English   /   Kannada   /   Nawayathi

ویکی پیڈیا میں نہرو کو 'مسلم' بتانے پر بھڑکی کانگریس، مودی سے مانگا جواب(مزید اہم ترین خبریں)

share with us

کانگریس کے مطابق ویکی پیڈیا پر یہ معلومات دی گئی کہ گاگادھر ایک مسلمان کے طور پر پیدا ہوئے تھے اور ان کا نام غیاث الدین غاذی تھا، لیکن انہوں نے برطانوی چنگل سے بچنے کے لئے ہندو نام گنگا دھر رکھ لیا. مودی پر نشانہ لگاتے ہوئے سرجیوالا نے کہا کہ، "کیا وزیر اعظم بتائیں گے کہ کس طرح سابق وزیر اعظم اور کانگریس کے رہنماؤں کے ویکی پیڈیا پیج سے چھیڑ چھاڑ کی گئی اور یہ چھیڑ چھاڑ سرکاری آئی پی سے کی گئی ہے."تاہم، ویکی پیڈیا پیج سے کی گئی چھیڑ چھاڑ کو بعد میں آزاد ایڈیٹرز نے ہٹا دیا.


سشما سوراج کے شوہر کو اپنی کمپنی میں ڈائریکٹر بنانا چاہتے تھے للت مودی

نئی دہلی۔یکم جولائی(فکروخبر/ذرائع) آئی پی ایل کے سابق کمشنر للت مودی نے وزیر خارجہ سشما سوراج کے شوہر سوراج کوشل کو اپنی کمپنی 'انڈوپھفیل' میں ڈاریکٹر کی پوسٹ کی پیشکش کی تھی لیکنکوشل نے اسے ٹھکرا دیا تھا. ایک ٹی وی چینل نے یہ دعوی کیا ہے. چینل کے مطابق اس کے پاس اپریل میں بھیجا گیا مودی کا وہ ای میل موجود ہے، جس میں مہارت کی پیشکش کی گئی تھی. بتا دیں کہ وزیر خارجہ سشما سوراج مودی کو ٹریول ڈاکیومیٹ دلانے میں مدد کرنے کے معاملے میں اپوزیشن کے نشانے پر ہیں. کانگریس سشما کے استعفی کا مطالبہ کر رہی ہے. دوسری طرف، بدھ کو للت مود نے ایک ٹویٹ میں انکشاف کیا کہ بی جے پی کے رہنما ورون گاندھی نے ان سے کہا تھا کہ وہ 375 کروڑ روپے میں ان کی سونیا گاندھی سے ڈیل کرا دیں گے.ٹی وی چینل کے مطابق للت مودی نے سوراج مہارت کو اپنی کمپنی میں الٹرنیٹ ڈاریکٹر بننے کا آفر دیا تھا. اس کے مطابق مودی کی غیر موجودگی میں مہارت بورڈ میٹنگ میں ان کی نمائندگی کریں. اگرچہ کئی سالوں تک للت مودی کے وکیل رہے مہارت نے ان کا یہ پیشکش ٹھکرا دیا تھا. کانگریس کا الزام ہے کہ یہ ای میل اس بات کا ثبوت ہے کہ للت مودی اور سشما سوراج کے درمیان کس طرح رشتے ہیں.
کانگریس لیڈر ٹام وڈککن نے بدھ کو کہا، "وزیر خارجہ کو قومی گیت گانا چاہئے اور عہدہ چھوڑ دینا چاہئے." وہیں، بی جے پی کے ترجمان جی وی ایل نرسمہا راؤ نے کہا کہ، "جب مہارت نے پیشکش ٹھکرا دیا تھا تو پریشانی کیا ہے؟ کوشل نے کبھی للت مودی سے اپنی پروپھیشنل ریلیشن شپ نہیں چھپائی. "

سماج وادی پارٹی لیڈر کا پرینکا گاندھی پرنا قابل اعتراض تبصرہ، مقدمہ درج

الہ آباد۔یکم جولائی(فکروخبر/ذرائع)کانگریس صدر سونیا گاندھی کی بیٹی پرینکا گاندھی کے خلاف قابل اعتراض بیان دینے کے معاملے میں مانجھن پور کوتوالی میں سپا لیڈر پر کیس درج کرایا گیا ہے. پرینکا گاندھی پر نازیبا جملہ ادا کرنیسے کانگریس کارکنوں نے ایس پی دفتر کا گھیراؤ کیا تھا. اس کے بعد ہجلا اسمانی (سابق سیکرٹری یوتھ دہلی پردیش کانگریس) کی تحریر پر مانجھن پور کوتوالی میں سپا لیڈر کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 504 اور 509 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے. پولیس اس معاملے میں شکایت ملی ہے اور پولیس تفتیش کر رہی ہے.
سراتھو رہائشی ڈاکٹر اجمل خان سماج وادی پارٹی کی صوبائی ایگزیکٹو کے رکن رہ چکے ہیں. وہ ایک ذاتی اسپتال کے آپریٹر ہیں. ان پر ان کے اپنے ہی اسپتال کی ایک نرس کے ساتھ جنسی استحصال کا الزام لگا ہے، جس میں ان کے خلاف کوتوالی میں رپورٹ درج ہے. اس معاملے میں صفائی دیتے ہوئے ان کی زبان پھسل گئی اور انہوں نے کہا، 'اگر میں یہ کہہ دوں کہ پرینکا گاندھی میری وائف ہیں، میں نے ان سے شادی کی، پرینکا گاندھی سے میں جنسی کرتا ہوں. تو اس کا کوئی ثبوت ہوتا ہے. ''
مانجھن پور کوتوالی میں دی تحریر
سماج وادی پارٹی کے لیڈر کے بیان کے بعد کانگریس کے ضلع صدر طلعت عظیم نے پولیس سپرنٹنڈنٹ کو شکا ت کرتاپتر دے کر سماج وادی پارٹی لیڈر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور کارروائی کی مانگ کی تھی. وہیں، کوشامبی کے رہنے والے دہلی کانگریس کے سابق سیکرٹری ہجلا عثمانی نے سماج وادی پارٹی کے لیڈر کے خلاف مجھنپر کوتوالی میں تحریر دی.
پولیس نے دی کارروائی کی ہدایت
معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ایس پی نے مجھنپر کوتوالی پولیس کو کارروائی کی ہدایت دی. ایس پی کی ہدایت پر کوتوالی پولیس نے کیس درج کر لیا ہے. طلعت عظیم نے پولیس سپرنٹنڈنٹ سے ملزم کی گرفتاری کی مانگ کی ہے. انہوں نے کہا ہے کہ اس معاملے میں کارروائی نہیں ہوئی کانگریس کارکن سڑک پر اترکر کارکردگی گے.


طالب علم کے ایڈمٹ کارڈ پر اس کی جگہ کتے کی تصویر لگادی گئی

نئی دہلی۔یکم جولائی(فکروخبر/ذرائع )بھارت میں ایک طالب علم کے ایڈمٹ کارڈ پر اس کی جگہ کتے کی تصویر لگادی گئی۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ریاست مغربی بنگال کے شہر مدنا پور میں ایک طالب علم سومیا دیپ ماہتو نے انڈسٹریل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں داخلہ ٹیسٹ کیلئے جب اپنا ایڈمٹ کارڈ ادارے کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا تو وہاں اس کی تصویر کی جگہ کتے کی تصویر تھی۔اس کے ساتھ سومیا دیپ ماہتو کے گھر کا پتا اور دیگر کوائف درج تھے۔طالب علم متعلقہ ادارے میں شکایت درج کروائی تاہم پولیس نے الٹا طالب علم کو ہی حراست میں لے کر تفتیش شروع کر نے کا دعویٰ کیا ہے۔خیال رہے کہ ماہتو نہایت غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے دوسری جانب مغربی بنگال ٹیکنیکل ایجوکیشن کے وزیر اجوال بسواس کا کہا تھا کہ اس معاملے کا ذمہ دار طالب علم خود ہے، اس نے حکومت کو بدنام کرنے کیلئے آن لائن فارم پر کتے کی تصویز لگائی۔خیال رہے کہ طالب علم سومیا دیپ ماہتو کا تعلق ماؤ باغیوں کے سابقہ مضبوط گڑھ جیا پور سے ہے۔اجوال بسواس نے کہا کہ یہ کام غلط ارادے سے کیا گیا ہے کیونکہ ایک لاکھ 33 ہزار طلبہ امتحان میں شریک ہو رہے ہیں مگر ان میں سے کسی نے شکایت نہیں کی، اگر ماہتو نے یہ کام نہیں کیا تو یقیناََ اس انٹرنیٹ کیفے سے یہ کام کیا گیا ہے جہاں سے فارم بھر گیا تھا، لہذا اس کیفے کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔البتہ امتحان لینے والے ادارے کے حکام کا کہنا ہے کہ ماہتو اسی ایڈمٹ کارڈ پر 5 جولائی کو والے ٹیسٹ میں شریک ہو سکتا ہے۔


مغربی بنگال میں مٹی کے تودے گرنے کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک، متعدد زخمی

کولکتہ ۔ یکم جولائی (فکروخبر/ذرائع) ریاست مغربی بنگال میں مٹی کے تودے گرنے کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ریاست مغربی بنگال کے چائے کی کاشت والے علاقے دارجیلنگ اور ملحقہ علاقوں میں شدید بارشوں کے بعد مٹی کے تودے گرنے کے متعدد واقعات رونما ہوئے، امدادی کارکنوں کے مطابق اب تک 11 لاشیں نکالی جا چکی ہیں جبکہ 20 سے زیادہ افراد زخمی ہیں اور ان میں سے کئی کی حالت تشویشناک ہے۔


پولیس نے تہاڑ جیل سے فرار ہو جانے والے دوسرے قیدی کو بھی گرفتار کرلیا

نئی دہلی ۔ یکم جولائی (فکروخبر/ذرائع) پولیس نے تہاڑ جیل سے فرار ہو جانے والے دوسرے خطرناک قیدی کو بھی گرفتار کرلیا۔ذرائع کے مطابق جاوید نامی اس قیدی کو ریاست اتر پردیش کے ضلع گوندا میں اس کے آبائی گاؤں سے حراست میں لیا۔ جاوید اپنے ایک اور ساتھی فیضان کے ہمراہ دارالحکومت نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل سے ایک دیوار عبور کرکے اور دوسری کے نیچے ایک سرنگ کھودکر فرار ہوگئے تھے۔ جیل میں قیدیوں کی گنجائش 6250 ہے لیکن اس وقت اس جیل میں ساڑھے تیرہ ہزار قیدی موجود ہیں ۔ دونوں قیدیوں سے تفتیش جاری ہے۔


کپاس کے کھیت میں 24گھنٹے سے زیادہ دیر تک پانی کھڑارہنے سے فصل کی بڑھوتری رک جاتی ہے،ماہرین زراعت 

نئی دہلی ۔یکم جولائی (فکروخبر/ذرائع)کپاس کے کھیت میں 24گھنٹے سے زیادہ دیر تک پانی کھڑارہنے سے فصل کی بڑھوتری رک جاتی ہے لہٰذاکاشتکار پودے مرجھانے سے بچانے کیلئے 48 گھنٹوں کے اندر اندر پانی کانکاس یقینی بنائیں۔ہرین زراعت نے بتایاکہ اگر 24 سے 48 گھنٹوں تک بارش کا پانی کپاس کے کھیت میں کھڑارہے تو پودے مرجھانا شروع ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فصل کو زیادہ پانی کے نقصان سے بچانے کیلئے کپاس کے کھیت میں کھڑاپانی کسی خالی نچلے کھیت میں نکال دیاجائے اور اگر قریب ہی گنے کی فصل کاشت ہو اور اس میں پانی ڈالا جاسکتاہو تو اس کھیت میں پانی ڈال کر اس کے مفید نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر پانی کپاس کے کھیت سے باہر نہ نکالاجاسکتاہو تو کھیت کے ایک طرف لمبائی کے رخ کھائی کھود کر پانی اس میں جمع کردیاجائے۔ انہوں نے کہاکہ زیادہ بارشیں کپاس کے پودے پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں جس سے پودوں کی غیر ثمر دار بڑھوتری میں تیزی آجاتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ کپاس کے کھیتوں کے اندر اور باہر دوسری نظر انداز جگہوں پر جڑی بوٹیوں کی بھرمار ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں نقصان رساں کیڑوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو جاتاہے۔ انہوں نے کہاکہ کاشتکار موسم برسات کے دوران کسی غفلت کامظاہرہ نہ کرے اور اس ضمن میں ماہرین زراعت کی رہنمائی سے استفادہ یقینی بنائیں۔ 


ٹریفک کی بد نظمی سڑکوں پر عام آدمی کا پیدل گزرنا مشکل

سہارنپور۔یکم جولائی (فکروخبر/ذرائع)شرم کی بات ہے کہ عوام کی تباہی دیکھکر بھی حکومت میں بیٹھے لوگ اور افسران اس طرح کے حادثات پر خاموش بیٹھ کر تماشا دیکھنے میں مصروف ہیں ۔ ٹریفک کی بدحالی اور بد انتظامی پر انکی نظر نہیں رہتی اگر ایک ماہ کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو شہر کے چاروں مین روڑ پر تین درجن سے بھی زیادہ حادثات رونما ہو چکے ہیں ضلع انتظامیہ کے لاکھ دعوؤں کے باوجود ضلع میں سڑوں اور چوراہوں پر ناجائز قبضوں اور ٹریفک کی بدحالی عام ہے سڑکوں پر دکان داروں ، ٹرکوں ، بسوں اور ٹیمپو والوں کے علاوہ ریڑی لگانے والوں کے باعث عام آدمی کا گزر مشکل ہے خصوصی طور پر شہر کے انبالہ روڑ، دہلی روڑ، دہرادون روڑ، بیہٹ روڑ اور چکروتا روڑ پر عام آدمی کا پیدل گزر ناممکن ہو گیا ہے پولس فورس ٹریفک کے نام پر اور ٹریفک کے سدھار کے نام پر ٹریفک کے بہتر انتظامات کے نام الیکٹرانک سسٹم لگ جانے پر بھی ہمیشہ شہر کی اہم چوراہوں پر تعینات نظر آتی ہے مگر اس ٹریفک فورس کا کام صرف آنے والے ٹریفک کو کنٹرول کرنا نہیں بلکہ ٹریفک سے وصولی کرنا ہے ٹرکوں ، بسوں ،ٹیمپؤں ، ٹرالیوں ، ای رکشا اور رہڑی والوں سے اپنی رشوت کی رقم وصول کرنا انکا اپنا پہلا فرض ہے ۔پولیس اور انتظامیہ کی لاپرواہی کے نتیجہ نے ضلع کے اہم چوراہوں پر اور اہم سڑکوں پر تیز دوڑتی بسوں ، ٹریکٹر ٹرالیوں ، کاروں اور ٹرکوں کی زد میں آکر ماہ جون میں بسوں، ٹریکٹر ٹرالیوں اور ٹرکوں سے ٹکراکر موٹر سائیکل ، ٹیمپو اور سائیکل سوار ۳ درجن سے زائد افراد اپنی جان گنواں چکے ہیں جبکہ سیکڑوں لوگ زخمی ہو کر مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج رہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ضلع میں نظم اور نسق نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے ہر کوئی پچاس سے لے کر ستر کی اسپیڈ سے اپنے وہیکل کو سڑکوں پر دوڑانے میں مشغول ہیں چوراہوں پر کھڑے ٹریفک پولیس کے لوگ بائیک سواروں کو جانچ کے نام پر روکتے ہیں ان کے چالان کرتے ہیں اور انسے رشوت وصولتے ہیں جبکہ تیز رفتار بڑی گاڑیوں سے اُلجھ نے کی ان میں ہمت ہی نہیں ہے کمزور لوگوں پر رعب غالب کرنا اور کمزوروں کو ستانا ضلع انتظامیہ اور پولیس کی اپنی خوبی ہے؟ ضلع انتظامیہ اور پولیس افسران پچھلے۲۵ سالوں سے اس ضلع میں ٹریفک کا نظام چست دورست کرنے میں بری طرح سے ناکام رہے ہیں حالات اتنے بد تر ہو چلے ہیں کہ اب سڑکوں پر عام آدمی کا پیدل گزر بھی محفوظ نہیں رہا ہے ہمارے ضلع مجسٹریٹ اور پولس چیف بار بار عوام کے نمائندوں کو یہ باور کرا چکے ہیں کہ ٹریفک کے انتظام کے لئے جو فورس ہم نے شہر کے مختلف اور خاص چوراہوں پر تعینات کر رکھی ہے وہ محنت کش اور ایماندار ہے مگر یہ عام طور سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ ان چوراہوں پر ٹریفک کو کنٹرول کم اور آنے جانے والے ٹریفک سے وصولی زیادہ کی جاتی ہے نتیجہ کے طورپر ہر روز درجن بھر حادثات سڑکوں پر رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں جانی اور مالی نقصان ہونا عام بات ہے۔ حادثوں کی جگہ پولس کافی دیر سے پہنچتی ہے اور جانچ کے نام پر لکھا پڑی کر کے اپنے اپنے تھانوں کو واپس لوٹ جاتی ہے؟ سب کچھ ہوتے دیکھ ضلع انتظامیہ کے افسران خاموش تماشائی بنے ہیں شہر میں ٹریفک کا نظام لاٗٹنگ سسٹم کے بعد بھی پرانا ہی بلاگو ہے جگہ جگہ گڈھوں کی بھرمار ہے سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں خاص مقامات پر غیر ضروری اسپیڈ بریکر کا دبدبہ ہے جبکہ اہم چوراہوں پر اسپیڈ بریکر نہی ہیں؟ تیز رفتار ٹریفک کوکنٹرول کرنے کا بھی معقول بندو بست نہیں ہے ٹریفک کی رفتار عموماً مین چوراہوں پر بھی۷۰ سے لیکر ۸۰ تک دیکھی جا سکتی ہے ایسے ماحول میں کہ جب ٹریفک پولس کے سامنے آنے والے اور جانے والے ٹریفک کی رفتار ۷۰اور ۸۰کے بیچ ہو تب آپ ہونے والے حادثات کو کس طرح کنٹرول کر سکتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ ضلع انتظامیہ اور پولس انتظامیہ سڑک حادثوں کے لئے پوری طرح سے ذمہ دار ہے تو اسمیں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں عام آدمی صبح، دوپہر اور شام ان سڑکوں پر پیدل ، سائیکل اور رکشا سے چلتے ہوئے خوف کھاتا ہے اسکو یہ معلوم نہیں رہتا کہ کونسا ٹرک ، بس یا کار کب اسکو اپنی ذد میں لے لیں یہ بات نہیں کہ اس روڑ پر پولس نہیں رہتی پولس کی بھیڑ اکثر ان چوراہوں اور خصوصی سڑکوں پر لگی رہتی ہے لیکن ٹریفک کی بدحالی اور بد انتظامی پر انکی نظر نہیں رہتی اگر ایک ماہ کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو شہر کے چاروں مین روڑپر تین درجن حادثات رونما ہو چکے ہیں سیکڑوں لوگ زخمی ہو ئے مگر افسوس کی بات ہے کہ سیاسی رہنما اور افسران ان روز مرہ ہونے والے حادثات سے خود کو دور رکھے ہوئے ہیں عام آدمی کی زندگی ان کے لئے کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ حادثات ہوتے رہتے ہیں مرنے والوں کا پوسٹ مارٹم کر دیا جاتا ہے پولس جانچ کے نام پر لکھا پڑھی کرتی ہے اور معاملہسرکاری فائلوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا