کا اظہار امریکی وزیر خارجہ نے انڈونیشی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم نہدة العلما کے ایک اجلاس میں کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیونسٹ پارٹی دنیا کو قائل کرنے کی کوشش میں ہے کہ جس جبر کا ایغور مسلمانوں کو سامنا ہے، وہ وہاں پھیلی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اس وقت شمال مغربی صوبے سنکیانگ کے دس لاکھ ایغور مسلمان حراستی کیمپوں میں جبری معاشرتی انضمام اور مذہبی اقدار سے دوری اختیار کرنے کی حکومتی تربیتی کارروائیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ چینی حکومت کیمپوں کو پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز قرار دیتی ہے اور جبر کے تحت کی جانے والی کارروائیوں کی تردید کرتی ہے۔

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا