English   /   Kannada   /   Nawayathi

تو کیا پولیس انکاؤنٹر میں مارا جا چکا ہے متھرا تشدد کا ماسٹر مائنڈ رام وركش یادو؟(مزید اہم ترین خبریں)

share with us

رام وركش غازی پور کے مردہ بلاک کے رائے پور باگھ پور گاؤں کا رہنے والا ہے۔ ایمرجنسی کے دوران 1975 میں جیل میں بند بھی رہا۔ رام وركش کو یوپی حکومت کی جانب سے لوک تنتر سینانی پنشن بھی ملتا ہے۔ رام وركش کی دو بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔رام وركش تقریبا 20 سال سے خاندان سمیت گاؤں سے باہر ہی رہتا ہے۔ اس نے اپنی زمین بھی گاؤں کے دوسرے لوگوں کو دیکھ بھال کے لئے دے رکھی ہے۔ وہ آخری بار 3 سال پہلے اپنے گاؤں آیا تھا۔ بابا جی گرودیو کا شاگرد رہے رام وركش کی سیاست میں گہری دلچسپی ہے اور وہ لوک سبھا کا الیکشن بھی لڑ چکا ہے۔متھرا سانحہ میں رام وركش کا نام آنے کے بعد گاؤں والے حیران ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کو یقین نہیں ہو رہا ہے کہ رام وركش اتنے بڑے فساد کی جڑہے۔ گاؤں والوں کے مطابق گاؤں میں رہتے ہوئے رام وركش کا کبھی کسی سے جھگڑا نہیں ہوا اور نہ ہی اس پر کوئی مجرمانہ کیس درج ہے۔


متھرا تشدد : پرنسپل سکریٹری سے بات چیت کے بعد شہید ستنوش یادو کے کنبہ نے ادا کی آخری رسومات

متھرا : 4مئی(فکروخبر/ذرائع )متھرا میں تشدد میں شہید سنتوش یادو کا جسد خاکی جونپور کے ان کے آبائی گاؤں كيوٹلي پہنچا ۔ شہید کا جسد خاکی گاؤں پہنچنے کے بعد کنبہ کی ناراضگی کھل کر سامنے آ گئی ہے ۔ ناراض کنبہ نے سنتوش یادو کی آخری رسومات ادا کرنے سے انکار کر دیا ۔تاہم بعد میں وزیر اعلی کی پرنسپل سکریٹری انیتا سنگھ نے کنبہ کے افراد سے بات چیت کی ، جس کے بعد کنبہ کے افراد آخری رسومات کیلئے رضا مند ہوئے۔شہید ایس او سنتوش کے کنبہ کا کہنا تھا کہ جب تک خود وزیر اعلی اکھلیش یادو وہاں نہیں آئیں گے اور مناسب معاوضے کے ساتھ ساتھ سنتوش کی بیوی اور بھائی کو نوکری دینے کا اعلان نہیں کریں گے ، وہ آخری رسومات ادا نہیں کریں گے ۔شہید ایس او سنتوش یادو کے جسد خاکی کو آبائی گاؤں پہنچنے پر انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ سلامی دی گئی ۔ اس موقع پر اتر پردیش کے کابینی وزیر پارس ناتھ یادو وہاں موجود تھے ۔ آخری رسومات میں شہر کے تمام سینئر پولیس اہلکار اور انتظامی افسران موجود رہے


اکھلیش کا اعتراف ، متھرا میں افسروں سے ہوئی بڑی غلطی ، جانچ کے بعد ہوگی کارروائی

لکھنو :4مئی(فکروخبر/ذرائع ) وزیر اعلی اکھلیش یادو نے متھرا تشدد میں شہید دو جانباز پولیس افسروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ سے نمٹنے میں پولیس انتظامیہ کی بہت بڑی غلطی ہوئی تھی۔وزیر اعلی نے کہا کہ پولیس کو پوری تیاری کے ساتھ جانا چاہیئے تھا ، لیکن ایسا نہیں ہوا ، جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا ۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے بعد ملزم افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔وزیر اعلی نے کہا کہ پولیس کو فسادیوں سے سختی سے نمٹنا چاہئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے شہید پولیس اہلکاروں کے کنبہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں ریاستی حکومت شہداء کے کنبہ کے ساتھ ہے۔ شہدا کے اہل خانہ کو ہر ممکن مدد کی جائے گی۔علاوہ ازیں وزیر اعلی نے شہیدوں کے اہل خانہ کو 20 لاکھ کی امداد کا بھی اعلان کیا۔خیال رہے کہ جمعرات کی شام متھرا کے جواهرباغ پارک میں غیر قانونی قبضہ ہٹانے کیلئے گئی پولیس کی ٹیم پر رام وركش یادو کے حامیوں نے حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں ایس پی سٹی مکل دویدی اور فرح کے ایس ایچ او سنتوش یادو کی موت ہو گئی تھی۔


سینئراردوصحافی عارف عزیز کی اہلیہ محترمہ کا انتقال پرملال

نماز جنازہ اورتدفین میں مختلف حلقوں کے نمائندہ اصحاب کی شرکت

بھوپال4مئی(فکروخبر/ذرائع )جون،نہایت رنج وملال کے ساتھ یہ خبردی جارہی ہے کہ اردو کے سینئرصحافی اورادیب عارف عزیز کی اہلیہ محترمہ رضیہ عارف صاحبہ کا طویل علالت کے بعد گزشتہ شب انتقال ہوگیا۔نومبرمیں ا ن کا ایک آپریشن ہواتھا،لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا اورمرض بڑھتاگیا،بیماری کے سات ماہ کے دوران وہ بھوپال میموریل ہاسپٹل اورکینسراسپتال میں زیرعلاج رہیں،مرحومہ نہایت دینداراورخوش اوقات خاتون تھیں،انہیں یہ سعادت بھی حاصل رہی کی ان کی تعلیم وتربیت کامرحلہ خاندانِ مجددیہ کے سرپرستوں کے زیرنگرانی انجام پایا ،اللہ تبارک وتعالی نے مرحومہ کوحج بیت اللہ اورایک سے زیادہ عمرہ کی سعادت سے بھی نوازاتھا۔محترمہ رضیہ عارف کے پسماندگان میں چاربیٹے اوربیٹیاں شامل ہیں،بروز جمعہ صبح ۹بجے ان کاجنازہ رہائش گاہ چوکی تلیا سے روانہ ہوا،قبرستان کے شیڈ میں پیرزادہ حافظ سراج الحسن صاحب نماز جنازہ پڑھائی اورتکیہ قلندرشاہ میں تدفین عمل میں آئی۔جس میں مختلف طبقات کے نمائندہ اصحاب نے شرکت فرمائی۔شرکاء میں نائب قاضی سیدبابرحسین ندوی،مولانا احسن علی خاں ندوی،الحاج سید عارف عقیل،خلیل اللہ خاں ایڈوکیٹ،کوثرصدیقی،پروفیسر مختارشمیم،پروفیسراخلاق اثر،ظفرنسیمی،پروفیسرعبدالمجید خاں،سید عارف حسن،حاجی ہارون،اشفاق مشہدی ندوی،انعام لودھی،جاوید یزدانی،اوربرکت اللہ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے پروفیسراوراساتذہ حضرات شامل تھے۔ادارہ’’ اخبارمشرق ‘‘اس سانحہ پراپنے سینئرصحافی عارف عزیز اوران کے صاحبزادگان سید محمدعمیر،محمد زبیر،محمد جنید اوربیٹی ڈاکٹرمرضیہ عارف کے غم میں برابرکا شریک اورمالک حقیقی سے دست بہ دعاہے کہ وہ مرحومہ کو درجات عالیہ نیز پسماندگان کوصبرجمیل سے نوازے۔آمین۔


متھراکاواقعہ حیرت انگیزاورافسوس ناک

ممبرپارلیمنٹ مولانااسرارالحق قاسمی نے ملزمین کوکیفرکردارتک پہنچانے کامطالبہ کیا

نئی دہلی۔4جون(فکروخبر/ذرائع)جمعرات کے دن یوپی کے مشہور شہر متھرامیں پولیس اہلکاراور مسلح گروہ کے درمیان ہونے والے تصادم پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے ممبرپارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی نے کہاکہ یہ واقعہ نہایت ہی حیرت انگیزبھی ہے اور افسوس ناک بھی۔انھوں نے کہاکہ ستیہ گرہ کے نام پرسیکڑو ں مرد و خواتین کے ذریعے دوسوایکڑسے زیادہ زمین پر قبضہ کیاجانااورمنظم طریقے سے خوں خوارگروہ تیارکرناجس کی مکمل خبر صوبائی و مرکزی سرکاروں کوبھی نہ ہواپنے آپ میں ایک غیر معمولی اورسنگین واقعہ ہے۔مولاناقاسمی نے یوپی کی اکھلیش حکومت سے اس گروہ کومکمل طورپربین کرنے اور ملزمین کوسخت سے سخت سزادینے کامطالبہ کیاہے۔واضح رہے کہ گزشتہ جمعرات کومتھرامیں پولیس اہلکاروں اور مسلح گروہ کے درمیان اچانک تصادم ہواتھا،جس میں ایس ایچ او اورایس پی سمیت ۲۲؍جنگجوافراد کی بھی ہلاکت ہوئی ہے،جبکہ ۲۳؍پولیس اہلکارزخمی ہوئے ہیں۔مولاناقاسمی نے کہاکہ ستیہ گرہ کے نام پر دہشت گردافرادتیار کرنے والے اس گروہ کے ساتھ سختی سے نمٹناہوگا،ورنہ اس قسم کی جماعتیں قومی سلامتی کے لیے سخت خطرہ بن سکتی ہیں۔ممبرپارلیمنٹ نے کہاکہ گزشتہ دنوں بجرنگ دل کے ذریعے مسلح ٹریننگ دیے جانے اور اب ایک نئے مسلح گروہ کے منظرعام پرآنے سے یہ صاف ہوگیاہے کہ ملک کوکس قسم کے عناصر سے خطرہ ہے ،ایسے میں صوبائی ومرکزی حکومتوں کوچاہیے کہ ان عناصرپرکڑی کارروائی کریں اور دہشت گردی کی تمام تر صورتوں پرروک لگائیں۔مولانانے کہاکہ اس کی بھی جانچ ہونی چاہیے کہ متھراکے اس خونیں گروہ کوہتھیاراورمال واسباب کے ذخائرکہاں سے فراہم کیے جاتے تھے اورآخروہ اتنی بڑی افرادی قوت تیار کرنے پرکیسے قادرہوگئے؟


قومی اردو کونسل کا یک سالہ رپورٹ کارڈ

نئی دہلی۔4جون(فکروخبر/ذرائع)قومی اردو کونسل پوری دنیا میں اردو کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور اردو دنیا میں اعتبار و وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے تاسیسی مقاصد میں اردو زبان و ادب کا فروغ اور نئے امکانات کی تلاش شامل ہے اور یہ ادارہ اپنے مقاصد میں بہت حد تک کامیاب بھی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس ادارے سے عام اردو داں طبقے کا رشتہ دن بہ دن مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے جب سے ڈائرکٹر کا عہدہ سنبھالا ہے قومی اردو کونسل کی فعالیت اور مستعدی میں اضافہ ہوا ہے۔ کچھ ایسے نئے سلسلے شروع کیے گئے ہیں جن سے نہ صرف قومی اردو کونسل تک عام اردو داں طبقے کی رسائی ہوئی ہے بلکہ کشمیر سے کنیاکماری تک اردو آبادی نے کونسل کی مختلف اسکیموں سے فائدہ اٹھایا ہے خاص طور پر وہ ریاستیں جہاں اردو خواندگی کا تناسب بہت کم ہے یا وہ علاقے جو ماضی میں نظرانداز کیے گئے ہیں انھیں ترجیحی طور پر مختلف اسکیموں میں شامل کیا گیا ہے۔پروفیسر ارتضیٰ کریم کی فعال قیادت میں کونسل کے تمام پینلوں کی میٹنگیں تواتر کے ساتھ ہوئی ہیں جن میں کچھ نہایت اہم فیصلے بھی لیے گئے ہیں اس ضمن میں خاص بات یہ ہے کہ جو میٹنگیں پہلے تین یا چار سال کے وقفے سے ہوا کرتی تھیں اب سال میں دو بار ہونے لگی ہیں۔ اس کے علاوہ قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر نے پہلی بار اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن مختلف ریاستوں /شہروں میں منایا۔ اس سے قبل اردو کی تاریخ میں صحافت کے تعلق سے اس نوع کے سلسلے وار جشن کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ جشن صحافت کے علاوہ منطقائی صحافت کے حوالے سے پروجیکٹ دینے اور صحافت کا ایک مبسوط انسائیکلوپیڈیا ترتیب دینے کا بھی فیصلہ لیا گیاجس پر کام شروع بھی ہوچکا ہے۔ اردو کے تمام اخبارات کی باتصویر ڈائرکٹری مرتب کرنے کا بھی فیصلہ لیا گیا ہے۔ کمپیوٹر مراکز میں بھی اضافے کیے گئے۔ اس ایک سال کے عرصے میں پہلی بار کمپیوٹر کے پچاس نئے مراکز ان علاقو ں میں قائم کیے گئے جو تعلیمی اعتبار سے نہایت پس ماندہ اور جدید تکنیکی وسائل سے محروم تھے۔ اس کے علاوہ خطاطی اور گرافک ڈیزائن کے بھی سات نئے سینٹر کھولے گئے۔ سال رواں کی خاص بات یہ رہی کہ کتابوں کی تھوک خریداری اسکیم کی رقم میں تقریباً پچاس فیصد اضافہ کیا گیا اور کتابوں اور رسائل کی تعداد بھی بڑھائی گئی، خاص طور پر وہ علاقے اس میں شامل کیے گئے ہیں جو پہلے تقریباً محروم تھے۔ اس سال یہ بھی ایک کام ہوا کہ ای ٹی وی اردو پر اردو پروگرام کا جو سلسلہ منقطع ہوگیا تھا اس کا احیا کیا گیا۔ اب ہفتے میں سنیچر اور اتوار کو کونسل کا اردو پروگرام ای ٹی وی اردو سے باضابطہ نشر کیا جاتا ہے۔ 
پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اردو اخبارات کی گرانٹ میں بھی کافی اضافہ کیا اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ اخبارات کو اشتہارات دیے گئے۔ خاص طور پر چھوٹے اور درمیانی اخبارات جو اشتہارات سے اکثر محروم رہا کرتے تھے انھیں بھی کونسل کی فہرست میں شامل کیا گیا اور صحافیوں کی ٹریننگ کے لیے تربیتی پروگراموں کا بھی انعقاد کیا گیا۔ 
قومی اردو کونسل نے رواں سال میں 54 نئی کتابیں شائع کیں جن میں14 نئے مونوگراف بھی شامل ہیں۔ کونسل کی تاریخ میں پہلی بار باتصویر ادبی کلینڈر شائع کیا گیا جس کی ستائش نہ صرف وزیر برائے فروغ انسانی وسائل محترمہ اسمرتی ایرانی نے کی بلکہ انھوں نے اس کلینڈر کی افادیت کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں کے اردو شعبہ جات میں لازمی طور پر بھیجنے کے لیے بھی کہا۔ علمی اور ادبی حلقے نے بھی اس نئے آئیڈیا کو سراہا، خاص طور پر کالج اور اسکول کے طلبا اور طالبات نے اسے بہت پسند کیا۔ سمینار اور پروجیکٹ کی سطح پر بھی کافی فعالیت آئی اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ سمیناروں اور پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی اور اس کی رقم میں بھی اضافہ کیا گیا۔ ریاستی ادبی تاریخ کی ترتیب کے بھی فیصلے کو بھی اردو حلقے میں کافی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس تعلق سے اخبارات میں اشتہارات شائع کرکے مجوزہ خاکے اور تفصیلات طلب کی گئیں اور اس اقدام کو سراہا گیا کہ اس سے اردو ادب کی ایک مکمل تاریخ وجود میں آجائے گی۔
کمپوزنگ اور ٹائپ سیٹنگ سے جڑے لوگوں کے ساتھ تبادلۂ خیال بھی کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے کام کو موثر بنایا جاسکے۔ کونسل نے پہلی بار بچوں کے ادب پر ایک ورکشاپ منعقد کیا جس میں تقریباً 10 کتابیں تیار کی گئیں جسے خوبصورت الیسٹریشن کے بعد جلد ہی شائع کیا جائے گا۔
کتاب کلچر سے عوام کوجوڑنے کے لیے مختلف اضلاع اور ریاستوں میں کتاب میلے کا انعقاد کیا گیا۔ اس سال دو بار قومی کتاب میلے کا انعقاد دہلی اور حیدرآباد جیسے مرکزی شہروں میں کیا گیا۔ ملک کے مختلف حصوں میں بھی منعقدہ 10کتاب میلوں میں قومی اردو کونسل کی نمائندگی رہی۔ اس کے علاوہ موبائل وین کے ذریعے دوردراز علاقوں میں کتابوں کی نمائش لگائی گئی۔ کتابوں کے شائقین نے کونسل کے اس اقدام کو بے حد سراہا ہے۔ سالِ رواں کی خاص بات یہ بھی رہی کہ حکومتِ ہند سے فروغ اردو کے لیے جو بھی بجٹ دیا گیا تھا اس کا مکمل اور بھرپور استعمال اردو کی ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے کیا گیا۔ یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ کونسل کو نہ صرف وزارت برائے فروغ انسانی وسائل، حکومت ہند کا بھرپور تعاون حاصل رہا بلکہ مرکزی وزیر برائے انسانی وسائل محترمہ اسمرتی ایرانی صاحبہ کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے کونسل کے بجٹ میں بھی اضافہ کیا گیا۔
پروفیسر ارتضیٰ کریم کی قیادت میں فروغ اردو کے لیے اور بھی کچھ منصوبے بنائے گئے ہیں اور کچھ اہم فیصلے بھی لیے گئے جن کے نفاذ کی جلد ہی کوشش کی جائے گی۔ انھوں نے ’اردو اسکرول‘ کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے جس میں یو این آئی اردو کے تعاون و اشتراک سے دہلی کے چوراہوں پر اردو سے متعلق خبریں/ اطلاعات/معلومات و دیگر تفصیلات کو ڈسپلے کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ موبائل وین پر اردو سکھانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔


جولائی سے بڑھ جائیں گی مسافروں کی مشکلیں

گونڈہ۔4جون(فکروخبر/ذرائع)ریل سے گنگادھام ہوتے ہوئے بنگائی، وشویشورگنج، پیاگ پور ہوتے ہوئے بہرائچ کا دورہ کرنے والے ریل مسافروں کی مشکلیں آئندہ جولائی ماہ کے پہلے ہفتے سے بڑھ جائیں گی. ایسا اس لئے ہے کیونکہ جولائی ماہ کے پہلے ہفتے سے ریل محکمہ اس روٹ پر چلنے والی ٹرینوں کو منظم اگلے 9 ماہ تک کے لئے بند کرنے جا رہا ہے.تاکہ موجودہ وقت میں چھوٹی لائن کے اس روٹ کو بڑی لائن میں تبدیل کیا جا سکے. ایسا ہونے سے نہ صرف بہرائچ کے لوگوں کو اس کا فائدہ ملے گا، بلکہ گونڈہ سمیت دیگر اضلاع کے لوگ بھی براہ راست بڑی لائن کی ٹرینوں سے بہرائچ تک کا سفر کا لطف اٹھا سکیں گے. اس دوران انہوں نے سبھاگ پور میں بن کر تیار ہوئے نو تعمیر شدہ مالگودام کا بھی لیس کاٹ کر افتتاح کیا.جمعرات کو گونڈہ دورے پر آئے شمال مشرقی ریلوے کے جی ایم راجیو مشرا نے بتایا کہ ابھی تک ریلوے میں لکھنؤ ڈویڑن کے تحت آنے والا گونڈہ جنکشن کی شناخت چھوٹی لائن کے طور پر کی جاتی تھی. لیکن نو ماہ بعد یہی ریلوے اسٹیشن بڑی لائن کے مرکز کے طور پر جانا جائے گا. اس کے لئے گونڈہ سے بلرام پور چھوٹی لائن کو بڑی لائن میں تبدیل کیا جا چکا ہے.جبکہ بہرائچ چھوٹی لائن کو بڑی لائن میں تبدیل کرنے کا کام بھی جولائی ماہ کے پہلے ہفتے سے یہاں شروع ہونے کو ہے. گونڈہ سے بہرائچ 60 کلومیٹر ریل ٹریک کو اگلے 9 ماہ میں بڑی لائن میں تبدیل کر لیا جائے گا. جس کے بعد گونڈہ سمیت دیگر اسٹیشنوں سے آنے والی بڑی لائن کی ٹرینیں آسانی سے بہرائچ تک آ جا سکیں گی.ادھر جولائی ماہ کے پہلے ہفتے سے اس کا کام دیا گیا ہے جب سے ریل کے ذریعے بہرائچ کا دورہ کرنے والے تقریبا 7 ہزار مسافروں کی مشکلیں آئندہ 9 ماہ تک کے لئے بہتر رہیں گی. جس کے لئے انہیں سڑک کے ذریعہ ہی اپنی منزل کا دورہ کرنا پڑے گی. ریلوے کے جی ایم راجیو مشرا کے مطابق چھوٹی لائنوں کا پورے ریلوے سے ایک ایک خاتمہ کیا جا رہا ہے. آنے والے دنوں میں کسی بھی ریلوے میں کوئی بھی چھوٹی لائن کی ٹرین نہیں چلے گی.بڑی لائن کی ٹرین چلنے سے لوگوں کو ٹریفک کے بہتر طول و عرض مہیا ہوں گے. جس کے لئے ریل محکمہ دن رات ایک کئے ہیں. اس موقع پر جی ایم کے ساتھ ڈی آر ایم آلوک سنگھ، نیلما سنگھ، اے کے سنگھ، بی کمار سنگھ سمیت تمام ریل افسران موجود رہے. ریل محکمہ جلد ہی لکھنؤ سے ایک انٹرسٹی ٹرین کو منظم گورکھپور کے درمیان جا رہا ہے. یہ ٹرین لکھنؤ سے گونڈہ ہوتے ہوئے وایا بڑھنی، گورکھپور کے درمیان چلے گی. جس سے بلرام پور و بڑھنی سے گورکھپور اور لکھنؤ کا سفر کرنے والے لوگوں کو اس کا کافی فائدہ ملے گا.ریلوے کے جی ایم راجیو مشرا کا کہنا ہے کہ اس ٹرین کو منظم ایک ہفتے کے اندر اندر چلائے جانے کا منصوبہ ہے. جبکہ گونڈہ سے ہو کر آنے جانے والی ٹرینیں بھی اب100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلیں گی۔


ریلوے کراسنگ کے قریب ڈرائیور کو پھینک بھاگے تھے بدمعاش

گورکھپور۔4جون(فکروخبر/ذرائع)خوردنی تیل لدے ٹرک ڈرائیور کی پٹائی کرنے کے بعد بدمعاش سہجنوا میں ریلوے کراسنگ کے قریب پھینک کر فرار ہو گئے تھے. جمعہ کی شام پپرولی پولیس چوکی پہنچ کر اس نے واقعہ کی اطلاع دی. اطلاع ملنے پر کھورابار پولیس کے ساتھ ٹرک مالک، مددگار اور مزدور بھی پہنچ گئے. سہجنوا پولیس معاملے کی چھان بین کر رہی ہے.رام پور کے بیرا کا رہنے والا ٹرک ڈرائیور انادل جمعہ کی شام پپرولی پولیس چوکی پہنچا. اس نے پولیس کو بتایا کہ بدھ کی رات خوردنی تیل لدے ٹرک کو فورلین پر بدمعاشوں نے لوٹ لیا تھا. مددگار، مزدور کو اتارنے کے بعد اس کوٹرک سمیت لے کر فرار ہو گئے تھے. سہیاپار ریلوے کراسنگ کے قریب فورلین پر اس کو بیہوشی کی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے. انادل کے جسم پر چوٹ کے نشان تھے.معلومات ملنے پر ٹرک کے مالک مرادآباد کے رہنے والے نور محمد بھی پہنچ گئے. انہوں نے بتایا کہ ٹرک پر 13 ٹن خوردنی تیل (فارچیون آئل) لدا تھا. ڈرائیور اس کو غازی آباد سے بھاگلپور لے کر جا رہا تھا. بدھ کی رات میں آٹھ ۔ دس کی تعداد میں بدمعاشوں نے ٹرک روکنے کے بعد ڈرائیور کے ساتھ ہی مددگار ناظم اور مزدور عمران کی پٹائی کر دی. نشہ آور مادہ سنگھاکر سب کو بے ہوش کر دیا. بدھ کو دونوں ہوش میں آئے تھے. ڈرائیور لاپتہ تھا.ایس پی (سٹی) ہیم راج مینا نے بتایا کہ خوردنی تیل لدے ٹرک ڈرائیور سے لوٹ کا واقعہ سہجنوا علاقے میں ہوئی ہے. ایس او کو مقدمہ درج کر کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے۔


تالاب میں ڈوبی دو لڑکیاں، موت

رائے بر یلی۔4جون(فکروخبر/ذرائع)لال گنج علاقے کے بیسن گاؤں مجرے گیگاسو گاؤں میں جانور چرانے گئی دو بچیاں تالاب میں ڈوب گئیں. لوگوں نے دونوں لڑکیوں کو باہر نکال سی ایچ سی پہنچایا. جہاں ڈاکٹر نے دونوں کو مردہ قرار دے دیا.سرینی تھانہ علاقے کے بیسن گاؤں کی کاجل (13) بیٹی رامو و سپنا (12) بیٹی موہن لال گاؤں کے پاس ہی جانور چرا رہی تھی. اسی دوران دونوں تالاب میں نہانے لگیں. تالاب زیادہ گہرا ہونے کی وجہ سے دونوں ڈوبنے لگیں.ساتھ میں ہی جانور چرا رہے ساتھی لڑکوں نے شور مچایا تو گاؤں کے لوگ جائے وقوعہ پر پہنچے. گاؤں والوں نے تالاب میں کود کر کافی کوشش کے بعد دونوں لڑکیوں کو باہر نکالا. دونوں لڑکیوں کو اہل خانہ و مقامی لوگوں کی مدد سے سی ایچ سی لائے.جہاں ڈاکٹر نے دونوں لڑکیوں کو مردہ قرار دے دیا. دو بچیوں کی ہوئی اچانک موت سے گھر میں کہرام مچ گیا. دونوں متوفی کے والد مزدوری کرتے ہیں. امیٹھی ضلع کے موہن لال گنج تھانہ علاقے میں جمعرات کو ایک عورت کی شاردا اسسٹنٹ نہر میں ڈوب کر موت ہو گئی.گڑیرہری گاؤں کی سمیع (25) کی شادی جگدیش پور تھانہ علاقے کے گوگمو مجرے بھٹگوا گاؤں میں ہوئی تھی. اس وقت وہ اپنے میکے میں ہی رہ رہی تھی. والد شکنتلاپرساد نے بتایا کہ شامی گاؤں کے پاس سے گزری شاردا اسسٹنٹ نہر میں کپڑے دھونے کے لئے گئی تھی.کافی دیر تک وہ نہیں لوٹی تو گھر والے نہر کے پاس پہنچے، یہاں پر اہل خانہ کو کپڑے اور موزے تو ملے، لیکن سمیع کا کچھ پتہ نہیں چلا. عورت کے نہر میں گرنے کے خدشہ پر جب دیہی پانی میں کودے تو کافی پیمانے پر تفتیش کے بعد اس کی لاش نہر سے برآمد ہوئی. ادھر، تھانہ انچارج رام راگھو سنگھ کا کہنا ہے کہ واقعہ کی معلومات نہیں ہے۔


خواتین کا قتل، لاش کو نہر میں پھینکا

رائے بر یلی۔4جون(فکروخبر/ذرائع)بچھراوا تھانہ علاقے میں ایک خاتون کا قتل کر لاش کو نہر میں پھینک دیا گیا. صبح نہر میں لاش ملنے سے علاقے میں سنسنی پھیل گئی. پولیس نے لاش کو قبضے میں لیا. لاشوں کی شناخت نہیں ہو پائی ہے. خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ قتل کہیں اور کر لاش کو یہاں پھینکا گیا ہے.بچھراوا تھانہ علاقے میں جمعرات کی صبح جلال پور نہر میں ایک 50 سالہ خاتون کی لاش ملنے سے افرا تفری مچ گئی۔. پولیس پہنچی اور لاش کو نہر سے باہر نکالا. پولیس نے ارد گرد کے گاؤں کے لوگوں سے لاش کی شناخت کرانے کی کوشش کی، لیکن کامیابی نہیں ملی.دیہی خدشہ جتا رہے ہیں کہ عورت کا قتل کر کے لاش کو نہر میں پھینکا گیا ہے. عورت کے جسم پر چوٹ کے نشان تھے. ایس ایچ او ومل سنگھ کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ اور لاش کی شناخت کے بعد ہی عورت کی موت کی وجہ سامنے آئے گی.غور طلب ہے کہ دس دن پہلے ہی ایک کسان کا وحشیانہ قتل کر دیا گیا تھا. اس معاملے کے کئی ملزم فرار ہیں. ایک کے بعد ایک علاقے میں ہو رہی ہلاکتوں کے واقعات سے پولیس کی سیکورٹی کے نظام پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔


مشتبہ آلہ گرنے سے گاؤں والوں میں مچا ہلچل

شاہ جہاں پور۔4جون(فکروخبر/ذرائع)گزشتہ دنوں آسمان میں اڑ رہی ایک مشتبہ آلہ اچانک کھیت میں گرنے سے میں افرا تفری مچ گئی۔. آلہ کو دیکھنے کے لئے گاؤں والوں کا ہجوم کھیت کی طرف دوڑ پڑا. ڈرے سہمے گاؤں والوں نے اس کی اطلاع تھانے پر دی. پولیس نے آلہ کو تھانے میں محفوظ رکھ دیا ہے. علاقے کے گاؤں کجری نورپور کاباشندہ شرد یادو ایڈووکیٹ ہیں. جمعرات دوپہر قریب ایک بجے آسمان سے کوئی چیز اڑ کر ان کے کھیتوں میں جا گری. گاؤں کے ایک شخص نے مشتبہ چیز کو گرتے دیکھ اس کی معلومات شرد یادو کو دی. جان بچاکر وہ اپنے کھیت پر پہنچے تو وہاں ایک مشتبہ آلہ پڑی ہوئی تھی جس میں اوپر کی طرف نیلے رنگ بیلون اور تھرماکول کے باکس میں سیل، میٹر وغیرہ لگا ہوا تھا. اس درمیان آلہ گرنے کی اطلاع پورے گاؤں میں جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی. بڑی تعداد میں دیہی اور بچے موقع پر پہنچے، لیکن کسی نے آلہ نہیں چھوئی. نگوہی تھانہ انچارج رازی احمد نے بتایا کہ کھیت میں ملا الیکٹرانکس آلہ موسمیات محکمہ سے متعلق ہے. ایسی ڈیوائس کچھ دنوں پہلے کھٹار میں کھیت میں گری تھی۔


دولہا دلہن کو یرغمال بنا کر آٹھ لاکھ کی لوٹ

سیتا پور۔4جون(یو این این)مہولی کوتوالی علاقے میں نیشنل ہائی وے پر کار سوار مسلح بدمعاشوں نے کار سوار دولہا دلہن کی گاڑی کو لوٹ لیا. یہ لوگ بارہ بنکی کے دیوا سے نکاح کر واپس آ رہے تھے. بدمعاشوں نے گاڑی میں بیٹھے آٹھ لوگوں کو اسلحے کے زور پر یرغمال بنانے کے بعد 70 ہزار کی نقد ی سمیت سات لاکھ کے زیور لوٹ لئے. اس کے بعد گاڑی کی چابی لے کر موقع سے فرار ہو گئے. ادھر، خبر پاکر ایس پی، CO و کوتوالی پولیس نے موقع پر پہنچ کر تحقیقات کی ہے.شاہ جہاں پور کے بابوجی محلہ کاباشندہ محمد ذیشان کی شادی شاہ جہاں پور کے مینار کاباشندہ سعیدہ بیٹی حبیب کے ساتھ طے ہوئی تھی. ان لوگوں نے شادی کرنے کے لئے بارہ بنکی ضلع میں دیوہ شریف مقام طے کیا تھا. جس کی وجہ سے ذیشان بارات لے کر اور لڑکی والے دلہن لے کر دیوہ پہنچے تھے.دونوں فریقوں نے وہاں نکاح کرایا. نکاح ہونے کے بعد یہ لوگ آٹھ گاڑیوں میں سوار ہوکر جمعرات رات 11 بجے دیوہ سے شاہ جہاں پور کے لئے چل دئے. دیر رات تقریبا ڈھائی بجے یہ لوگ مہولی کوتوالی علاقے کے سرحد میں پہنچے. بتاتے ہیں کہ دولہا کی گاڑی بارات میں شامل دیگر گاڑیوں سے پیچھے چل رہی تھی. جس کی وجہ سے ایس یو وی سوار بدمعاشوں نے دولہا کی گاڑی کو کارٹرگنج و سیلا کے درمیان روک لیا.گاڑی کے رکتے ہی تین بدمعاش دولہے گاڑی میں بیٹھ گئے اور اسلحے کے زور پر سب کو قابو میں کر لیا. اس کے بعد دولہا کے گاڑی کو بدمعاش شاہراہ سے تقریبا 50 میٹر دور نیک پور راستے پر ویران مقام پر لے گئے. یہاں گاڑی میں سوار دولہا، دلہن اور ان کے دیگر رشتہ داروں کو کپڑوں سے باندھ دیا. مخالفت کرنے پر بدمعاشوں نے دولہے کی پٹائی بھی کی.گاڑی کے شیشے بھی توڑ دیئے. بدمعاش دلہن اور گاڑی میں موجود دیگر خواتین سے قریب سات لاکھ کے زیورات، 70 ہزار کی نقدی لوٹ کر فرار ہو گئے. کسی طرح پابندی آزاد ہو کر تمام شاہراہ کی طرف چل دئے. راستے میں انہیں ان کے موبائل پڑے ملے، جس سے دولہا نے اہل خانہ کو آپ بیتی بتائی. اس کے بعد کئی دیگر رشتہ دار اسے لے کر کوتوالی پہنچے.ادھر، کیس کی خبر پاکر ایس پی سومتر یادو، ایس پی، CO و کوتوالی پولیس نے موقع پر پہنچ جانچ پڑتال کی. انسپکٹر کا کہنا ہے کہ معاملے میں کیس درج کر ضروری کارروائی کی جا رہی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا