English   /   Kannada   /   Nawayathi

دہلی: شاہی مسجد کے امام کو زندہ جلانے کی کوشش(مزید اہم ترین خبریں )

share with us

ملحوظ رہے کہ کل ہیشاہی امام مولانا سید احمد بخاری کے 19 سالہ فرزند شعبان بخاری کو ان کے والد کا جانشین مقرر کیا گیا ہے۔ وہ ملک کی سب سے بڑی جامع مسجد دہلی کے 14 ویں شاہی امام ہیں۔ مولانا سید احمد بخاری 2000ء سے یہ اہم عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انسانیت کی خدمت کے جذبہ اور مذہبی صلاحیتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس اہم و بااثر عہدہ کے لئے شعبان بخاری کا انتخاب کیا گیا ہے۔ وہ اس وقت ایک خانگی یونیورسٹی سے سوشیل ورک میں بیچلر ڈگری کررہے ہیں۔ تقریب جانشینی 22 نومبر کو منعقد ہوگی جس میں انہیں نائب شاہی امام کی ذمہ داری تفویض کی جائے گی۔ اس تقریب میں دنیا بھر سے تقریباً ایک ہزار مذہبی رہنما شرکت کریں گے۔ انہیں شاہی امام کی سرپرستی حاصل رہے گی جو تاحیات اس عہدہ پر برقرار رہیں گے۔ شعبان بخاری اپنے والد سے یہ ذمہ داری حاصل کریں گے۔ جامع مسجد دہلی کی امامت تقریباً 400 سال سے نسل در نسل اسی ایک خاندان میں چلی آرہی ہے۔جامع مسجد کی تاریخ 1656ء کی ہے جب عبدالغفور بخاری کو اس وقت کے مغل شہنشاہ شاہ جہاں نےشاہی امام کا لقب عطا کیا تھا۔ ازبکستان کے شہنشاہ شاہ بخارا نے شاہ جہاں کی درخواست پر انہیں دہلی روانہ کیا تھا۔ 1656ء میں پہلی نماز ادا کی گئی اور اس دن سے انہیں شاہی امام کا لقب حاصل ہوا۔ مولانا سید احمد بخاری نے بتایا کہ جامع مسجد کی امامت نسل در نسل اسی خاندان میں چلی آرہی ہے


ملک کے حالیہ فسادات پر تشویش کا اظہار، 

جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات میں فرقہ پرستوں کو شکست دیں۔ مولانا قاسمی

نئی دہلی۔27 اکتوبر (فکروخبر/ذرائع) آل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدر مولانا محمداعجاز عرفی قاسمی نے ملک کے کشیدہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب سے بی جے پی کی حکومت مرکز میں قائم ہوئی ہے فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور ہر چھوٹی موٹی واردات کو فرقہ وارانہ شکل دیا جارہاہے۔انہوں نے گجرات کے ڈابھیل اور دہلی کے ترلوک پوری میں ہونے والے فسادات پرتشویش کا اظہا رکرتے ہوئے دعوی کیا کہ ملک میں یہ چلن ہوگیا ہے کہ کشیدگی پھیلاؤ اور ووٹوں کی صف بندی کرو ۔ انہوں نے کہاجموں و کشمیر اور جھارکھنڈ میں ہونے والے اسمبلی انتخاب میں ایک خاص پارٹی اسی طریقہ کار پر عمل کرکے اقتدار پر قابض ہونا چاہتی ہے۔ یہ ملک کے سیکولر عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں امن قائم رکھیں اور ایسی پارٹیوں کے منصوبوں کو ناکام بنائیں۔مولانا عرفی نے ہریانہ اور مہاراشٹر میں بی جے پی کی کامیابی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی لہر کے پیچھے کوئی عوامی طاقت نہیں، بلکہ کانگریس کی کمزور قائدانہ صلاحیت اورگاؤں گاؤں زمینی سطح پر محنت نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیگرسیکولر علاقائی پارٹیوں کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے ہی اس ملک میں سیکولر طاقتوں کے بجائے نفرت کی سیاست کرنے والی پارٹیاں کم ووٹ ملنے کے باوجود اقتدار کی کرسی پر متمکن ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے موجودہ مرکزی حکومت کے ذریعے مخصوص اقلیتی طبقے کو روزگار اور ترقی کے مواقع سے محروم رکھنے کی درون خانہ پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بر سر اقتدار پارٹی گرچہ وہ مخصوص آئیڈیالوجی کی ہی پابند کیوں نہ ہو، ملک کے ہر مذہب اور ہر طبقے کی نمائندہ ہوتی ہے اور اس کو ہر طبقے کی ترقی اور خوش حالی کے لیے پالیسی وضع کرنا چاہیے۔ اگر کوئی پارٹی جمہوری طرز حکومت میں کسی طبقے کو نظر انداز کرتی ہے تو یہ اس ملک کے آئینی تقاضوں کے منافی ہے۔انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ واضح اکثریت کے ساتھ حکومت تشکیل کرنے کے بعد ملک کے طول و عرض میں جس طرح ایک خاص پارٹی کے ذریعے اشتعال انگیز اور فرقہ پرستانہ خیالات کی تشہیر اور تبلیغ کی جارہی ہے، اس سے اس ملک کی کثیر قومی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ انھوں نے پچھلے عام انتخابات کے حیران کن نتائج اور کمزور حزب مخالف کے تعلق سے کہا کہ اگر بی جے پی ملک کے جمہوری نظام میں بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے، تو اس کو عوام کے اس فیصلے کا احترام کرتے ہوئے یہاں کی کثرت میں وحدت سے عبارت تہدیبی روایات کی پاس داری کرنا چاہیے۔اور سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کے فارمولے پرعمل کرکے دکھا ناچاہیے۔ مولانا قاسمی نے ملک کے موجودہ نازک حالات سے سبق لیتے ہوئے ملک کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ اگر ان کے ساتھ تعصب اور نا انصافی کا رویہ برتا جارہا ہے تو اس سے انھیں دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اس ملک کا مسلمان تقسیم ہند اور ایمرجنسی کے بدترین اور ناقابل بیان دور سے گزر چکا ہے، انھیں ان حالات سے کسی خوف و ہراس میں مبتلا ہونے کے بجائے، اس ملک کے سیکولر آئین پر یقین رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کے تعلق سے جامع اور پختہ منصوبہ بندی کرنی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخاب کا اعلان ہوچکا ہے ۔ لوک سبھا، ہریانہ اور مہاراشٹر اسمبلی کے انتخابات سے سبق لیتے ہوئے سیکولر پارٹیوں کو متحد ہوکر فرقہ پرست پارٹی کا مقابلہ کرنا چاہئے اور خصوصاً مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلکی تنازعات اور علاقائیت پرستی کو پس پشت ڈال کر ایسے نمائندوں کو منتخب کریں جو ملک کی جمہوریت کومضبوط کریں اور مسلمانوں کے لئے ان کے دل میں نرم گوشہ ہو۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا