English   /   Kannada   /   Nawayathi

شرح خواندگی میں مسلم انڈیا پست ہی پست

share with us

اگرچہ اس رپورٹ میں یہ بات نظرنہیں آئی، لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے حق تعلیم ایکٹ کے تحت حکومت نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی ہے اوراس قانون میں پرائیویٹ اسکولوں کے انفرااسٹرکچر(عمارات وغیرہ) کے جو معیارمقرر کئے ہیں ان کا حصول غریب خطوں میں ممکن نہیں اوران کی زد میں آکر بہت سے اسکول بندہوگئے ہیں۔ اس رپورٹ میں مجوزہ قومی پالیسی ، اس کے اہداف اورمضمرات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ اگران تمام تشویشات کو شامل کرلیا جائے توان اہداف کا حصول اوربھی مشکل ہوگا۔ یہ اندیشہ اس لئے ظاہر کیا جارہا ہے موجودہ حکمراں ٹولہ اوراس کی نظریاتی ایک خاص تہذیب کے فروغ کے درپے نظرآتی ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اقلیتوں کے لئے سرکاری نظام تعلیم کے دروازے بندیا کم از کم تنگ ہوجائیں گے کیونکہ بہت سے لوگ تعلیم کے نام پراپنے بچوں کے معصوم ذہنوں میں غیرعقائد اوراعمال کی شجرکاری گوارا نہیں کریں گے۔
اس قومی پس منظرمیں جب ہم مسلم اقلیت کی تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں تشویش میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ سرکاری طور پر 2011کی مردم شماری کی بنیاد پر اس ضمن میں جو اعداد وشمار اسی ہفتہ منظرعام پر آئے ہیں ان سے مسلم تعلیم کی زبوں حالی ظاہر ہوتی ۔ ہمارے ملک میں مسلم آبادی تقریباسواسترہ کروڑ ہے ۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے نصف سے کچھ زیادہ 57.3فیصد یعنی فی ہزار 573افراد ہی خواندہ ہیں۔ باقی 427 ناخواندہ ہیں۔ جب کہ مجموعی طورپر ہندواقوام میں ناخواندگی کی شرح 364فی ہزار، سکھوں میں 325، بودھوں میں 282، عیسائیوں میں 256 اور جین فرقہ میں صرف 136فی ہزار ہے۔
خواندگی ایک وسیع اصطلاح ہے جس کو ’’حرف شناسی‘‘ کہتے ہیں۔خواندہ وہ شخص ہے جوحروف کو پہچان لیتاہو، اپنا نام لکھ سکتا ہو اورجوڑگھٹا کا سادہ حساب رکھ سکتا ہو۔چنانچہ مسلم آبادی میں جن افراد نے قاعدہ یا ناظرہ سیپارہ پڑھ لیا، وہ خواندہ شمار ہوگا۔ خواندگی کے لئے کسی مدرسہ ، مکتب یا اسکول میں جانا ضروری نہیں۔ مسلم آبادی میں فی ہزار 573 خواندہ افرادمیں پچاس ایسے ہوتے ہیں، جنہوں نے مدرسہ یا اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔ 
ہماری یہ صورت حال ہمیشہ سے نہیں تھی۔ لارڈ میکالے نے فروری سنہ 1835میں برطانوی پارلیمنٹ میں ہندستانی تعلیمی نظام کی اپنی جائزہ رپورٹ میں تسلیم کیا تھا کہ مسلمانوں کا تعلیمی نظام بڑا مستحکم اوروسیع ہے ۔ ہرمسجد میں اسکول ہے ۔ ان کی شرح خواندگی 90 فیصد سے زیادہ ہے۔اُس دورمیں بھی اگرچہ اعلا تعلیم عام نہیں تھی ۔لیکن مخصوص خاندانوں میں بڑا اہتمام تھا۔ علماء اورفضلاء اپنے گھروں میں یا مساجد میں درس وتدریس کا فریضہ انجام دیتے اوریہ بابرکت نظام کسب معاش کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ اہل علم کی علم دوستی کا ثمرہ تھا ۔ سرسید احمد خان کی تعلیمی تحریک کی بدولت جب محمڈن اینگلو اوریئنٹل کالج اوراس کے بعد مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا توان میں داخلہ لینے بیشتر طلباء کا تعلق اہل ثروت گھرانوں سے تھا۔ مگراب یہ امتیاز ختم ہوگیا ہے ۔ الحمداللہ سبھی مسلم طبقے مسلم یونیورسٹی اورسرسید تحریک کے زیراثرقائم ہونے والے اداروں سے یکساں طور فیض پارہے ہیں۔ہمارا مشاہدہ ہے کہ مدرسہ تعلیم میں داخلوں کی نوعیت ہی بدل گئی ہے۔ اب یا توان خاندانوں کے طلباء دینی تعلیم میںآتے ہیں جن میں اس کی روایت رہی ہے وہ بچے آتے ہیں جن کے ورثاء تعلیم کے مصارف برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ عصری تعلیم میں اہل ثروت اورسابق زمینداروسرمایہ دار طبقہ پچھڑتا جاتا ہے، جب کہ دیگرطبقات میں کچھ روشنی پھیلی ہے مگرکسی بھی طبقے میں تعلیم کی اہمیت اس طرح قائم نہیں ہوئی جس طرح ہونی چاہئے۔ لیکن کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور نظرآتی ہے۔ حال ہی میں ’’نیشنل یونیورسٹی آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن ‘‘نے ملک بھر کی 35ریاستوں کے635اضلاع میں واقع 128 لاکھ منظورشدہ پرائمری واپرپرائمری اسکولوں کے سروے کے بعد جو اعداد شمار شائع کئے ان کے یہ خوش آئند اطلاع ملتی ہے کہ مسلم بچوں کے داخلوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ دیگر مذہبی اقوا م کے مقابلے زیادہ ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق سنہ 2008-09میں پرائمری کلاسوں میں کل داخلے 130لاکھ4ہزار ہوئے تھے۔ ان کی تعداد 2009-10میں بڑھ کر171لاکھ 70ہزارہوگئی ہے۔اس دورانیہ میں مسلم بچوں کے داخلوں کی تعداد میں اضافہ23لاکھ 40ہزارکا ہوا ہے۔ 2007-08میں کل داخلوں میں مسلم بچوں کا تناسب 8.45 فیصد تھا جو 2009-10 میں بڑھ کر 11.47فیصد ہوگیاہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ان میں بچیوں کی شرح 49 فیصد کے قریب (48.89) پہنچ گئی ہے جب کہ قومی سطح پر یہ شرح اس سے کم (48.88)فیصد ہے۔ ایک خوش آئند انکشاف یہ ہواہے کہ آسام، بہار، دہلی ، جھارکھنڈ، کرناٹک، کیرالہ ، مہاراشٹرا، یوپی، اتراکھنڈ اور مغربی بنگال میں مسلم داخلوں کی شرح دیگر کے مقابلے بلند ہے۔ 
لیکن یہ پس منظرایسا نہیں ہے اطمینان سے بیٹھ جایا جائے۔ اس کی چنددرچند وجوہ ہیں۔ داخلوں میںیہ اچھال تعلیم کی اہمیت ذہن نشین ہوجانے کی بدولت کم اورغریب خاندانوں کے بچوں کو ایک وقت کا کھانا مل جانے کی بدولت زیادہ آیا ہے۔ ورنہ حق تعلیم قانون میں بعض شقوں کی بدولت آٹھویں تک کی تعلیم کا معیار پہلے کے بھی مقابلے پست ہوگیا ہے اورڈراپ آؤٹ کا جو مسئلہ پہلے مسلم بچوں کے لئے سنگین تھا اب وہ سنگین ترہوگیا ہے۔ ہمارے علم اورمشاہدے کی حد تک مہاراشٹرا اور کیرلاجیسی ریاستوں کوچھوڑ کر جہاں تعلیمی شعور بیدار ہے اورسرکاریں بھی مستعد ہیں، باقی ریاستوں میں پرائمری اوراپر پرائمری تعلیم کا معیار بہت تشویشناک ہے۔ہرچند کی چند دہائیوں میں سرکاری ٹیچرس کے مشاہروں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، مگر احساس ذمہ داری میں اضافہ نہیں ہوا ہے ۔ البتہ پرائیویٹ اسکولوں کی حالت نسبتاً بہتر ہے۔ 
ایک توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ اعلا تعلیم میں مسلمان سب سے زیادہ پھسڈی ہیں۔ ہندستان میں مسلم آبادی کل آبادی کی 14.2فیصد ہے جب کہ اعلا تعلیم میں داخلہ پانے والے طلباء میں ان کا تناسب صرف4.4فیصد ہے۔ دس ہزار خواندہ افرد میں 275گریجوئیٹ صرف ہیں۔یہ شرح2.75 فیصد ہوتی ہے۔کل آبادی میں یہ شرح 1.25فیصد کے قریب ہے۔جب کہ جین فرقہ میں فی دس ہزار خواندہ افراد میں 2565 گریجوئیٹ ہیں۔ (شرح25.65فیصد) ۔ فی دس ہزار خواندہ عیسائیوں میں یہ تعداد884،(8.84%) سکھوں میں 639، (6.39%) بودھوں میں 617 (6.17%) اور ہندؤں میں 598 (5.89%) ہے۔ تعلیم کے اس منظرنامے کو سامنے رکھ کر ہمیںیہ غورکرنا چاہئے کہ سول سروسز اور دیگر سرکاری ملازمتوں میں ہماری شرح کم ہونے کے اسباب میں ہماری تعلیم سے غفلت کا کتنا بڑا حصہ ہے؟
تعلیم کے تعلق سے ہمارے معاشرے کا ایک بڑاسنگین اورعمومی مسئلہ یہ ہے کہ عمومی ماحول ’’تعلیم دوست‘‘ Education friendly نہیں ہے۔اورہمیں اس کی کوئی فکر بھی نہیں کہ اپنے گھروں اورمحلوں میں ایسا ماحول فراہم کریں جس سے طلباء کا دل پڑھائی میں لگے اوران کے درمیان علمی مسابقہ کی فضا بنے۔ بڑی تباہی ارزاں جدید آلات موبائل، لیپ ٹاپ ،کمپیوٹر اور ٹی وی وغیرہ پر بڑوں کی حد سے زیادہ دلچسپی اوراس میں بچوں کے گرفتار ہونے سے آرہی ہے۔ کھیل کود کا صحت مند ماحول تباہ ہو رہا ہے۔پہلے یہ وباصرف شہروں تک تھی اب اس کا نیٹ ورک دوردراز دیہات تک بھی پہنچ گیا ہے۔ ہماری سرکاراس کو اورارزاں کررہی ہے ۔ اس کا اثر یہ ہوگا کہ عمومی آبادی حقیقی مسائل سے بیخبرڈجیٹل دنیا میں ڈوبی رہے گی۔ بیشک ڈجیٹل دنیا حیرت انگیز ہے۔ اس پر معلومات کے خزانے موجود ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کا عام طور پر استعمال کس کام کے لئے ہورہا ہے؟وہاٹس اپیپ توافواہیں پھیلانے اورفساد کرانے کا آسان آلہ بن گیا ہے۔ ایف بی کی افادیت سے وقت کا ضیاع زیادہ ہے۔ اب اگرہم ہمہ وقت خود بھی اورہمار بچے بھی اس حیرت انگیز دنیا میں گم رہیں گے تو ہمیں اپنی زبوں حالی پر حیرت اورافسوس کرنے کا کوئی حق نہیں رہ جائیگا۔
طلاق ثلاثہ اورکثرت ازدواج
سپریم کورٹ کی طلبی پر مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اوائل ہفتہ ایک حلف نامے داخل کرکے اپنا موقف ’’مضبوطی‘‘ سے پیش کردیا ہے۔68 صفحات کی یہ دستاویز یقیناًاہم ہونی چاہئے۔ لیکن یہ سردست ہماری دسترس سے باہر ہے۔ البتہ میڈیا پر اس کے حوالے سے جو رپورٹیں آئی ہیں، ان میں تنقید، بلکہ تنقیص کے طور پر جن نکات کا ذکر ہے ان میں یک زوجگی کی قباحتیں اور بوقت ضرورت نکاح ثانی کے شرعی رخصت پر دلائل شامل ہیں۔ یہ دلائل لائق توجہ ہیں۔ انڈین لاء کمیشن نے اپنی رپورٹ (227/ August 2009)میں بڑی مضبوطی کے ساتھ ہندوکوڈ بل میں یک زوجگی کے لزوم اورطلاق کے طریقوں میں نقائص پر توجہ دلائی ہے اوراصلاحات تجویز کی ہے۔اس حلف نامے میں اس کا حوالہ مناسب ہوتا۔ خصوصا طلاق کے معاملوں میں عدالتوں نے بھی بعض نقائص کی نشاندہی کی ہے۔ جسٹس پردیپ نند راجوگ اورمحترمہ جسٹس پرتیبھا رانی پر مشتمل ایک بنچ نے حال ہی میں کہا ہے کہ طلاق حاصل کرنے کے لئے عدالتوں میں مبالغہ آمیزاورجھوٹے الزامات کا سہارالیا جاتا ہے(IE 6 Sept, 16) ۔مسلم طریقہ طلاق اس سے خرابی سے مبرا ہے۔ بورڈ نے صفائی کے ساتھ یہ بی تسلیم کیا ہے اگرچہ ایک نشست میں طلاق ثلاثہ حد درجہ ناپسندیدہ ہے مگر قانون شریعت میں اس کے باجود اس کو حتمی تسلیم کیا گیا ہے۔ بورڈ کے ایک رکن مفتی عطاالرحمٰن قاسمی کہتے ہیں طلاق ثلاثہ کے جواز پر حضرت عمرؓ کے دور سے ہی علماء میں اتفاق رائے رہا ہے۔ البتہ ضرورت ہے کہ معاشرے کی اصلاح ہو اوروہ اس طریقہ سے گریز کی راہ صواب پر قائم ہو۔ 
اس بیان حلفی میں کثرت ازدواج کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسلام میں احسن ایک ہی نکاح ہے مگربصورت ضرورت (یہ ضرورت ذاتی بھی ہوسکتی اورمعاشرتی بھی) مرد کے لئے ایک سے زاید نکاح کی رخصت ہے لیکن یہ رخصت سخت شرائط کے ساتھ ہے۔ کہا گیا ہے کہ نکاح ثانی کی یہ رخصت اس سے بہتر ہے کہ پہلی بیوی کو لازماً طلاق دی جائے یا قتل کا حربہ استعمال کیا جائے۔ نکاح ثانی عورت کو قانونی بیوی کا درجہ دئے بغیر رکھنے سے زیادہ افضل ہے۔ بیان حلفی میں اس حق بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ مسلمانوں میں نہ طلاق عام ہے اورنہ نکاح ثانی کا چلن ہے۔ یہ تو صرف اسلام دشمنوں اورمیڈیا کی کارستانی نے کہ ان کا اس قدر شورمچایاجاتا ہے۔بورڈ نے ایک نکتہ اوراٹھایا ہے ۔ وہ یہ عائلی قانون پر عمل کرنے کا حق آئینی ہے۔ اس میں اگرکوئی رودبدل کرنی ہے تو حکومت پارلی منٹ میں بل لائے۔ 
ہم نے یہ مختصرنتائج ان رپورٹوں سے اخذکئے ہیں جو انگریزی میڈیا میں شائع ہوئیں۔ ہرچند کہ ہمارے ملک میں بہت سے قوانین غیرشرعی ہیں جن کے دائرے میں سبھی آتے ہیں۔ لیکن خاندانی زندگی بڑی حد تک محفوظ ہے۔ ہمارے بعض دانشوروں نے اس موقع پر شرعی نظام خاندان کے بارے میں جو مخالفانہ روش اختیار کی ہے وہ بیشک حمیت دینی اورملت کے مفاد اجتماعی کے منافی ہے۔ اس سے گریزکرنا چاہئے۔ اگر کوئی بات ناگوار گزرے تو اس کو میڈیا میں لانے کے بجائے بورڈ سے رجوع کیا جائے اوربورڈ کو بھی چاہئے کہ وہ ہرشک کے جواب کے لئے آمادہ ومستعد رہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا