English   /   Kannada   /   Nawayathi

یہ فیضانِ نظر تھایاکہ مکتب کی کرامت تھی

share with us

مجموعی طور پر ان چاروں ممالک میں جو اخلاقی حالت قومیت وطنیت کی جو غیر اسلامی صورت حال اور بعض شہروں میں وہاں کے ہمارے ایمانی بھائیوں کا جو حال تھا وہ ناقابلِ یقین ہی نہیں بلکہ ناقابلِ بیان بھی تھا، اس کی کچھ تفصیلات آپ مستقل رسالہ کی شکل میں شائع ہونے والے ہمارے سفرنامہ بیت المقدس وفلسطین میں دیکھ سکتے ہیں ۔
شام میں دنیا کے سب سے قدیم تاریخی شہر دمشق کی گلی کوچوں کے مزارات ودرگاہوں میں توحید کے منافی اعمال کا ارتکاب اور قبر پرستی برِصغیر سے کہیں زیادہ نظر آئی ، اردن اور فلسطین میں بے حیائی کا سیلاب ناقابل تصور تھا،مصر میں قوم پرستی اور وطنیت کے جذبات کا یہ عالم تھا کہ ابنائے فراعنہ ہونے پر آج بھی وہاں کے مسلمانوں کو فخر محسوس ہوتاتھا اور اسلام وایمان کی عظیم نعمت کے باوجود مشرک فراعنۂ مصر سے ان کی عقیدت ومحبت میں کوئی کمی آج بھی نظر نہیں آتی تھی،ایسا محسوس ہورہاتھاکہ فلسطین اوربیت المقدس کی فتح کا غلبہ وہاں کے بعض مقامی مسلمانوں پر حرم ثالث اور مسجداقصیٰ کے تقدس کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی آبائی زمین ہونے کی وجہ سے ہے،اس لیے کے وہ حرم ثالث کو عالمِ عرب کا مسئلہ کہہ رہے تھے نہ کہ عالمِ اسلام کا،انبیاء کی سرزمین میں واقع بحرمیت کا ساحل جو پوری انسانی تاریخ میں اللہ تعالیٰ کے شدید غیظ وغضب کا عظیم مظہر ہے بے حیائی کا اڈہ بن گیا تھا اور ان شیطانی مناظر سے لطف اندوز ہونے والوں کی اکثریت مسلمان عربوں اور مقامی اہل ایمان کی تھی ، نوجوانوں کی بے راہ روی ،جو ان طلباء وطالبات کابے ہنگم اختلاط ان کے نزدیک گویا گناہ ہی نہیں تھا ،خود مسجد اقصی کے اردگرد رہنے والی نئی نسل کی اکثریت میں پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام نہ ہونے کے برابر تھا ، پوری دنیا میں کم از کم جمعہ کے دن اول وقت میں اکثرجامع مسجدوں میں حاضری کا عمل آج بھی پایاجاتاہے ، لیکن عین اذان جمعہ سے پہلے بھی ہم نے مسجد اقصیٰ جیسے حرم ثالث کے دوتہائی حصہ کو اپنی گناہ گار آنکھوں سے خالی دیکھاتھااور اذان جمعہ کے معاًبعد حرم کا وہی وسیع حصہ بھرگیاتھا۔
اس پورے اخلاقی پس منظر میں آج کل جب ہم فلسطین، شام اور مصرو غیرہ سے آنے والی مسلمانوں کے متعلق دل دہلادینے والی اور بے چین کرنے والی خبروں کو سنتے ہیں تو ہمیں حیرت نہیں ہوتی بلکہ احساس ہوتاہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی بے پناہ رحمت سے ابھی بھی ہم کو اور ہمارے ان بھائیوں کو ڈھانک رکھا ہے اور بے راہ روی کی یہ دس فیصد سزا بھی نہیں ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی اس ڈھیل سے اب بھی سنبھلنے اور اپنی زندگی بدلنے کا قیمتی موقع ہے ۔
اسلامی تہذیب وثقافت سے دوری:۔ کسی زمانہ میں ہمارے عرب بھائیوں کی پہچان ان کے ایمان کا استحکام، ان کی شرافت ومروت کے ساتھ ان کا ظاہری لباس اوردینی رکھ رکھاؤ بھی تھا،سرپر رومال اور عقال کے ساتھ ان کا عربی لباس ان کوجم غفیرمیں بھی دوسروں سے ممتاز کرتاتھا، آج نئی نسل کی بڑی تعداد ان چاروں ممالک میں ہم کو اس سے دور اور مغربی لباس کوٹ ، پتلون اور ٹی شرٹ کی دلدادہ نظر آئی حتی کہ بعض عرب سربراہوں کو بھی ہم نے اخبارات میں کچھ ہی دنوں پہلے یورپ وامریکہ کے سرکاری دوروں میں اپنے عربی ودینی لباس کے بجائے اسی مغربی لباس میں دیکھا ،عرب خواتین اپنے گھرو ں سے باہر نکلنے کو عار سمجھتی تھیں ، ان کا چہرہ تو درکنار ان کی کھلی آنکھیں بھی دیکھنے کو لوگ ترستے تھے، آج چہرہ کے پردہ کے ساتھ برقعہ پوش خواتین خال خال نظر آتی ہیں،عرب بادشاہوں اورشہزادوں کی بیویاں اور بچیاں ہزار خامیوں کے باوجود نامحرموں کے سامنے آنے سے کتراتی تھیں، آج بے حیالباس کے ساتھ شاہی حرم کی یہی شہزادیاں لندن ونیویارک کے ریس کورس میں بھی نظرآرہی ہیں، اسکولوں اور کالجس میں زیر تعلیم عرب طالبات اسکرٹ ،جینس پینٹ اور کھلے سر وں اورہاتھوں کے ساتھ بازاروں اورتجارتی مراکز میں د عوت نظارہ دیتی ہیں، نمازوں کا اہتمام عربوں کی امتیازی شان تھی ، آج مساجد میں عین جماعت کے وقت بوڑھے اور ادھیڑ عمر کے لوگ بھی بازاروں میں گپ شپ اور فضولیات ولغویات میں نظر آتے ہیں ، نو عمر اور نوخیز بچیاں ہئیر کٹنگ کے اسٹائل کے ساتھ دور سے مرد عورت کے فرق کو سمجھنے میں دشواری پیداکررہی ہیں، غرض یہ کہ دولت کی ریل پیل اور مخلوط تعلیم کے اثرنے دنیاکی اکثر برائیوں کے دَلدَل میں ان کو پھنسادیاہے ۔
شعائر دین کے احترام میں کمی:۔ یہ تووہ اخلاقی صورت حال تھی جو بالعموم عرب ممالک ہی میں نہیں بلکہ عالم اسلام کے دیگر ممالک اورخود ہمارے ملک میں بھی پائی جاتی ہیں اور ہمیں اس کا روزسامنا کرنا پڑرہاہے، اس کے اسباب ومحرکات میں ہم نئے اور مغرب سے درآمد نصاب تعلیم ،جدید وسائل وذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کودوش دے سکتے ہیں ، لیکن ہمیں شرق اوسط کے ان ممالک میں جس چیز کے مشاہدہ نے سب سے زیادہ دکھی کردیا اور ہماری بے چینی واضطراب میں اضافہ کردیا وہ وہاں شعائرِ دین کے احترام میں تیزی سے نظر آنے والی تنزلی تھی، مثلاً بعض مساجدکے اندرونی حصوں میں بھی محلے کے بچے کھیلتے ہوئے نظرآئے اور اللہ کے یہ گھر عبادت کے بجائے ان کے لیے کھیل کے میدان بن گئے حتی کہ ہم نے ایک مسجد کے اندرونی ہال میں بچوں کو سائیکل کھیلتے دیکھا،قرآن مجید کے احترام میں کمی کا اندازہ اس سے ہوسکتاتھاکہ پیر پھیلاکر اپنی ران پر قرآن مجید رکھ کر کچھ غیر معذور اور جوان لوگ تلاوت کررہے تھے حتی کہ بعض لوگ لیٹ کر تلاوت میں مصروف تھے، مصرمیں مساجد کے اکثرائمہ داڑھی جیسی عظیم سنت سے نہ صرف دور تھے بلکہ امامت کے فوراً بعد مسجد کے باہر وہی امام امامت کا لباس اتار کرصاف چہرے، کوٹ اور ٹخنے سے نیچے لٹکتی پتلون کے ساتھ جاتے نظر آئے، مصر کی ایک جامع مسجد میں نوجوان طلبا وطالبات ایک ساتھ بے تکلف کلاسس میں موجود تھے اور عصری تعلیم کے کلاسس وہاں چل رہے تھے، مسجدوں میں بے تکلف خواتین آجارہی تھیں ،مساجد میں امامت کے لیے ہمارے ملک کی طرح دینی تعلیم سے آراستہ ہونے اور ظاہری شکل وصورت میں بھی عام لوگوں سے ممتاز ہونے اورچہرے بشرے سے عالم یاحافظ ہونے کا تصور تو وہاں نہ ہونے کے برابر تھا ،مساجد میں اسکولوں اورکالجس میں زیر تعلیم طلباکے لیے شبینہ وصباحی مکاتب تو مشکل سے صرف مصرکی ایک مسجد جامع عمروبن العاص میں نظر آئے ،اپنے شہر وملک کی طرح دوسری جگہوں پرمغرب بعد مکاتب کے یہ روح پرور مناظر دیکھنے کو ہم ترستے رہے ، شام ،فلسطین ، اردن اور مصر میں مسلمانوں کی ملکیت والے اکثر ہوٹلوں میں بھی صرف مغربی طرز کے استنجاخانے تھے جس میں قضائے حاجت کے لیے پانی کے بجائے ٹشو پیپر کے استعمال کا لازمی طورپرمسلم مسافروں اور سیاحوں کو بھی پابندکیاجاتاتھا،مصرمیں مسلم دوکانوں میں بھی فراعنہ مصر سے نسبت والے بورڈ صاف نظر آئے قاہرہ شہر سے دورمسلمانوں کے مخصوص قبرستان میں جس کے قریب ہی الگ عمارت میں حضرت امام شافعیؒ کا مزار بھی تھا آوارہ کتوں اور جانوروں کی بھیڑ تھی اور وہاں مقیم لوگوں سے یہ معلوم کرکے ناقابل یقین حیرت ہوئی کہ بعض مسلمان آج بھی اپنے مرحومین کی لاشوں کو دفن کرنے کے بجائے وہاں کھلی جگہ پر چھوڑ کرجاتے ہیں تاکہ چیل کوّے کی غذا بن سکیں،غرض یہ کہ برصغیر کے مسلمانوں کی طرح دینی شعائر سے ان کی والہانہ وابستگی اور عقیدت کے وہ مظاہر جو کل تک ان میں ہم سے زیادہ تھے ہمیں بہت کم دیکھنے کو ملے اور اس میں ان کا بڑھتا ہوا انحطاط صاف نظر آیا ۔
دین میں مداخلت پر خاموشی:۔ بات اگرمشرق وسطیٰ کے ہمارے ان عرب بھائیوں میں جو اسلام کی دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہنے اور ہم تک اس عظیم نعمت کو پہنچانے کے حوالہ سے ہمارے لیے دل وجان سے آج بھی عزیز اور ہمارے لیے محسن کی حیثیت رکھتے ہیں صرف اس اخلاقی حد تک رہتی تو بھی اس کی تاویل کی جاسکتی تھی اور یہ کہاجاسکتاتھا کہ ان کمزوریوں کے باوجود وہ دین کے دوسرے معاملات مثلاً عقیدہ کی پختگی وغیرہ میں آج بھی کئی حیثیتوں سے ہم سے ممتاز ہیں اور یہ خرابیاں اس سے زیادہ دوسرے ممالک اور خود ہمارے ملک کے مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہیں، لیکن معاملہ اس سے بھی آگے کا تھا اور وہ دین میں مداخلت پر ان کی خاموشی تھی،ہم نے قاہرہ میں وہ تحریر اسکوائر یعنی چوک بھی دیکھا جہاں مصر کی حکومتوں کے خلاف سب سے بڑے عوامی مظاہرے ہوتے ہیں اور اس میں دس دس لاکھ لوگ تک شریک ہوتے ہیں ، اسی مصرمیں موجودہ صدر سیسی سے بھی بہت پہلے حسنی مبارک کے عہد بلکہ اس سے بھی پہلے انور سادات اور جمال عبدالناصر وغیرہ کے زمانہ سے ہی اسرائیل دوستی ویہودنوازی اور امریکہ کی خوشنودی کے حصول کے لیے ملک کے دستور میں قرآن وحدیث کے منافی تبدیلی کی گئی، نصاب تعلیم سے یہودیت وعیسائیت کی مذمت اور ان کے کرتوت کو بیان کرنے والی آیتیں حذف کی گئیں، خطبات جمعہ میں یہود ونصاری سے دشمنی پر روشنی ڈالنے والی آیات کے ذکر سے ائمہ مساجد کو منع کیاگیا حتی کہ جامع ازہر سے روح شریعت کے منافی اور قرآن وحدیث سے صاف ٹکرانے والے فتاویٰ بھی جاری ہوئے ، لیکن افسوس کہ حکومت کی تبدیلی پر راتوں رات سراپا احتجاج بننے والے ہمارے یہ لاکھوں احتجاجی بھائی ایک محدود تعداد کو مستثنیٰ کرکے کبھی دین میں اس صریح حکومتی مداخلت پر ہزاروں کی تعداد میں ہی سہی سڑکوں پر نکل کر حکومت کے خلاف اپنے غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے نظر نہیں آئے،سوائے اخوان المسلمین اوربعض دینی ودعوتی تحریکات سے تعلق رکھنے والی مٹھی بھر تعداد کے ملک کی اکثریت اس صریح مداخلت فی الدین کو دین وشریعت سے انحراف بھی نہیں سمجھ رہی تھی ، ہمارے ملک کے مسلمانوں نے ابھی چند سالوں پہلے حمیت دین اور غیرتِ اسلامی کے جذبہ سے سرشار ہوکر جس طرح لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کرشاہ بانوکیس کے موقع پرملک کے سب سے مؤقر اورمؤثرادارہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی آواز پرسراپا احتجاج بن کر ملک کی تاریخ میں ملّی اتحاد کا جوثبوت دیاتھا اس کا عشرعشیر نمونہ بھی وہاں نظر نہیں آیا، یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے حکومتی ارادہ اور شاہ بانوکیس میں مطلقہ کوتاحیات نفقہ دینے کے عدالت عالیہ کے حکم پر جس طرح یہاں کے مسلمانوں نے حکومت وقت کو للکار ا اس کی مثال پورے عالم اسلام میں نہیں ملتی ۔
اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے :۔ ہم نے شعائر دین کے احترام میں روز بروز واقع ہونے والی اس کمی اور صریح مداخلت فی الدین پر ان کی رگِ حمیت کے نہ پھڑک اٹھنے کے اسباب اور غیرتِ ایمانی کے سلسلہ میں ان کے اس انحطاط کے محرکات پر جب سنجیدگی سے غور کیا توماضی قریب کی ہماری اسلامی تاریخ کے مطالعہ کی روشنی میں اس نتیجہ پر پہنچنے میں ہمیں دیر نہیں لگی کہ دراصل ہمارے ملک میں دینی مدارس کے وجود اور شبینہ وصباحی مکاتب کی برقراری نے یہاں اہل ایمان میں تحفظ دین اور مذہبی تشخص کی برقراری اور اس سلسلہ میں ان کی حساسیت میں اہم رول اداکیاہے اور مسلمانوں کو اس دینی حمیت اور ملّی غیرت سے سرشار کرانے میں الحمدللہ دینی مدرسہ سے فارغ ہمارے ان علمائے دین ہی کا بنیادی کردار ہے جن کو وقتاً فوقتاً ہمارے نام نہاد روشن خیالوں کی طرف سے تنگ نظر،شدت پسند اور بنیاد پرست ہونے کا طعنہ دیاجاتاہے اور ان ہی کی کاوشوں کے نتیجہ میں آج الحمدللہ پورے ملک میں لادینی وسیکولرحکومت ہونے کے باوجود ان کا دینی ورثہ مستحکم بنیادوں پر قائم ہے اور ہماری اسلامی شناخت اور دین سے والہانہ وابستگی کی یہ پہچان باقی ہے بلکہ آئندہ بھی توحید خالص کے ساتھ اس ملک میں مسلمانوں کی بقاکی ضمانت ان ہی مدارس کے استحکام میں پنہاں ومضمر نظر آتی ہے، ان عرب ممالک میں بھی ہمارے یہاں کی طرح خالص دینی مدارس ابھی ایک صدی قبل تک موجود تھے، لیکن مغربی استعمار کی منصوبہ بندسازش کے تحت دینی وعصری علوم کی تفریق ختم کرنے کے نام سے دینی مدارس کو عصری درسگاہوں کے ساتھ اس طرح خلط ملط کردیاگیاکہ مدارس دینیہ کی شناخت وپہچان ختم ہوگئی ، اسکولوں اور کالجس ہی میں دینی تعلیم دلانے کا بہانہ بناکر خالص دینی علوم کے لیے قائم مدارس میں بھی اس طرح علوم عصریہ کی آمیزش کردی گئی کہ کچھ سالوں کے بعد عصری علوم غالب آگئے اوردینی علوم مغلوب ہوگئے اور وہ دینی مدارس بھی عام عصری درسگاہوں کی طرح بن گئے اور نام صرف دینی مدارس اور اسلامی جامعات کا رہ گیا۔
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں:۔ آج خالص دینی علوم کے مدارس جس طرح الحمدللہ ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی برصغیر میں پائے جاتے ہیں ان مذکورہ عرب ممالک میں نہ ہونے کے برابر ہیں جہاں سے علمائے دین فارغ ہوکر قوم وملت کی اصلاح اور امربالمعروف ونہی عن المنکر کے فرائض کی ادائیگی کے لیے وقف ہوتے ہیں ،حلال وحرام کے سلسلہ میں آخری درجہ کی احتیاط سے کام لیتے ہیں ، روشن خیالی کے نام سے دین میں مداہنت سے کام نہیں لیتے ، انسانی ہمدردی اوربرادرانِ انسانیت کے ساتھ حسن سلوک کے نام سے عقیدہ توحید کے سلسلہ میں کسی مصالحت اور شرکیہ عمل یا نظریہ کو گوارانہیں کرتے ، امت کی رہنمائی اور ان کو شریعت مطہرہ پر قائم رکھنے کے سلسلہ میں کسی جابر وظالم حاکم وقت کے آگے بھی نہیں جھکتے ، دینی بنیادوں پر نئی نسل کو باقی رکھنے کے سلسلہ میں استبدادی طاقتوں کے آگے اپنی مادی ومالی کمزوریوں کے باوجود سرخم تسلیم نہیں کرتے ، اجتہاداور قیاس کے نام سے خواہشاتِ نفس کے مطابق فتویٰ نہیں دیتے،اس طرح کے نفوس قدسیہ اور پاک دل وپاکباز اور حمیت دینی وغیرتِ اسلامی سے سرشار علماء وفضلاء صرف اور صرف ہمارے ان ہی خالص دینی مدارس سے پیداہوئے ہیں اور انشاء اللہ ہوں گے، اس کی امید کسی عصری اسلامی دانش گاہ ودرسگاہ اورخالص اسلامی اسکولوں وکالجس سے بھی نہیں کی جاسکتی اور علم دین کی یہ لازوال فضیلت کبھی ان تعلیمی اداروں کے فارغین کو حاصل نہیں ہوسکتی۔
غرض یہ کہ ان ہی دینی مدارس میں بوریہ نشیں اساتذہ کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرنے والے فارغین اورہمارے برصغیر کے علماء اور مدارس کے فضلاء آج بھی اپنی ہزار کمزوریوں کے باوجودمجموعی طورپرعالم اسلام وعالم عرب کے ان دانشوروں اور مسلم اسکالروں سے ہزار درجہ ممتاز ہیں جہاں ہمارے یہاں کی طرح خالص دینی مدارس کا وجود عنقا ہوگیا ہے ۔
دینی مدارس میں عصری علوم کے غلبہ کا نتیجہ :۔ ہمارے مدارس کے بانیان اور اس کے ذمہ داران اپنے مدارس میں دعوتی نقطۂ نظر سے بقدر ضرورت عصری علوم کی شمولیت سے کبھی بے خبر نہیں رہے اور اس وقت کے تقاضہ کی تکمیل کے قائل بھی رہے اور عملاً اس کا ثبوت بھی ہمیشہ دیتے رہے ، لیکن جب معاملہ حد سے آگے بڑھ گیا،ہم نے دشمنوں کی چالوں کو نہیں سمجھا،دن بدن عصری علوم کا اضافہ ہوتاگیا اور دینی علوم مغلوب ہوئے تو ان مدارس سے پرکشش تنخواہیں پانے والے اور حکومتی منصب پر فائز ہوکر اپنی دینی حیثیت کو بھولنے والے اور عوام اور عصری تعلیم یافتہ دانشوروں اور روشن خیال مسلمانوں کو خوش کرنے والے نام کے علماء توپیداہوئے ، لیکن اپنی ان عصری مہارتوں کو دعوتِ دین کے لیے وقف کرنے والے اور کم تنخواہوں پرقناعت کرتے ہوئے برادرانِ وطن میں دعوتی کام کرنے والے اور ملک وبیرونِ ملک صرف دعوتِ دین کے مقصد سے جاکر قربانی دینے والے علماء نہ ہونے کے برابر تھے بلکہ اکثریت تو ان لوگوں کی نظر آئی جن کو دینی علم کے بعد عصری تعلیم یافتہ ہونے کے زعم میں ماضی میں ان دینی مدارس سے اپنی وابستگی پر فخر کے بجائے عارمحسوس ہونے لگا ، یہاں تک کہ ظاہری شکل وصورت اور دینی تشخص کی ان کی امتیازی شان ختم ہوگئی ۔اس طرح کی روشن خیالی کے ثبوت سے ایک طرف ان کے یہ مدارس حکومت کی نظر میں کھٹکنے والے مدارس کی فہرست سے تو نکل گئے ،لیکن دوسری طرف ان کی ڈگریوں کو سرکاری ڈگریوں سے مساوی قرار دے کر بڑی تعداد میں ان فارغین مدارس کو واپس دنیا طلبی کی طرف راغب کرنے میں ہمارے دشمن کامیاب ہوگئے اور افسوس کہ ہمیں اپنے ان دینی قلعوں کے اندرسے کھوکھلاہونے کا احساس بھی نہیں رہا،اسی طرح ہمارے دینی مدارس کے فارغین کو دعوتی نقطہ نظر سے عصری علوم اور انگریزی وغیرہ پر مہارت کے ساتھ میدانِ عمل میں لانے کے لیے مختلف مدارس اور اداروں میں تخصص فی الدعوۃو العلوم العصریۃ کے شعبے قائم کئے گئے ، یہاں تک کے بعض مخلصین نے اس کے لیے مستقل علیحدہ ادارے بھی قائم کئے لیکن افسوس یہاں سے فراغت پانے والے علماء کی دس فیصد تعداد بھی ملک وبیرونِ ملک اپنے کو دعوتی خدمات کے لیے وقف کرتی نظر نہیں آئی۔
مدارس کو اسی حالت میں رہنے دیجئے:۔ ہمارے دینی مدارس کے سلسلہ میں ادھر کئی سالوں سے یہ آواز بھی اٹھ رہی ہے کہ زمانہ کے حالات اور تقاضوں کے مطابق اس کے نصاب میں تبدیلی ہونی چاہیے اور اس میں عصری علوم کو بھی شامل کرناچاہیے ، مدارس کے حق میں ہمدردی کے نام سے آواز اٹھانے والے اکثر تو وہ سادہ لوح مسلمان ہیں جو علماء وفضلاء مدارس کو بھی دنیاوی ترقی کے میدانوں میں دوسروں کے شانہ بشانہ دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کا بنیادی مطمح نظر ان کی معاشی حالت کا استحکام اوران کومالی تقویت پہنچاناہے ، لیکن ہمارے کچھ دانشور وقائد تو وہ بھی ہیں جو اس سلسلہ میں ہمارے ان دینی مدارس کو اپنے بنیادی مقاصدسے ہٹاکر اس سے نکلنے والے فارغین کوروح شریعت اور غیرتِ ایمانی سے سرشار ہوکر امت کی اصلاح سے غیرشعوری طورپر روکنا چاہتے ہیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح اب واضح ہوکرسامنے آگئی ہے اور اس حقیقت کو تھوڑی سی مؤمنانہ فراست وبصیرت رکھنے والا ایک عام مسلمان بھی جھٹلانہیں سکتا کہ ماضی قریب میں عالمی سطح پراسلام دشمنوں نے جب دیکھاکہ برِصغیرکے اہل ایمان میں پائی جانے والی یہ اسلامی حمیت اور ایمانی غیرت الحمدللہ دراصل ان ہی دینی مدارس کی برکت اور یہاں سے فارغ ہونے والے علماء کی محنتوں کا نتیجہ ہے تو انہوں نے پہلے تو ملت اسلامیہ کے رشتہ کو ان دینی مراکز سے کاٹنے کی کوشش کی ، اس سلسلہ میں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ ان مدارس اور وہاں پڑھنے اور پڑھانے والوں کو بدنام کرنے اور ان کے متعلق غلط فہمیاں پھیلاکر عامۃ المسلمین کو ان سے بدظن کرنے کی کوشش کی گئی،جب ان کو اس میں کامیابی نہیں ملی تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان خالص دینی مدارس کو ظاہری ڈھانچہ اور نام کے ساتھ اسی حالت میں رہنے دیاجائے البتہ اس کی اصل روح ختم کردی جائے ، عصری علوم کی شمولیت کے نام پر دینی علوم کو مغلوب کرکے ان کو صرف نام کا مدرسہ اور جامعہ رہنے دیاجائے، روشن خیالی اور زمانے کے پُر فریب تقاضوں کی تکمیل کے نام پر اس کے نظام ونصابِ تعلیم میں ایسی چیزیں شامل کردی جائیں کہ غیرمحسوس طورپر شریعت کے معاملہ میں سختی اور توحید کے معاملہ میں طلباوفارغین کی شدت خودبخود روز بروز کم ہوتی جائے ، دینی مدارس کے سلسلے میں ان کی عیاری سے بھرپور ان خوش نمامنصوبوں میں ان کو عالم عرب بالخصوص مشرق وسطیٰ کے ممالک میں بھرپور کامیابی ملی اور محدود دائرہ میں کچھ حدتک خود ہمارے ملک میں بھی ان مدارس میں جن کے ذمہ داروں میں علماء کے بجائے بے بصیرت سرمایہ داروں اور غیر علماء کا غلبہ ہے اوریہ بات ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ سے کم نہیں ۔
اگرہم نے اب بھی اپنے دشمنوں کی ان چالوں کو نہیں سمجھااور عرب ممالک کی طرح دینی تعلیم کے لیے ہمارے دوراندیش اور فراست کے حامل ان مخلص بانیان کے قائم کردہ ان خالص دینی تعلیم کے مدارس کو نام سے تو مدرسہ اسلامیہ اور جامعہ عربیہ رکھ کراندر سے اسکول وکالج بناکر رکھ دیا تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا حال بھی شرق اوسط کے ان ملکوں کی طرح شعائر دین کے احترام میں ان سے بھی براہوجائے گااور ایک دن اللہ نہ کرے وہ بھی آسکتاہے کہ حکومت کی طرف سے مداخلت فی الدین پر ہماری بھی خاموشی ان کی طرح ہوجائے گی۔
وقت کی بڑی ضرورت:۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ خود دینی مدارس کے ذمہ داران، طلبا اور ان کے سرپرستوں میں دینی تعلیم پر اعتماد کو از سرنوبحال کیاجائے ، پہلے دن سے یہ بات طلباء اور ان کے ذمہ داران وسرپرستان میں ذہن نشین کرائی جائے کہ ان دینی مدارس سے فراغت کے بعدہمارا مقصد ایسے علماء کو امت کے سامنے پیش کرنا نہیں ہے جو معاشی اعتبار سے خود کفیل ہوں، مالی استحکام میں دوسروں سے ممتاز ہوں اور ان کی سندوں اور ڈگریوں کو حکومت وقت سے منظور کرواکر ان کو دعاۃ ومبلغین اور امت کے مصلحین بننے کے بجائے عام دنیاوی سرمایہ داروں ، خوش حال ملازمت پیشہ اہل مناصب اور پرُکشش تنخواہوں والے عہدوں تک ان کو پہنچایاجائے اور اپنے مقصد اصلی کو بھلاکر اچھے تاجر اور صنعت کار بننے کی ان کو ترغیب دی جائے،ان وقتی ودنیاوی مقاصدکے لیے مسلمانوں کی دیگر تعلیم گاہیں اور عصری ادارے موجود ہیں ، دینی مدارس اس سے ہٹ کر ایک بلند اور رفیع مقصد کے تحت قائم کئے گئے ہیں ، جہاں سے فارغ علماء ودعاۃ امت کی نہ صرف دین کے معاملات میں بلکہ دنیاوی امور میں بھی رہبری ورہنمائی کے اپنے فرائض انجام دے کر اس روئے زمین پر صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پاسداری کے لیے خود بھی کوشاں رہتے ہیں اور عام انسانیت کو بھی تادم زیست اس پر آمادہ کرکے ان کی زندگی کے حقیقی مقصد سے ان کوواقف کراتے ہیں اور آخرت کی ہمیشہ کی کامیابی سے سرفراز ہونے کی تلقین ان کو کرتے ہیں۔
اگر مدارس کے ذمہ داران نے دینی قلعوں کے ان اصلی مقاصد کو سمجھنے اور اس پر اس کو قائم رکھنے میں دشمنوں کی چالوں میں آکر تھوڑی سی بھی کوتاہی کی تو آئندہ آنے والی ہماری نسلیں ہمارے اس جرم عظیم کو کبھی معاف نہیں کرسکیں گی اور خطرہ ہے کہ ہم مسلمانوں کا اس ملک میں ظاہری شان وشوکت کے باوجود کہیں اندلس کی طرح حال نہ ہوجائے ، سچی بات تو یہ ہے کہ اسپین کی تاریخ کو اس ملک میں دہرانے سے صرف اور صرف ہمارے یہی دینی مدارس ہی روکے ہوئے ہیں ۔خدا کرے کہ دینی مدارس کی اہمیت کے سلسلہ میں ہمارے دشمن کی طرح ہم بھی اس راز کو سمجھنے والے ہوں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا