English   /   Kannada   /   Nawayathi

یغمبر اسلام کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت ہے۔کلیم الحفیظ........

share with us

 

اسلام اور پیغمبر اسلام پر کیچڑ اچھالنے والے انسان نہیں درندے ہیں انھیں سلاخوں میں قید رکھناچاہئے۔اے آئی ایم آئی ایم۔دہلی

 

نئی دہلی:03اپریل(فکروخبرنیوز/پریس ریلیز)پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ دنیا بھر کے انسانوں کے دل میں بستے ہیں۔ان کے جاں نثاروں کی تعداد اربوں میں ہے۔ان کی شان میں گستاخی کرنا صرف بھارت کے آئین کی ہی توہین نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف بڑا جرم ہے۔ایسے لوگوں کی جگہ صرف جیل ہے۔ایسے لوگوں کی وجہ سے بھارت ساری دنیا میں بدنام ہورہا ہے۔مگر بدقسمتی سے موجودہ مرکزی حکومت نے ایسے جاہل غنڈوں اور ہندو دہشت گردوں کو کھلا چھوڑ رکھا ہے۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے لوگوں کو گرفتار کرے اور انھیں قانون کے مطابق سزا دے۔ان خیالات کا اظہار دہلی اے آئی ایم آئی ایم کے صدر جناب کلیم الحفیظ صاحب نے پریس کو جاری ایک بیان میں کیا۔انھوں نے کہا کہ کل جس طرح پریس کلب جیسے موقر ادارے اور جمہوریت کے نشیمن میں ہندو آتنک وادی نرسنگھ آنند نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخانہ جملے کہے ہیں ان کاکسی مہذب سماج میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔کسی بھی مذہب کے آدرش پرش کی شان میں گستاخی کرنے سے سماج میں نفرت اور عداوت پیدا ہوتی ہے۔انھوں نے فرقہ پرستوں سے سوال کیا کہ اسلام بھارت میں ایک ہزار سال سے زیادہ سے موجود ہے اور ہندو مسلمان محبت اور بھائی چارے کے ساتھ رہ رہے ہیں۔کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی لیکن کیا وجہ ہے کہ جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے روزانہ مذہبی منافرت بڑھ رہی ہے۔کبھی اذان سے پریشانی ہے کبھی برقع اور حجاب سے،کبھی مندر میں پانی پینے پر بچے کی وحشیانہ پٹائی ہوتی ہے،کبھی مسلمانوں کے ریسٹورینٹ اور ڈھابوں پر حلال کا بورڈ لگانے کی بات کی جاتی ہے۔آخر اس ملک میں یہ کب تک ہوتا رہے گا اور مسلمان کب تک اپنی ذلت برداشت کرے گا۔کلیم الحفیظ نے کہا کہ اس سلسلے میں ریاستی سرکار کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کیوں کہ اس کی ناک کے نیچے یہ جرم ہوا ہے۔انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اروند کیجریوال دہلی کے سارے عوام کے وزیر اعلیٰ ہیں۔اس طرح وہ مسلمانوں کے بھی وزیر اعلیٰ ہیں۔لیکن وہ مسلمانوں کے زخموں پر کبھی مرہم نہیں رکھتے بلکہ نمک ضرور چھڑکتے ہیں،جیسا کہ انھوں نے کورونا کے دوران تبلیغی جماعت پر الزام لگا کر کیا تھا۔انھیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دہلی میں ان کو مسلمانوں نے ہی کرسی پر بیٹھایا ہے۔اس موقع پر صدر مجلس نے مسلم ممبران اسمبلی کی غیرت پر بھی سوال اٹھایا۔انھوں نے کہا کہ مسلم ممبران اسمبلی کو اپنی سرکار پر دباؤبنا کر ایسے گستاخوں کو سزادلوانے کے لیے کوششیں کرنا چاہئے۔سرکار کے نمائندے دہلی پولس کی ذمہ اری کہہ کر اپنی جواب دہی سے نہیں بچ سکتے۔اگر مسلم نمائندے حضرت محمد ﷺ کی گستاخی پر بھی چپ رہیں گے تو انھیں خود کو ان کا امتی کہلوانے کا کوئی حق نہیں رہے گا۔کلیم الحفیظ نے پریس کلب کے ذمہ داران سے گزارش کی کہ پریس کلب کو ملک میں نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔پریس کانفرنس کرنے والوں سے اس بات کا عہد لینا چاہئے کہ وہ یہاں سے کسی فرقہ اور کسی طبقے کی دل آزاری کی باتیں نہیں کہیں گے۔پریس کلب جمہوری ادارہ ہے اور جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ جمہوری اداروں میں غیر جمہوری عمل نہ ہو۔پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی غیر جموری اقدار کے ساتھ ساتھ غیر انسانی بھی ہے۔انھوں نے سوال کیا کہ آخر نرسنگھ آنندجیسے لوگوں کو اسلام اور پیغمبر اسلام سے کیا دشمنی ہے۔انھوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ یہ کام کوئی انجانے میں نہیں ہوا ہے بلکہ جان بوجھ کر کیا گیا ہے اس سے فرقہ پرستوں کا مقصد سماج کو تقسیم کرکے عوام پر حکومت کرنا اور ضروری مسائل سے توجہ ہٹاناہے۔صدر مجلس نے کہا کہ نرسنگھ آنند جسے ہندو دہشت گردوں کی حرکتوں کی وجہ سے بھارت کی شبیہ پوری دنیا میں خراب ہورہی ہے۔مرکزی حکومت کو ان لوگوں پر لگام کسنی چاہئے ورنہ ہمارے وزیر اعظم مسلم دنیا کو کیا منھ دکھائیں گے۔اپنی مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے مرکزی حکومت پہلے ہی دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں میں بھارت کا وقار گراچکی ہے،اب تو لوگ بھارت کے نام سے ہی نفرت کرنے لگیں گے۔اس سلسلے میں مسلمانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کا تعارف بھارت کی عوام سے کرائیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان یہ کام نہیں کررہے ہیں۔انھوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اس گستاخی کا جواب تمام جمہوری طریقوں سے دیں اورساتھ ہی ساتھ پوری دہلی میں محمد ﷺ کی حیات پر مبنی لٹریچر تقسیم کریں۔کلیم الحفیظ نے کہا کہ دہلی اے آئی ایم آئی ایم ایسے گستاخوں کو سزا دلانے کی ہرممکن کوشش کرے گی۔
عبدالغفار صدیقی
میڈیا انچارج
دہلی اے آئی ایم آئی ایم


 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا