English   /   Kannada   /   Nawayathi

علی گڑھ مسلم ینویورسٹی پر مودی حکومت کے موقف سے خود سپریم کورٹ حیران

share with us

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار سے متعلق جاری سماعت کے پانچویں دن سپریم کورٹ نے سالیسٹر جنرل کے  بیان پر حیرت کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچڈ کی زیرقیادت ۷؍ ججوں کی آئینی بنچ نےایس جی تشار مہتا کی بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ مرکزی حکومت کا لاء آفیسر(اقلیتی کردار سے متعلق) پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کی گئی ترمیم کی مخالفت کیسے کرسکتا ہے۔سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے کہا کہ پارلیمنٹ  لافانی، ناقابل تقسیم اورمستقل وجود رکھتی ہے۔ ہم حکومت ہند کو یہ کہتے ہوئے نہیں سن سکتے کہ وہ ترمیم کی حامی نہیں ہے۔
 در اصل عدالت کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوئے  سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا تھا کہ وہ ۱۹۸۱ء میں پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کی گئی ترمیم کی حمایت نہیں کررہے ہیں جس کا تعلق اے ایم یو کو اقلیتی درجہ دینے سے تھا۔سپریم کورٹ کی حیرانگی کے بعد بھی ایس جی تشار مہتا نےاس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے۱۹۸۱ء کی ترمیم کو مختلف بنیادوں پر منسوخ کر دیا تھا، اپنے موقف کو دہرایا۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی بات پر سپریم کورٹ نے مزید  حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے اس موقف کو  بنیاد پرستی سے تعبیر کیا۔آئینی بنچ نے کہا کہ یہ بنیاد پرستی ہے کہ ایک لاء آفیسر کہتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی طرف سے رکھی گئی باتوں کی پابندی نہیں کرے گا۔سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی بات پر مداخلت کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے بھی اعتراض کیا۔خیال رہے کہ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے بی پاردی والا، جسٹس دیپانکر دتا، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ستیش چندر شرما پر مشتمل ۷؍ ججوں کی آئینی بنچ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار  کے معاملہ کی سماعت کررہی ہے جس کا آغاز  ۹؍جنوری کو ہوا تھا ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا