English   /   Kannada   /   Nawayathi

کیا وجہ ہے کہ یہ انکاونٹر پرنٹ میڈیا کے پہلے صفحات پر ٹھیک طرح سے ایک کالم کی بھی جگہ نہیں بنا پایا ؛(مزید اہم ترین خبریں)

share with us

یہ اس وقت کی خبر ہے جب ایک دن پہلے یعنی 7 اپریل کو ہی آندھرا پردیش پولس نے صندل کی اسمگلنگ کے الزم مٰ 20 مزدوروں کا قتل کر دیا تھا، ان میں سے زیادہ تر تامل تھے.ہندوستان ٹائمز کی 8 اپریل پہلی خبر کی سرخی دیکھیں اور اسی دن تلنگانہ میں پولیس نے زیر حراست میں پانچ مسلم نوجوانوں کو مار ڈالا. ان کے ہاتھ بندھے تھے اور انہیں کورٹ لے جایا جا رہا تھا. ہندوستان کے دو بڑے انگریزی اخبارات کے ایڈیٹران کو ان دونوں میں سے کوئی بھی خبر اہم نہیں لگی. حقیقت یہی ہے کہ ملک کے متوسط ​​طبقے اور انگریزی داں ہندوستان کو مزدوروں یا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی غیر قانونی وارداتوں کی کوئی فکر نہیں ہے. اب اگر ہم ان خبروں پر آن لائن تبصروں کو پڑھیں تو زیادہ تر تبصرے پولس کارروائی کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں. یہ تبصرے ظلم کے شکار افراد کے تئیں نفرت سے بھرے ہوئے ہیں اور انہیں بغیر مقدمے کے ہی سزا دینے کے قابل سمجھا گیا ہے. یہ تصادم پرنٹ میڈیا کے پہلے صفحے پر ٹھیک طرح سے ایک کالم کی بھی جگہ نہیں بنا پایا.میڈیا رپورٹوں میں ان خبروں کو انتہائی متعصبانہ اور بے رحمی کے لہجے میں کیا گیا. عام طور پر ذمہ دار مانا جانے والے اخبار 'انڈین ایكسپریس' نے اس خبر کو سب سے پہلے دیا اور عنوان دیا: ' تلنگانہ میں کورٹ لے جاتے ہوئے پانچ سیمی کارکنوں کو گولی ماری.انڈین ایکسپریس کی چھوٹی سی خبر اور اس کی متعصبانہ تفصیلات گولی مارنے کی دلیل کچھ اس طرح دی ہے اخبار کے نامہ نگار نے لکھا، "مرنے والوں میں وقارالدين بھی شامل ہے جس نے دو پولیس اہلکاروں کا قتل کیا تھا اور حیدرآباد میں انہیں بار بار نشانہ بنا کر دہشت زدہ کیا تھا." توجہ دینے کی بات ہے کہ ایک قومی روزنامے نے اس طرح کے ، فرضی دعوے اور غیر معیاری زبان کی اجازت کیسے دی، لیکن یہ ہندوستان ہے، یہاں سب ممکن ہی ہے۔ پولیس نے 'انڈین ایكسپریس' کو بتایا کہ، "وارنگل سے نکلتے ہی وقارالدين اور ان کے ساتھیوں نے مسلح سکیورٹی پر تھوک کر، طعنے دے دے کر اور گالی گلوچ کر کے انہیں مسلسل اکسایا تھا" پولیس کے مطابق، "چار دیگر مرنے والے ہیں- محمد ذاكر، سید حشمت، اظہار خان اور سلیمان. ان سب کے کئی اور نام ہیں." رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، "وقار الدين سابق سیمی کارکن اور ایک شدت پسند تنظیم درسگاہ جہاد و شہادت کا رکن تھا. بابری مسجد اور مکہ مسجد دھماکہ کی سالگرہ پر وقار الدين نے پولیس ٹیم پر کئی سنگین حملے کئے تھے." اس میں مزید کہا گیا ہے، "دسمبر 2008 میں وقارالدين نے سنتوشي نگر کے پاس ایک ٹیم پر گولی چلا دی تھی جس میں تین پولیس اہلکار زخمی ہو گئے تھے. 18 مئی 2009 میں اس نے ایک هوم گارڈ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، جبکہ 14 مئی 2010 میں شاہ علی باڈا کے پاس ایک كانسٹیبل کی گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا. " لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان سب الزامات کے لئے کسی جج نے انہیں قصوروار پایا تھا؟ شاید نہیں، کیونکہ وہ ایک زیر غور قیدی کے طور پر کورٹ جا رہے تھے. لیکن یہ حقیقت بھی اخبار کو نہیں روک پائی اور اس نے نتیجہ نکالا کہ یہ سارے کام انہوں نے ہی انجام دیئے تھے. لیکن اگر ایسا ہی امریکہ میں ہوتا کہ ایک ہی دن میں 20 سیاہ لوگوں کوغیرقانونی طور پر مار دیا گیا ہوتا تو حکومت گر گئی ہوتی اور لوگ متاثرین کے حق میں سڑکوں پر اتر جاتے. ہندوستان میں، ہم میں سے وہ لوگ جنہوں نے اس پولس کارروائی کو بہت اچھا نہیں سمجھا، صرف جمائی لے کر رہ گئے..


مسلم یونیورسٹی کورٹ کیلئے اراکین منتخب

علی گڑھ۔11اپریل(فکروخبر/ذرائع) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ میں اساتذہ کے زمرے سے نمائندگی کے لئے منعقدہ انتخاب میں دس اراکین منتخب ہوئے ہیں ۔چیف الیکشن آفیسر پروفیسرا قبال پرویز نے بتایا کہ اس انتخاب میں پروفیسر زمرے سے پروفیسر نجم الاسلام اور پروفیسر شاداب خورشید، ایسو سی ایٹ پروفیسر زمرے سے ڈاکٹر محمد شمیم، ڈاکٹر حمّاد عثمانی اور ڈاکٹر مبین بیگ جبکہ اسسٹنٹ پروفیسر زمرے سے ڈاکٹر محمدراشد، ڈاکٹر ریاض احمد، ڈاکٹر یاسر حسن صدیقی، ڈاکٹر محمد یونس خاں اور ڈاکٹر حشمت علی خاں منتخب ہوئے ہیں۔


ریاستی وزیر کی گورکھپور میں آمد

گورکھپور۔11اپریل(فکروخبر/ذرائع )اتر پردیش کابینہ کے محکمہ تعمیرات عامہ ، آب پاشی ، پانی وسائل ، کو آپریٹیو ،ٹیکس ، و ضابطہ آباد کاری کے وزیر شیو پال سنگھ یادو ۴۱ ؍اپریل کو سرکٹ ہاؤس پہنچے شیو پال سنگھ یادو سرکٹ ہاؤس میں محکمہ افسران کے ساتھ جائزہ جلسہ اور ضرورت کے مطابق معائنہ کریں گے اور ۱۱؍ بجے گاؤں گاجر نرسنگ تھانہ کھجنی میں دیا شنکر رام ترپاٹھی کی جانب سے پروگرام میں شرکت کریں گے۔


مرکز کی عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف پد یاترا

لکھنؤ ۔11اپریل(فکروخبر/ذرائع )مرکزی حکومت کے کسان اور مزدور مخالف حصول آراضی آرڈیننس کے خلاف کانگریس کی پد یاترا جمعہ کو مختلف اسمبلی حلقوں میں نکالی گئی ۔ پد یاترا میں پارٹی کے سینئر رہنما، عہدہ دار اور کار کنان مرکزی حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں سے عوام کو بیدار کر رہے ہیں۔ جمعرات سے شروع ہوئی پد یاتراآئندہ ۷۱؍اپریل تک چلے گی ۔ جس میں ۹۱ اپریل کو دہلی میں ہونے والی کسان ریلی میں شامل ہونے کی اپیل عوام سے کی جائے گی ۔پارٹی ترجمان ویریندر مدان نے بتایا کہ مظفر نگر کی چرتھاول ، بجنور کی نجیب آباد ، بدایوں کی بدایوں ، ایٹا کی علی گنج ، میرٹھ جنوبی ، علی گڑھ کی برولی ، جالون کی اروئی ، جھانسی کی ببینہ ، باندا کی تندواری ، فتح پور کی کھاگہ ، کانپور دیہات کی سکندرا ، پرتاپ گڑھ کی وشو ناتھ گنج ، امبیڈ نگر کی جلال پور ، فیر وز آباد کی شکوہ آباد سمیت مختلف اسمبلی حلقوں میں پد یاتر ا نکالی گئی ۔پد یاتر ا میں کانگریسیوں نے مرکز کی مخالف پالیسیوں کے بارے میں عوام کو رو شناس کرایا ۔ ساتھ ہی پارٹی کی جانب سے ۹۱؍ اپریل کو ہونے والی کسان ریلی میں شامل ہونے کی اپیل کی ۔ ڈاکٹر کھتری آج سنت کبیر نگر میں : مرکز مخالف پد یاتر ا کے درمیان ریاستی کانگریس کے صدر ڈاکٹر کھتری سنیچر کو سنت کبیر نگر کی میہنداول کی پد یاترا میں شامل ہوں گے۔ پارٹی ترجمان نے بتایا کہ ڈاکٹر کھتری اتوار کو لکھنؤ کی بخشی کا تالاب اسمبلی حلقہ میں منعقد پد یاترا میں حصہ لیں گے۔ پردیپ ماتھر ۶۱ اپریل کو فیر وز آباد اور ۷۱ اپریل کو آگرہ مشرقی حلقہ پد یاترا میں شامل ہوں گے۔لکھنؤمیں ریتابہو گناجوشی نے کانگریس پد یاتر ا کی قیادت کی۔۔


رکن پارلیمنٹ ہیما مالنی نے وزیر مالیات سے کی ملاقات

متھر۔11اپریل(فکروخبر/ذرائع )بے موسم کی بارش ، ژالہ باری جیسی قدرتی آفات سے فصل کی بربادی کی بھرپائی کے مستقل حل کے لئے رکن پارلیمنٹ ہیمامالنی ایک درجن کاشت کاروں اور ان کے نمائندوں کے ساتھ وزیر مالیات ارون جیٹلی سے ملاقات کرنے کیلئے آج یہاں سے روانہ ہو گئیں ۔ روانہ ہونے سے قبل ہیمامالنی نے بتایا کہ وہ کسانوں کو راحت دلانے کے سلسلے میں حکومت کے ذریعہ کی جانے والی کاروائی کے کچھ پہلوؤں کی جانب وزیر اعظم کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کریں گی جن پر ابھی تک غور نہیں کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان میں سب سے زیادہ اہم خود کشی کرنے والے معاملات ہیں جس کے تحت کوئی معاوضہ نہیں ملتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے اسی لئے ریاستی حکومت سینکڑوں کسانوں کی خود کشی کے بعد بھی اس مصیبت سے صرف ۰۳ کاشت کاروں کی موت کی تصدیق کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی معاملوں میں ٹھیکے پر کھتی کرنے والوں کو ا سکی فصل کا معاوضہ نہیں ملتا جبکہ کھیت کے مالک کو معاوضہ ملتا ہے۔دہلی پہنچنے کے بعد انہوں نے مرکزی وزیر ارون جیٹلی سے ملاقات کی اور انہیں مطلبات سے متعلق عرض داشت پیش کرتے ہوئے بے موسم بارش اور ژالہ باری سے متاثر کاشت کاروں کو زیادہ سے زیادہ امداد دینے کی گزارش کی ان کے ساتھ کاشت کاروں کے نمائندے بھی تھیانہوں نے مذکورہ معاملات اور اس طرح کیدیگر مسائل کا تصفیہ کرانے کیلئے مرکزی حکومت سے غور کرنے کا مطالبہ کیا۔ہیما مالنی کے ساتھ کاشت کاروں اور ان کے نمائندوں کے طور پر پدم سنگھ شرما بھگوت سروپ پانڈے ، بھیم سنگھ شرما، چندر پال سنگھ، دویندر شرما، رام جی لال اور وجیندر پر دھان روانہ ہوئے۔


ریاست میں بے روزگاری کامعاملہ قابو سے باہر

بے روزگار نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی عمریں حصول نوکری کی حد پار

سرینگر۔11اپریل(فکروخبر/ذرائع )ریاست میں بے روزگاری کامعاملہ قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے ا کثر بے روزگار نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی عمریں حصول نوکری کی حد پار کرنے لگی ہے اور اس طرح اُن کا مستقبل تاریک ہوتا جارہا ہے اور اگر اس پر قابو پانے کیلئے فوری نوعیت کے اقدامات نہیں کئے گئے تو یہی مسئلہ امن وقانون کا روپ بھی دھار سکتا ہے ۔اطلاعات کے مطابق اربا ب اقتدار کی طرف سے اس یقین دہانی کے باوجود کہ بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے گا اور پڑے لکھے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کیلئے ترجیح بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں گے لیکن حقائق اس کے برعکس ہے بے روزگاری میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ہر سال کالجوں ، پیشہ ورانہ اداروں اور یونیورسٹی سے سینکڑوں کی تعداد میں بے روزگار کی فوج نکلتی ہے جن کو کسی جگہ متعین کرنا بس کی بات نہیں لگتی ہے ۔ بے روزگار نوجوانوں کو کسی ادارے یا محکمے میں تعینات کرنے کیلئے نہ تو کوئی واضح پالیسی ہے اور نا ہی کوئی پروگرام یہ سارا عمل انتشار کا شکار ہوگیا ہے ۔ماہرین کامانناہے کہ بے روزگاری پر قابو پانے کیلئے اگر فوری نوعیت کے اقدامات نہیں کئے گئے تو اس سے نئے نئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور یہی مسئلہ امن وقانون کا روپ بھی دھار سکتا ہے ۔ذرائع کے مطابق اگر چہ بار بار اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ ریکروٹمنٹ ایجنسیوں کو متحرک کیا جائے گا اور قابلیت کی بنیادوں پر بے روزگار نوجوانوں کو روز گار فراہم کیا جائے گا لیکن یہ سب کچھ زبانے جمع خرچ کے مترادف ہے اس دوران بیشتربے روزگار نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی عمریں حصول نوکری کی حد پار کرنے لگی ہے اور اس طرح اُن کا مستقبل تاریک ہوتا جارہا ہے ۔ بے روزگار نوجوانوں میں سینکڑوں پی ایچ ڈی ، ایم فل ، ایم کام ، ایم اے ، ایم ایس سی اور گریجویٹوں کے علاوہ ڈاکٹر اور انجینئر بھی شامل ہیں دوسری طرف وادی میں چونکہ سرکاری سطح پر برائے نام بھی کارخانے نہیں ہے جس کے نتیجے میں ان بے روزگاروں کیلئے اس سلسلے میں بھی کوئی کاروائی نہیں کی جاسکتی ہے ۔ اگر چہ سابق مخلوط سرکار نوجوانوں کو خود روزگار سکیم کے تحت کارخانے کھولنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن کارخانے بھی نہیں چلتے ہیں کیونکہ ماضی میں جن نوجوانوں نے از خود سیلف ایمپلائمنٹ سکیم کے تحت کارخانے کھولے تو ان کیلئے خام مال کا حصول انتہائی مشکل بن گیا جبکہ کارخانوں سے نکلنے والی اشیاء کیلئے خریداری کا مسئلہ اُن کیلئے درد سر بن گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیشتر کارخانے یا تو بند ہوگئے یا ان کے مالکان نے کوئی دوسرا پیشہ اختیار کیا ۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہارباب اقتدار کو چاہیے کہ بے روزگاری کا خاتمہ کرنے کیلئے ایک ٹھوس اور واضح سکیم مرتب کریں تاکہ پڑے لکھے نوجوانوں کا مستقبل تاریک نہ ہونے پائے اور وہ بھی حصول روزگار کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھانے سے بچ کر ملک و قوم کی خدمت کریں ۔ اگر چہ سابق سرکاریں غیر ریاستی کمپنیوں کو وادی میں سرمایہ کاری لگانے کیلئے کوششیں کررہے ہیں تاہم ابھی تک اس کے خاطر خواہ نتائج ابھی تک سامنے نہیں آئیے ہیں۔نامساعد حالات کے دوران وادی میں موجود کئی کمپنیوں نے اپنے دفاتر بند کر کے جموں کا رُخ کیا جس کی وجہ سے وادی کشمیر کے وہ نوجوان جو ان نجی کمپنیوں میں روزگار کماتے تھے بے روزگار ہوکر رہ گئے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا