English   /   Kannada   /   Nawayathi

بابری مسجد کی المناک شہادت کے ۳۱ سال مکمل :ایودھیا میں سیکیورٹی الرٹ

share with us

ایودھیا: بابری مسجد کے انہدام کی 31 ویں برسی کے موقع پر مقامی انتظامیہ نے اتر پردیش کے ایودھیا میں سیکورٹی سخت کر دی ہے۔ حکام کے مطابق آج یعنی 6 دسمبر کو بابری مسجد کے انہدام کی 31 ویں برسی ہے۔ایودھیا پولیس نے کہا کہ انہوں نے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے شہر میں سخت حفاظتی انتظامات کیے ہیں۔

سنہ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک کے کئی علاقوں میں تشدد برپا ہوا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ شہر میں آنے اور جانے والے لوگوں کی سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے نگرانی کی گئی اور ان کے شناختی کارڈ بھی چیک کیے جا رہے ہیں۔ حکام کے مطابق پولیس نے ایودھیا کے مختلف علاقوں میں گاڑیوں کی چیکنگ کو بھی تیز کر دیا ہے۔ ایودھیا کے ایس ایس پی راج کرن نیر نے اس دوران لوگوں سے افواہیں پھیلانے اور عوام میں الجھن پیدا کرنے سے گریز کرنے کی اپیل کی۔

انہوں نے کہا کہ "ایودھیا ضلع کے مختلف علاقوں میں پولیس انتظامیہ تیار ہے اور انہیں مختلف سیکٹرز کے لیے ٹیموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ قریبی اضلاع سے پولیس فورس کو بھی طلب کیا گیا ہے۔ یوپی پولیس کی پردیشک آرمڈ کانسٹیبلری بھی یہاں موجود ہے۔" ناخوشگوار واقعات سے بچنے اور نمٹنے کے لیے پولیس کا سخت بندوبست کیا گیا ہے‘‘۔ ایس ایس پی نے مزید کہا کہ "ہمارا انفارمیشن سسٹم اور سوشل میڈیا ٹیم ایسے پلیٹ فارمز کے ذریعے شیئر کی جانے والی کسی بھی معلومات پر نظر رکھنے کے لیے متحرک اور چوکس ہے۔ کوئی بھی افواہیں پھیلانے یا انتشار پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے"۔

واضح رہے کہ بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں 'کار سیوکوں' کے ایک بڑے گروپ نے منہدم کر دیا تھا۔ اس کے بعد ممبئی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر فسادات پھوٹ پڑے تھے جن میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ایودھیا میں مسلمانوں پر تشدد کیا گیا، ان کی املاک کو نذر آتش اور تباہ کر دیا گیا تھا۔

 

بابری مسجد کی تاریخ: اگست 2019:

 

اگست 2019: مرکزی حکومت کی جانب سے رام مندر ٹرسٹ کا اعلان کیا گیا اور 5 اگست کو وزیراعظم نریندر مودی نے خود اپنے ہاتھوں سے مندر کی تعمیر کےلیے سنگ بنیاد رکھا اور پوجا کی۔Tracing the history of babri masjid

9 نومبر 2019: سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ سنایا گیا کہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے لیے اراضی کو ٹرسٹ کے حوالہ کردیا جائے اور حکومت اس ٹرسٹ کو تشکیل دے۔ اس کے علاوہ متبادل کے طور پر سنی وقف بورڈ کو کسی دوسرے مقام پر مسجد تعمیر کے لیے زمین دی جائے۔

16 اکتوبر 2019: سپریم کورٹ میں بابری مسجد معاملہ کی سماعت مکمل ہوئی اور فیصلہ محفوظ رکھا گیا۔یکم اگست کو ثالثی پینل نے رپورٹ پیش کی: 2 اگست کو سپریم کورٹ نے کہا کہ ثالثی پینل اس کیس کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس معاملہ کی روزانہ سماعت 6 اگست سے سپریم کورٹ میں شروع ہوئی۔

اگست 2019: ثالثی پینل حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔

8 مارچ 2019: سپریم کورٹ نے معاملے کو ثالثی کے لیے بھیجا۔ پینل سے 8 ہفتوں میں کارروائی ختم کرنے کو کہا گیا۔

29 اکتوبر 2018: سپریم کورٹ نے مقدمہ کی جلد سماعت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے معاملہ کو جنوری 2019 تک کے لئے ملتوی کر دیا۔

27 ستمبر 2018: ’مسجد اسلام کا لازمی جز نہیں‘ معاملہ کو بڑی بینچ کے سامنے بھیجنے سے انکار۔ عدالت نے 1994 کے اسماعیل فاروقی بنام یونین آف انڈیا معاملہ میں فیصلہ سنایا تھا کہ ’مسجد اسلام کا لازمی جز نہیں‘۔ اس کو چیلنج کرنے والی عرضی کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا لیکن یہ بھی واضح کیا کہ وہ فیصلہ مخصوص صورت حال میں زمین کو تحویل میں لینے کے لئے دیا گیا تھا اور اس کا اثر کسی دوسرے معاملہ پر نہیں ہوگا۔

فروری 2018: باقاعدگی سے سماعت کی اپیل خارج کردی گئی۔ 8 فروری کو سنی وقف بورڈ کی طرف سے سینئر وکیل راجیو دھون نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر باقاعدہ سماعت کریں لیکن بنچ نے اپیل کو مسترد کردیا۔

16 نومبر 2017: ہندو گرو شری شری روی شنکر نے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش شروع کی اور اس ضمن میں انہوں نے کئی فریقوں سے ملاقات بھی کی۔

19 اپریل 2017: سپریم کورٹ نے بابری مسجد انہدام کیس میں ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی سمیت بی جے پی اور آر ایس ایس کے متعدد رہنماؤں کے خلاف فوجداری مقدمات چلانے کا حکم دیا۔

21 مارچ 2017: سپریم کورٹ نے باہمی اتفاق سے تنازع کو حل کرنے کی بات کہی۔

جولائی 2016: بابری مسجد کیس کے فریق میں سے ایک قدیم قانونی مقدمہ بازی کرنے والے ہاشم انصاری کا انتقال ہو گیا۔

9 مئی 2011: سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی

30 ستمبر 2010: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے فیصلہ دیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ رام مندر میں، دوسرا حصہ سنی وقف بورڈ اور تیسرا نرموہی اکھاڑا کے حوالے کر دیا۔

28 ستمبر 2010: سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کو متنازع کیس میں فیصلہ سنانے سے روکنے والی درخواست کو خارج کرتے ہوئے فیصلے کی راہ ہموار کردی۔

26 جولائی 2010: معاملہ کی سماعت کر رہے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ محفوظ رکھا اور تمام فریقین سے آپسی رضامندی سے حل نکالنے کی صلاح دی۔ لیکن کوئی فریق آگے نہیں آیا۔

جولائی 2009: لبرہن کمیشن نے اس کی تشکیل کے 17 سال بعد وزیراعظم منموہن سنگھ کو اپنی رپورٹ پیش کی۔

ستمبر 2003: ایک عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مسجد کو منہدم کرنے کے لیے ورغلانے والے سات ہندو رہنماؤں کو سماعت کے لیے بلایا جائے۔

اگست 2003: بھارتی آثار قدیمہ کے سروے نے الہ آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر ایودھیا میں کھدائی کی۔ بھارتی آثار قدیمہ کے سروے نے دعویٰ کیا ہے کہ مندر کے باقیات مسجد کے نیچے پائے گئے ہیں۔ اس بارے میں مسلمانوں میں مختلف آراء تھیں اور اس رپورٹ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے چیلنج کیا۔

5 مارچ 2003: الہ آباد ہائی کورٹ نے محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی کرنے کا حکم دیا تاکہ مندر یا مسجد کے حوالے سے ثبوت مل سکیں۔

اپریل 2002: ہائی کورٹ کے تین ججوں کی بینچ نے ایودھیا میں متنازع مقام کی ملکیت سے متعلق سماعت شروع کردی۔

جنوری 2002: وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے اپنے دفتر میں ایودھیا کا محکمہ شروع کیا جس کا کام اس تنازع کو حل کرنے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کرنا تھا۔

4 مئی 2001: خصوصی جج ایس کے شکلا نے بی جے پی رہنما لال کرشن اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی سمیت 13 رہنماؤں کو سازش کے الزام سے بری کر دیا۔

1994: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں بابری مسجد انہدام کے تعلق سے مقدمہ کا آغاز ہوا۔

16 دسمبر 1992: مسجد انہدام کے ذمہ دار حالات کی تحقیقات کے لیے لبرہن کمیشن تشکیل دیا گیا۔

6 دسمبر 1992: ہزاروں کار سیوکوں نے ایودھیا پہنچنے کے بعد بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ عارضی طور پر رام مندر بنائی گئی تاہم اس وقت وزیراعظم نرسمہا راؤ نے مسجد کی از سر نو تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔

اکتوبر 1991: اترپردیش میں کلیان سنگھ حکومت نے بابری مسجد کے ارد گرد 2.77 ایکڑ اراضی کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔

نومبر 1990: اڈوانی کو بہار کے سمستی پور میں گرفتار کیا گیا، اس کے بعد بی جے پی نے وزیر اعظم وی پی سنگھ کی حکومت سے حمایت واپس لے لی۔

25 ستمبر 1990: بی جے پی کے صدر لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ سے اترپردیش کے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی، جس کے بعد ملک بھر میں متعدد مقامات پر فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوئے۔

9 نومبر 1989: اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی حکومت نے بابری مسجد کے قریب سنگ بنیاد کی اجازت دی تھی۔

یکم جولائی 1989: لارڈ راما للا وراجمان کے نام پانچواں مقدمہ دائر کیا گیا۔

جون 1989: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مندر کی نئی تحریک شروع کرتے ہوئے وی ایچ پی کو باضابطہ مدد دینا شروع کردیا۔

یکم فروری 1986: فیض آباد ڈسٹرکٹ جج نے متنازع جگہ پر ہندوؤں کو عبادت کرنے کی اجازت دی۔ تالے دوبارہ کھول دئے گئے۔ مشتعل مسلمانوں نے احتجاج میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل دی۔

1984: وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے بابری مسجد کے تالے کھولنے اور رام جنم استھان کو خودمختار بنانے اور ایک بہت بڑا مندر بنانے کے لیے ایک مہم شروع کی۔ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔

18 دسمبر 1961: اترپردیش سنی وقف بورڈ نے بابری مسجد پر ملکیت کے لیے مقدمہ دائر کیا۔

17 دسمبر 1959: نرموہی اکھاڑا نے متنازع مقام کو منتقل کرنے کا مقدمہ دائر کیا۔

5 دسمبر 1950: مہنت پرمہنس رامچندر داس نے بابری مسجد میں ہندوؤں کی پوجا جاری رکھنے اور رام کی مورتی کو رکھنے کے لیے مقدمہ دائر کیا۔ اس مسجد کو 'دھانچا' نام دیا گیا۔

16 جنوری 1950: گوپال سنگھ وشاراد نے فیض آباد عدالت میں رام للا کی پوجا کی خصوصی اجازت کے لیے اپیل دائر کی۔

23 دسمبر 1949: مبینہ طور پر 50 کے قریب ہندوؤں نے مسجد کے مرکزی مقام پر رام کی مورتی رکھ دی، اس کے بعد ہندوؤں نے اس جگہ پر باقاعدگی سے پوجا شروع کی، مسلمانوں نے نماز پڑھنا چھوڑ دیا۔

1961: میں یو پی سنی سنٹرل بورٹ نے بھی بابری مسجد پر قبضہ کی عرضی داخل کی۔

1959: نرموہی اکھاڑے نے متنازعہ اراضی سے متعلق ایک ٹرانسفر کی عرضی عدالت میں داخل کی۔

1885: مقدمہ پہلی بار عدالت میں پہنچا۔ مہنت راگھوبر داس نے بابری مسجد سے متصل رام مندر بنانے کی اجازت کے لیے فیض آباد عدالت میں اپیل دائر کی۔

1859: برطانوی حکومت نے متنازع زمین کے اندرونی اور بیرونی احاطے میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو الگ الگ عبادت کے لئے اجازت دے دی اور ایک خاردار کھڑا کر دیا۔

1853: ہندوؤں نے یہ الزام عائد کیا کہ یہ مسجد رام کے مندر کو منہدم کر کے بنائی گئی تھی۔ پہلا تشدد اس مسئلے پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین ہوا تھا۔

1949: خفیہ طور سے بابری مسجد میں مورتی رکھ دی گئیں۔

1528: بابر نے یہاں ایک مسجد کی تعمیر کرائی جس کا نام بابری مسجد رکھا گیا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا