English   /   Kannada   /   Nawayathi

یوپی پولس پر مسلم نوجوان کے فیک انکاونٹر کا الزام

share with us

۱۶؍ جنوری کو اترپردیش پولیس نے ایک مسلم نوجوان کو ’’فیک انکاؤنٹر‘‘ میں قتل کردیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ نوجوان ایک چور تھاجس کی موت انکاؤنٹر میں ہوئی جبکہ نوجوان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ چوری سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا، اور یہ ایک قتل ہے۔یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا جب ۲۳؍ سالہ متین ، جو بلال اور بلا کے طور پر بھی جانا جاتا تھا اور مظفر نگر کے ضلع کتاؤلی کا رہائشی تھا، اپنے سبزی ٹھیلہ کیلئے سبزیاں خریدنے روزانہ کی طرح منڈی کیلئے روانہ ہوا، اور دوپہر کے کھانے کیلئےگھر نہیں لوٹا۔ 
متین کے اہل خانہ کے مطابق انہیں اسی دن دوپہر ۳؍ بجے ایک اجنبی نمبر سے فون کال موصول ہواجس میں دوسری جانب سے متین کی آواز آ رہی تھی جو کہہ رہا تھا کہ ’’ مجھے پولیس نے شوٹ کیا ہے اور وہ میرٹھ کے ایک میڈیکل اسپتال میں ہے ۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد رابطہ منقطع ہوگیا۔ اہل خانہ نے اس نمبر پر دوبارہ رابطہ کرنے کی بارہا کوشش کی لیکن دوسری جانب سے کسی نے کال موصول نہیں کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اسپتال جانے کا فیصلہ کیا جہاں انہیں متین اسٹریچر پرزخمی حالت میں ملا جس کے اطراف پولیس جمع تھے۔ متین کے ماموں سونو نے بتایا کہ ’’پولیس نے ہمیںمتین سے ملنے کی اجازت نہیں دی ۔‘‘وہ متین کے والد ابرار اور اس کے چھوٹے بھائی دانش کے ساتھ اسپتال پہنچے تھے۔‘‘ 
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے کہا کہ وہ ہمیں ایک گھنٹے بعد متین سے ملنے کی اجازت دیں گے۔ پورا دن وہ یہی کہتے رہے۔ یہاں تک کہ دوسرے دن ۷؍ بجے تک ہم وہی رہے اور ہمیں بتایا گیا کہ متین کا انتقال ہوچکا ہے۔ سونو نے مزید بتایاکہ وہ جب اسپتال کے باہر انتظار کر رہے تھے تب اسپتال عملہ نے متین کے والد سے کچھ کاغذات پر دستخط کروائے تھے جو انہوں نے پڑھے نہیں کیونکہ خبر ملنے کے بعد وہ اپنے حواس میں نہیں تھے۔ 
۱۷؍ جنوری کو تقریباً ۷؍ بجے اہل خانہ کو اسپتال کے عملے اور پولیس کانسٹیبل نے بتایا کہ علاج کے دوران متین زخموں کی تاب نہ لا سکااور اس کی موت ہو گئی ہے۔ مبینہ طور پر اہل خانہ کو یہ نہیں بتایا گیا کہ متین کی موت کی وجہ کیا ہے؟علاج کے دوران اس کی موت کیسے ہوئی؟ یا اسے علاج کی ضرورت کیوں پڑی تھی؟ تاہم ، متین کے والد ابرار نے دعویٰ کیا ہے کہ اسپتال کے ڈاکٹر نے انہیں کہا تھا کہ متین کے پیٹ کے بائیں طرف گولی لگی ہے اور ناکامیاب آپریشن متین کی موت کی وجہ بنا ہے۔ پوسٹ مارٹم کے بعد متین کی لاش اہل خانہ کے حوالے کر دی گئی مگر اس کی رپورٹ خاندان کو اب تک نہیں دی گئی ہے۔ 
متین کے والد ابرار نے موانہ پولیس اسٹیشن میں ۱۹؍ جنوری کو ایف آئی آر درج کروائی جس میں انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے بیٹے کو پولیس نے ایک فیک انکاؤنٹر میں قتل کیا ہے۔ پولیس شکایت میں متین کے والد نے لکھا ہے کہ تمام اہل خانہ اس وقت خوفزدہ تھے جب انہیں اسپتال میں متین سے ملنے نہیں دیا گیا۔ ابرار نے دعویٰ کیا ہے کہ میرے بیٹے کو پولیس نے فیک انکاؤنٹر میں قتل کیا ہے۔ وہ ایک عام زندگی گزار رہا تھا اور کسی بھی قسم کے کوئی معاملے میں ملوث نہیںتھا۔ اس کے علاج اورپوسٹ مارٹم کی کوئی رپورٹ ہمیں فراہم نہیں کی گئی ہے۔ ۱۸؍ جنوری کی دوپہر اسپتال نے متین کی لاش ہمارے حوالے کر دی تھی۔اسی دن ہم نے اس کی آخری رسومات ادا کر دی تھیں۔
متین کے بھائی دانش نے الزام عائد کیا ہے کہ جب انہوں نے متین کی تدفین سے پہلے لاش کاجائزہ لیا تو اس کے پیٹ کے بائیں جانب گہرے زخم تھےاور پیٹ کا نظام انتہائی خراب تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے پیٹ میں گولی ماری گئی ہے۔ اہل خانہ نے ۵؍ پولیس افسران کے خلاف شکایت درج کروائی ہے جن میں سب انسپکٹر اتل کمار، تین ہیڈ کانسٹیبل آکاشا چودھری ، دیپک کمار ، منجیت سنگھ اور کانسٹیبل گوند سنگھ شامل ہیں۔ پولیس نے اب تک شکایت درج نہیں کی ہے۔ خاندان کا دعویٰ ہے کہ انہیں ایف آئی آر کی کاپی بھی اب تک موصول نہیں ہوئی ہے۔ 
تاہم ، پولیس نے انہیں جی ڈی آر رسید دی ہے، جو پولیس اسٹیشن میں درج کرائی جانے والی شکایتوں کے نمبر ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ ۱۶؍ جنوری کو پیش آنے والی واردات کے خلاف ابرار کے اہل خانہ نے رپورٹ درج کروائی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کے بیٹے کو پولیس افسران نے قتل کیا ہے۔

معاملہ کیا ہے؟
مکتوب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ۷؍ جنوری کو میرٹھ پولیس نے کرن جین کی شکایت پر ایک اجنبی شخص کے خلاف کار چوری کی شکایت درج کی تھی۔ کرن جین نے شکایت درج کروائی تھی کہ ان کے گھر کے باہر سے ان کی ہنڈائی الکازر کار کسی نے چوری کر لی ہے۔ ۱۶؍ جنوری کو موانہ پولیس نے ۴؍ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی، جن کے نام ہیں: بلال ، عبدالصمد، اسامہ اور شعیب انصاری ۔ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی کہ انہوں نے کرن جین کی کار چوری کی ہے۔ یہ خبر پولیس کے خبری نے فراہم کی تھی۔وہ ۴؍ ملزمین جن کا ذکر ایف آئی آر میں ہے، وہ وہی ہیں جن کا ذکر متین کے خاندان کو فراہم کی گئی جی ڈی آر میں ہے۔ ۱۶؍ جنوری کوموانہ پولیس اسٹیشن میں داخل کی گئی ۱۳؍ صفحات کی ایف آئی آر کے مطابق انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں مخبر  کی جانب سے یہ خبر موصول ہوئی تھی کہ کار کی چوری میں ان چاروں کا بھی ہاتھ تھا۔ مخبر نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے میرٹھ بجنور ہائی کے قریب ٹول پلازہ میں انہیں دیکھا ہے۔ 
مخبر نے مزید معلومات دی کہ ان کے قبضے میں غیر قانوی اسلحہ ہے اور وہ اشتعال انگیزی کرنے کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔اگر پولیس نے وقت پر کارروائی کی تو اس حادثے کو رونما ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ خبر ملنے کے بعد موانہ پولیس اپنے مخبر کے ساتھ جائے وقوع پر پہنچی اور انہیں ہائی وے کے قریب ٹول پلازہ کے پاس ایک کار میں ۴؍ سے ۵؍ شخص بیٹھے ہوئےملے ۔ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ جب پولیس ملزمین تک پہنچی تو مخبر ملزمین کی شناخت کرنے کے بعدبھاگ گیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے ملزمین کو پکڑا تو انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا اور انہوں نے پولیس پر فائرنگ کرنے کی بھی کوشش کی لیکن گولی نے پولیس کی گاڑی کو نقصان پہنچایا۔
ایف آئی آر میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ ملزمین نے کار سے بھاگنے کی کوشش بھی کی لیکن پولیس نے ایک کلومیٹر تک ان کا پیچھا کر کے انہیں حراست میں لے لیا۔۲؍ ملزمین نے گنے کے کھیت سے بھاگنے کی بھی کوشش کی ۔ایک نے سرینڈ ر کر دیا جبکہ دوسرے کو کراس فائر میں شوٹ کر دیا گیا تھا۔ پولیس کو محسوس ہوا کہ ان کی گولی سے کوئی اور بھی زخمی ہوا ہے۔زخمی کی شناخت بلال کے طور پر کی گئی ، جو ابرار کا بیٹا ہے۔ جس نے سرینڈرکیا اس کی شناخت عبدالصمد کے طور پر کی گئی ،  دیگر دو مظفر نگر کے کاتوالی ضلع میں رہتے ہیں۔ عبدالصمد کے مطابق شعیب انصاری اور اسامہ پولیس کی گرفت سے فرار ہو گئے تھے۔
عبدالصمد کو ایک پولیس کانسٹیبل پولیس اسٹیشن لے گیا جبکہ بلال (متین ) کو علاج کیلئے اسپتال بھیجا گیا۔ ایف آئی آر میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اسلحہ اور کار نمبر پلیٹ پولیس نے ان سے حاصل کر لی تھی۔جب موانہ پولیس سےمتین کے اہل خانہ کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کےحوالے سے سوال کیاگیا کہ متین کی موت اسپتال میں کیسے ہوئی اور جی ڈی آر میں جیسے نشاندہی کی گئی ہے کہ پولیس نے اس کیس سے انکاؤنٹر کو کیسے جوڑا ؟اس کے جواب میں سبھاش سنگھ ، جو موانہ پولیس اسٹیشن میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر ، ہیں نے بتایا کہ متین کو کار چوری کے معاملے میں ملزم پایا گیا تھا اور انکاؤنٹر میں اس کی موت ہوئی ہے۔
جب پولیس سے یہ پوچھا گیا کہ اہل خانہ کی ایف آئی آر کیوں نہیں درج کی جا رہی ہے تو انہوں نے واضح کیا کہ انہیں جی ڈی آر کی کاپی فراہم کی گئی ہےاور ایک الگ معاملہ درج نہیں کیا جا سکتا جبکہ متین کے خلاف کار چوری کی ایف آئی آر پہلے سے درج ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کیس کی مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔ جب متین کی کار چوری کے الزام کیلئے قانونی کارروائی کے بارے میں دباؤ ڈالا گیا تو آفیسر نے کہا کہ ’’اس طرح کی جھڑپوں میں دونوں فریق زخمی ہوتے ہیں۔ مقابلے کے درمیان کراس فائر عام بات ہے۔‘‘

یہ فیک کیس ہے: متین کے اہل خانہ 
متین کے اہل خانہ نے پولیس کے الزامات کی سخت مذمت کی ہے۔ متین کے بھائی دانش نے کہا کہ متین اپنے کام ، سبزیاں بیچنے اور اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتا تھا۔ اسے کار چلانا بھی نہیں آتا تھا تو کار چوری کرنا دور کی بات ہے۔ آخر ایسے شخص کو کار چوری کر کے کیا ملے گا؟اہل خانہ کے مطابق متین روزانہ کاتوالی سبزیاں بیچنے جاتا تھا اور اس کے بعد کھانے کیلئے گھر آتا تھا۔ ۱۶؍ جنوری صرف ایک ایسا دن تھا جب متین کی فون کال انہیں موصول ہوئی تھی جب اس نےاہل خانہ کو اس حادثے کے متعلق بتایا تھااور انہیں اسپتال آنے کا کہاتھا۔ دانش نے مزیدکہا کہ ’’ بھائی کی فون کال آنے کے بعد فوراً بعد ہم اسپتال کیلئے نکل گئے تھے۔ہمیں اس کی باڈی اسٹریچر پر ملی اور پولیس افسران اس کے اردگرد جمع تھے۔ ہمیں نہ اس سے بات کرنے اور نہ ہی اس سے ملنے کی اجازت دی گئی۔‘‘اہل خانہ کے بیان کے مطابق متین انکاؤنٹر والے دن بھی سبزیاں لانے کاتوالی گیا تھا۔
دانش کے مطابق پولیس اپنی نا اہلی کو چھپانے کیلئے میرے بھائی کو بلی کابکرا بنا رہی ہے۔ وہ میرے بھائی کے خلاف جعلی کیس درج کر رہے ہیں۔ اسے پولیس نے قتل کیا ہے اور ہم انصاف کی مانگ کرتے ہیں۔ ہمارا پورا خاندان متین کی موت سے سوگوار ہے۔ متین اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑا ہے۔ وہ ان کے خاندان کی کفالت کرنے والا سب سے بڑ اشخص تھا۔ اس کے ایک سال کے دو جڑواں بچے اور ایک بیوی ہے، جو اب بیوہ ہو گئی ہے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا