English   /   Kannada   /   Nawayathi

جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور میں مولانا عبدالباری ندوی بهٹکلی رحمة الله عليه کی وفات پر تعزیتی جلسہ

share with us

استاذ حدیث وتفسير مولانا الیاس صاحب ندوی کنڈلوری نے مولانا کے متعلق اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے ابتداء تا انتہا حضرت سے پڑھنے کا شرف حاصل ہے موصوف کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ہر ایک کے ساتھ بلاتفریق محبت کے ساتھ پیش آتے اور شفقت کا معاملہ کرتے تھے اور آپ کا عوام الناس کے ساتھ ربط و تعلق دردمندانہ اور مشفقانہ تها جس کا اندازہ ہم نے ان کی نماز جنازہ میں شریک لوگوں سے لگایا. اور آگے فرمایا کہ جب بهی ملاقات ہوتی تو جامعہ ہذا کے بارے حالات دریافت کرتے اور بڑی فکرمندی کے ساتھ بات کرتے ایسا لگتا تھا کہ گویا یہ جامعہ ان کا اپنا ذاتی ادارہ ہو اور وہ اس کے سر پرست ہوں اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ سے 55 سال کی عمر میں صدیوں کا کام لیا. اس کے بعد مولانا ضمیر احمد صاحب رشادی (أستاذ حدیث و تفسیر)نے اپنی گفتگو کا آغاز حدیث رسول" أذكروا محاسن موتاکم "سے 
کیا اور مولانا موصوف کے مختلف محاسن حسنہ کا ذکر کرتے ہوئے طلباء کو یہ نصیحت فرمائی کہ وہ بھی ہماری طرح ایک انسان تهے آسمان سے اتری ہوئی کوئی دوسری مخلوق نہیں تهی انہوں نے وہی کتابیں پڑھیں جو ہم پڑھتے ہیں لیکن انہوں نے اپنا ایک مقدس مقصد متعین کیا تها کہ قوم وملت کو راہ راست پر لائیں گے اور اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ ہر انسان کو ایک دن مرنا ہے اور اپنے کئے اعمال کا حساب چکانا ہے اس لیے ہمیں چاہئیے کہ ہم مولانا کی زندگی کے ایک ایک عمل کو اختیار کریں. اس کے بعد عالیہ رابعہ شریعہ کے طالب علم محمد راسخ بهٹکلی نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا پهر مولانا عبد الکریم ندوی گنگولی نے مولانا مرحوم کا اچھے اخلاق وعادات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موصوف اپنے اساتذہ کا بڑا ہی ادب واحترام کرتے تھے اور ہر ایک کے ساتھ خوش مزاجی اور خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے ایسا لگتا تھا کہ برسوں کی شناسائی ہو اور مزید یہ کہا کہ دنیا سے رخصت ہونے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک اللہ کے محبوب اور دوسرے مبغوض ہوتے ہیں.البتہ مولانا کی زندگی اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری سے بهری ہوئی ہے اور ہمارے لئے مشعل راہ ہے اس لیے ان کا صحیح خراج عقیدت اسی وقت ہوگا جب ہم ان کے نقوش عمل کو اختیار کریں گے کیونکہ ایک زندہ قوم جانے والے پر ماتم کناں نہیں ہوتی بلکہ اس کے نقوش عمل کو اپنے لئے حرز جاں بناکر بلندی کے راستے طے کرتی ہے.
اخیر میں ناظم جامعہ مولانا عبیداللہ ابوبکر ندوی دامت برکاتہم نے مولانا مرحوم کے ساتھ دلی تعلقات واحساسات کا ذکر کرتے ہوئے علالت کے آخری ایام پر درد بهرے انداز میں روشنی ڈالی اور فرمایا کہ مولانا نے اپنی مختصر سی زندگی میں خطابت اور اہتمام کی ذمہ داری کو جس حسن خوبی کے ساتھ اور جس حکمت و دانائی کے ساتھ نبھایا ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اور مزید مولانا کی قرآن مجید سے تعلق اور محبت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کئی دفعہ عمرہ میں مولانا کی صحبت نصیب ہوئی میں نے دیکھا کہ کوئی ایسا وقت نہیں گذرتا جس میں آپ قرآن مجید کی تلاوت نہ کرتے ہوں اور حرم شریف میں کئی کئی مرتبہ قرآن مجید ختم فرمایا کرتے تھے ایک عجیب قسم کا قرآن سے لگاؤ اور انسیت تهی خود بهی بہترین انداز میں تلاوت فرماتے تھے اور اچھا پڑھنے والوں سے بھی قرآن سنتے تھے اور مولانا کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی تهی کہ چاہے سفر ہو یا حضر ہر حال میں فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل مستحبات اور سنتوں کی پابندی کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے اور ذکر اوراد و وظائف پابندی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے اور طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ مولانا مرحوم کے جتنے اوصاف حسنہ کا ذکر کیا گیا ہمیں چاہئیے کہ ہم ان سب پر مکمل طور پر عمل کریں اور عوام کے ساتھ تعلق وربط اچھا رکھیں ہر ایک سامنے اپنے آپ کو چھوٹا سمجھیں اور عاجزی وانکساری اختیار کریں اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر وأذكار کی پابندی کریں إن شاء الله ہمیں دنیا میں بهی کامیابی ملے گی اور آخرت میں بھی سرفرازی حاصل ہوگی. 
واضح رہے کہ اس موقع پر جامعہ کے تمام اساتذہ و طلباء موجود تهے . جلسہ حضرت ناظم صاحب کی دعائیہ کلمات پر اختتام پذیر ہوا.

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا