English   /   Kannada   /   Nawayathi

دہشت گردی کے الزامات کے تحت عمر قید کی سزا پائے مسلم نوجوانوں کو ہائی کورٹ نے کیا بری(مزید اہم ترین خبریں)

share with us

ان نوجوانوں کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیتہ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے ممبئی میں یہ اطلاع اخبار نویسوں کو دی اور بتایا کہ ملزمین سلیم قمر اور الطاف حسین کو14 جنوری2001کو اتر پردیش پولیس نے دھماکہ خیز مادہ رکھنے اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے تحت گرفتار کیا تھا اور ان کے قبضہ سے آر ڈی ایکس، زندہ کارتوس ، ٹائمر، بیٹری و دیگر مواد ضبط کرنے کا دعوی کیا تھا جس سے وہ رام جنم بھومی ایودھیا(فیض آباد) میں بم دھماکہ کرنا چاہتے تھے۔ فیض آباد کی خصوصی گنگسٹر عدالت نے الطاف حسین اور سلیم قمر کو تعزیرات ہند کی دفعات 121,122 کے تحت عمر قید کی سزاسنائی تھی اسی طرح دھماکہ خیز مادہ کے قانون کی دفعات 3,4,5 کے تحت دس سالوں کی سزاء تجویز کی تھی۔ گلزار اعظمی نے کہا کہ نچلی عدالت سے ملی سزاؤں کے خلاف لکھنؤ ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی گئی تھی جس کی سماعت گذشتہ دو سالوں سے جاری تھی جس پر آج سماعت عمل میں آئی جس کے دوران دو رکنی بینچ کے جسٹس ایس چوہان اور جسٹس اننت کمار نے ملزمین کو ایک جانب جہاں عمر قید کی سزاؤں سے بری کردیا وہیں دھماکہ خیز مادہ والے قانون کے تحت تجویز کی گئی دس سال کی سزا والے معاملے کی سماعت ملتوی کردی۔ ملزمین کے مقدمات کی پیروی کے لئے صدر جمعیتہ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر دہلی سے ایڈوکیٹ عارف علی اور لکھنوء4 کے وکیل محمو دعالم کو مقرر کیا گیا تھا جنہوں نے لکھنؤ ہائی کورٹ کے سامنے مدلل بحث کی جس کے بعد آج بالآخر ملزمین کو دی گئی عمر قید کی سزاؤں کو ختم کردیا گیا۔گلزار اعظمی نے کہا کہ عمر قید کی سزا سے بری کئے جانے کے بعد ملزمین کی اگلے چند ایام میں جیل سے رہائی ہوجائے گی اور بقیہ مقدمہ کی اپیل سے بھی انشاء اللہ ملزمین باعزت بری ہوجائیں گے۔ مقدمہ کے تعلق سے دفاعی وکیل عارف علی نے بتایا کہ انہوں نے لکھنوء4 ہائی کورٹ میں استغاثہ کی خامیوں کی نشاندہی کی جس کی بنا پر ملزمین کو عمر قید کی سزاؤں سے باعزت بری کردیا گیا۔ عارف علی نے بتایا کہ اس پورے معاملے میں استغاثہ نے سنگین غلطیاں کیں اور بے گناہوں کو ایک طویل عرصہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑنے پر مجبور کیا۔ انہو ں نے کہا کہ ملک دشمن سرگرمیوں کے الزامات کے تحت گرفتار ملزمین کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کے لئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی اجازت (سینکشن) حاصل کرنا قانوناً ضروری ہے لیکن اس معاملے میں خصوصی اجازت حاصل نہیں کی گئی اور ایف آئی آر کی کاپی دو ہفتوں کے بعد عدالت میں پیش کی گئی جس سے یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ ملزمین کے خلاف جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ ایڈوکیٹ عارف علی نے کہا کہ دھماکہ خیز مادہ کے قانون کے اطلاق کے لئے جو اجازت نامہ حاصل کیا گیا تھا وہ بھی فرضی معلوم ہوتا ہے لہذا ملزمین جلد ہی دھماکہ خیز مادہ کے قانون کی دفعات 3,4,5 سے بھی باعزت بری ہوجائیں گے۔

میڈیا کی بے سمتی سماج اور حکومت کے لیے نقصان دہ :سید فصل علی

بے سمتی کا شکار ہے جمہوریت کا چوتھا ستون : پروفیسر انور پاشا

نئی دہلی ۔17جنوری(فکروخبر/ذرائع )جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے تحت ’’12ویں کبیر میموریل لکچرر ‘ ‘کا انعقاد کیا گیا ہے ، جس میں ’’میڈیا کا موجودہ منظر نامہ اوراخلاقیات‘‘ پر مشہور صحافیوں اور دانشوروں نے اظہا رخیال کیا ۔ اس موقع پر خیرمقدمی اورتعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے سی آئی ایل کے چیئر پرسن پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ میڈیا آج جمہوریت کو مضبوطی فراہم کرنے کے بجائے اسے کمزورکررہا ہے ۔ اگر چوتھا ستون کمزور ہوجائے تو حکومتی سطح پر ہر جگہ بدنظمی نظر آئے گی ۔ اس لیے میڈیا کی بے سمتی اور جانبداری نہ صرف میڈیا کے لیے نقصان دہ ہے ، بلکہ پورا سماج اور مکمل حکومتی نظام اس کے برے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس سال کے کبیر میموریل لکچر کے لئے اس موضوع کا انتخاب کیا گیا۔ اور موضوع کی مناسبت سے ہم نے سہارا نیوز نیٹ ورک کے گروپ ایڈیٹر سید فیصل علی سے اس اہم موضوع پر خصوصی لکچر دینے کی گزارش کی۔ اور صدارت کے لئے ہم نے ماس کمیونیکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر افتخار احمد کو زحمت دی ہے۔مہمان خصوصی اور سہارا میڈیا کے گروپ ہیڈ سید فیصل علی نے خصوصی لکچر دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں اخلاقیات کا معاملہ کوئی نیا نہیں ہے ، بلکہ ہر عہد میں میڈیا کی بے سمتی پر بات چیت کی گئی ہے ، خاص طورسے ہندوستانی میڈیا علاقائی اور قابل توجہ مسائل کے تناظر میں غیر جانبدار نہیں ہے ۔ انھوں نے متعدد مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی میڈیا’ انڈیا ‘کو پرموٹ کرتا ہے ، نہ کہ بھارت اور ہندوستان کو ، یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں کے مسائل میڈیا سے غائب ہیں ۔ انھوں نے کہاکہ اب میڈیا میں موضوعات ومسائل کی اہمیت نہ رہ کر شخصیت پرستی اورحکومتی دباؤ کا اثر نظر آتا ہے ، جو کہ میڈیا کی اخلاقیات کے تئیں قابل تحسین نہیں ہے ۔ انھوں نے کہا کہ جے این یو کے معاملہ میں میڈیا کارویہ بیحد غیر ذمہ دارانہ رہا ہے۔ بلکہ میڈیا نے بے سمتی کو فروغ دیتے ہوئے ، وہی دکھانے کی کوشش کی ، جسے کچھ خاص عناصر دیکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پہلے کے صحافیوں کا صحافت سے معاہدہ ہوتا ہے ، اس لیے وہ تندہی سے اپنا فریضہ ادا کرتے تھے ، مگر آج نظریات بدل گیے ہیں۔ سید فیصل علی نے بڑی بے باکی سے اپنی باتیں رکھتے ہوئے کہا کہ صحافت کڑی آزمائیش کا پیشہ ہے۔ صحافی میں ہمت چاہئے کہ وہ سچ کو سچ لکھ سکے۔ انھوں نے کہا کہ آج رپورٹ میں ملاوٹ بہت بڑھ گئی ہے۔ رپورٹ میں حقائق کے بجائے نظریات شامل کئے جا رہے ہیں۔ کانپور کے مشہور حلیم مسلم پی جی کالج کے پرنسپل اور ممتاز سوشل سائینٹسٹ ڈاکٹر شکیل احمد نے میڈیا اور اخلاقیات کے حوالے سے بہت اہم نکات کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے میڈیا میں اخلاقی پہلو کو نظر انداز کرنے کو شرمناک قرار دیا۔ ڈاکٹرشکیل احمد نے کہاکہ میڈیا کی اخلاقیات جمہوریت کی پاسداری میں پوشیدہ ہے ۔ اس لیے آزاد میڈیا کا تصور ہی اس وقت کیا جاسکتا ہے ، جب اس پر سیاسی پارٹی سمیت حکمرانوں کا عمل دخل نہ ہو پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے جے این یو میں ماس میڈیا کے استاد ڈاکٹر شفیع ایوب نے کہا کہ سید فیصل علی نئی سوچ اور نئی فکر کے مالک ہیں۔ انھوں نے اردو صحافت کو ہر اعتبار سے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا کام کیا ہے۔ ڈاکٹر شفیع ایوب نے خصوصی طور پر پروفیسر انور پاشا اور پروفیسر خواجہ اکرام کا شکریہ ادا کیا کہ کبیر میموریل لکچر کے لئے سید فیصل علی کو اور صدارت کے لئے ڈاکٹر افتخار احمد کو مدعو کیا۔ اپنے پُر لطف اور شگفتہ انداز بیان کے ساتھ جب ڈاکٹر شفیع ایوب نے صدر جلسہ ڈاکٹر افتخار احمد کو دعوت دی تو اپنی صدارتی تقریر میں انھوں نے کئی اہم موضوعات کی طرف اشارہ کیا۔ بیحد عالمانہ صدارتی خطبے میں انھوں نے میڈیا میں اخلاقی گراوٹ کے حوالے سے کئی ذاتی واقعات کا ذکر کیا۔
ایم سی آرسی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر افتخار احمدنے صدارتی خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا خواہ سرکاری یا پرائیویٹ ہو،کہیں بھی صورتحال بہتر نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فلمی دنیا کا ایک طبقہ جانبداری کا مظاہرہ کررہا ہے ، وہیں میڈیا ہاؤس بھی حکومتی نظام کی بدنظمی کو اجاگرکرنے میں جانبدار ہے ۔انھوں نے میڈیا کے حوالے سے ہوئے تحقیقی کاموں کا ذکر کرتے ہوئے میڈیا کی سمت ورفتار اور اس کی اخلاقیات کا جائزہ پیش کیا ، ساتھ ہی انھوں نے میڈیا ہاوس کے تئیں کورٹ کی متعدد رپورٹ کا ذکر کیا ۔پروگرام کے آخر میں ناظم جلسہ ڈاکٹر شفیع ایوب نے اظہار تشکر کے لئے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر خواجہ اکرام کو دعوت دی۔ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کہا کہ میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ آج فقط کھیل اورتفریح کی خبروں میں سچائی ہوتی ہے ، ورنہ عموماً بیش تر خبروں میں آمیزش نظر آتی ہے ۔ میڈیا کی اخلاقیات اور اصلاحات سچائی میں ہی پوشیدہ ہے ، لیکن خبروں میں ہونے والی ذاتی نوعیت کی تبدیلی میڈیا کے لیے مفید نہیں ہے ۔ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے بے حد مقبول استاد پروفیسر خواجہ اکرام نے فرداً فرداً تمام احباب کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے ایک اچھے اور حسب حال موضوع کے انتخاب کے لئے ہندوستانی زبانوں کے مرکز کے چئیرپرسن پروفیسر انور پاشا کا بھی شکریہ ادا کیا۔ 
ا س موقع پر پروفیسر مظہر مہدی حسین ،نامور صحافی جمشید عادل علیگ، ڈاکٹر محمد توحید خان، پروفیسر رام چندر ، ڈاکٹرہادی سرمدی ، چودھری نفیس الرحمن ،ڈاکٹر پونم، ڈاکٹر شیو پرکاش، ڈاکٹر محمد نثار ، ڈاکٹر شگفتہ یاسمین ، پروفیسر اجمیر سنگھ کاجل، ڈاکٹر حافظ محمد عمر،ڈاکٹر معین خان، جناب رکن الدین، جناب امتیازالحق،جناب سلمان عبدالصمد، جناب شہباز رضا، محترمہ مہوش نور ، جناب ثناء للہ ان کے علاوہ کثیر تعداد میں ریسرچ اسکالر اور طلبا موجود تھے ۔ 

ردریش قتل معاملہ میں روشن بیگ پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش 

شوبھا کے خلاف عدالتی نوٹس جاری

بنگلورو۔17جنوری(فکروخبر/ذرائع )شیواجی نگر میں آر ایس ایس کارکن ردریش کے قتل کے سلسلے میں ریاستی وزیر شہری ترقیات جناب آر روشن بیگ پر بی جے پی رکن پارلیمان شوبھا کارند لاجے کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر درج ہتک عزت مقدمہ کی سماعت آج شہر کی عدالت میں ہوئی ، عدالت نے اس معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے شوبھا کارند لاجے کے نام نوٹس جاری کیا۔ شوبھا کارند لاجے نے یہ الزام لگایاتھاکہ ردریش قتل معاملے میں روشن بیگ راست طور پر ملوث ہیں ، ان کے بے بنیاد الزام کی تردید کرتے ہوئے جناب روشن بیگ نے شوبھا کے خلاف عدالت میں ہتک عزت مقدمہ دائر کیا۔ اس معاملے میں پہلے ہی عدالت نے شوبھا کو کسی بھی طرح کی بیان بازی کرنے سے روک دیا ہے۔ اس کے باوجود بھی حال ہی میں ایک ٹی وی چینل کو دئے گئے انٹرویو میں شوبھا نے جناب روشن بیگ پر اپنے الزامات دہرائے جس کے سبب انہیں آج یہ نوٹس شہر کی 62ویں سیشن عدالت نے جاری کی۔ جناب روشن بیگ کی طرف سے سینئر وکیل شنکرپا نے پیروی کی ۔ 

پولیس اور ٹریفک اتھارٹی سڑ ک حادثات روک پانے میں ناکام !

سہارنپور ۔17جنوری(فکروخبر/ذرائع ) پچھلے تین روز کے درمیان تیز رفتار بس اور ٹرک تصادم کے علاوہ سڑک حادثات میں چھہ افراد کی ہلاکت اور درجن بھر مسافروں کے مجروح ہونے کے تین واقعات نے ضلع ٹریفک اتھارٹی کی پول کھول کر رکھ دی ہے ویسے بھی ہماری ضلع انتظامیہ کے لاکھ دعوؤں کے باوجود ضلع بھر میں لگاتار بڑھتی آبادی کے باوجود بھی سڑوں اور چوراہوں پر تیزس رفتار ٹریفک کے علاوہ ناجائز قبضوں کے ساتھ ساتھ پولیس اسٹاف اور ٹریفک اتھارٹی کے اہلکاروں کی بدنظمی بھی یہاں قابل دیدہے جس کے نتیجہ میں جانی مالی نقصان کا ہونا عام ہوگیا ہے ۔اہم واقعہ تویہ ہے کہ اتنا سب کچھ گزر جانے کے بعد پھر بھی انتظامیہ اور ٹریفک پولس اس بیہودہ ٹریفک سسٹم کو سدھار پانے میں ناکام ہے ہم بار بار کہتے آئے ہیں کہ ہمارے سیاسی رہنما اور افسران ان روز مرہ ہونے والے سڑک حادثات سے خود کو محتاط کئے ہوئے ہیں عام آدمی کی زندگی ان کے لئے کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ حادثات ہوتے رہتے ہیں مرنے والوں کا پوسٹ مارٹم کر دیا جاتا ہے پولس جانچ کے نام پر لکھا پڑھی کرتی ہے اور معاملہ کاغذوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے ؟ ایک اندازہ کے مطابق محض دو ہفتوں کی مدت میں ضلع بھرمیں دو در جن سڑک حادثات روشنی میں آئے ان حادثات میں تیز رفتار بسوں اور ٹرکوں کے تصادم اور پلٹ جانیسے حادثہ کا شکار بنے پانچ افراد موقع پر دم ہی توڑ گئے جبکہ دیگرتیس افراد بری طرح سے مجروح ہو گئے ہیں مہلوکین میں تین کمعمر بچے اور دو حواتین بھی شامل ہیں زیادہ زخمی افراد اپنے خرچ پرہی میڈیکل سینٹروں میں اپنا علاج کرانے کو مجبور ہیں انتظامیہ اور سیاسی نمائندے ان متاثرین کا حال تک پوچھنا گوارہ نہی کرتے ہیں اس طرح کے حالات اور سڑک حادثات ہمارے شہر کے مین روڈ کے علاوہ شہر کے چاروں جانب اہم چوراہوں، راستوں اور دیہاتی علاقوں میں ٹریفک کی بد نظمی، تیز رفتاری اور اوور لوڈنگ کے سبب عام ہے افسران چاہ کر بھی اس جان لیوا ٹریفک کی بد نظمی کو درست کر پانیمیں حد درجہ ناکام ہیں؟ اس طرح کے حادثات یہاں عام ہیں۔ گزشتہ دس سالوں سے پولس کی سرپرستی میں اس ضلع میں ٹریفک کا یہی دستور جاری ہے ویسے بھی ٹریفک کے نام پر ہماری کمشنری میں بد نظمی عام ہے بھاری بھرکم لوڈ والے اور تیز اسپیڈ والے ٹریفک کی آمد شہر کے اندرونی علاقوں میں عام ہے بے ڈھنگے اسپیڈ پریکر اور سڑکونپر ناجائز قبضہ اور اسکے بعد مقامی پولس کی رشوت خوری عام بات ہے جس وجہ سے کمشنری سطح پر ٹریفک کی بد نظمی اور ان جانلیوا حادثات کو کنٹرول کر پانا شاید ممکن اب ممکن ہی نہیں ؟ سڑکوں پر دکان داروں ، ٹرکوں ، بسوں اور ٹیمپو والوں کے علاوہ ریڑی لگانے والوں کے ناجائز قبضوں کے باعث عام آدمی کا میں راستوں سے گزر مشکل ہے خصوصی طور پر شہر کے انبالہ روڑ، دہلی روڑ، دہرادون روڑبیہٹ روڑ اور چکروتا روڑ پر عام آدمی کا پیدل گزر اب کسی بھی صورت ممکن نہی رہ گیا ہے۔ پولس فورس ٹریفک کے نام پر اور ٹریفک کے سدھار کے نام پر ٹریفک کے بہتر انتظامات کے نام پر ہمیشہ شہر کی اہم چوراہوں پر تعینات نظر آتی ہے مگر اس فورس کا کام صرف آنے والے ٹریفک کو کنٹرول کرنا نہیں بلکہ ٹریفک سے جبراً وصولی کرنا ہے ٹرکوں ، بسوں ،ٹیمپؤں ، ٹرالیوں اور ریڑی والوں سے اپنی رشوت کی رقم وصول کرنا انکا اپنا پہلا فرض ہے ۔ہمارے مقامی افسران ہر حادثہ کے بعد پریس کے سامنے بار بار عوام کو اور عوام کے چنے ہوئے نمائندوں کو یہ باور کرا چکے ہیں کہ ٹریفک کے انتظام کے لئے جو فورس ہم نے شہر کے مختلف اور خاص چوراہوں پر تعینات کر رکھی ہے وہ محنت کش اور ایماندار ہے مگر یہ عام طور سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ پانچ سالوں میں سبھی کچھ بدل گیا مگر افسران کا رویہ نہی بدل پایا آپکو بتادیں کہ مین روڈ پر اور مین چوراہوں پر ٹریفک کو کنٹرول کم اور آنے جانے والے ہیوی لوڈیڈ ٹریفک سے وصولی زیادہ کی جاتی ہے نتیجہ کے طورپر ہر روز درجن بھر حادثات سڑکوں پر رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں جانی اور مالی نقصان ہونا عام بات ہے پچھلے ماہ شہر میں ٹریفک کی حالتبدترکو کنٹرول کرنے غرض سے پولیس اور انتظامیہ نے کئی سال قبل لاکھوں کی رقم خرچ کر کے ٹریفکبد نظمی سے چھٹکارہ پانیکے لئےآٹومیٹک لائٹنگ سسٹم شروع کیا تھامگر اس شہر میں وہ سسٹم بھی فلاپ رہا بار بار ٹریفک سدھار کی کوششیں ہوئی مگر ان سبھی کوششوں کے بعد بھی ٹریفک کا نظام آج تک بھی سدھر نہی پایاہے مین چوراہوں، سڑکوں اور عام راستوں پر پھیلی بد نظمی اور تیز رفتار وہیکل کی آمد ورفت کے نتیجہ میں حادثات کا سلسلہ لگاتار جاری ہے ۔ قابل غور ہے کہ ہمارے ضلع میں صرف دوہفتہ کی مدت میں درجن سے زائد سڑک حادثات کا ہونااور ان حادثات میں جانی اور مالی نقصان ہونا بہت ہی دکھ دینے والی خبریں ہیں اور یہاں ان سڑکوں پر یہ کوئی نئی بات بھی نہی یہاں تو لاپرواہی کے چلتے اس طرح کے حادثات عام ہیں اور ان قابل درد حادثات پر سبھی ذمہ دار چپ ہیں عام چرچہ ہیکہ پولیس اور ٹریفک اتھارٹی افسران کی لاپرواہی کے باعث بد نظمی اور حادثات کا یہ سلسلہ بھی بھی جاری ہے ! فوٹو۔۔۔ حادثہ کا شکار مسا فربس

لوک دل نے نوجوان تاجر بلال احمد کو بنایا امید وار 

سہارنپور ۔17جنوری(فکروخبر/ذرائع )ضلع کی سات اہم سیٹوں پر لوک دل اپنے امیدوار چناؤی میدان میں اتارنے جارہی ہے قومی صدر سنیل سنگھ کی ہدایت پر ہمارے امید وار لگن کے ساتھ اس مقابلہ کے لئے عوام کے بیچ جانیکے لئے تیار ہیں منڈی سمیتی روڈ واقع لوک دل کے ہیڈ کواٹر پر ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ضلع صدر حافظ غفران نے بیباک انداز میں کہاکہ ہم فرقہ پرستی کے خلاف میدان میں اپنے امیدوار اتار نے جارہے ہیں اس چناؤی جنگ میں عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ لوکدل کے ضلع صدر حافظ غفران نے کہاکہ ضلع کی سات اہم سیٹوں پر لوک دل اپنے امیدوارفرقہ پرستوں کے خلاف میدان میں انکو شکست فاش دینے کی غرض سے اتار نے جا رہاہے ۔ ضلع صدر حافظ غفران نے کہا کہ نوجوان مقبول عام تاجر بلال احمد بھی ایسے اہم نمائندے اور امید وار ہیں کہ جو فرقہ پرستوں کو ہرانے میں مظبوط اور ثابت قدم شخصیت کے حامل ہیں اپنے خطاب میں سوشل قائد حافظ غفران نے عوام سے لوکدل کی شہری سیٹ سے امیدوار تاجر بلال احمد کو بھاری حمایت اور قیمتی ووٹ دینے کی اپیل کی۔ اس موقع پر سیکڑوں شہریوں نے بلند نعرے لگاکر فرقہ پرستی کو ہرانے کا اپناعہد پھر سے دہرایا۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا