English   /   Kannada   /   Nawayathi

تنازعات کا شکار جی۔سیون اجلاس

share with us

پیرس:25اگست2019(فکروخبر/ذرائع)فرانس میں جاری جی۔سیون کے اجلاس میں شريک اکثر رہنماؤں کی بظاہر اپنی اپنی محدود ترجیحات اور خواہشات ہیں اور وسیع تر اجتماعی سوچ کا فقدان نظر آتا ہے۔

ان کے آپس میں اختلافات اتنے گہرے ہیں کہ اس بار اجلاس کے اختتام پر کوئی متفقہ اعلامیہ جاری ہونے کی توقع نہیں۔ پچھلے سال بھی کینیڈا میں منعقدہ اجلاس میں امریکی صدر ٹرمپ کی تجارتی پالیسوں پر تنقید کے بعد انہوں نے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس بار برطانوی وزیراعظم بورس جانسن بریگزٹ کے معاملے پر فرانس اور جرمنی سے اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں لیکن دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ اگر برطانیہ ہر صورت میں اکتوبر کے اختتام تک یورپی یونین سے نکلنا چاہتا ہے تو اس کی اُسے سیاسی اور معاشی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ اجلاس سے پہلے یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک اور برطانوی وزیراعظم نے ایک دوسرے کو برطانیہ کے مسائل کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

اسی طرح میزبان فرانس چاہتا ہے کہ اس اجلاس میں عالمی ماحول کے تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کرنے پر بات ہو، لیکن امریکی صدر ٹرمپ کی ماحولیات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں اور نہ ہی وہ ماحول کے تحفظ کے حوالے سے ایسے کوئی اقدامات کرنے کے حق میں ہیں جس سے امریکا کے طاقتور کاروباری حلقے ناراض ہوں۔

معاشی میدان میں دنیا کے اکثر ملکوں کو صدر ٹرمپ کی چین کے ساتھ تجارتی لڑائی پر تشویش ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ امریکا دوسرے ملکوں کی مصنوعات پر ڈیوٹی اور ٹیکس لگانے کی بجائے آزاد تجارت کو فروغ دے۔ لیکن صدر ٹرمپ کا اس معاملہ پر رویہ سخت ہے اور وہ بظاہر کسی ملک سےکچھ لیے بغیر کچھ دینے کے حق میں نہیں۔

 یہی وجہ ہے کہ جی۔سیون کے ناقدین کو اس تنظیم سے کوئی خاص امید نہیں۔

اجلاس کے موقع پر گزشتہ روز جنوبی فرانس میں ہزاروں لوگوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مظاہرے کیے اور ریلیاں نکالیں۔ مظاہرین کو بیارٹز شہر میں جاری اجلاس میں داخلے کی اجازت نہیں تھی، تاہم فرانسيسی حکام نے انہیں تیس کلومیٹر دور اسپین اور فرانس کو جوڑنے والے ایک پُل پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کی اجازت دی۔  مظاہرے میں شامل بیشتر لوگ پُرامن رہے تاہم  بعض مقامات پر توڑ پھوڑ ہوئی اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔

جی۔سیون ملکوں میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکا شامل ہیں۔ یہ سات ممالک مل کر دنیا کی چالیس فیصد مجموعی قومی پيداوار کے ذمہ دار ہیں۔

یہ تنظیم دو ہزار چودہ تک جی۔ایٹ کہلاتی تھی لیکن پھر سابقہ يوکرائنی علاقے کريميا پر روس کے قبضے کے بعد، روس کی رکنیت معطل کر دی گئی جس کے بعد سے یہ عالمی تنظیم جی۔سیون بن گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خیال میں جی۔سیون ممالک کو  چاہیے کہ روس کو اب واپس تنظیم کا رکن بنائیں لیکن بڑے یورپی ممالک اس کے سخت خلاف ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا