English   /   Kannada   /   Nawayathi

فسادات آر ایس ایس اور سماج وادی پارٹی کی ملی بھگت کا نتیجہ

share with us

آر ایس ایس اور سماج وادی پارٹی کی ملی بھگت سے مظفر نگر کا فساد برپا کیا گیا۔ پہلے وشوا ہندو پریشد کی یاترا کا ڈھونگ کیا گیا۔ اس کے بعد ملائم سنگھ اور اشوک سنگھل کی دو گھنٹے تک بند کمرے میں بات چیت رہی۔ ان واقعات کا نتیجہ مظفر نگر فساد کی شکل میں برآمد ہوا۔ اعتماد نیوز کے مطابق بیرسٹر اسد الدین اویسی احمد نگر فرسٹ لانسر میں فخر ملت حضرت مولانا محمد عبدالواحد اویسی سابق صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کی 38 ویں برسی کے موقع پر جلسہ یاد فخر ملت سے صدارتی خطاب کررہے تھے۔ اس جلسہ میں علما مجلسی ارکان مقننہ کارپوریٹرس ابتدائی مجالس کے صدور و معتمدین سرگرم کارکنان اور محبان مجلس کی بڑی تعداد شریک تھی جس میں جنہوں نے مرحوم صدر کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ صدر مجلس نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملائم سنگھ اس طرح کی حرکتوں کے ذریعہ وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ ان کا یہ خواب صرف خواب ہی بن کر رہ جائے گا۔ صدر مجلس نے کہا کہ مظفر نگر کے حالات نہایت قابل مذمت ہیں۔ وہ مظفر نگر کا دورہ کرنا چاہتے تھے پہلے تو انہیں اجازت دی گئی ایک گھنٹہ کے بعد پابندی عائد کردی گئی۔ ہم پریس کانفرنس یا تقریر کرنے نہیں جارہے تھے متاثرین میں امداد تقسیم کرنے کے لئے جارہے تھے۔ بیرسٹر اویسی نے دہلی بھاسکر کے 16 ستمبر کے اخبار کا حوالہ دیتے ہوئے ایک مسلم خاتون کا واقعہ سنایا۔ اس ماں نے اخبار کو بیان دیا کہ اس کی آنکھوں کے روبرو اس کی 3 لڑکیوں کی عصمت ریزی کی گئی۔ اس کے بعد ایک لڑکی کو غائب کردیا گیا جبکہ دیگر دو لڑکیوں کے ساتھ وہ جان بچا کر بھاگ کھڑی ہوئی۔ بیرسٹر اسد اویسی نے بتایا کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی کے طلبہ نے اترپردیش کے شاملی ضلع کا دورہ کرکے انہیں بتایا کہ اس علاقہ میں 200 مسلم مکانوں کو جلا دیا گیا۔ مساجد کو منہدم کردیا گیا۔ مسلمانوں کی دکانیں لوٹ لی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات بیان کرنا کسی کو مشتعل کرنا نہیں بلکہ حقائق کا اظہار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے رکن اسمبلی کی زہر افشاں تقریر کے بعد جو فساد ہوا اس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 50 لوگ مارے گئے اور 40 ہزار بے گھر ہوگئے۔ ان واقعات کے بعد اس کے ذمہ دار ارکان اسمبلی کو گرفتار نہیں کیا جاتا بلکہ وہ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے جاتے ہیں جبکہ دوسری جانب اکبر الدین اویسی پر مبینہ تقریر کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کردیا گیا اور انہیں گرفتار کرکے تقریبا دیڑھ ماہ جیل میں رکھا گیا۔ یہ سیکولرازم کا ایک مذاق ہے۔ اس ملک میں ایک طبقہ کے لئے قانون کا علیحدہ طریقہ سے نفاذ کیا جاتا ہے تو دوسرے طبقہ کے لئے قانون دوسرے طریقہ سے نافذ کیا جاتا ہے۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ اس ملک میں سازش کے تحت سیکولرازم کو ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ فرقہ پرست طاقتیں ہندوں کو مسلمانوں کا خوف دلارہی ہیں۔ مدھیہ پردیش کے ہردا ضلع میں مبینہ طور پر گائے کاٹنے کے الزام پر مسلمانوں کے 20 دکانوں کو نذر آتش کردیا گیا اور 50 مسلمانوں کو گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے قانون کے مطابق گائے کاٹنے پر پابندی ہے۔ ہمیں قانون نہیں توڑنا چاہئے جبکہ بیل اور بھینس ذبح کئے جاسکتے ہیں۔ انسداد گا کشی قانون کے نام پر عید الاضحی سے قبل بیلوں اور بھینسوں کو بھی روکا جارہا ہے۔ بیرسٹر اسد اویسی نے کہا کہ فرقہ پرست طاقتیں نریندر مودی کو وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر پیش کررہی ہیں اور نریندر مودی گجرات کی ترقی کا دعوی کرتے نہیں تھکتے۔ اگر گجرات کی ترقی کا آندھراپردیش سے بھی تقابل کیا جائے تو نریندر مودی کے دعوں کی قلعی کھل جائے گی۔

صدر مجلس نے گجرات اور آندھراپردیش کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ گجرات میں مسلمانوں کی آبادی 9.1 فیصد اور آندھراپردیش میں 9.2 فیصد ہے۔ گجرات میں 45.3 فیصد مسلمان بچے 7 ویں میں کامیاب ہوتے ہیں تو آندھراپردیش میں 52.6 مسلم بچے کامیاب ہوتے ہیں۔ ایس ایس سی میں گجرات میں 26.10 فیصد تو آندھراپردیش میں 40 فیصد سے زائد مسلم طلبہ کامیاب ہوتے ہیں۔ گرایجویشن میں گجرات میں 5 فیصد کامیاب ہوتے ہیں تو آندھراپردیش میں 9.6 فیصد مسلم بچے گرایجویشن کامیاب کرتے ہیں۔ گجرات میں جب مسلم بچے گرایجویشن کامیاب نہیں ہوں گے تو انہیں نوکری کیسے مل سکے گی۔ انہوں نے کہا سرکاری ملازمتوں میں گجرات اور آندھراپردیش میں مسلمانوں کے تناسب کا جائزہ لیا جائے تو ملازمتوں میں گجرات میں 5.8 فیصد تو آندھراپردیش میں 6.8 فیصد مسلمان سرکاری ملازم ہیں۔ تعلیمی میدان میں اساتذہ لکچررس گجرات میں 4.5 فیصد مسلمان ملازم ہیں تو آندھراپردیش میں 7.9 فیصد ہیں۔ صحت کے میدان میں گجرات میں مسلمانوں کا تناسب 1.5 فیصد ہے تو آندھراپردیش میں 6.4 فیصد محکمہ داخلہ میں گجرات میں 5.6 فیصد مسلمان ہیں تو آندھراپردیش میں 14.6 ہیں۔ 2007 میں گجرات پولیس میں جملہ مسلمانوں کی تعداد 4503 تھی تو 2012 میں یہ تعداد 3045 تک پہنچ گئی۔ بیرسٹر اسد اویسی نے سوال کیا کہ یہ کیسی ترقی ہے۔ 5 برسوں میں تقریبا 1200 پولیس ملازمین کی کمی ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ گجرات کے اعداد و شمار آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں۔ نریندر مودی سردار ولبھ بھائی پٹیل کا نام لیتے نہیں تھکتے جبکہ سردار پٹیل نے ہی آر ایس ایس پر پابندی لگائی تھی۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے فرقہ پرست تنظیموں کو جن سنگھ کی ناجائز اولادیں قرار دیا تھا۔ صدر مجلس نے کہا کہ تلگودیشم کے سربراہ چندرا بابو نائیڈو حیدرآباد کو ترقی دینے کا دعوی کرتے ہیں جبکہ نظام کے دور حکومت میں حیدرآباد میں سڑکوں کو پانی سے دھویا جاتا تھا آج شہر میں پینے کے لئے پانی دستیاب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ قرار دینے کی باتیں کی جارہی ہیں جبکہ مجلس حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنانے کی مخالفت کرے گی۔ حیدرآباد تلنگانہ کا صدر مقام بنے گا۔ اس سلسلہ میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ صدر مجلس نے کہا کہ جب بھی مورخ ہندوستان میں مسلم قیادت کے بارے میں لکھے گا تو اس کا تذکرہ فخر ملت کے بغیر مکمل نہیں ہوسکے گا۔ حضرت فخر ملت مولانا محمد عبدالواحد اویسی سابق صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین مسلمانوں کے ایک دور اندیش قائد متبحر عالم دین ممتاز قانون دان تھے۔ پولیس ایکشن کے بعد انہوں نے مسلمانوں کے دلوں سے خوف کو نکالا۔ دستور ہند کے تحت مسلمانوں کو سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کرکے انہیں اپنے حقوق حاصل کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ مجلس اتحاد المسلمین آج جس بلند مقام پر پہنچی ہے اس کی بنیادیں فخر ملت نے مضبوط کیں۔فخر ملت نے پولیس ایکشن کے پر آشوب دور کے بعد جہاں مسلمانوں کے دلوں میں خوف تھا ان کے دلوں سے خوف کو نکالا۔ ہزاروں مسلمانوں کو جہاں نوکریوں سے نکال دیا گیا تھا انہیں پارلیمانی جمہوریت اپنے حقوق کو منوانے کا سلیقہ سکھایا۔ ادھر فخر ملت نے مجلس کا احیا کیا تو ادھرحضرت محمد اسمعیل نے مسلم لیگ کو قائم کیا۔ بیرسٹراسد اویسی نے کہا کہ پولیس ایکشن دکن کے مسلمانوں کے لئے قیامت صغری سے کم نہیں تھی۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے پنڈت سندر لال پٹوا کی قیادت میں 3 رکنی کمیٹی پولیس ایکشن کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے روانہ کی تھی جس میں قاضی عبدالغفار خان اور مولانا عبداللہ شامل تھے۔ اس وفد نے 19 نومبر سے 22 دسمبر 1948 تک دکن کے 16 اضلاع میں سے 8 کا دورہ کیا جس کے بعد سندر لال نے رپورٹ میں لکھا کہ 4 اضلاع عثمان آباد گلبرگہ بیدر اور ناندیڑ میں تقریبا 18 ہزار لوگوں کی جانیں گئیں۔ 4 اضلاع اورنگ آباد بیڑ نلگنڈہ اور میدک میں 5 ہزار لوگوں کی جانیں گئیں۔ پنڈت سندر لال نے اپنی رپورٹ کے صفحہ 3 کے آخری پیراگراف میں لکھا کہ پولیس ایکشن میں کم از کم 27 ہزار تا 40 ہزار لوگ مارے گئے۔ رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا کہ لاتور میں 20 دنوں تک لوگوں کو مارا گیا۔ اس مقام پر 10 ہزار مسلمان تھے جبکہ صرف 3 ہزار باقی بچ گئے۔ ان حالات کے بعد فخر ملت کلمہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو متحد کیا۔ لوگوں کو جوڑنا شروع کیا جمہوریت پر اعتماد کو بحال کیا۔ مسلمانوں کو پارلیمانی جمہوریت میں شرکت کی دعوت دی۔ خود 11 ماہ تک جیل کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔ اس زما نے میں بزرگوں نے وسائل کے بغیر جماعت کو مضبوط و مستحکم کیا۔ ان کے پاس تشہیر کے ذرائع جیسے فونس فیس بک ٹویٹر وغیرہ نہیں تھے۔ اسمعیل ذبیح عمر خاں شیخ محمد اختر رحمت حسین زیدی جیسے جیالے کارکنان جماعت کے استحکام کے لئے ہمیشہ مصروف رہتے۔ جلسہ کے انعقاد کے لئے لوگ برقی کا کنکشن بھی نہیں دیتے تھے اس کے باوجود مصائب و مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے فخر ملت نے جماعت کو مستحکم کیا۔ صدر مجلس نے کہا کہ چاہے وہ کوئی شخصیت ہو جماعت سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ ہم سے مجلس نہیں بلکہ مجلس سے ہم ہیں۔ جنہوں نے خود کو جماعت سے بڑھ کر سمجھا اور جماعت سے غداری کی وہ ذلیل و رسوا ہوگئے۔ اسی لئے قائدین کو نہیں بلکہ جماعت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر مجلس نے مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ معاشرہ کی برائیوں کا خاتمہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ناچنے والی قوم ہرگز سرخرو نہیں ہوسکتی۔ رسول پاک ﷺکی غلامی میں ہی دونوں جہاں کی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ صدر مجلس نے حیدرآباد کی مسلم لڑکی کی عصمت ریزی کے واقعہ کی مذمت کی اور کہا کہ جماعت اور اس کے قائدین کی ہمدردیاں اس لڑکی کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے اس لڑکی کا نام افشا کرنے والوں کی بھی مذمت کی۔ مولانا سید شاہ عزیز اللہ قادری نائب شیخ التفسیر جامعہ نظامیہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ فخر ملت نے اپنی زندگی کے ذریعہ جو پیام دیا آج نوجوانوں کو اس نمونہ کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ فخر ملت نے دنیا میں رہ کر آخرت کو سنوارنے کی کوشش کی جبکہ مسلمان کی زندگی کا مقصد یہی ہے اور اسی میں اس کی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بانی جامعہ فضیلت جنگ حضرت انوار اللہ فاروقی نے اپنے طلبہ کو دینی اور عصری علوم سے آراستہ کیا۔ اس کے نتیجہ میں کئی گوہر پیدا ہوئے جس میں سے ایک فخر ملت تھے۔ مولانا سید تقی رضا عابدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مسلمانوں کا مرکز سیاسی کمزور ہو تو مسلمان کمزور ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی تقدیر ان کی جماعت سے وابستہ کی جاچکی ہے۔ جماعت کی کامیابی مسلمانوں کی کامیابی قرار دی جاچکی ہے۔ ان حالات میں جماعت کو پہلے سے زیادہ مضبوط و مستحکم کیا جانا چاہئے۔ قائدین کی قدر کرتے ہوئے ان کی ہمت افزائی کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آج سارے ملک کے مسلمانوں کی نظریں حیدرآباد پر ٹکی ہوئی ہیں۔ پارلیمنٹ میں بیرسٹر اسد اویسی سے بہتر کوئی بھی مسلمانوں کے مسائل نہیں پیش کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ انہیں آپس میں فرقہ بندی مسلک کے نام پر کمزور کرتے ہوئے جھگڑا کروایا جارہا ہے۔ مسلم نوجوانوں کے حوصلے کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فخر ملت نے نہایت مشکل حالات میں مسلمان کے کاروان کو متحد کرکے آگے بڑھایا۔ مجلس کے دیگر قائدین نے بھی اس موقع پر خطاب کیا ۔صدر مجلس بیرسٹر اسد الدین اویسی کے ہاتھوں فخر ملت یادگار تقریری مقابلہ کے انعام یافتگان لڑکوں میں انعامات کی تقسیم عمل میں آئی۔ جلسہ گاہ کے راستوں پر پہلی مرتبہ مجلسی قائدین کے کٹ آٹس لگائے گئے تھے جو لوگوں کی دلچسپی کا مرکز بنے ہوئے تھے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا