English   /   Kannada   /   Nawayathi

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے (۸)

share with us

الٹا معاملہ

عمار عبد الحمید لمباڈا ندوی

علی پبلک اسکول کی عالیشان عمارتیں ،شاندار نظام اور مولانا الیاس صاحب کی پر نور صحبت سے قلب و جگر کو گرما کر اور دیدہ و دل کو منور کر کے مولانا منیری صاحب کے دولت کدہ پر حاضری ہوئی ،مولانا سراپا انتظار، خندہ جبیں اہلا و سہلا کہتے ہوئے جیسے ان کا کوئی مطلوبہ مہمان آ گیا ہو جبکہ مولانا خود اور مولانا سمعان صاحب ہمارے خضر راہ تھے، جب سے بھٹکل میں قدم رکھا ہے ان ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، پھر بھی آج اپنے گھر پر بلا کر جیسے کوئی بڑی دولت پا گئے ہوں، مولانا منیری نے مولانا صادق صاحب کا تعارف کرایا جو ہمارے پہنچتے ہی تشریف لائے، انتہائی پرنور چہرہ ہاتھ میں چھڑی، عمر رسیدہ لیکن صحتمند، مولانا منیری کہنے لگے صادق صاحب ڈاکٹر ملپا صاحب کے خلفا میں ہیں اور ڈاکٹر صاحب کا تعلق حضرت تھانوی کے پانچ خلفا سے رہا ہے، سو سال سے زائد عمر پائی، سب سے پہلے علامہ سید سلیمان ندوی پھر لکھنؤ کےحاجی حق داد اس کے بعد مولانا عیسی آلہ آبادی پھر شاہ وصی اللہ صاحب اور پھر اخیر میں شاہ ابرار الحق صاحب سے منسلک رہے۔۔غزالی صاحب کا تعلق رہا مولانا عبد الباری ندوی صاحب سے ، اسکے بعد ان کے تعلقات مولانا یعقوب مجددی صاحب سے رہے۔۔ویسے بھٹکل والوں کے تعلقات شاہ وصی اللہ صاحب سے زیادہ رہے ہیں، چوں کہ ان کا ممبئی آنا جانا زیادہ ہوتا تھا۔۔۔اور معلوم نہیں کن کن بزرگان دیں کا تذکرہ ہوا، ان کی برکتوں کے واقعات سنائے گئے اور روحانی غذا سے علما کی شکم سیری کے بعد مجھ جیسے مادہ پرست کے لئے مادی غذا کا خوان نعمت چنا گیا، ہمارے قافلہ میں موجود تصوف و سلوک کے شناوروں کے لئے پہلے خوان روحانیت کا انتظام تھا اس کے بعد ہم جیسے چھوٹوں کے بڑے پیٹ کی باری تھی، اور کمال یہ کہ دونوں نے اپنے اپنے خوانوں سے خوب سیری حاصل کی۔

پیٹ پھٹنے کو تھا اور اس کا اثر آنکھوں میں ظاہر، وہ راحت و سکوں کی تلاش میں تھیں کہ مولانا منیری صاحب کی آواز کانوں سے ٹکرائی "عمار صاحب کہاں ہیں؟ جی مولانا ! ابھی آیا ، بڑوں کی محفل تھی، کیا کچھ علم و ہنر اور تصوف و سلوک کی گتھیاں سلجھائی جارہی تھیں، میں ان سب سے غافل اپنے نوجوان ساتھیوں کے بیچ اونگھ کی حالت میں نیند کی تیاری میں تھا لیکن میزبان کی آواز پر کان نہ دھرنا گستاخی خیال کر کے مولانا کے حضور لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوا، واہ مولانا کیا بات ہے ان کے دیدار کو تو سالوں سے آنکھیں ترس رہی تھیں، آنکھوں کو جیسے کوئی بجلی کا شاٹ لگا ہو ایکدم سے نیند غائب، آنکھیں تاریخ کے ان مراجع کو دیکھ رہی تھیں جو میری مطلوبہ کتابوں کی فہرست میں تقریبا تین سال سے حالات کی سازگاری کا انتظار کر رہے ہیں ،ابھی میرا ایک کتابچہ "حضرت باباغور ایک صوفی ایک تاجر" ( بزبان گجراتی) شائع ہوا ہے ، اس کے لئے میں نے ان کتابوں کی برقی کاپیاں ضرور حاصل کیں لیکن آج ان کتابوں کو سراپا موجود دیکھ کر آنکھوں میں وہ رقص اترا کہ اب وہ سونا ہی بھول گئیں( بندہ اس دن سے سفر کے اختتام تک، ڈھائی دن میں صرف تین گھنٹے سویا ہوگا) (ہمارے ساتھی علما، اور ہمارے میزبان علم و فن اور تصوف و سلوک کے شہسوار ہیں ان کے لیے یہ روز کا معمول ہوگا ، لیکن میرے لیے یہ بات بہت ہی دشوار ہے اس لئے کہ دن میں سات گھنٹے سے زیادہ ہی سوتا ہوں)

واقعی اس مہمان نوازی سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مولانا کی مہمان نوازی کیا کہا جائے ! بلکہ سچ کہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھٹکلیوں کا محبوب مشغلہ ہی جیسے مہمان نوازی ہو۔

اب یہاں سے ہم لوگ انجمن کی طرف روانہ ہوئے ، انجمن کے کالج کی عمارتیں پہاڑ کے سینہ پر واقع ہیں جہاں سے پورے بھٹکل شہر کا نظارہ ہو سکتا ہے ، ایک طرف پہاڑی سلسلہ تو دوسری طرف ٹھاٹھیں مارتا سمندر تحمل و بردباری کے سبق دے رہے ہیں۔ چاہے آپ کالج میں تعلیم حاصل کریں یا نہ کریں اس کا جائے وقوع ہی کالج میں داخلہ سے پہلے سبق پڑھا دیتا ہے۔

صاف ستھری خوبصورت عمارتیں، پر سکون اور جاذب نظر سرسبز و شاداب وادیوں کی بلندیوں یر قائم ہیں،

مولانا سمعان صاحب کی شیریں گفتگو اور حسین مناظر سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ اسی دوران اس پہاڑ کے ایک گوشہ کی سرنگ سے ٹرین گزری تو لطف دوبالا ہو گیا، دیر تک ٹکٹکی باندھے تکتے رہے،

انجمن کالج کی عمارت کو باہر سے دیکھا تو کوئی دینی مدرسہ یا اسلامی میوزیم کا گمان ہوا، ناواقف آدمی یہ اندازہ لگا ہی نہیں سکتا کہ یہ کوئی ماڈرن انداز کی عمارت ہے۔

شہر بھٹکل کے تعلیمی اداروں کو دیکھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اہل بھٹکل نے اپنی دولت کا بڑا حصہ شان و شوکت اور شخصی نام و نمود کے بجائے تعلیمی اداروں کے قیام اور اسے زیادہ سے زیادہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے پر صرف کیا ہے ، صرف انجمن حامی المسلمیں کے تحت دسیوں اسکول اور کالج قائم ہیں ، انجمن تقریبا ایک صدی قبل قائم ہوئی جس کا آغاز ایک پرائمری اسکول سے ہوا تھا ، آج یہ ایک تناور درخت بن کر سایہ فگن ہے۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ اسی خاک سے وہ موج تند و جولاں اٹھی جس سے نہنگوں کے نشیمن تہ و بالا ہوئے اسی انجم کے کالجز نے اپنے سپوتوں کو وہ شہ دی جس سے جامعہ اسلامیہ کا وجود ہوا۔

میرے لیے یہ بات اس لئے تعجب خیز ہے کہ میں نے تو علما کو اسکول قائم کرتے دیکھا کہ اسلامی روایات نسلوں میں باقی رہیں لیکن یہاں معاملہ الٹا تھا جو یقینا حالات کے سیدھا ہونے پر دلالت کر رہا تھا۔

 

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 1

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 2

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے (3)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(4)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط (5)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(6)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے( 7 )

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا