English   /   Kannada   /   Nawayathi

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(6)

share with us

عمار عبد الحمید لمباڈا ندوی

یہاں فجر کی نماز اول وقت میں ہوتی ہے، سوا پانچ بجے نماز سے فارغ ہو گئے ، تقریبا سارے ساتھی دوبارہ بستر استراحت پر چلے گئے ، میری خرابی یہ کہ فجر کے بعد سونا مشکل ، روزنامہ لکھنے بیٹھ گیا ،اچانک ہمارے پرانے ساتھی مشرف (متعلم جامعہ اسلامیہ ، درجہ ششم) ملنے آ گئے ، انکے ساتھ مہمان خانہ کے دیوان میں بیٹھے پرانی یادیں تازہ کرنے لگے، کچھ ہی دیر بعد ایک اور ساتھی محمد شعیب ندوی آ گئے ،یہ بھی جامعہ کے فارغ ہیں اور گذشتہ کل ہی امریکہ ہو کر آئے ہیں ان کا کمال یہ ہے کہ لاکڈاؤن میں کمپیوٹر ویب ڈیزائنگ سیکھ گئے اور اب امریکہ بلائے گئے ، میرے خیال سے یہ صرف ان کی خوبی نہیں بلکہ سارے بھٹکلیوں کی خوبی ہے کہ وہ وقت کو خوب کام میں لاتے ہیں اور اپنے اور قوم کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کرتے ہیں، ہماری بات چیت جاری تھی کہ ایک اور ہمارے کرم فرما ناصر الدین صاحب تشریف لائے یہ بھی ہمارے گنگولی کے ساتھی ہیں کمٹہ کے رہنے والے ہیں ہم آٹھ سال پیچھے چلے گئے تھے، حسین لمحات جی رہے تھے کہ ایک ساتھی نے جانے کی اجازت چاہی اور وقت نے خبر دی کہ میں بہت جلد گزر جاتا ہوں اور حسین لمحات کو یادوں کا حصہ بنا دیتا ہوں ۔

اب سورج افق سے جھانکنے لگا تھا اور نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ رات کی بارش نے ناریل کے قطار اندر قطار درختوں، صحن چمن ، شاداب گلستان، رنگ برنگے پھولوں  اور کیاریوں کو دھل کر ایسا تروتازہ بنا دیا ہے ،لگتا ہے وہ خوشی سے جھوم رہے ہوں اور مسرت سے زعفران زار ہوا چاہتے ہوں اور پورا کیمپس گل وگلزار ، لالہ زار اور بہار آفریں۔

آٹھ بجے کے بعد ناشتہ کا خوان نعمت چنا گیا وہ نوع بنوع کے کھانے جو ہندوستان میں کہیں اور دستیاب نہ ہوں۔ ناشتے کی اتنی قسمیں تھیں جن کا شمار و شناخت کرنا آسان نہ تھا ، میزبانوں نے بتایا کہ یہاں ناشتے کی تعداد سیکڑوں میں ہوتی ہے، بہت سی انواع ناریل سے تیار کی گئی تھیں نیز چاول کی نمکین سویاں یہاں خوب کھائی جاتی ہیں، عام طور پر ہندوستان میں میٹھی سویاں کھائی جاتی ہیں، نمکین سویاں کھانے کا تصور نہیں ہے۔ ناریل کے دودھ کے ساتھ سُویا کی روٹی جسے دیکھتے ہی جی للچائے رہا نہ جائے، اس کا نام سوپا پانا اپو Shoupa pana appo ہے، یہ ایک طرح کی روٹی یا پراٹھا(crep) ہے جسے چاول، میدہ، انڈے، سویا بھاجی کے پتوں سے دیسی گھی میں تیار کیا جاتا ہے اور پھر ایک خاص قسم کے دودھ کے ساتھ کھایا جاتا ہے جو ناریل کے دودھ سے بنتا ہے۔ بانس کی لکڑیوں میں بنی ہوئی چاول کی ڈلیا،جسے پٹو puttu کہا جاتا ہے اور چاول و تازہ ناریل کے برادہ سے تیار کیا جاتا ہے ،اور چاول ہی سے بنی دودھ سے زیادہ سفید اور کاغذ سے زیادہ باریک روٹیاں، اور پڈنگ کے بغیر تو جیسے ناشتہ ادھورا ہی ہو، کئی طرح کے رنگ برنگ پڈنگ سے دسترخوان سجانا یہاں عام بات ہے۔ اور یہ سب کچھ کل ناشتہ کا صرف ایک یا دو فی صد ہے۔

ایک اور چیز تھی جو ہمارے ساتھیوں نے پاسٹا سمجھ کر کھائی تھی در حقیقت یہ پاسٹا نہیں تھا یہاں لوگ اسے مکرونی کہتے ہیں جبکہ یہ بھی ایک روایتی کھانا ہے جسے مڈکلیو (Mudkulyo)کہا جاتا ہے یہ بھی چاول کے آٹے اور ناریل کے دودھ ہی سے تیار کیا جاتا ہے۔کھانے میں یقینا پاسٹا سے مشابہ لیکن پاسٹا ہرگز نہیں۔

کہنے کو تو یہ ناشتہ تھا لیکن حقیقت میں ناریل کے درخت کی طرح طول طویل دسترخوان، اور کام و دہن کی لذت کا پورا سامان ۔

ناشتہ کے بعد مہتمم جامعہ مولانا مقبول صاحب نے جامعہ کا دیدار و تعارف کرایا ،

جامعہ اسلامیہ یہ بھٹکل سے ۵ کلومیٹر کی دوری پر لب ساحل واقع ہے، اس جگہ چند سال پہلے کوئی آبادی نہ تھی ، جنات کا بسیرا تھا لیکن جامعہ اسلامیہ کے افتتاح کے بعد یہ جَنَّت نشان ہوا اور جامعہ آباد کے نام سے معروف۔

داخلہ سے بالکل سامنے پر شکوہ گنبد والی خوشنما عمارت، جو شاداب و شگفتہ اور وسیع و عریض رقبہ پر پھیلی ہوئی ،

داہنی جانب احاطہ کے وسط میں نہایت خوبصورت نورانی مسجد۔

یہاں عالمیت تک کی تعلیم دی جاتی ہے ، نصاب تعلیم میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی شامل ہے ۔ ،ایک جانب حفظ قرآن کا شعبہ ہے ،دوسری طرف حسین و کشادہ دو منزلہ کتب خانہ ہے جس میں نادر و نایاب کتابوں سمیت ہزاروں کتابیں جدید سسٹم کے ساتھ الماریوں میں سجی ہوئی ہیں یہ کتب خانہ لائق رشک حد تک خوب ہے ، مولانا عبد المتین منیری صاحب کا کتابی شعور اور مطالعاتی ذوق و شوق اور باخبری ، کتب خانہ کو غذا پہنچا کر پروان چڑھا رہا ہے،

اور ایک خوبصورت کانفرنس ہال ۔ اور مہمان خانہ کا ذکر تو ہو ہی چکا۔

جامعہ کی حیثیت پہلے ایک مکتب کی تھی ،لیکن رفتہ رفتہ یہ مدرسہ ترقی کی راہ پر گامزن رہا اور مولانا عبد الحمید ندویؒ، الحاج محی الدین منیریؒ، جناب سعدا جعفریؒ اور ڈاکٹر علی ملپاؒ صاحبان کی سعی پیہم کے نتیجہ میں کچھ ہی سالوں میں یہ جامعہ کی شکل اختیار کر گیا، اب یہاں عالمیت کی مکمل تعلیم ہوتی ہے اور فضیلت کے لئے طلبہ ندوۃ العلماء کا رخ کرتے ہیں ، اس وقت مدرسہ میں طلبہ کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے اور وہ بھی تقریبا سب مقامی بلکہ اکثریت کھاتے پیتے متمول تجارت پیشہ لوگوں کے بچوں پر مشتمل۔

یہ ادارہ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اور مولانا ابرار الحق صاحب ہردوئیؒ جیسی شخصیات کے زیر سرپرستی کئی سال تک رہا۔ جن کے اثرات بھی واضح اور نمایاں۔

یہ ادارہ اپنے نصاب و نظام میں دار العلوم ندوۃ العلماء کے تابع ہے نیز عربی زبان کے ساتھ ساتھ اردو ،ہندی اور مقامی زبان بھی یہاں سکھائی جاتی ہیں ۔

بہرحال جہاں جنات کا بسیرا تھا اب وہ جنتی صفات انسانوں کی آبادی ہے۔

 

جامعہ سے ابو الحسن علی اکیڈمی جاتے ہوئے۔

۳۰ -۹- ۲۰۲۱

بروز جمعرات

 

 

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 1

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 2

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے (3)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے(4)

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط (5)

 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا