English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندو یوا واہنی نے رکنیت سازی مہم کو 6 ماہ سے ایک سال تک کے لئے روک دیا، (مزید اہم ترین خبریں)

share with us

ایک رشتہ دار کی مدد کرنے کے شبہ میں ایک 60 سالہ شخص کا پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا تھا جس کی چہارسو مذمت کی گئی تھی۔مسٹر مال نے دعوی کیا کہ ہندو یوا واہنی کو اکثر شکایات موصول ہوتی تھیں کہ مجرمانہ شبیہ والے لوگ تنظیم میں دراندازی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دراندازی کی تحقیقات کے لئے واہنی نے اب اضلاع میں جاکر میٹنگیں منعقد کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔

شولاپور کے بے قصور نوجوانوں کی ضمانت کے معاملے میں 

مدھیہ پردیش اے ٹی ایس کاعدالتی کارروائی میں رخنہ ڈالنے کا سلسلہ ہنوز جار

ممبئی: 04 مئی (فکروخبر/ذرائع) سیمی سے تعلق کے الزام میں گزشتہ ۴ سال سے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے شولاپور کے ۴ مسلم نوجوانوں کی ضمانت کی درخواست گزشتہ ۱۵؍ ماہ سے مدھیہ پردیش کی جبل پور ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے، مگر مدھیہ پردیش اے ٹی ایس ہر تاریخ پر ٹال مٹول کا رویہ اور عدالتی کارروائی میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے ، جس کی وجہ سے اس مقدمے کی سماعت کے لئے آج عدالت نے گیارہویں بار تاریخ طئے کی ہے۔ اب اس کی سماعت۲۲ جون کو ہوگی۔ یہ اطلاع آج یہاں اس مقدمے کی قانونی پیروی کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر مولانا ندیم صدیقی نے دی ہے۔
مولانا ندیم صدیقی نے کہا کہ ہمارے لیگل سیل کے سکریٹری ایڈووکیٹ تہور خان پٹھان ہر تاریخ پر عدالت میں حاضر ہونے کے لئے ممبئی سے جاتے ہیں ،مگر عدالت پچھلے ۱۱؍بار سے تاریخ پر تاریخ دے رہی ہے اور اس معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوپارہا ہے۔ ہمارے وکلاء نے ٹیکنیکل بنیاد پر مدھیہ پردیش اے ٹی ایس کے ذریعے ۴سال قبل شولاپور سے گرفتار کئے گئے ۵ مسلم نوجوانوں کی درخواستِ ضمانت جبل پورہائی کورٹ میں داخل کی ہے،جن میں سے ایک کابھوپال انکاؤنٹر میں قتل ہوگیا ہے۔ بقیہ۴ کی درخواستِ ضمانت پر سماعت گزشتہ ۱۵؍ماہ سے جاری ہے ، مگر ہر بار اے ٹی ایس عدالت کے روبرو کچھ ایسا عذر پیش کرتی ہے کہ عدالت آئندہ کی تاریخ طئے کردیتی ہے، جس کی وجہ سے یہ مقدمہ موخرہوتا چلا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے وکلاء نے عدالت کے روبروضمانت کی اس درخواست پرجلدازجلد اپنا فیصلہ سنانے کے لئے گزارش کی ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ مدھیہ پردیش اے ٹی ایس ایک منصوبہ بندی کے تحت اس معاملے میں رخنہ اندازی کررہی ہے۔ انہوں نے اے ٹی ایس پر الزام عائدکیا ہے کہ اس کے پاس ہمارے وکلاء کے دلائل اور دفاع کی جانب سے عدالت کے روبرو پیش کردہ شواہد کا کوئی ٹھوس جواب نہیں ہے، اس لئے وہ اس معاملے میں ٹال مٹول کا رویہ اپناکر اسے بغیرکسی معقول وجہ کے طویل کررہی ہے۔ 
عدالت میں اس معاملے کی پیروی کررہے جمعیۃ علماء مہاراشٹر لیگل سیل کے سکریٹری سینئرکریمنل ایڈوکیٹ پٹھان تہورخان کے مطابق ہم نے مدھیہ پردیش اے ٹی ایس کے غیر قانونی طریقہ کار اور بے ضابطہ رویہ کو عدالت کے سامنے اجا گر کیا ،جس پر عدالت نے اے ٹی ایس کو اس بار ۲۲جون تک کی مہلت دی ہے کہ وہ ان ایام میں مذکورہ مسلم نوجوانوں کی ضمات سے متعلق اپنا اعتراض اور اس سے متعلق دیگر دستاویزات پیش کرے۔مگر مجھے نہیں لگتا کہ اے ٹی ایس آئندہ تاریخ پر عدالت کی ہدایت پر عمل کرے گی۔ کیونکہ ایسا ایک دوبار نہیں بلکہ ۱۱؍بار سے ہورہا ہے اور دورانِ سماعت بری طرح ہزیمت اٹھانے کے باوجود اے ٹی ایس اپنی روش پر قائم ہے۔انہوں نے بتایا کہ آج عدالت میں گیارہویں بار اس ضمانت کی درخواست پر ایک گھنٹے تک سماعت عمل میں آئی اور جب عدالت نے اے ٹی ایس سے یہ سوال کیا کہ مذکورہ ملزمین کو کیوں نہ ضمانت پر رہا کر دیا جائے تو اے ٹی ایس اس کا جواب نہیں دے سکی اور یہ کہتے ہوئے عدالت سے مزید وقت طلب کیا کہ اسے عدالت میں دفاع کے دلائل کے خلاف کچھ دستاویزات پیش کرنے کی مہلت چاہئے۔یہ رویہ گذشتہ گیارہ سماعتوں سے سامنے آرہا ہے کہ عدالت میں اے ٹی ایس اپنا موقف تک پیش نہیں کر پا رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اے ٹی ایس کے پاس اس تعلق سے کوئی جواب نہیں ہے اور وہ عدالت و دفاع کے دلائل کا جواب دینے سے عمدا کترا رہی ہے ۔بہر حال یہ مقدمہ سر کاری وکیل کی درخواست پر ۲۲جون تک کے لئے ایک بار پھر ملتوی کیا جا چکا ہے۔

نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اُردو زبان وادب سے واقفیت ضرور حاصل کریں:پروفیسر نوشابہ صدیقی پاکستان 

علی گڑھ ۔4مئی(فکروخبر/ذرائع) پاکستان سے تشریف لائیں معروف ناول نگار،افسانہ نگار،انشائیہ نگار اور خاکہ نگار کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس نمبر ا میں بزمِ نویدِ سخن علی گڑھ کی جانب سے استقبال کیا گیا ۔بزم کے جنرل سکریٹری سید بصیرالحسن وفاؔ نقوی نے ان کی ادبی خدمات اور اُردو ادب کے حوالے سے ان سے مخصوص گفتگو کی ان سے سوال پوچھا کہ آپ کا آبائی وطن کہاں ہے اور آپ کا علی گڑھ سے کیا تعلق ہے تو انھوں نے بتایا کہ میرا آبائی وطن غازی پور ہندوستان ہے۔میں شہر غازی پور میں پیدا ہوئی جہاں میرے دادا کے ساتھ سر سید کی ملاقاتیں رہتی تھیں وہ سرسید سے بڑے متاثر تھے وہیں اُس زمانے میں سائینٹفک سوسائٹی کا منصوبہ بنایا گیا میں بہت چھوٹی تھی میرے والد علی گڑھ آگئے انھوں نے یہیں تعلیم حاصل کی اور یہیں ملازم بھی ہوئے لیکن بد قسمتی یہ ہوئی کہ میرے والد کا کم عمری میں انتقال ہو گیامیں دو سال کی تھی جب مجھ سے علی گڑھ چھُٹ گیااور میں پھر غازی پور چلی گئی اور جب میں چار سال کی ہوئی تو ہجرت کا دکھ اُٹھانا پڑا اور پاکستان پہنچ گئی وہیں تعلیم و تربیت حاصل کی اورکراچی کے ایک کالج میں پڑھانے لگی میں نے تقریباً چالیس سال ٹیچنگ کی اُس زمانے سے ہی میں چاہتی تھی کہ اپنے آبائی وطن غازی پور اور خاص طور سے علی گڑھ دیکھوں لیکن گھر اور ملازمت کی ذمے داریوں کی وجہ سے ہندوستان نہ آسکی پہلی بار اکیس مئی ۲۰۱۴ ء کو علی گڑھ آئی اور اپنے والد کی قبر دیکھی۔انھوں نے مزید بتایا کہ میں نے دس سال کی عمر سے ہی لکھنا شروع کردیا تھا میری پہلی کہانی اُس دور کے مشہور اخبارات’’جنگ‘‘اور ’’اخبارِ جہاں‘‘ میں شائع ہوئی تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا، اُس کے بعد میرا ایک ناول منظرِ عام پر آیا جس پر مجنوں گورکھ پوری نے دیباچہ لکھا۔اب میری تقریباً بارہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور تین زیرِ طبع ہیں۔مجھے لکھنے پڑھنے کا ماحول وراثت میں ملا میرے والد صاحب بھی شاعر تھے ابھی حال ہی میں ان کا مجموعہ میں نے مرتب کیا ہے میرے دادااور دادی بھی دونوں صاحبِ دیوان تھے۔ تنقید کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پرانھوں نے کہا کہ تنقید ادب کے لئے بہت ضروری ہے اور موجودہ عہد میں صغیر افراہیم تنقید کے حوالے سے بڑا نام ہیں۔میں جب ہندوستان آئی تو سب سے پہلے انھیں سے میری ملاقات ہوئی میں ان کی شخصیت اور تخلیقات سے بہت متاثر ہوں ابھی ان کا افسانوی مجموعہ ’’کڑی دھوپ کا سفر‘‘ آیا ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے تخلیق کار بھی ہیں خاص طور پر خوشی کی بات یہ ہے کہ جمو ں کشمیر یونیورسٹی کے ایک اسکالر مظفر اقبال نے ان پر ریسرچ کی ہے جس کے لئے وہ قابلِ تعریف ہیں۔آخر میں انھوں نے اُردو ادب کے قارئین اور طلباء کو پیغام دیا کہ اُردو زبان کو کبھی فراموش نہ کریں خاص طور سے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اُردو زبان و ادب سے واقفیت ضرور حاصل کریں چاہے ان کا سبجیکٹ کوئی ہو کیونکہ اُردو مختلف تہذیبوں اور تمدن کی مظہر ہے۔پروگرام میں پروفیسر سیما صغیر صاحبہ ،مقبول احمد،گلشنِ ادب علی گڑھ کے جنرل سکریٹری محمدعادل فرازؔ اور ڈاکٹر ہلال نقوی وغیرہ وغیرہ موجودرہے۔

پنچایت سرٹیفکیٹ معاملے پر اسٹے کی عرضداشت: 

این آر سی سمیت فریقین کو 16اگست تک جواب داخل کرنے کی ہدایت 

’نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس‘ مکمل ہوتے ہی فرقہ پرست عناصر کی زبانوں پر تالا پڑ جائے گا: مولانا ارشد مدنی 

نئی دہلی 4مئی(فکروخبر/ذرائع)آسام میں غیر ملکی شہری معاملے میں گوہاٹی ہائی کورٹ کے ذریعے پنچایت سرٹیفکیٹ کو خواتین کی شہریت کے ثبوت کے طور پر تسلیم کئے جانے سے انکار کر دینے کے فیصلے پر اسٹے دینے کا مطالبہ کرنے والی جمعیۃ علما ہند کی عرضداشت پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں جسٹس رنجن گوگوئی اور جسٹس نوین سنہا کی بنچ نے آج تمام فریقین کو جواب داخل کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے اس معاملے پر بحث کے لئے 16اگست کی تاریخ مقرر کی ہے ۔ اس سے قبل آج نیشنل رجسٹر آف سٹی زنس کے اسٹیٹ کورڈی نیٹر پرتیک بجیلا ( آئی ایس ) مرکزی حکومت کے سالیسٹر جنرل رنجیت کمار اور آسام حکومت کے کونسل نے عدالت کے سامنے اپنا موقف پیش کیا۔عدالت نے این آر سی کے کورڈی نیٹر سے جواب طلب کیا کہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس کومکمل کرنے میں اور کتنا وقت درکار ہے ۔ ا س پر کورڈی نیٹر نے جواب دیا کہ یہ کام دسمبر ماہ تک مکمل کرلیا جائے گا۔ عدالت نے کہا کہ ہمارے پاس کافی وقت ہے اس لئے تمام فریقین اس معاملے میں اپنے اپنے جواب داخل کریں اور اگر جمعیۃ علما ء ہند چاہے تو ان جوابات پر اپنا جواب داخل کرے ۔ اس معاملے پر آئندہ سماعت اب 16اگست کوہوگی ۔جہاں تک بات پنچایت سرٹیفکیٹ کی ہے تو عدالت نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر نہ توابھی پابندی لگائی ہے اور نہ اسے تسلیم کئے جانے کے تعلق سے کوئی ہدایت جاری کی ہے،اس تعلق سے فیصلہ بحث کے بعد ہی ہوگا ۔ سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے معروف وکیل کپل سبل، سلمان خورشید ،وویک کمار تنکھا اور سنجے آر ہیگڑے ، فضیل احمد ایوبی وغیرہ موجود تھے ۔ واضح ہو کہ عدالت نے گذشتہ سماعت کے دوران این آر سی کے اسٹیٹ کورڈی نیٹر کوپارٹی بناتے ہوئے انہیں نوٹس جاری کر کے عدالت کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے میں اسٹے کیوں نہ جاری کیا جائے ۔ جمعتہ علما ہند کے وکیل فضیل احمد ایوبی نے کہا کہ پنچایت سرٹیفکیٹ تسلیم نہ کرنے کایہ معاملہ ان 48لاکھ خواتین سے متعلق ہے جن کے سر پر غیر ملکی ہونے کی تلوار لٹکا دی گئی ہے۔ وہ خواتین جن کی شادیاں اب سے چار پانچ دہائیوں قبل ہوچکی ہیں اور وہ بیاہ کر دوسرے گاؤں اور شہروں میں چلی گئیں ان کے پاس ہندوستانی شہری ہونے کا پنچایت سرٹیفکیٹ کے علاوہ کوئی اور ثبوت نہیں ہے۔اس صورتحال میں جمعیۃ علما ہند کو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاناپڑا ۔ فضل ایوبی نے کہا کہ ابھی تک عدالت عالیہ کا رویہ ہمارے حق میں ہے لیکن یہ شروعات ہے ابھی تو بحث اور جرح ہونی ہے۔ اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ صادر ہوگا ۔ دریں اثنا جمعیۃ علماء آسام کے صدر مولانامشتاق عنفر اور نائب صدر رقیب الحسین نے عدالت کی آج کی کارروائی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پوری امید ہے کہ عدالت سے 48لاکھ خواتین کو ریلیف حاصل ہوگی۔ جمعیۃ علما ہند کے صدر مولاناسید ارشد مدنی نے سپریم کورٹ میںآج کی سماعت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ کورڈی نیٹر نیشنل رجسٹر آف سٹی زنس کو پارٹی بنائے جانے اور اس سے جواب طلب کئے جانے کے بعد جمعیۃ کا موقف اور مضبوط ہوا ہے۔عدالت عالیہ نے اب فریقین سے جواب داخل کرنے کوکہا ہے جس میں تمام اصلیت سامنے آ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس کے مکمل ہوتے ہی نہ صرف فرقہ پرست عناصر کی زبانوں پر تالا پڑ جائے گا بلکہ متعصبانہ ذہنیت رکھنے والے افسران اور حکومت کے ذمہ داران کوبھی آئین اور قانون کے مطابق عمل کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑے گا۔مولانا مدنی نے کہا کہ خواتین کے معاملے میں شہریت کے ثبوت کے طور پر گاؤں پنچایت کے سرٹیفکیٹ کو تسلیم نہ کئے جانے کا فیصلہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوا ہے، جو منصوبہ بند لگتا ہے ۔ مولانا مدنی نے کہاکہ آسام کے اس اہم ایشو کے تعلق سے برادران وطن کوبیدار کیا جائے گا تاکہ انہیں پتہ لگ سکے کہ غیر ملکی شہریت کے نام پر لاکھوں بنگالی( ہندوستانی ) مسلمانوں کو بے وطن کرنے کی سازِ شیں کی جا رہی ہیں ۔مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں ملک کی عدلیہ پر اعتماد ہے اور پورایقین کہ سپریم کورٹ سے انصاف ضرور ملے گا۔

حلقہ اسمبلی بیدر شمال کے اپنے حلقہ میں بے شمار ترقیاتی کاموں سے بی جے پی لیڈرس بوکھلاہٹ کا شکار۔رحیم خان 

بیدر۔4مئی(فکروخبر/ذرائع)۔بی جے پی کی جانب سے جناب محمد رحیم خان رکن اسمبلی بیدر (شمال)کے ترقیاتی کاموں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے احتجاج کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔بی جے پی نے میرے خلاف احتجاج کرکے فرقہ پرستی کا ثبوت دیا ہے ۔وہ بیدر شہر کی ترقی کو برداشت نہیں کررہے ہیں ‘اور ترقیاتی کاموں کو دیکھ کر بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں ۔ انھو ں نے کہا کہ حلقہ اسمبلی بیدر (شمال)کی ترقی کیلئے میں نے بہت سے کام کئے ہیں ۔مجھے ضمنی انتخابات میں سیکولر ووٹرس نے بھاری اکثریت منتخب کیا۔ضمنی انتخابات سے قبل تین سال کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کا ذکر کیا جاسکے۔یہ بات جناب محمد رحیم خان رکن اسمبلی بیدر (شمال) نے صحافیوں کو بتائی ۔میں تمام طبقات کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے ہمیشہ حکومت سے نمائندگی کرتا آرہا ہوں ہے ۔شہری علاقے کے علاوہ میں نے دیہی علاقوں کا دورہ کرکے وہاں کے حالات اور کسانوں کے مسائل کو حل کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔بی جے پی کی جانب سے بے بنیاد الزامات اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ وہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں حلقہ اسمبلی بیدر (شمال)میں سیکولرزم کو ختم کرکے فرقہ پرستی کی ہوا کھڑی کرنا چاہتے ہیں ۔حلقہ اسمبلی بیدر شمال کی سیکولر عوام یہ بات بخوبی جانتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ بیدر شہرکی ترقی کیلئے UDGکاموں کیلئے علاوہ دیگر ترقیاتی کاموں کیلئے400کروڑ روپیے خرچ کئے جارہے ہیں ۔ا سکے علاوہ میری فلاحی ‘ سماجی ‘تعلیمی‘ خدمات بلا لحاظ مذہب و ملت جاری ہیں ۔جہاں تک یو جی ڈی کے کاموں میں تاخیر کا معاملہ ہے جس کیلئے ایک کنٹراکٹر کو تبدیل کردیا گیا ہے کیوں کہ وہ انتہائی سست روی سے کام انجام دے رہا تھا ۔عوام کو دھول کا سامنا کرنا پڑا اس کا احساس ہمیں ہے‘اس سلسلہ میں میں نے بیدر ضلع انچارج منسٹر مسٹرایشور کھنڈرے کے ساتھ ملکر اس سلسلہ میں فوری طورپر اقدامات کرنے کیلئے یو جی ڈی کامو ں کو تیزی نپٹانے کی یکسوئی کی ‘اور رمضان المبارک سے قبل یہ کام پورا ہوجائے گا ۔بیدر ضلع انچارج منسٹر ایشور کھنڈرے کی خصوصی توجہ اور چیف منسٹرکرناٹک کی بیدر کیلئے فکر پر انھوں نے نہایت ہی اطمنان کا اِظہار کیا ہے۔ ***

بیدر شہر میں ترقیاتی کاموں کی انجام دہی پر بحیثیت بیدر ضلع انچارج منسٹر ایشور کھنڈرے بہتر ترقیاتی کام انجام دئییہیں ۔قاضی ارشد علی 

بیدر۔4؍مئی۔(فکروخبر/ذرائع)۔جناب قاضی ارشد علی صدر بیدر ضلع کانگریس کمیٹی بیدر نے ایک پریس نوٹ جاری کرے بتایا ہے کہ یوجی ڈی کے تعمیر ی کاموں پر بیدر میں بی جے پی کی جانب گذشتہ یوم کئے گئے احتجاج کے پس پردہ سیاسی مفادات کا رفرما ہیں‘چونکہ اسمبلی انتخابات قریب ہیں اس لئے بی جے پی لیڈرس اس کوشش میں ہیں کہ کاموں کا صلہ اپنے سر لیں اور سیاست کو زندہ رکھیں۔ انھوں نے بتایا کہ بیدر شہر میں یو جی ڈی کے کامو ں کی انجام دہی جاری ہے ۔کنٹراکٹر سے ہی تاخیر ہوئی ہے۔ عوامی علاقوں میں کام انجام دینے سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔اچھے کام ہوتے ہیں تو عوام کو بعض تکالیف بھی برداشت کرناپڑتا ہے۔انھوں نے مزید بتایا کہ بیدر ضلع میں کس مدت میں کیا کیا کام ہوئے ہیں ‘اس بات سے عوام اچھی طرح واقف ہیں۔ریاستی اور ضلع سطح پر مسٹر ایشور کھنڈرے بیدر ضلع انچارج منسٹر تمام ترقیاتی کاموں کا جائزہ حاصل کیا ہے جب سے بحیثیت بیدر ضلع انچارج منسٹر ایشور کھنڈرے ایک سال بھی معیاد مکمل نہیں کی بیدر شہر میں400کروڑ روپیے خرچ سے ترقیاتی کام انجام دےئے جارہے ہیں۔اور عہدیداروں پر کنٹرول حاصل ہوا ہے۔مسٹر ایشور کھنڈرے کی ضلع اور ریاستی سطح پر مقبولیت میں اِضافہ ہوا ہے۔ بیدر شہر کے نہرو اسٹیڈیم کے ضمن میں قبل فیصلہ ہوچکا ہے۔ اس مقام پر ایک عظیم الشان نہرو اسٹیڈیم تعمیر ہوگا۔اس طرح کے ترقیاتی کاموں کو بی جے پی برداشت نہیں کررہی ہے۔بلا وجہ بے بنیاد الزامات عائد کررہے ہیں۔ان بے بنیاد الزامات سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔انھوں نے بتایا کہ سابق میں 5سال تک ریاست میں بی جے پی کی حکومت تھی ‘تب ضلع بیدر کی حالت کیا تھی۔ اور کیا تبدیلی ہوئی ہے۔ اس بات سے عوام واقف ہے۔***

بیدر شہر میں اچھے ترقیاتی کاموں کی انجام دہی کو دیکھ کر بی جے پی قائدین کے خیمہ میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔محمد یوسف 

بیدر۔4؍مئی۔(فکروخبر/ذرائع)۔جناب محمد یوسف صدربیدر سٹی کانگریس نے ایک پریس نوٹ جاری کرکے بتایا ہے کہ گذشتہ یوم بی جے پی بیدر سٹی کی جانب سے بیدر ضلع انچارج منسٹر ایشور کھنڈرے اور بیدر شمال کے رکن اسمبلی جناب محمد رحیم خان کے خلاف حلقہ اسمبلی بیدر (شمال) میں ترقیاتی کام انجام نہیں دئیے جانے کا بے بنیاد الزام لگا کر احتجاجکی بی جیپی قائدین کی بوکھلاہٹ بتایا ہے ۔انھو ں نے بتایا کہ اچھے ترقیاتی کاموں کی انجام دہی کو دیکھ کر بے جی پی قائدین کے خیمہ میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے ۔جناب محمدیوسف نے بتایا ہے کہ بیدر (شمال) کے رکن اسمبلی جناب محمد رحیم خان نے ضمنی انتخات میں سیکولر ووٹوں سے تاریخ ساز کامیابی درج کرانے کے بعد15ماہ میں جو ترقیاتی کام انجام دئیے ہیں ایسی مثال سابق میں نہیں ملتی ۔بی جے پی کا اسطرح کا احتجاج فرقہ پرستی کی کھلی نشانی ہے ۔جبکہ حلقہ اسمبلی بیدر(شمال) میں تمام مذاہب و طبقات کی ترقی کیلئے حکومت سے بھر پور نمائندگی کرتے ہوئے سیکولرزم کی بقا کو قائم رکھا ہے ۔بی جے پی کی جانب سے یو جی ڈی کاموں کو لے کر بے بنیاد الزامات لگانا سراسر غلط ہے۔جناب محمد یوسف نے بتایا کہ جہاں تک یوجی ڈی کے کام ہیں چند ٹیکنیکل وجوہات کی وجہ سے تاخیر ہوئی ہے ۔بیدر ضلع انچارج منسٹر مسٹر ایشور کھنڈرے اور رحیم خان رکن اسمبلی بیدر شمال نے اس ضمن میں عوام کو اعتماد لیتے ہوئے اس بات کا یقین دلایا تھا کہ رمضان المبارک سے قبل یہ کام انجام دئیے جائیں گے۔اور فی الحال کام شروع ہوچکا ہے ۔بی جے پی نہیں چاہتی کہ ترقیاتی کام ہو اور عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے کیلئے بے بنیاد اور غلط الزاما لگانا بی جے پی کا طرہ امتیاز ہے۔جناب محمد یوسف صدر بیدر سٹی کانگریس نے مزید بتایا کہ جناب محمد رحیم خان عوام کے درمیان رہتے ہے بلا لحاظ مذہب و ملت ترقیاتی کاموں کو انجام دے رہے ہے ۔جناب محمد رحیم خان نے بیدر ضلع انچارج منسٹر ایشور کھنڈرے کے ساتھ ترقیاتی کاموں کو انجام دینے کیلئے ہمیشہ ان کے ساتھ رہتے ہوئے بیدر شہر کی ترقی کیلئے فکرمند ہے۔ایشور کھنڈرے نے دیگر اسمبلی حلہ جات کے علاوہ بیدر حلقہ اسمبلی (شمال) میں حکومت کی جانب سے بھر پور اسکیمات اور فنڈ جاری کرا کر ترقیاتی کاموں کو انجام دے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ بی جے پی لیڈرس ایشور کھنڈرے اور رحیم خان کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ۔جناب محمد یوسف نے ایشور کھنڈرے اور ریاستی چیف منسٹر سدارامیاکی بیدر کیلئے خصوصی توجہ اور فکر کے تئیں اِظہار تشکر کیا ہے ۔جناب محمد رحیم خان نے 24/7کے تحت پینے کے پانی کی سہولیات کیلئے دو ماہ میں اندرون کام مکمل کرنے کا کنٹراکٹر کو ہدف دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ نہرو اسٹیڈیم کی تعمیر کیلئے 7کروڑ روپیے بجٹ منظور کیاگیا‘ جس کیلئے تین کروڑ روپیے آچکے ہیں ۔اور جلد کام کا آغاز ہوگا۔ ‘رنگ روڈکی تعمیر کو بھی پائے تکمیل پایاگیا ۔قدیم بیدر شہر میں 10 بیڈس والے سرکاری دواخانہ جوخواتین و اطفال کیلئے مُختص ہے‘ جس کیلئے اس کو100بیڈ تک ترقی دے عصری آلات سے لیس کرنے کیلئے30کروڑ روپیے منظور کرائے گئے ۔حلقہ اسمبلی بیدر شمال بیدر یکالونی کے سرکاری دواخانہ جو کہ کرایہ کی بڈنگ میں تھا اس کیلئے رنگ روڈ کے قریب تعمیر ی کام ہوا۔اس کے علاوہ بیدر حلقہ اسمبلی شمال کیلئے 200کروڑ روپیے علیحدہ سے منظور ہوچکے ہیں ۔برقی ‘ نالیوں کی تعمیر ‘قبرستان کی حصار بندی اور دیگر ترقیاتی کاموں کیلئے 15کروڑ روپیے منظور ہوئے ہیں۔مذکورہ بالا تمام تریاتی کاموں سے بی جے پی لیڈرسب وکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں اور بے بنیا د الزامات لگارہے ہیں۔***

بیٹی کی پرورش پر والدین کوجنت کی نوید سنائی گئی ہے۔ تو اولا د کو ماں کے قدموں تلے جنت کا وعدہ کیاگیاہے

ناظمہ شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند بیدر کا خطاب

بیدر۔4؍مئی۔(فکروخبر/ذرائع)۔ اسلام نے عورت کو عظمت بخشی ہے۔ اسے باعث رحمت قرار دیاہے ۔ ولادت تاوفات اسے بے پناہ حقوق حاصل ہیں۔ کسی بھی معاملے میں اسے کمتر قرارنہیں دیاگیا۔ بیٹی کی پرورش پر والدین کوجنت کی نوید سنائی گئی ہے۔ تو اولا د کو ماں کے قدموں تلے جنت کا وعدہ کیاگیاہے۔ بالغ ہونے پر اس کی مرضی کے بغیر نکاح نہیں کیاجاسکتا۔شادی پر مہراور والد کی موت پروراثت کا حقدار بتاکر مالی طورپر مستحکم کیاگیاہے۔ نکاح کے بعد شوہر اسے تحفظ اور وقار عطا کرتاہے۔ شادی کی بناپر جو مہر ملتاہے وہ اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرسکتی ہے۔ شوہر سے نباہ نہ ہونے پر خلع لینے کااختیار دیاہے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کوتین چیزیں محبوب تھیں۔ نماز، عورت اور خوشبو۔شریعت نے عورت کو بلندی عطا کی ہے لیکن فرقہ پرست طاقتیں مسلم خواتین کی مظلومیت کی دہائی دے کر سیکولر ملک ہندوستان کے دستور سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی مذموم کوشش کررہی ہیں۔ اوریکساں سیول کوڈ کی راہ ہموار کررہی ہیں۔ جو ہمیں ہرگز منظور نہیں۔ جس کے سبب ہم شرعی(خدائی) قوانین کے مطابق زندگی نہ گزار سکیں۔اسی لئے جماعت اسلامی ہند نے یہ پندرہ روزہ مہم کی شروعات کی ہے تاکہ قوم کو اسلامی قوانین سے آگاہ کیاجائے اور وہ کسی بھی سوال کاموثر جواب دے سکیں‘‘یہ بات ناظمہ شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند بیدر نے کہی۔ ’’مسلم پرسنل لابیداری مہم‘‘ کو تعاون دینے کی غرض سے منعقد کی گئی خواتین قلمکاروں کی ادبی ، سماجی وتعلیمی تنظیم ’بزم غزالاں‘ کی خصوصی ادبی نشست سے وہ خطاب کررہی تھیں۔ ملک گیر شہت یافتہ افسانہ نگار محترمہ رخسانہ نازنین سکریڑی بزم غزالاں بیدر کی رہائش گاہ پر منعقدہ اس تقریب کی صدارت محترمہ نوشادبیگم صدر بزم غزالاں نے کی ۔نشست کاآغاز طالبہ دلشادمہک اور صبیحہ خانم کی علیحدہ علیحدہ تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ نعت شریف بھی پیش کی گئی۔ رخسانہ نازنین نے افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ حالیہ عرصے میں ملک میں مذہبی منافرت پھیلانے اور اسلام دشمن کارگزاریوں کی وجہ سے قوم مضطرب رہی ہے۔ بی جے پی حکومت کے برسراقتدار آتے ہی بھگواتنظیمیں اپنی مذموم سازشوں کو انجام دینے میں مصروف ہوگئی ہیں۔جن کی پشت پناہی حکومت کررہی ہے۔ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی باتیں اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ جو ان کے خفیہ ایجنڈے میں شامل تھا۔ اللہ رب العزت کا کر م ہے کہ اس شر کے پہلو سے خیر کادریا بہہ نکلاہے۔ پوری قوم متحد ہوکر تحفظ شریعت کے کاز سے جڑگئی ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے اس معاملے میں شروع ہی سے تدبرانہ رویہ رکھااور اس مسئلے کی بنیاد کی طرف غوروخوص کیا۔ مسلم پرسنل لا بیداری مہم اسی کوشش کا ایک حصہ ہے۔ صحیح وقت پر اٹھایاگیایہ اقدام ملک بھر میں پھیلے اضطراب اور اندیشوں کو دور کرنے میں معاون ہوگا۔ میں ناظمہ صبیحہ خانم سے اظہار تشکر کرتی ہوں کہ انہوں نے بزم غزالاں کو بھی اس مہم میں شامل کیا۔ اور آج کی ادبی نشست کے حوالے سے یہ پیغام پہنچایا جووقت کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد نثری تخلیقات پیش کی گئیں۔ صبیحہ خانم جونئیر نے افسانچے پیش کئے۔ محترمہ شاہین فاطمہ معلمہ نے مسلم پرسنل لابیداری موضوع کو سامنے رکھ کر ’’شادی سے طلاق تک کاسفر‘‘اور ’’اپنا شوہر نہیں بانٹوں گی ‘‘ نامی افسانے پیش کئے جنہیں کافی پسند کیاگیا۔ اسی کے ساتھ ایک افسانچہ بھی پیش کیا۔ ان سبھی تحریروں کامرکزی خیال ہمارے معاشرے میں اسلامی قوانین سے چشم پوشی بلکہ ناواقفیت تھاجس کے سبب گھروں میں بگاڑ پیدا ہورہاہے۔ محترمہ ارم فاطمہ نے مضمون’’اسلامی قوانین باعث فخر‘‘ پیش کیا۔ محترمہ کے مضمون کایہ اقتباس کافی پسند کیاگیا’’اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ جوتمام مسائل سے بحث کرتاہے اورا ن کاموزوں حل پیش کرتاہے کیونکہ اس کی تعلیمات کسی انسان نے نہیں بلکہ اس مالک حقیقی کی عطا کردہ ہیں جو ساری کائنات کاخالق ہے‘‘ محترمہ اقبال النساء صاحبہ نے ’’مسلم پرسنل لا اور عورتوں کے حقوق ‘‘اور ’’عورت کاوراثت میں حصہ‘‘پیش کرتے ہوئے ان مسائل پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ رخسانہ نازنین نے مہم کے تناظر میں تازہ افسانہ ’’آبگینے سلامت رہیں‘‘پیش کیا۔ سینئر افسانہ نگار محترمہ صبیحہ خانم نے افسانہ ’’الٹی ہوگئی سب تدبیریں‘‘پیش کیا جو ادبی چاشنی سے لبریزتھا ۔ ساری محفل افسانے کی فضا میں کھو گئی۔ محترمہ نوشاد بیگم صاحبہ صدر مجلس نے مہم کے متعلق چند قطعات پیش کئے۔ اسی کے ساتھ ’’طلاق کے بعد ازدواجی تعلقات ۔ ایک مہلک رجحان‘‘پیش کیاجس میں انہوں نے مطلقہ کے ساتھ زندگی ،حلالہ کی کوشش، اور طلاق کے بعد ازدواجی تعلقات جیسے سنگین مسائل کااحاطہ کیا ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ زبان درازی کے بجائے زبان بندی ہی طلاق کو روک سکتی ہے ۔ زبان کا غلط استعمال ہی طلاق کا محرک ہے‘‘محترمہ رخسانہ نازنین نے نظامت کافریضہ انجام دیا۔ صبیحہ خانم ناظمہ صاحبہ کی رقت انگیز دعاپر نشست اپنے اختتام کوپہنچی۔ جماعت کی معز ز رکن رضیہ ابوبکر صاحبہ بھی نشست میں شریک تھیں۔ ***

کرناٹک پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر ڈاکٹر جی پرمیشور 5؍مئی کو بیدر شہر کے دورہ 

بیدر۔4؍مئی۔(فکروخبر/ذرائع)۔کرناٹک پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر ڈاکٹر جی پرمیشور 5؍مئی کو بیدر شہر کے دورہ پرہوں گے۔ وہ کل دوپہر 3بجے شہر کے چدری راستہ پرواقع وشال فنکشن ہال میں منعقدہ ضلع کانگریس عہدیداروں ، قائدین، عوامی نمائندوں اور کارکنوں کے اجلاس میں شریک ہوں گے۔ اس اجلاس میں ضلع انچارج وزیر ایشور کھنڈرے اور ضلع کانگریس کے اراکین اسمبلی کی شرکت ہوگی ۔ضلع کانگریس کے عہدیدار، قائدین، عوامی نمائندے اور کارکنا ن سے اس اجلاس میں شرکت کرنے کی اپیل قاضی ارشدعلی صدر بیدر ضلع کانگریس نے کی ہے۔ ***

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا