English   /   Kannada   /   Nawayathi

گجرات میں صوفیوں کی درگاہیں مسمار ہوئیں ، مودی کو صوفیوں سے محبت کیسی ؟(مزید اہم ترین خبریں )

share with us

مودی سرکار نے اس پر اعتراض اٹھایا اپیل کی سپریم کورٹ نے نچلی عدالت کا فیصلہ بحال رکھا ۔ ان درسگاہوں میں نمایاں صوفی شخصیت ولی دکنی کی درگاہ بھی شامل ہے ، آج تک درگاہوں کی دسرستگی نہ ہو سکی ۔ انہوں نے مزید تقریر کرتے ہوئے کہا کہ بڑے ہندو تو وادی لیڈروں کو بچانے کے لئے مشہور ڈبل ایجنٹ ڈیوڈ ہیڈلی کو لایا گیا ہے کون بنے گا کروڑ پتی جیسے سوالات اس سے پوچھ کر عشرت جہاں جیسی بے قصور کو دہشت پسند قرار دینے کی کوشش ہو رہی ہے جبکہ اس وقت کے اعلیٰ پولس افیسر ونجارا نے بھی سفید اور کالی داڑھی والے کی عشرت جہاں معاملہ میں شامل ہونے کی بات کہی تھی ۔ہاشمی نے مزید تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کنہیا کمار اور روہت ویمولا آج ظلم کے خلاف بہادری کی ایک علامت بن گئے ہیں کارپوریٹ گھرانوں نے میڈیا کو خرید لیا ہے وہ حقائق پر پردہ ڈالتے ہیں ہمیں ظلم کے خلاف ہمت و بہادری سے کھڑے رہنا ہے آگے آنا ہے بولتے رہنا ہے جو بولنے کی جرائت کریگا اس پر تکلیف آئے گی وہ چاہتے ہیں ان کے خلاف آوازیں بلند نہ ہوں ہم بولتے رہیں گے ورنہ آر ایس ایس اپنے فلسفہ میں کامیاب ہو جائے گی انہوں نے مزید کہا کہ یہ جدوجہد ہمت تھی کہ کنہیا کمار اور عمر خالد و دیگر ضمانتوں سے رہا ہوئے ۔سینئر صحافی حسن کمال اور خلیل ذاکر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو صحافیوں کی ملک و ملت کے لئے ایک شاندار تاریخ رہی ہے اور ملک کی آزادی میں مسلمانوں کے ساتھ اردو صحافیوں نے نمایاں کردار ادا کیا اور قربانیاں دیں ۔ آج ملک اس پر آشوب دور سے گزررہا ہے اردو صحافت آج بھی اپنی ایمانداری سے ملک کو فرقہ پرستی ، بدعنوانی سے آزاد کرانے میں اپنا اہم رول ادا کرتا رہے گا ۔ 


سروا شکشا ابھیان کے تحت اقلیتوں کے فنڈز میں کمی افسوسناک:روشن بیگ

اقلیتی تعلیمی اداروں کو آر ٹی ای سے مستثنیٰ رکھنے پر غور: قمر الاسلام

بنگلورو۔20مارچ(فکروخبر/ذرائع)سروا شکشا ابھیان کے تحت ریاست کو ملنے والے گرانٹ میں کمی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے وزیر اطلاعات، انفراسٹرکچر وحج روشن بیگ نے کہاکہ خصوصیت کے ساتھ اقلیتوں کو ملنے والے گرانٹس میں بھاری کمی کو پر کرنے کیلئے قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات کو مناسب پہل کرنی چاہئے، اور مرکزی حکومت سے سفارش کرنی چاہئے کہ شعبۂ تعلیم میں فنڈز کی کمی نہ ہونے پائے۔آج اس کمیشن اور ریاستی محکمۂ تعلیمات کے اشتراک سے شہر میں منعقدہ علاقائی کانفرنس میں صدارتی خطاب کرتے ہوئے روشن بیگ نے کہاکہ پچھلی یو پی اے حکومت کے دوران سروشکشا ابھیان کے تحت اسکولوں کو بنیادی ڈھانچوں کی فراہمی پر کافی فنڈز دئے جاتے رہے، لیکن مرکز میں بی جے پی کے اقتدار پر آنے کے بعد سے سروا شکشا ابھیان کے تحت فنڈز کی فراہمی گھٹ چکی ہے۔ انہوں نے کہاکہ سروا شکشا ابھیان کے تحت اردو اسکولوں کو زیادہ سے زیادہ امداد یقینی بنانے کیلئے انہوں نے بذات خود شہر میں ایک عظیم الشان اردو کانفرنس کا اہتمام کیاتھااور اس وقت کے وزیر برائے فروغ انسانی وسائل ڈاکٹر ایم اے اے فاطمی نے شرکت کی،اور اس کانفرنس کے بعد اردو اور دیگر اقلیتی زبانوں کے اسکولوں میں انفرااسٹرکچر کے سدھار کیلئے کافی فنڈز مہیا کرانے کیلئے قدم اٹھائے گئے۔ موجودہ حکومت نے لسانی اقلیتی اسکولوں کی ترقی کو نظر انداز کررکھا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پرائیویٹ اسکولوں میں جہاں بنیادی تعلیم کی شروعات سے قبل نرسری کا نظام موجود ہے، سرکاری اسکولوں بالخصوص لسانی اقلیتی اسکولوں میں بھی نرسری تعلیم کا نظام قائم ہونا چاہئے،کیونکہ نجی اسکولوں میں پہلی جماعت تک پہنچتے پہنچتے بچہ بہت کچھ سیکھ چکا ہوتا ہے،جبکہ سرکاری اسکولوں میں ایسی صورتحال نہیں ہے۔ پانچ چھ سال کی عمر میں جب بچہ پہلی جماعت میں پڑھنے جاتا ہے تو اسے کچھ نہیں آتا۔ نجی اسکولوں کے بچوں کے مقابل سرکاری اسکولوں کے بچے احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ سروا شکشا ابھیان کے تحت اسکولوں میں بیت الخلاء ، میدان اور اضافی کمروں کی تعمیر کیلئے فنڈز مہیا کرائے جاتے تھے، لیکن اب ان فنڈز کی فراہمی میں کمی کے سبب اسکولوں کو انفرااسٹرکچر مہیا کرانا مشکل ہوچکا ہے۔ کمیشن اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو متوجہ کرائے۔ انہوں نے کہاکہ مرکزی حکومت کی طرف سے اقلیتوں کو نظر انداز کرنا درست نہیں۔ انہوں نے کہاکہ لسانی اقلیتی اسکولوں میں نرسری تعلیم کیلئے آنگن واڑیاں قائم کی جائیں ، جہاں بچوں کو مادری زبان میں تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ سروا شکشا ابھیان کے تحت آنگن واڑیوں کو دئے جانے والے گرانٹس میں بھی بھاری کمی پر انہوں نے افسوس ظاہر کیا۔ وزیر برائے اقلیتی بہبود واوقاف ڈاکٹر قمر الاسلام نے اس موقع پر مخاطب ہوکر کہاکہ وزیر اعلیٰ سدرامیا نے کل جو بجٹ پیش کیا ہے اس میں اقلیتوں کیلئے ملک میں اپنی نوعیت کی منفرد ومثالی اسکیموں کا اعلان کیا ہے، اقلیتی بچوں کی اسکالر شپ سے لے کر بیرون ممالک میں تعلیم کے اخراجات تک ریاستی حکومت برداشت کررہی ہے۔اس کے ساتھ ہی اقلیتی امیدواروں میں قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا بھی ایک پروگرام اپنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعلیٰ سدرامیا نے سماجی انصاف کے تمام تقاضوں کو اس بجٹ کے ذریعہ پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقلیتی کمیشن کو سیول کورٹ کے اختیارات دینے حکومت کی پہل کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ سدرامیا نے اس پر رضامندی ظاہر کردی ہے، اسمبلی میں اس ضمن میں ایک ترمیمی بل پیش کیاہے۔رواں اجلاس میں اس بل کے منظور ہوجانے کی توقع ہے۔ انہوں نے کہاکہ یو پی اے کے دور اقتدار میں ملک کے غریب عوام کی سہولت کیلئے حق تعلیم قانون نافذ کیا گیا۔ جس کی وجہ سے لاکھوں غریب طلبا کو عمدہ معیاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ اقلیتی تعلیمی اداروں کی طرف سے آر ٹی ای قانون کو اپنانے سے انکار کے تنازعہ پر قمر الاسلام نے کہاکہ یہ معاملہ عدالتی جھمیلوں کا شکار ہوچکا ہے، جب تک اس سلسلے میں عدالت کا فیصلہ صادر نہیں ہوجاتا کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ انہوں نے بتایاکہ دوپہر کے کھانے کی اسکیم، یونیفارم کی فراہمی اور تمام اسکولوں سے اسکالر شپ کیلئے ملنے والی تمام درخواستوں کو حکومت نے رواں تعلیمی سال کے دوران منظوری دی ہے۔مرکزسے ملنے والی امداد کے ساتھ حکومت کرناٹک بھی اقلیتوں کی تعلیم پر خطیر فنڈز خرچ کررہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ پری میٹرک اسکالر شپ کیلئے مرکز سے 190 کروڑ روپے ریاست کو مل رہے ہیں تو ریاستی حکومت 195 کروڑ روپے خرچ کررہی ہے، اس اسکالر شپ اسکیم کی مدد سے ڈراپ آؤٹ کی شرح میں کمی لانے میں کافی مددملی ہے۔ بجٹ میں مدارس کی جدید کاری اور وہاں عصری علوم کے اہتمام کیلئے حکومت کی طرف سے کل معلنہ اسکیم کواپنی نوعیت کی منفرداسکیم قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ان مدارس میں طلبا کو عصری تعلیم سے آراستہ کرنے والے اساتذہ کی تنخواہیں حکومت کی طرف سے برداشت کرنے کا منصوبہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ حق تعلیم قانون کے تحت اقلیتی تعلیمی اداروں کو مستثنیٰ قرار دینے کے سلسلے میں حکومت سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔اقلیتی تعلیمی اداروں کے طور پر منظوری کیلئے ہر سال سند حاصل کرنے کی پابندی کے متعلق قمر الاسلام نے بتایاکہ اس سالانہ تجدید کے عمل کو ختم کرتے ہوئے پانچ سال میں ایک مرتبہ منظوری کی شرط پر بھی سنجیدگی سے غور خوض کے بعد فیصلہ لیا گیا ہے۔اس موقع پر کمیشن کے ممبر ڈاکٹر بلتیج سنگھ مان نے اپنے خیالات ظاہر کئے ۔ کمیشن کے ایک اور ممبرظفر آغا نے خیر مقدمی خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے بتایاکہ ملک بھر میں 12ہزار اداروں کو اقلیتی تعلیمی اداروں کا درجہ دیا گیا ہے۔ کمیشن کی طرف سے اس طرح کی کانفرنسوں کا اہتمام ملک کے تمام علاقوں میں کیا جارہا ہے۔ 


اقلیتی تعلیمی ادارے آر ٹی ای سے مستثنیٰ 

قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات سپریم کورٹ کے حکم کو نافذ کرنے کوشاں

بنگلورو۔20مارچ(فکروخبر/ذرائع) حق تعلیم قانون سے اقلیتی اداروں کو مستثنیٰ قرار دینے کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات بھرپور کوشش کررہاہے۔ یہ بات آج کمیشن کے رکن ظفر آغا نے کہی۔ کمیشن کی علاقائی کانفرنس کی تفصیلات ایک اخباری کانفرنس میں دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اقلیتی تعلیمی اداروں پر یہ پابندی قطعاً نہیں ہے کہ اپنے فرقہ سے وابستہ طلبا کو ریزرویشن دیں۔ انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ نے جب یہ واضح کردیا ہے کہ آر ٹی ای کے تحت اقلیتی تعلیمی ادارے نہیں آتے تو ہر ایک کو اس فیصلے کی پابندی کرنی ہوگی۔اس فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانا کمیشن کی بھی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ملک بھر میں 12ہزار سے زائد تعلیمی اداروں کو اقلیتی تعلیمی اداروں کا درجہ دیتے ہوئے سند جاری کی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اقلیتی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی بھرتی اور گرانٹس کی فراہمی میں امتیاز کے سلسلے میں سینکڑوں شکایات کو کمیشن کی طرف سے نمٹایا جاچکا ہے۔ اقلیتی تعلیمی اداروں کے قیام اور اقلیتوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے مختلف اداروں کی طرف سے کی جارہی کوششوں کو آگے بڑھانے کیلئے آئین میں حاصل حقوق ، سپریم کورٹ کے فیصلوں اور مختلف کمیشنوں کی سفارشات کے بارے میں یہ کمیشن بیداری لانے کا کام کررہاہے۔ وزیر اعلیٰ سدرامیا کی طرف سے بجٹ میں اقلیتی تعلیمی اداروں کیلئے منظوری اور تجدید کے معاملات کو سکالاکے تحت لانے کے اقدام کو ظفر آغا نے پرامید قرار دیا، اور اس کیلئے کمیشن کی طرف سے وزیراعلیٰ کو مبارکباد دیتے ہوئے افسران سے خواہش کی کہ اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے متحرک رول ادا کریں۔ انہوں نے بتایاکہ آج منعقدہ کانفرنس میں اقلیتی تعلیمی اداروں کو آر ٹی ای سے استثنیٰ اور اقلیتی تعلیمی ادارہ کا درجہ حاصل کرنے کیلئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے طے شدہ پیمانوں پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ بعض ریاستوں میں اس ضمن میں جو مسائل ہیں ان کو قانونی ڈھنگ سے نمٹنے پر بھی اتفاق کیاگیا۔ انہوں نے بتایاکہ مسلمانوں کی طرف سے چلائے جانے والے تعلیمی اداروں میں 50 یا 75 فیصد سیٹیں مسلمانوں کو دینے اور باقی سیٹیں دیگر طبقات کو دینے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اقلیتی زمرے میں آنے والے تمام طبقات کی تعلیمی ترقی کیلئے یہ کمیشن ہمہ وقت متحرک رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ آر ٹی ای قانون کے تحت اقلیتی تعلیمی اداروں میں ریزرویشن کے سلسلے میں جوبھی پریشانیاں تھیں، سپریم کورٹ کے فیصلے سے ختم ہوچکی ہیں۔اس موقع پر کمیشن کی سکریٹری ریٹا چٹرجی ، رکن بلتیج مان ، محکمۂ تعلیمات کے پرنسپل سکریٹری اجئے سیٹھ ودیگر موجود تھے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا