English   /   Kannada   /   Nawayathi

استاذ الشعراء حضرت ابرار کرت پوری کی وفات, قبرستان بٹلہ ہاؤس میں سپرد خاک

share with us

(18 جون، نئی دہلی) علمی و ادبی حلقوں میں یہ خبر نہایت رنج و الم کے ساتھ سنی گئی کہ برصغیر میں حمد نعت کا علم بلند رکھنے والے کہنہ مشق شاعر استاذ الشعراء حضرت ابرار کرت پوری 83 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ إنا لله و إنا إليه راجعون.
ابرار کرت پوری 1939 میں قصبہ کرتپور، بجنور میں پیدا ہوئے تھے۔ نوجوانی میں کسب معاش کے لیے دہلی پہنچے اور اپنے عظیم چچا مولانا قاضی سجاد حسین کی سرپرستی میں ایم اے تک تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی عملی زندگی میں اتر گئے۔
شاعری میں وہ دبستان داغ کے استاد شاعر علامہ شاہد نوحی کے شاگرد تھے۔ انھوں نے ایک درجن سے زائد شعری مجموعے تخلیق کیے۔ نثر میں بھی کئی اہم کتابیں تصنیف کیں۔ کئی دہائیوں تک وہ دہلی کی ادبی محفلوں کا جزولاینفک تصور کیے جاتے تھے۔ حمد و نعت کے فروغ کے لیے انھوں نے دہلی میں حمد و نعت اکیڈمی قائم کی اور حمد و نعت کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے والے محققین اور شعراء کو انعام سے نوازنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اردو شعراء میں ابرار کرت پوری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ حمد و مناجات کے سب سے زیادہ مجموعے تخلیق کرنے والے شاعر تھے۔ انھوں نے شاعری کی مختلف اصناف مثنوی، نظم، آزاد نظم، ترجیع بند، دوہا اور رباعی وغیرہ میں بھی نعت کے مضامین کو برت کر دکھایا۔ انھوں نے غالب کے سو مصرعوں پر کہی گئی نعتوں کا مجموعہ "مدحت" اور مثنوی کے فارم میں غزوات نبوی کی مکمل تاریخ پیش کرکے اپنا لوہا منوا لیا۔ وہ دہلی کے استاد شعراء میں شامل ہوتے تھے۔ ان کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے۔ انھیں قدیم روایات کے امین و پاسدار کی حیثیت سے تادیر یاد رکھا جائے گا۔ انھیں کئی اعلی ادبی اعزازات سے بھی سرفراز کیا گیا تھا۔
ابرار کرت پوری کی نماز جنازہ مغرب کے بعد ادا کی گئی اور اہل علم و ادب کے موقر مجمع نے نم آنکھوں کے ساتھ انھیں سپرد خاک کردیا۔ جنازے میں ان کے بیٹے دانش رومی کے علاوہ پروفیسر توقیر احمد، پروفیسر کوثر مظہری، معین شاداب، درد دہلوی، اجمل فاروق ندوی، سلیم امروہوی، حامد علی اختر نے خصوصیت کے ساتھ شرکت کی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا