English   /   Kannada   /   Nawayathi

چلتے ہو تو بھٹکل چلیے (3)

share with us

ثم لتسألن يومئذ عن النعيم 
از: عمار عبد الحمید لمباڈا ندوی

 

بیندور ریلوے اسٹیشن سے ہم لوگ ٹراویلر میں سوار ہوکر بھٹکل کی جانب روانہ ہوئے ،یہاں سے بھٹکل تقریبا ۲۰ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے ، مجھے ہمارے ایک ساتھی مولانا طلحہ کوٹھی صاحب کے ساتھ آخری سیٹ پر بیٹھنے کا اتفاق ہوا ، مولانا سے ہماری یہ پہلی ملاقات تھی ۔

مولانا نے باتیں کیا شروع کیں جیسے پھول جھڑنے لگے، مولانا ایک جواں سال بلند حوصلہ، قوم کی خاطر کچھ کر گزرنے کے زبردست جذبہ کے حامل ،قوم کی تعلیم و تربیت او اس کی ترقی کے لئے فکرمند اور نئے نئے طریقوں سے آشنا ، مولانا کی تعلیم جامعہ العلوم گٹھا ، گجرات سے ہوئی ہے، ، عمر کوئی24 سال کے قریب ۔

مولانا کی گفتگو اور ہائوے نمبر 66 پر بائنڈور سے بھٹکل کا راستہ دونوں انتہائی خوبصورت ، میں نے جب ہائوے دیکھا تو محسوس ہوا یہ وہ ہائوے نہیں ہے جس سے میں دو سالوں تک گزرتا رہا ہوں، سال 2012 سے 2014 تک گنگولی سے بھٹکل اکثر جمعہ کے دن اسی راستہ سے گزرنا ہوتا، اس وقت یہ ایک ہی رویہ تھا اور اب کی بار دیکھا تو بہترین سڑک اور وہ بھی دو رویہ اور جنتان عن یمین و شمال تو اب بھی موجود

ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں۔

مولانا کی تقریر دلپذیر اور راہ جنت نشان نے مجھے قئے سفر سے غافل کردیا اور ٹراویلر میں بیٹھنے کے باوجود میں اس کے بغیر ہی منزل پر پہنچا، سچ بات ہے منزل کو پالینے کیلئے سفر ہی بنیادی شرط ہے لیکن منزل تک پہنچنے کے لیے سفر کتنے جتن کراتا ہے؟عیاں را چہ بیاں ۔ کہ سفر میں دھوپ تو ہوگی چل سکو تو چلو ۔(اور میرا حال ہے سفر میں قے تو ہوگی چل سکو تو چلو)

لیکن آج زندگی کو گلزار کردینے والی حسین وادیوں کے نظارے اور جواں سال ساتھی کے شیریں کلام اور روح پرور باتوں نے جیسے کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل کا کام کیا ۔

اب ہم اپنے پہلے پڑاؤ پر تھے شاید کسی میزبان کا گھر یہ گھر ایک چہار دیواری سے گھرا ہوا ہے جو پہاڑی پتھروں سے تعمیرشدہ، احاطہ میں ناریل، کیلے اور دوسرے درخت شامیانہ تانے ہوئے، گھر بھی انہیں پتھروں سے بنا ہوا، اینٹیں یہاں کی تعمیرات میں ڈھونڈھے سے نہ ملیں، گھر جدید طرز تعمیر کا ۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے لئے دسترخوان چنا گیا جس پر تلی مچھلیاں، مرغ و ماہی کے سالن ، خوشبودار بریانی، شیرینی و دیگر ذائقہ دار پکوان مجھے کھاؤ مجھے کھاؤ کی صدا دیتے ہوئے ۔ یہاں کے پکوان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کیوڑہ، ماء گلاب یا زعفران کی خوشبوؤں کی بھبک کے بجائے مصالحہ جات کی ایک الگ ہی خوشبو ہے ،۔ ویسے بھی یہ مصالحہ جات ہی کا دیش ہے، 14 ویں صدی میں ابن بطوطہ نے اس علاقہ کے ساحل پر قدم رکھا اور اپنے سفرنامے میں لکھا کہ یہاں کا چپہ چپہ سرسبزو شاداب ہے اور مصالحہ جات کی جان لیوا خوشبو سے بھرپور ، اس کے باوجود یہاں کے کھانے مرغن نہیں بلکہ مقوی ہیں۔

میں چونکہ اس خوان نعمت کا پرانا پیٹ پجاری تھا ہمارے ساتھیوں کو شاید انتخاب نعمت میں دشواری ہوئی ہو لیکن میری نگاہ کام و دہن کو وہ ماہی سرخ ہی بھائی جس کا نام بھی حمور تھا اور سالن بھی لال لال، پہلی نگاہ اس کو کھانے سے منع کریں کہ مرچ کی تیزی سر چڑھ کر بول رہی ہے، ہاں مگر ایک میزبان نے بتایا کہ یہ وہ مرچ ہے جو اسی علاقہ میں پیداہوتی ہے ایک فٹ سے زیادہ اس کا طول، تیزی ایسی کہ چھوٹی سے چھوٹی مرچ بھی اسے مات دے دے خوشبو اور رنگ میں اس کا جواب نہیں، تقریبا 500 روپے کلو اور اس سالن ماہی کا ذائقہ عربی، مالاباری اور برمی تہذیب کے سنگم سے جو وجود میں آ سکتا ہے بس وہی۔ واقعی مجھے تو یہ سنگمی سالن خوب بھایا۔

جنوبی ہند کا دالچا مزید ، جس میں سینگھا کی دیو قامت پھلی وہ بھی یہیں کی پیداوار ، دیگر علاقوں میں یہ پھلی ہوتی ضرور ہے لیکن اتنی طویل و تنومند نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ پورے ہند کی پھلیاں اس کے سامنے ابھی بہت بونی ہیں ۔اور بھی ڈھیر ساری ترکاریاں دالچہ کو دو آتشہ کرتی ہوئیں۔ اور پاپلیٹ فرائی کی ایک الگ دنیا، پودینہ و ناریل کی چٹنی کے کیا کہنے ! أنزل علينا مائدة من السماء کی عملی تفسیر۔۔

لیکن آیت ثم لتسألن یومئذ عن النعیم لگاتار میرے دل و دماغ میں کچوکے لگائے جا رہی تھی۔

جاری


چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 1
چلتے ہو تو بھٹکل چلیے قسط 2

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا