English   /   Kannada   /   Nawayathi

گجرات فسادات : گلبرگ سوسائٹی کیس میں 24 مجرم قرار، 36 بری، 6 جون کو ہوگا سزا کا اعلان(مزید اہم ترین خبریں )

share with us

واقعہ کے بعد 39 افراد کی لاشیں برآمد کی گئی تھی جبکہ سات سال بعد باقی 30 لاپتہ افراد کو مردہ قرار دیا گیا تھا۔کورٹ کے فیصلے پر ذکیہ جعفری نے کہا کہ وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ انہیں اس معاملے میں ابھی اور جدوجہد کرنی پڑے گی۔ جعفری نے کہا، 'مجھے نصف انصاف ملا ہے۔ یہ جنگ جاری رہے گی 14 سال بعد فیصلہ آیا ہے، پورے انصاف کو 15 سال شاید اور لگیں گے۔ 'کیس کی سماعت سال 2009 میں شروع ہوئی تھی، جس میں کل 66 ملزم تھے۔ ان میں سے چار کی پہلے ہی موت ہو چکی ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران 338 لوگوں نے گواہی دی تھی۔ گجرات کے سابق وزیر اعلی نریندر مودی پر بھی اس معاملے میں الزام لگا تھا، تاہم 2010 میں ان سے پوچھ گچھ کے بعد ایس آئی ٹی رپورٹ میں انہیں کلین چٹ دے دی گئی تھی۔اس معاملے میں ایس آئی ٹی نے 66 ملزمان کو نامزد کیا تھا، جن میں سے 9 ملزم گزشتہ 14 سال سے جیل میں ہیں جبکہ باقی ملزم ضمانت پر ہیں۔ ایک ملزم بپن پٹیل اسروا سیٹ سے بی جے پی کا کارپوریشن کونسلر ہے۔ 2002 میں فسادات کے وقت بھی بپن پٹیل کارپوریشن کونسلر تھا۔ گزشتہ سال اس نے مسلسل چوتھی بار جیت درج کرائی ہے۔ گزشتہ ہفتے کورٹ نے نارائن ٹانک اور بابو راٹھور نام کے دو ملزمان کی جانب سے دائر وہ عرضی مسترد کر دی تھی، جس میں انہوں نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے نارکو انالیسس اور برین میپنگ ٹیسٹ کرانے کی فریاد کی تھی کورٹ نے کہا کہ اب جب فیصلہ آنے والا ہے تو اس کی ضرورت نہیں ہے۔گلبرگ سوسائٹی قتل کیس ایک نظر میں: گودھرا سانحہ کے ایک دن بعد یعنی 28 فروری، 2002 کو 29 بنگلوں اور 10 فلیٹ والی گلبرگ سوسائٹی پر حملہ ہوا۔ گلبرگ سوسائٹی میں تمام مسلم رہتے تھے، صرف ایک پارسی خاندان رہتا تھا۔ یہاں سابق کانگریس رکن پارلیمنٹ احسان جعفری بھی رہتے تھے۔ 20،000 سے زیادہ لوگوں کی پر تشدد بھیڑ نے پوری سوسائٹی پر حملہ کیا۔ زیادہ تر لوگوں کو زندہ جلا دیاگیا تھا۔ 39 افراد کی لاشیں برآمد ہوئی تھی اور دیگر کو گمشدہ بتایا گیا، لیکن 7 سال بعد بھی ان کے بارے میں کوئی معلومات نہ ملنے پر انہیں مردہ قرار دیا گیا۔ 8 جون، 2006 کو احسان جعفری کی بیوی نے پولیس کو ایک فریاد دی، جس میں کہا کہ اس قتل کے لیے وزیر اعلی نریندر مودی اور کئی وزراء4 اور پولیس حکام ذمہ دار ہیں پولیس نے یہ فریاد لینے سے انکار کر دیا تھا۔ 7 نومبر، 2007 کو گجرات ہائی کورٹ نے بھی اس فریاد کو ایف ا?ئی ا?ر مان کر انکوائری کروانے سے انکار کر دیا۔ 26 مارچ، 2008 کو سپریم کورٹ نے گجرات فسادات کے 10 بڑے کیسوں کی تحقیقات کے لئے ا?ر کے راگھون کی سربراہی میں ایک ایس ا?ئی ٹی بنائی۔ ان میں گلبرگ کا معاملہ بھی تھا۔ مارچ 2009 میں ذکیہ کی فریاد کو چیک کرنے کا ذمہ بھی سپریم کورٹ نے ایس ا?ئی ٹی کو سونپا۔ ستمبر2009 ٹرائل کورٹ میں گلبرگ قتل کی سماعت شروع ہوئی۔ 27 مارچ 2010 کو نریندر مودی کو ایس آئی ٹی نے ذکیہ کی فریاد کے تناظر میں سمن جاری کیا اورکئی گھنٹوں تک پوچھ گچھ ہوئی۔ 14 مئی 2010 کو ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی۔ جولائی 2011 میں راج رامچندر نے اس رپورٹ پر اپنی نوٹ سپریم کورٹ میں رکھی۔ 11 ستمبر 2011 کو سپریم کورٹ نے اس معاملے میں فیصلہ ٹرائل کورٹ پر چھوڑ دیا۔ 8 فروری 2012 کو ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کی۔ 10 اپریل 2012 میٹروپولیٹن مجسٹریٹ نے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو مانا کہ مودی اور دیگر 62 لوگوں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ اس معاملے میں 66 ملزم ہیں، جس میں اہم ملزم بی جے پی کے اساروا کے بپن پٹیل بھی ہیں۔ اس کیس کے 4 ملزمان کی ٹرائل کے دوران موت ہو چکی ہے۔ ملزمان میں سے 9 اب بھی جیل میں ہیں جبکہ دیگر تمام ملزم ضمانت پر باہر ہیں۔ اس معاملے میں 338 سے زیادہ گواہوں کی گواہی ہوئی ہے۔


کھیم پور کھیری میں قومی کنٹرول برائے غیر متعدی امراض مشن کا عظیم الشان افتتاح 

وزارت آیوش اور سی سی آریوایم کے اس پروگرام پر اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن کی مبارکباد

نئی دہلی۔2جون(فکروخبر/ذرائع )اس میں شبہ نہیں کے وزارت آ یوش کی تشکیل کے بعد تمام دیسی طریقہ علاج کی ترویج وترقی کیلئے بڑی حد تک عملی اقدامات کئے جارہے ہیں ،جو ایک قابل ستائش عمل ہے۔وزیر محکمہ آ یوش جناب سریپاد یسو نائک کی محنتوں اور سی سی آر یو ایم کے ڈائریکٹر حضرات بالخصوص سی سی آر یوایم کے موجودہ ڈی جی پروفیسررئیس الرحمان کی لگن اور محنت کی تائید اور حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔مذکورہ باتیں اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤ نڈیشن کے بانی جنرل سکریٹری حکیم نازش احتشام اعظمی نے لکھیم پور میں وزارت آیوش کے قومی کنڑول پروگرام برائے غیر متعدی امراض کینسر،ذیابیطس،امراض قلب کا شاندار افتتاح پر مبارکباد دیتے ہوئے کیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ بدھ کی صبح لکھیم پور کھیری ضلع کے صدر مقام پرنصیر الدین بھون میں آیوش وزارت کے قومی کنڑول پروگرام برائے غیر متعدی امراض کینسر،ذیابیطس،امراض قلب کا شاندار افتتاح مرکزی وزیر برائے آیوش جناب شری پاد یسو نائک کے بدست انجام پایا۔ تقریب کی صدارت ضلع کے انتہائی فعال ایم ۔پی ۔ جناب اجے مشر ٹینی نے کی ۔جبکہ استقبالیہ خطبہ جناب پروفیسر رئیس الرحمان ڈی ۔جی، سی ۔سی ۔آر ۔یو ۔ایم نے پیش کیا۔انھوں نے سی ۔سی ۔آر ۔یو ۔ایم کی خدمات گناتے ہوئے کہا کہ حکومت ہند نے طب یونانی کو لکھیم پور ضلع سونپ کر ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھادی ہیں ۔وزیر آیوش جناب سریپاد یسو نائک نے اپنے افتتاحی تقریر میں طب یونانی اور سی ۔سی ۔آر۔یو ۔ایم کی ستائش کی اور کہا کہ مجھے امید ہے کہ سی ۔سی ۔آر۔یو ۔ایم اس ضلع میں اتنا اچھا کام کریگی کہ اسے مزید کچھ ضلعے دئے جاسکیں ۔پروگرام میں اتر پردیش کے وزیر صحت شیو پرتاپ یادو نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے طب یونانی کی خوبیوں کا ذکر کیااور کہا کہ یہ عوامی طریقہ علاج ہے جسے ہندوستانی عوام صدیوں سے اپنے سینہ سے لگائے ہوئے ہیں ۔لکھیم پور کے ایم ۔ایل۔اے اتکرش ورما نے بھی حاضرین کو خطاب کیا اور وزیر آیوش کا شکریہ ادا کیا۔ ساتھ ہی اترپردیش کے وزیر صحت شیوپرتاپ یادو اور اسپیشل سکریٹری صحت اترپردیش مانویندر سنگھ کے تعاون کے لئے ان کا شکریہ ادا کیا ۔اجے کمار مشر نے اپنے ضلع کو اس پروگرام کیلئے چنے جانے پر وزیر آیوش اور وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا اور ہر ممکن تعاون کا یقین دلا یا ۔اسٹیج پر موجود سبھی مہمانوں کو ان کی خدمات کے اعتراف میں اعزازات پیش کئے گئے، جن میں ڈاکٹر سواستی چرن ،نوڈل آفیسر این ۔پی ۔سی ۔ڈی ۔سی ۔ایس پروگرام حکومت ہند بھی شامل تھے ۔تقریب کااختتام سی ۔آر۔آئی ۔یو ۔ایم لکھنؤ کے ڈپٹی ڈائرکٹر انچارج حکیم وسیم احمد اعظمی کے اختتامی خطبہ اور ادائے شکریہ پر ہوا ۔جلسہ میں شہر لکھیم پور کے ضلع افسران اور ایم۔پی اجے مشر ٹینی اور ایم۔ایل۔اے اتکرش ورمامدھر کے ساتھ معززین اور عوام کے ایک بڑے طبقہ نے شرکت کی ۔طب یونانی کی ترویج کیلئے حکیم نازش احتشام اعظمی نے وزیر آ یوش اورسی سی آریو ایم کو مبارکباد دی ہے۔


غالب انسٹی ٹیوٹ میں ڈاکٹر حنیف ترین کی کتاب پر مذاکرہ 

نئی دہلی ۔2جون (فکروخبر/ذرائع )غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام شامِ شہریاراں کے موقع پراہم اور منفرد لب و لہجہ کے شاعر ڈاکٹر حنیف ترین کے شعری مجموعہ ’’لالۂ صحرائی‘‘ پریکم جون کی شام کو ایوانِ غالب میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیاگیا۔ اس مذاکرے کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی اور مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر اخترالواسع موجود تھے۔مقررین میں پروفیسر توقیر احمد خاں،پروفیسر شہزاد انجم،ڈاکٹر اطہر فاروقی،ڈاکٹر شعیب رضاخاں،ڈاکٹر مشتاق صدف، ڈاکٹر ابوبکر عباد، ڈاکٹر بسمل عارفی اورڈاکٹر شہلانواب نے اپنے خیالات کااظہارکیا۔صدارتی خطاب میں پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہامیرے لیے یہ دن خاص طورسے بہت اہمیت کاحامل ہے میں ڈاکٹر حنیف ترین کو کافی عرصہ سے جانتاہوں اِنہوں نے مشرقِ وسطیٰ اور سعودی عرب کے ہنگامی حالات کواپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنی شاعری میں اسے بڑی خوبصورتی کے ساتھ برتاہے۔ اُن کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سماجی تقاضوں کو بھی اپنی تخلیقات میں اہم جگہ دیتے ہیں۔مجھے پوری امید ہے کہ اُن کے اس مجموعہ کوعلمی حلقوں میں پسند کیا جائے گا۔مہمان خصوصی پروفیسر اخترالواسع نے اس موقع پر فرمایاکہ ڈاکٹر حنیف ترین سے میرے مراسم ایک طویل عرصہ سے ہیں اور میں اُن کی شاعری کاہمیشہ سے شیدائی رہا ہوں۔جب اُن کا پہلا مجموعہ شائع ہواتھااُس وقت بھی میں نے اُن کی شاعری پر اظہارخیال کیا تھا۔اُن کے کلام میں مجھے جوچیزسب سے زیادہ پسند ہے وہ اُن کا تیور ہے۔جس کا اظہاراُنہوں نے اپنے تمام شعری مجموعوں میں کیا ہے۔ پروفیسر توقیر احمد خاں نے فرمایاکہ حنیف ترین نے ہمیشہ اپنی ضمیر کی آواز پر شاعری کی ہے جو کچھ دیکھا اس کوشعری کینوس پر ڈھالا۔ پروفیسر شہزاد انجم نے کہاکہ ان کے اس شعری مجموعے کا عنوان ’’لالۂ صحرائی‘‘ہی قارئین کو غوروفکر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔جنہوں نے ڈاکٹر حنیف ترین کو قریب سے دیکھا ہے وہ اس بات سے واقف ہیں کہ وہ نہایت ہی مخلص انسان ہیں اور انسان دوستی و محبت کاحسین عنصر ان کی زندگی میں شامل ہے اوراِن ہی تمام چیزوں کووہ اپنی شاعری میں بھی پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے حنیف ترین سے اپنے پرانے روابط کاذکر کرتے ہوئے کہا ان کی نظمیں مجھے ہمیشہ پسند رہی ہیں۔وہ اپنی نظموں میں ہمیشہ کچھ ایسی باتیں پیش کرتے ہیں جو قارئین کو فوراً اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ وہ اپنی نظموں میں زیادہ تر سماج کوپیغام دیتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر ابوبکرعباد نے کہا کہ ان کے اس مجموعہ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ ان کے کلام میں غمِ دوراں بھی ہے اور غمِ جاناں بھی ۔ ان کے یہاں سیاسی موضوعات کااظہا ربھی مختلف جگہوں پر ہمیں دکھائی دیتاہے۔ڈاکٹر شعیب رضاخاں نے ڈاکٹر حنیف ترین سے اپنے پرانے رشتوں کاذکر کرتے ہوئے کہ کہاکہ اُن کی شاعری کا رنگ اور انداز مختلف ہے اسی وجہ سے وہ اپنے معاصرین میں منفرد نظر آتے ہیں۔ساہتیہ اکادمی کے ریسرچ آفیسر اور عہد حاضر کے نوجوان ناقد ڈاکٹر مشتاق صدف نے کہاکہ ڈاکٹر حنیف ترین کی شاعری میں کئی جہتیں ہیں اور ان جہتوں سے جب ہم روبرو ہوتے ہیں توہمیں ان کی شعری کیفیتوں کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر شہلا نواب نے کہا کہ انہوں نے شاعری کو فیشن کے طورپر نہیں اپنایابلکہ اپنی محنتوں سے اس شعری دنیا میں اپنا ایک الگ مقام بنایاہے۔ ڈاکٹر بسمل عارفی نے فرمایاکہ ڈاکٹر حنیف ترین کی شاعری کی ایک اہم بات جوہمیں پسند آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ان کی شاعری میں کبھی کبھی کلاسیکی رنگ بھی دیکھتے ہیں۔غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر رضاحیدر نے جلسہ کی ابتدا میں اس کتاب کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر حنیف ترین پیشہ سے توڈاکٹر ہیں مگر شاعری انہیں وراثت میں ملی۔ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں اور وہ ہمارے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ ملک اور بیرون ملک کے رسائل و جرائد میں آپ پچھلے کئی برسوں سے شائع ہورہے ہیں اوراردو کے اہم دانشوروں اورنقادوں نے بھی اپنی تحریروں میں آپ کی شاعری پراظہار خیال کرتے ہوئے آپ کی تخلیقات کو پسند کیا ہے۔ہمیں پوری امید ہے کہ آپ کایہ مجموعہ ’’لالۂ صحرائی‘ ‘ کوعلمی حلقوں میں عزت و احترام کی نظروں سے دیکھا جائے گا۔اور اسے پڑھ کر قارئین اپنی رائے بھی پیش کریں گے۔اس موقع پر متین امروہوی نے بھی اس مجموعہ سے متعلق چند اشعار پیش کیے۔ اس مذاکرے میں بڑی تعداد میں مختلف علوم و فنون کے افراد موجود تھے۔تصویر میں مائک پر:ڈاکٹر اطہر فاروقی، ڈاکٹر رضاحیدر،پروفیسر اخترالواسع، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اور ڈاکٹر حنیف ترین۔ 


مرکزی سرکار کی لاپرواہی جانی اور مالی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

ہمالیہ کے آس پاس اور دہلی کے بیشتر علاقہ زلزلوں کی زد میں؟

سہارنپور۔2جون (فکروخبر/ذرائع) این ڈی ایم اے کے سینئر ترجمان نے گزشتہ روز پریس کو دئے ایک اہم انٹرویو میں یہاں تک کہ دیاہے کہ مستقبل میں دہلی اور آسپاس کے علاقوں کو ۸ یا اس سے بھی زیادہ طاقت والے زلزلہ سے جوجھنا پڑ سکتاہے مگر افسوس کی بات ہے کہ اس قدر جوکھم بھری خبریں آنے کے بعد بھی ہماری مرکزی سرکار اور اس کے ذمہ دار لاپرواہ بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ ان خبروں سے ہمالیہ اور ہمالیہ کے آس پاس اور ہمالیہ کے کنارے والے علاقوں کے لاکھوں لوگ رات رات بھر الجھن میں رہکر اپنے مستقبل کی بابت فکر مند ہیں گزشتہ سالوں اور امسال کے درمیان نیپال، افغانستان، پاکستان، انڈونیشیا اور ہمارے ہندوستان میں جس طرح سے ہلکی اور زیادہ تیزی اور طاقت والے زلزلہ لگاتار آرہے ہیں ان سے تو سائنس دانوں کی اس پیشن گوئی کو بڑی تقویت ملتی ہے کہ آنے والا وقت ہمالیہ کے آس پاس کے عوام کے لئے جوکھم بھرا رہیگا ویسے تو سبھی کچھ اللہ کے حکم پر ہی منحصر ہے مگر حفاظتی تدابیر بیحد ضروری ہے اتنا سب کچھ سرخیاں بن جانے کے بعد بھی سرکار کی خاموشی پر لگاتار سوال اٹھائے جارہے ہیں؟گزشتہ ماہ کے دوران زلزلوں کے قریب تین چار ہلکے بھاری جھٹکے نے ہمالیہ کے آس پاس اور مغربی یوپی کے اہم شہروں میں پھر سے زبردست ہلچل مچاکر لاکھوں افراد کو چند لمحات کے لئے بد حواسی کے عالم میں گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیاتھا ۔یاد رہیکہ دہلی، مغربی یوپی ، جمنانگر، جگادھری ، سونی پت ،پانی پت ، کرنال، امبالہ، کروکشیتر، ناہن، سولن (ہماچل و ہریانہ )اوراترانچل کے بہت سے علاقوں میں ایک ماہ کی مدت میں تین بار آنے والے زلزلوں کا کافی زیادہ اثر دیکھنے کو ملا۔ عام رائے کے مطابق گزشتہ اور امسال پڑوسی ممالک اور ہمارے ملک میں ان زلزلہ کی تیزی ری ایکٹر پیمانہ پر سرکاری طورپر چار سے لیکر ساڑھے آٹھ کے قریبریکارڈ کی گئی ہے۔ ایک اہم رپورٹ کے مطابق این سی ایس کے ڈائریکٹر مسٹر ونیت گہلوت نے کچھ عرصہ قبل ملک کے ایک چینل کو بتایا کہ اس طرح کے زلزلوں کا آنا عام ہے مگر جس تیزی سے یہ زمین آج کانپی ہے اس نے یہ ظاہر کر دکھایاہے کہ ابھی سے ہوشیار رہنے کی خاص ضرورت ہے اور اس پر سنجیدہ غوروفکر کی ضرورت ہے انہوں نے صاف بتایاکہ اب لاپرواہی تباہی کا باعث بن سکتی ہے؟ قابل غور ہے کہ گزشتہ دنوں نیپال اور ہند میں آئے خطرناک زلزلہ کو مرکزی سرکارنے بہت ہلکے میں لیاہے قدرت سے چیڑ چھاڑ ہم سبھی کو کافی مہنگی پڑسکتی ہے قدرت سے چھیڑ چھاڑ اور قدرت کے ساتھ مزاق کرنے والوں کے لئے نیپال میں آنے والازلزلہ ایک نمونہ ہے اسی درمیان یاد ہوگا کہ دہلی کے آس پاس چھ ماہ میں ایک درجن سے زیادہ جھٹکے محسوس کئے جارہے ہیں جو مستقبل کے لئے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں ۔ مگر یاد رہے کہ ہمارے پہاڑی علاقوں میں غیر قانونی کھنن ، پہاڑوں کی کھدائی ، پہاڑوں پرغیر قانونی تعمیرات اور غیر قانونی ہرے پیڑوں کا کٹان یہ تمام وجوہات کسی بھی وقت کسی بھی بڑے زلزلہ کا سبب بن سکتے ہیں وقت رہتے مرکزی سرکار اور صوبائی سرکاروں کو ہوش میں آنابیحد ضروری ہے؟ سبب بڑے زلزلوں کا خطرہ گزشتہ ۱۹۸۰ سے لگاتار ہمارے سر پر منڈلا رہا ہے مگر حکام بالخصوص صوبائی سرکار یں اور مرکزی سرکار اس خطرے سے جان بوجھ کر آنکھیں پھیرے بیٹھی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس خطرے سے بچنے کے لئے ٹھوس اقدام کریں گزشتہ دنوں نیشنل ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے وارنینگ دی ہے کہ تراکھنڈ جیسی تباہی ہماچل اور اُتر پردیش کے چند علاقوں میں کبھی بھی آ سکتی ہے ۔ این ڈی ایم اے نے ہماچل سرکار کو اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ صوبہ میں کبھی بھی ایک بڑا زلزلہ آ سکتا ہے اور ایسے میں شملہ سمیت صوبہ کے تین اضلاع میں کبھی بھی خوفناک تباہی مچ سکتی ہے ۔ اتنا ہی نہیں این ڈی ایم اے کے مطابق ہماچل میں پگھلنے والے گلیشئر سے بنی نئی جھیل بھی بڑی تباہی کی دستک دے رہی ہے ۔ ویسے تو یہاں ہر ۵۰ سال میں زلزلہ آتا ہی ہے ۔ پچھلا زلزلہ ۱۹۰۲ میں آیا یعنی۱۱۳ سال پہلے تو قدرت نے ہمیں بخش دیا رحم دکھایا لیکن انسان نے ہماچل کی راجدھانی شملہ پہاڑ پر کنکریٹ کا جنگل کھڑا کر دیا ۔ ایسے ہی کنکریٹ کے جنگل اُتراکھنڈ میں بارش ، باڑھ اور زمین کھسکنے کی وجہہ سے منہدم ہوتے نظر آئے تھے ۔ این ڈی ایم اے کے مطابق ہماچل اور اُتراکھنڈ پر زلزلہ کا بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے ۔ گزشتہ دنوں ہماچل کی صوبائی سرکار و این ڈی ایم اے کے افسروں کے بیچ ہوئی میٹنگ میں اس بات پر حکام نے زبردست زلزلہ کے بابت بڑی تشویش ظاہر کی ۔ این ڈی ایم اے کے مطابق راجدھانی شملہ ، سندرنگر اور دھرمشالہ پر زلزلہ کا بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے ۔ یہ زلزلے کے لحاظ سے سب سے زیادہ حساس علاقے میں آتے ہیں ۔ خطرے کو بھانپتے ہوئے ہماچل سرکار نے بھی لوگوں کو چوکنا رہنے کیلئے کہا ہے لیکن آخر سرکار پہاڑوں پر اس اندھادھند تعمیرات کا کیا کرے گی ۔ صوبہ پر دوسرا بڑا خطرہ گلیشئر سے پگھلنے والی جھیل ہے ۔ این ڈی ایم اے کی مانین تو ہماچل کے بالائی علاقے میں اس وقت ایسی جھیلیں ہیں جو کبھی بھی ٹوٹ سکتی ہیں اور یہ پہلے سے موجود ندیوں اور کانوں سے مل کر بھاری تباہی مچا سکتی ہیں اس سے قبل بھی این ڈی ایم اے اتراکھنڈ اور اُترپردیش کی سرکار کو وارننگ دے چکے ہیں مگر این ڈی ایم اے کے حکام کی وارننگ کو آج تک صوبائی سرکاروں نے سنجیدگی سے نہیں لیا ہے واضع کریں کہ اُترا کھنڈ کی راجدھانی میں واقع وزیرِ اعلیٰ اور گورنر کے بنگلے حساس زلزلہ والے زون میں کافی پہلے سے شامل ہیں اگر شملہ میں تباہی مچتی ہے تو پھر دہرادون ، ہردوار اور میرٹھ سے لے کر تباہی کی دستک دہلی تک سنائی دیگی وقت رہتے اگر مرکزی سرکار اور صوبائی سرکاروں نے جلد ہی قدرت اور جنگلات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کو سختی کے ساتھ کنٹرول نہیں کیا تو نیپال اور انڈونیشیاء اور افغانستان جیسے حادثات ہمارے ملک کیلئے بھی عام بات ہوکر رہ جائے گی ضرورت اس بات کی ہے کہ زلزلوں سے بچاؤ کیلئے بہتر اور منظم تدابیر کے ساتھ ساتھ ہی غیر قانونی کٹان اور کھنن کو قابو کیا جائے اور ان پر مستقل طور پر پابندی عائد کی جائے تاکہ ہماچل ، اُتراکھنڈ ، اُترپردیش اور دہلی کو آنے والی آفات سے بچایا جا سکے ؟


لوک سیوا ملٹی کیندر،ایڈمیشن کو آپریٹیو سیل کی جانب سے

پی یوسی کامیاب طلبہ کیلئے رہنمائی و خصوصی مددکیلئے فارم جمع کرنے کی تاریخ میں18جون تک توسیع

کلبرگی 30مئی(فکروخبر/ذرائع) لوک سیوا ملٹی کیندر کے تحت کارکرد آل مسلم بیت المال ایند زکواۃ ٹرسٹ اور نیشنل ہیومن لائف ہیلپ سوسائٹی کی جانب سے قائم کئے گئے ایڈمیشن کوآپریٹیو سیل کے تحت پی یو سی میں کامیاب تمام مسلم و غیر مسلم اقلیتی ،ایس سی، ایس ٹی،او بی سی طلباء کیلئے رہنمائی اور جو طلبہ یتیم، یسیر ،غریب و مستحق ہیں اور اپنی تعلیم کو جاری رکھنے میں مالیہ کی وجہہ سے مجبور ہیں ایسے مسلم طلبہ کیلئے خصوصی رہنمائی و مدد اور تمام طلباء کو کسی بھی کالج میں داخلہ کیلئے رہنمائی سے متعلق5جون کو کونسلنگ کا اعلان کیا گیا تھا تاہم وہ طلباء جو سی ای ٹی و دیگر کونسلنگ میں مصروف ہیں انہیں مد نظر رکھتے ہوئے اس میں توسیع کی گئی ہے اب 18جون تک فارم حاصل اورداخل کرسکتے ہیں۔ طلباء لوک سیوا ملٹی کیندر ،نزد تماپوری چوک ، ون وے (ان) اسٹیشن روڈگلبرگہ سے 18جون تکفارمس حاصل کریں اور فارمس پر کرنے کے ساتھ ایک فوٹو،پی یو سی مارکس کارڈ،اسٹڈی سرٹیفیکیٹ،طالب علم کا آدھار کارڈ،طالب علم کے والدین کا آدھار کارڈ، راشن کارڈ،انکم و کاسٹ سرٹیفکیٹ اور ایک تحریری درخواست منسلک کرکے وقت مقررہ سے قبل آفس میں داخل کریں۔فارمس حاصل کرنے اور داخل کرنے کی آخری تاریخ میں توسیع کے بعد اب18جون مقرر کی گئی ہے۔ کونسلنگ کی تاریخ کا متعاقب اعلان کیا جائیگا،مزید تفصیلات کے لئے ایچ ایم حاجی کو آردینیٹر لوک سیوا ملٹی کیندر سے راست یا موبائل نمبر 8951824531 پررابطہ کریں۔


قرآنی حقوق میں سب سے مقد م حق صحت لفظی ہے:ڈاکٹر قاری صبغت اﷲ صدیقی

قرآن کا حق ادا کیے بغیر اس سے فیض یاب نہیں ہوسکتے:مولانا عبدالعلی فاروقی

لکھنؤ۔2جون(فکروخبر/ذرائع)عالمی شہرت یافتہ درس گاہ فن تجوید وقرأت کا مرکز مدرسہ ’’تجوید الفرقان‘‘ کا (۷۱واں)سالانہ جلسہ درستار بندی اپنی سابقہ روایات کو قائم رکھتے ہوئے پورے تزک واحتشام کے ساتھ منعقد ہوا۔ جلسے میں بڑی تعداد میں منشدین کتاب اﷲ، شائقین کلام اﷲ، علماء ، دانشوران ملت ، عمائدین شہر اور قدیم طلاب مدرسہ کی شرکت نے جلسے کے حسن کو دوبالا کیا اور طلبہ کی ہمت افزائی فرمائی۔
جلسے کی صدارت صدر شعبہ تجوید وقرأت ڈاکٹر قاری صبغت اﷲ صدیقی ناظم مدرسہ تجوید الفرقان نے فرمائی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے نائب امام اہل سنت مولانا عبدالعلی فاروقی مہتمم دارالعلوم فاروقیہ کاکوری اور مصلح ملت امام وخطیب جامع مسجد چک منڈی مولانا جہاں گیر عالم قاسمی صدر انجمن فلاحِ دارین نے شرکت کی۔جلسے کی نظامت کے فرائض مولانا فہیم الدین قاسمی استاد مدرسہ تجوید الفرقان نے انجام دیے۔مہمانوں کا استقبال قاری شہاب اﷲ صدیقی استاد شعبہ حفظ مدرسہ تجوید الفرقان نے کیا ۔جلسے کااختتام مولانا عبدالعلی فاروقی کی جامع دعا پر ہوا۔
اس موقع پر مظاہرین قرأت کو خصوصی انعامات سے بھی نوازا گیا ۔مسابقہ حفظ میں اول انعام حافظ محمد سعید لکھنوی اور دوم انعام حافظ محمد حمزہ لکھنوی کو حاصل ہوئے۔ مظاہرہ قرأت میں اول انعام قاری عمران کان پوری اور دوم انعام قاری ریاض الدین آسامی کو حاصل ہوئے۔
ڈاکٹر وقاری صبغت اﷲ صدیقی نے اپنے پر مغز صدارتی خطاب میں جلسے کی غرض وغایت اور فن تجوید وقرأت کی اہمیت وافادیت کو قرآن وحدیث کے حوالوں سے واضح کرتے ہوئے کہا کہ فطرت کے عظیم شاہ کار، انسان کی عظمت وخوش بختی کا ایک بہت بڑا پہلو یہ بھی ہے کہ اسے دنیا بسانے والے رب نے قرآن مجید جیسی عظیم دولت سے نوازا اور دنیا کو روشن کرنے کے لیے سب سے پہلے سینوں کا انتخاب کیا تاکہ بنی نوع آدم ہر جگہ اپنی حفاظت کے ساتھ دوسروں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوسکے ۔ 
قاری صاحب نے کہا کہ قرآنی حقوق میں سب سے مقدم حق ،صحت لفظی ہے جس کے لیے باقاعدہ فن تجوید کا وجود سامنے آیا گویا یہ منزل من اﷲ اور افضل العلوم اقدم العلوم ہے۔اس کی حفاظت کے لیے اﷲ تعالیٰ نے قرائے کرام کا انتخاب کیااور ادائی خلافت عطا فرمائی۔رسم کے لیے علمائے رسم کا انتخاب ہوا اور تفسیر کے لیے مفسرین کو خلافت عطا کی ۔مجموعی طورپر ہر پہلو سے قرآن کی حفاظت کے لیے خلیفہ مقرر کیے ۔ لیکن افسوس آج کے دور میں سب سے زیادہ معصوم ومظلوم فن ،فن تجوید ہی دکھائی دے رہا ہے اور دوسرے نمبر پر رسم عثمانی مظلومیت کا شکار ہے۔یہ ایسا ہے جیسے سلوپائزن ۔ جسکی جیتی جاگتی مثال اردو زبان ہے پہلے غیر مسلمین بھی اچھی اردو جانتے تھے اب تو ہمارے ہی گھروں سے نکل چکی ہے۔آج کا انسان خدائے واحد کے اس چیلنج کو بھول رہا ہے کہ قرآن کی حفاظت کا وعدہ اﷲ تعالیٰ نے خود کیا ہے اورجب اﷲ تعالیٰ کی ذات باقی ہے تو اس کا کلام بھی ہمیشہ ہمیش باقی رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی زبان کی حفاظت ،ادا اور رسم سے قائم رہتی ہے۔ اگر یہ دونوں باتیں سلامت ہیں تو زبان بھی سلامت ہے، ورنہ مٹ جاتی ہے۔ اس کا پاس اسلام نے روز اول ہی سے بہت ہی مستحکم انداز میں قائم رکھا اور صرف یہیں تک ہی نہیں بلکہ اکابرین نے قربانیاں دے کر ان جگہوں کا بھی انتخاب کردیا جہاں سے حروف نکلتے ہیں جس کوفن تجوید کی اصطلاح میں مخارج کہتے ہیں اور کونسا حرف موٹا کرکے اور کونسا باریک ، کس میں سیٹی کی آواز نکلے گی اور کس میں نہیں وغیرہ وغیرہ (اس کو اصطلاح میں صفات کہتے ہیں)بیان فرمادیے ہیں۔
قاری صاحب نے کہا کہ ادائیگی کے لحاظ سے ہمارے طریقے کار کو مشنری اسکولس نے اپنا تو لیا اور مالی فائدہ بھی خوب اٹھا رہے ہیں لیکن ہمارے ذاتی تجربے کے تحت یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کونسا حرف کہاں سے اور کیسے نکلے گا۔ انہوں نے کہا کہ کاش کوئی اﷲ کا بندہ میرے ذاتی تجربے پر پانی پھیرتے ہوئے میری رہنمای کردیتا تو میں تازندگی اس کا احسان مند رہتا۔
انہوں نے کہا کہ ہم کو کسی کی روش سے کیا لینا دیناوہ کیسے بولتے ہیں۔ کہاں سے بولتے ہیں ۔ ہم کو تواﷲ اور اس کے محبوبؐ کی رضا کے لیے قرآنی آرڈر پر عمل کرنا ہے اور فرمان نبی ’’جس نے تجوید سے قرآن پڑھا اس نے عاقبت کو سنوارا ‘‘پر عمل پیرا ہونا ہے۔
مصلح ملت امام وخطیب جامع مسجد چکمنڈی مولانا جہاں گیر عالم قاسمی صدر انجمن فلاحِ دارین نے قرآن وحدیث کے حوالوں سے مزین ومدلل اپنے خطاب میں کہا کہ یہ وہ مقد س صحیفہ ہے جس کے روح پرور پیغام اور سحر آگیں اسلوب بیان نے بڑے بڑے فلسفیوں ، دانش وروں اور فصاحت وبلاغت کے ماہرین کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ علوم وفنون اور زبان وادب میں خود کو امام اور یکتائے روز گار سمجھنے والے یہاں پہنچ کر اپنے اپنے ہوش وحواس کھو دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قرآن مجید کی مخالفت پر جو لوگ آمادہ ہو ئے یاتو وہ برباد ہوئے یااس سے متاثر ہوکر اس کے گرویدہ ہوگئے۔ باران رحمت کا نزول جس طرح مردہ زمین کو زندگی کی نئی حرارت بخشتا ہے ، اسی طرح قرآن اپنے عاشقوں کے دلوں کی کھیتیوں کی آبیاری کرتاہے۔ اس نے دلوں اور سینوں میں اپنا مقام بنا رکھا ہے۔ جیسے جیسے اس کے ساتھ تعلق استوارہوتا ہے ، زندگیاں سنورتی اور نکھرتی جاتی ہیں۔ افکار وعقائد میں خوش گوار تبدیلیاں آتی ہیں۔ سیرت وکردار کی بہتر تشکیل ہوتی ہے۔ معاشرہ تہذیب وشائستگی کا مثالی نمونہ بن جاتا ہے اور زندگی کا ہر گوشہ اس کی روشن تعلیمات سے منور ہوجاتا ہے۔
مولانا نے کہا کہ یقیناًوہ لوگ خوش نصیب ہیں جن کو کلام اﷲ سے قلبی تعلق اور گہرا لگاؤ ہے جو اس کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کو حرز جان بنائے ہوئے ہیں، اسی میں اپنے لیے دنیا وآخرت کی سعادتوں کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
نائب امام اہل سنت مولانا عبدالعلی فاروقی مہتمم مدرسہ فاروقیہ کاکوری نے اپنے خطاب میں کہا کہ کتاب اﷲ صرف قسمیں کھانے ، طاقچوں کی زینت بنانے یا محض رسمی تلاوت کے لیے نہیں ، بلکہ تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کی تلاوت کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جب تک اس کی تلاوت کا حق ادانہیں کیا جائے گااس سے فیض یابی حاصل نہیں کی جاسکتی اور معنوی فساد ہونے پر نمازبھی نہیں ہوتی ۔
انہوں نے کہا کہ قرآن مجید حق تعالیٰ کا کلام ہے۔ اس کی تعظیم واجب ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ صرف دس پندرہ منٹ کے بچانے کے چکر میں قرآن مجید کو گھسیٹ گھسیٹ کر جلدی جلدی اور بگاڑ بگاڑ کر پڑھاجاتا ہے اور اُس کی خوبصورتی کو چند مقتدیوں کو خوش کرنے کی کوشش میں کچلا وروندا جاتا ہے اور نمازوں کو خراب کیا جاتا ہے اور دوسری طرف رمضان المبارک میں اور مہینوں سے زیادہ جسمانی غذاؤں کے لیے لذیذ کھانوں کا اہتمام خوب کیا جاتا ہے اور روحانی غذا کا اہتمام ردی کھجور کی طرح کیا جاتا ہے۔یہ امت مسلمہ کے لیے شرمسار ی کی بات ہے۔فارغین حفظ ، روایت حفصؒ وسبعہ کے خوش قسمت طلبہ کے سروں پر اکابرین امت نے دستار باندھ کر ان کی ذمہ داریاں بڑھائیں اور قوم کے حوالہ کردیا ۔ اﷲ تعالیٰ ان کو خادمین قرآن کے زمرہ میں قبول فرمائے اور خادمین مدرسہ کو صحت وتندرستی اور خلوص کے ساتھ اعمال صالحہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


چار سگے بھائیوں سمیت سات کو عمر قید

رائے بر یلی۔2جون(فکروخبر/ذرائع)کورٹ نے امیٹھی ضلع کے فرصت گنج تھانہ علاقے کے ترونا گاؤں میں پانچ سال پہلے ہوئے نوجوان کے قتل کے معاملے میں اپنا فیصلہ سنایا. کورٹ نے معاملے میں ملزم چار سگے بھائیوں سمیت سات افراد کو عمر قید اور 10 ہزار روپئے کی سزا سنائی ہے۔یہ فیصلہ ضلع و سیشن کورٹ واقع کورٹ نمبر چھ کے ایڈیشنل سیشن جج سنیل کمار اول نے سنایا. اے ڈی جی سی (کریمنل) امرجیت سنگھ کے مطابق 26 ستمبر 2010 کو ہندو کے گاؤں کاباشندہ شیونارائن نے اپنے تین بھائیوں شیو کمار، گربخس و یربیس سمیت 10۔12 دوسرے لوگوں کے ساتھ پورے کاباشندہ وشواس کے گھر میں گھس کر بانکا اور کلہاڑی سے جان لیوا حملہ کیا تھا .یہی نہیں اس کا پاؤں کاٹ ڈالا. بعد میں وشواس کی موت ہو گئی. معاملے کی رپورٹ متوفی کی ماں سیتا دیوی باشندہ پورے نے تھانہ فرصت گنج میں درج کرائی تھی. پولیس نے غور کے بعد سات ملزمان کے خلاف چارج شیٹ عدالت میں داخل کی.کورٹ نے دونوں طرف کی بحث سننے کے بعد دستاویز پر دستیاب ثبوت کی بنیاد پر سگے بھائیوں شیونارائن، شیو کمار، گربخس، ہربخس کے علاوہ راجندر، سنتوش کمار، رام پرکاش کو قتل کے الزام میں قصور وار مانتے ہو ئے سزا سنائی ہے۔


خاتون نے لگایا گینگ ریپ کا الزام

شاہ جہاں پور۔2جون(فکروخبر/ذرائع)ایک خاتون کا الزام ہے کہ گاؤں کے دو لوگ اس کے گھر میں گھس گئے اور یرغمال بنا کر عصمت دری کی. تحریر دینے کے بعد بھی پولیس نے رپورٹ درج نہیں کی. متائثرہ نے سی او سے شکایت کر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے. عورت کے مطابق اس کے شوہر سدھولی علاقے کے ایک اینٹ بھٹہ پر کام کرتے ہیں۔ بدھ کی رات وہ اکیلی گھر کے صحن میں سو رہی تھی. اس دوران اس کے گھر میں گاؤں کے دو لوگ گھس آئے اور اس کا منہ بند کر زبردستی کمرے میں لے گئے. شور مچانے پر جان سے مارنے کی دھمکی دی اور اس کے ساتھ آبروریزی کی. اس کے بعد دونوں نے پہچان جانے کی بات کہہ کر عورت کو جان سے مارنے کی نیت سے زبردستی کھیت کی طرف لے جانے لگے. اس دوران ان کی پٹائی بھی کی گئی، جس سے اسے چوٹیں آئیں. وہ کسی طرح ملزمان سے چھڑا کر شور مچاتی ہوئی بھاگ نکلی، جس سے اس کی جان بچ گئی. شور سن کر گاؤں کے تمام لوگ جمع ہوئے تو ملزم جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے فرار ہو گئے. اس نے رات میں ہی فون کر کے اپنے شوہر کو واقعہ کی اطلاع دی. شوہر کے گھر لوٹنے پر رات کے ساڑھے دس بجے متاثرہ خاتون کوتوالی پہنچی اور پولیس کو تحریر دی. پولیس نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کر دیا. ملزمان سے ساز باز کی وجہ سے پولیس نے اس سے ایک سادے کاغذ پر انگوٹھا بھی لگوا لیا. اس کا میڈیکل بھی نہیں کرایا گیا. بدھ کو خاتون نے شوہر کے ساتھ جاکر سی او سے شکایت کر انصاف کی فریاد کی۔ سی او نے معاملے کی تحقیقات اور کارروائی کا یقین دلایا ہے.خاتون ملی تھی. اس نے گینگ ریپ کا الزام لگایا ہے. الزام پہلی نظر میں مشتبہ لگ رہا ہے. معاملے کی جانچ کرائی جائے گی. اگر واقعہ صحیح ہے تو رپورٹ درج کرائی جائے گی۔


اے ٹی ایم سے لاکھوں اڑانے والے گرفتار

ہمیر پور۔2جون(فکروخبر/ذرائع)بینکوں سے اکاؤنٹ ہولڈر کو چکما دے کر اے ٹی ایم کوڈ پوچھ کر انہیں چپت لگانے والے دو جعلسازوں کو پولیس نے سائبر کرائم ٹیم کی مدد سے دبوچا ہے. کوتوالی پولیس نے دونوں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے.اکاؤنٹ ہولڈر کو اے ٹی ایم نمبر اور پن معلوم کر گرگے آن لائن شاپنگ کر اکاؤنٹ ہولڈر کو چپت لگاتے رہے ہیں. قصبے میں گزشتہ تین ماہ میں تقریبا ایسی دو درجن سے زیادہ وارداتیں ہو چکی ہیں. اس معاملے کی کئی شکایات کے آنے پر ایس پی منراج جی نے جرائم کو سنجیدگی سے لیا.ایس پی نے سائبر کرائم برانچ کے ساتھ مودہا پولیس کو ان جعلسازوں کی تلاش میں لگایا اور اس پر انہوں نے کامیابی بھی حاصل کی. ایس پی نے بتایا کہ سائبر کرائم برانچ نے اس معاملے میں دو گرگے، معین الدین و نظام الدین خان کو گرفت میں لے لیا.بتایا کہ قصبے کے حیدر گنج گج محلہ کاباشندہ ایل پی پیپرا کے اے ٹی ایم سے گزشتہ آٹھ جنوری کو نو ہزار روپئے نکل گئے تھے. اس کی معلومات کوتوالی پولیس نے نامعلوم جعلسازوں کے خلاف دفعہ 420 کے تحت درج کر لی تھی.اسی طرح دوسری صورت میں تھانہ بوار علاقے کے روہاری گاؤں کاباشندہ راجندر پرساد کے ساتھ پیش آیا. اس کے بینک اکاؤنٹ کے اے ٹی ایم کے ذریعے 1،81،916 روپئے کی شاپنگ کی گئی. مسلسل کئی دنوں سے ماتھا پچی کرنے کے بعد جعل سازی کرنے والے یہ نوجوان جال میں آ سکے.ایس پی نے بتایا کہ پکڑے گئے جعلسازوں پر چھتیس گڑھ، رائے پور میں بھی معاملے درج ہیں. موجودہ وقت میں یہ کسی چینل میں نوئیڈا میں ٹریننگ کر رہے تھے اور یہاں آکر اے ٹی ایم کے پاس کھڑے ہو کر ان کے نمبر تلاش لاکھوں کا لین دین کرتے تھے۔


کمپیوٹر سینٹر مالک پر شہ زوروں نے کیا حملہ

لکھنؤ۔2جون(فکروخبر/ذرائع)ٹھاکر گنج علاقے میں ایک کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ مالک کو بدھ کی صبح گھیر لیا گیا اور مارپیٹ کے بعد فائرنگ کی گئی۔ اتفاق سے گولی ایک راہگیر کو لگ گئی۔ اسے ٹراما سینٹر میں داخل کرایا گیا ہے۔تحسین گنج علاقہ میں ایم ٹیک کمپیوٹر سینٹر کے مالک محمد انصاری اپنے کنبہ کے ساتھ رہتا ہے۔ بتایاجاتا ہے کہ منگل کو اس کے چھوٹے بھائی کا رضوان نام کے ایک نوجوان سے جھگڑا ہو گیا تھا اس وقت لوگوں نے کسی طرح معاملہ کو ختم کرا دیا تھا۔ بدھ کی صبح کمپیوٹر سینٹر مالک محمد انصاری اپنے سینٹر جا رہا تھا راستے میں ان کو رضوان و دیگر کئی نوجوانوں نے گھیر لیا۔ اس کے بعد ملزمین نے ان سے مارپیٹ کی اور پرس و دیگر سامان روک لیا۔ الزام ہے کہ اس درمیان حملہ آوروں160نے اسلحہ سے فائرنگ کر دی۔ اتفاق سے گولی محمد انصاری کو لگنے کے بجائے نزدیک سے گزر رہے دولت گنج میں رہنے والے دلیپ کے پیر میں لگی۔ گولی کی آواز سن کر مقامی لوگ مدد کیلئے جمع ہوئے تو ملزمین وہاں سے بھاگ نکلے۔ پولیس نے زخمی دلیپ کو ٹراما سینٹر میں داخل کرایا ہے۔ اس معاملہ میں پولیس نے کمپیوٹر سینٹر مالک کی تحریر پر ملزمین کے160خلاف رپورٹ درج کر لی ہے۔ 



شدید گرمی وتپش کے سبب جھلس گیا پورا شہر

لکھنؤ۔2جون(فکروخبر/ذرائع) آسمان سے دن بھر آگ برستی رہی۔ پارا ۴۰ ڈگری کو پار کر گیا۔ شدید گرمی و تپش سے لوگ بے حال ہو گئے۔ دوپہر میں تو ایسے حالات رہے کہ محسوس ہو رہا تھا کہ پورا شہر آگ کی بھٹی میں بھن گیا ہے۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی شدید گرمی رہے گی۔ بدھ کو راجدھانی میں زیادہ سے زیادہ ۴۰ء4 ۹ و کم از کم درجہ حرارت ۲۶ء4 ۹ ڈگری سیلسیس رہا۔ جمعرات کو پارا۴۱ کو پار کر سکتا ہے۔جون ماہ کے پہلے دن ہی جس طرح پارا چڑھا اس سے صاف ظاہر ہے کہ آنے والے دنوں میں زبردست گرمی پڑے گی۔ درجہ حرارت چڑھ کر ۱۴ڈگری سیلسیس کے پار جا سکتا ہے۔ موسم کا مزاج اس سال زیادہ گرم ہونے والا ہے۔ اس کا اثر ابھی سے نظر آنے لگا ہے۔ ریجنل موسمیاتی سائنس مرکزکے ڈائرکٹر جے پی گپت نے بتایا کہ آئندہ ایک دو دنوں میں درجہ حرارت ۴۱ ڈگری سے زیادہ پہنچ جائے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستانی شہروں کا درجہ حرارت سال در سال بڑھ رہا ہے۔ سائنسدانوں کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ ہندوستان میں ۴۱۰۲ میں زبردست گرمی پڑی تھی گرمی نے ۱۳۵برسوں کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔ سال۲۰۱۶میں بھی ریکارڈ توڑ گرمی پڑے گی۔ لکھنوٓ میں گذشتہ برس کے مقابلہ ۱۰ڈگری درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔


سونیاپانی اور بجلی کے بحران سے روبرو ہوئیں

رائے بریلی۔2جون(فکروخبر/ذرائع)کانگریس صدر سونیا گاندھی کے پارلیمانی حلقہ رائے بریلی میں بجلی۔پانی کا بحران پیدا ہو گیا ہے ۔دو روزہ دور پر اپنے پارلیمانی حلقہ آئیں محترمہ گاندھی سے وہاں کے لوگوں نے ملاقات کی اور انہیں پانی، بجلی کے بحران سے روبرو کرایا۔دورے کے آخری دن آج انہوں نے بھوئے مؤ گیسٹ ہاؤس میں عوام سے ملاقات کی۔ اس دوران انہوں نے لوگوں کے مسائل سبت اور انہیں دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔وہاں محترمہ گاندھی سے اسمبلی انتخابات میں ٹکٹ مانگنے والوں کی بھی بھیڑ لگی رہی۔اس سے قبل دورے کے پہلے دن کل محترمہ گاندھی نے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے )حکومت کے دو سال پورے ہونے پر ملک کی مختلف ریاستوں میں پروگرام منعقد کئے جانے پر مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا تھا''ملک میں خشک سالی ہے ۔غریبوں کو پیٹ بھرکھانا نہیں مل رہا ہے ۔ان سب سے بے پرواہ مرکز کے وزیر اور بی جے پی کے لیڈران سرکاری اسکیموں کا جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے جشن منانے میں مصروف ہیں''۔
انہوں نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت نے غریبوں اور کسانوں کے لیے ابھی تک ایک بھی نئی اسکیم نافذ نہیں کی ہے ۔جن منصوبوں کو نافذ کرنے کا ڈھنڈڈھورا پیٹا جا رہا ہے ۔ وہ واقعی میں منموہن حکومت کے دور کی منصوبے ہیں جن کا نام بدل کر عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے ۔کانگریس صدر محترمہ گاندھی نے ڈلماؤ نگر پنچایت کے بورڈ اجلاس کے دوران آئندہ اسمبلی انتخابات کے سلسلے میں کارکنوں سے تبادلہ خیال کیا۔انہوں اپنے دو روزہ دورے میں مرکزی سڑک فنڈ سے تعمیر ہونے والی 76.51 کلومیٹر لمبائی اور 127 کروڑ روپے کی لاگت کی چار سڑکوں کا سنگ بنیاد رکھا اور منیھرو گاؤں کے قریب اپنے ترقیاتی فنڈ سے تعمیر ہونے والے سی سی روڈ،انٹر لنک، بارات گھر،رین بسیرا اور پارک سمیت کل 36 منصوبوں کا افتتاح کیا۔


سینئر نہیں سنبھال سکے بندوبست، ۶مریضوں نے توڑا دم

لکھنؤ۔2جون(فکروخبر/ذرائع)ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کی غیر موجودگی میں سینئر ڈاکٹروں نے مورچہ سنبھالنے کا دعویٰ تو کیا لیکن وہ سنبھال نہ سکے۔ منگل کی رات سے بدھ تک مزید چھ مریضوںکی جانچ چلی گئی۔ ٹراما سینٹر کے نیورو سرجری میں بھرتی کانپور کے ارپتا شکلا اور سلطانپور کی جدوبانوبدھ کی موت ہو گئی۔ وہیں ایمرجنسی میڈیسن میں بھرتی چھدانا اور شراوستی کی مالتی دیوی کی منگل کی رات موت ہو گئی۔ ٹراما سینٹر میں ہی سر میں چوٹ کا علاج کرانے آئی عائشہ اور گیسٹرو انٹرائٹس کے مریض فیروز کو سینئر ڈاکٹروں نے ہڑتال بتا کر بھرتی کرنے سے انکار کر دیا۔ تیماردار دونوں مریضوں کو لے کر بلرامپور اسپتال پہنچے جہاں ڈاکٹروں نے دونوں160کو مردہ قرار دے دیا۔
منسوخ ہوئیں موسم گرما کی تعطیلات
یو پی پی جی ایم ای ای کی مخالفت میں مسلسل تیسرے دن ہڑتال پر رہے جونیئر ڈاکٹروں کی وجہ سے خراب ہو رہے نظام کو بچانے کیلئے وائس چانسلر پروفیسر روی کانت نے سبھی سینئر ڈاکٹروں کی گرمی کی چھٹیاں منسوخ کر دیں۔ ادھر ڈائرکٹر جنرل طبی تعلیم نے ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کو انتباہ دیا ہے کہ سبھی ڈاکٹر کام پر واپس آجائیں کیونکہ ہڑتال کرنے سے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جا سکتی ہے۔


جج کے ڈرائیور نے کرائی مکان کی فرضی رجسٹری

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا