English   /   Kannada   /   Nawayathi

مستقبل میں رات کی تاریکی سے نجات چمک دار درختوں کے ذریعے؟

share with us

واشنگٹن:29اگست2019(فکروخبر/ذرائع)آپ صرف تصور کیجیے کہ مستقبل میں اندھیرا دور کرنے کے لیے آپ کو کسی بلب کی ضرورت پڑے نہ ہی کوئی بٹن دبانا پڑے۔ آپ میز پر بیٹھے صرف کسی چکمتے ہوئے پودے کی روشنی میں ہی کوئی کتاب پڑھ سکتے ہوں۔

    امریکا میں میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے محقیقین نے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے پہلی اور بظاہر ناممکن دکھائی دینے والی رکاوٹ عبور کر لی ہے۔ پانی میں پرورش پانے والے ایک پودے میں، جسے سلاد آبی بھی کہتے ہیں، خاص قسم کے نینو پارٹیکلز داخل کیے گئے۔ اس تجربے کے نتیجے میں اس پودے سے تقریباﹰ چار گھنٹے تک ہلکی ہلکی روشنی نکلتی رہی۔

محققین کو امید ہے کہ مستقبل میں یہ ٹیکنالوجی اس قدر ترقی کر جائے گی کہ کسی بھی جگہ رات کے وقت مکمل روشنی کے لیے ایسے چمکتے ہوئے یا روشنی خارج کرنے والے پودے  ہی کافی ہوں گے۔ اس تحقیق میں شامل اور ایم آئی ٹی میں کیمیکل انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر مائیکل سٹرینو کا کہنا ہے، ''ہم ایک ایسا پودا تیار کرنا چاہتے ہیں، جو بالکل ٹیبل لیمپ کی طرح کام کرے اور ظاہر ہے کہ اس کا کوئی سوئچ بھی نہ ہو۔ روشنی حتمی طور پر پودے کے اندر میٹابولزم کی توانائی سے ہی دستیاب ہوتی رہے۔‘‘

سائنسدانوں کے مطابق مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کو گھروں کے اندر مدھم روشنی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے یا پھر درختوں کو خود بخود روشن ہونے والی اسٹریٹ لائٹس میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس تحقیق کے مرکزی ریسرچر ایم آئی ٹی میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے والے سیون یونگ کواک ہیں اور یہ ریسرچ سائنسی جریدے نینو لیٹرز میں شائع کی گئی ہے۔

نینو بائیونک پودوں میں تحقیق کی بنیاد سٹرینو لیب کی جانب سے رکھی گئی تھی۔ اس تحقیقی ادارے کا مقصد پودوں میں مختلف اقسام کے نینو پارٹیکلز داخل کرتے ہوئے انہیں نئی خصوصیات فراہم کرنا ہے۔ یہ ادارہ پودوں سے وہ فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے، جو برقی آلات سے حاصل کیے جاتے ہیں۔

ماضی میں سائنسدان ایسے پودے بھی تیار کر چکے ہیں، جو دھماکا خیز مواد کا پتہ چلا لیتے ہیں، اسمارٹ فونز کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں اور جو خشک سالی جیسے حالات پر نگاہ بھی رکھ سکتے ہیں۔ دنیا میں پیدا کی جانے والے مجموعی توانائی کا بیس فیصد حصہ روشنی حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ نئی تحقیق اس توانائی کی بے تحاشا  بچت کرنے میں انتہائی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

 ڈاکٹر مائیکل سٹرینو کے مطابق، ''پودے خود اپنی مرمت کر سکتے ہیں، ان کے پاس اپنی توانائی ہوتی ہے اور وہ پہلے ہی بیرونی ماحول کے مطابق ڈھل چکے ہیں۔ ہمارے خیال میں اب اس نظریے پر عمل درآمد کا وقت آ چکا ہے اور نینو بائیونکس اس کے لیے بہترین ٹیکنالوجی ہے۔‘‘

 

اس نئی تحقیق میں ایم آئی ٹی کے سائنسدانوں نے لوسیفیریز (روشنی خارج کرنے والا ایک اینزائم) استعمال کیا۔ یہ وہی حیاتیاتی کیمیائی مادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے جگنوؤں کے جسم سے روشنی خارج ہوتی ہے۔ لوسیفیریز (Luciferase) میں پائے جانے والے مالیکیولز میں لوسيفیرِن (Luceferin) ہوتی ہے اور روشنی اسی سے خارج ہوتی ہے۔ اس عمل میں ایک دوسرا مالیکیول بھی مدد دیتا ہے، جو دراصل ایک 'شریک اینزائم‘ یا 'کو اینزائم‘ ہوتا ہے۔ یہ 'کو اینزائم‘ اس ردعمل کو روکتا ہے، جو لوسیفیریز کی سرگرمی سے پیدا ہو سکتا ہے۔

ماضی میں پودوں میں روشنی پیدا کرنے کے لیے جینیاتی سطح پر بھی تحقیق ہو چکی ہے لیکن جینیاتی طور پر رد و بدل کے بعد جو پودے تیار کیے گئے تھے، ان میں سے خارج ہونے والی روشنی انتہائی مدھم تھی۔ یہ تحقیق تمباکو اور ایک دوسرے پودے پر کی گئی تھی۔ جینیاتی تحقیق میں زیادہ تر یہی دو پودے استعمال کیے جاتے ہیں۔

سائنسدانوں کے خیال میں مستقبل میں نینو پارٹیکلر پر مشتمل ایک ایسا رنگ یا محلول بھی تیار کر لیا جائے گا، جسے پتوں پر سپرے کرنے سے وہ روشن ہو جایا کریں گے۔ اس طرح بڑے بڑے درختوں سے روشنی کے ذرائع کا کام لیا جا سکے گا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا