English   /   Kannada   /   Nawayathi

اُتر پردیش کا سیاسی منظر نامہ

share with us

ایک ایک اسمبلی حلقہ کا باریک بینی سے جائزہ، یہاں تک کہ بوتھ لیول تک مکمل معلومات حاصل کر کے ہر حلقہ کے لئے علیحدہ لائحہ عمل طئے کرنااور اس پر عمل آوری کو یقینی بنانا، یہ بڑا پِتّا ماری کا کام ہے، جسے بی جے پی نے پارلیمانی انتخابات کے وقت بحسن خوبی انجام دیا تھا اور اس کے نتایج ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ اترپردیش الیکشن کیلئے بھی بی جے پی اسی ضبط و تحمل کے ساتھ کام پر لگی ہوئی ہے ، کن حلقوں میں ترقی اور وکاس کی بات کی جائے، کن حلقوں میں ہندتو کو مدعا بنایا جائے، کن حلقوں میں دلتوں کو ساتھ ملایا جائے اور کون کون سے حلقوں میں مسلمانوں کو منتشر کیا جائے اور اس انتشار کے لئے کس مسلم قائد یا جماعت کو استعمال کیا جائے ، اس طرح کی منصوبہ بندی اور تیاری شائد ہی کسی دوسری سیاسی پارٹی نے کی ہوگی۔ یوپی میں سماجوادی پارٹی اقتدارمیں ہونے کے باوجود عوام میں اپنا اعتبار کھو چکی ہے،اپنے منشور میں کئے گئے وعدوں کو ساڑھے چار سال تک پس پشت ڈال کراب وہ کوئی ایسا تیر نہیں مار سکتی کہ عوام کا اعتماد حاصل کر سکے۔ ملائم سنگھ یادو جنہیں کسی زمانے میں فرقہ پرست مُلاّ ملائم سنگھ کہا کرتے تھے یہ فیصلہ نہیں کر پارہے ہیں کہ انہیں سیکولرازم کا نقاب اوڑھے رکھنا چاہیے یا کھل کر فرقہ پرستی کی حمایت کرنی چاہیے، ویسے بہار ایلکشن کے وقت مہا گٹ بندھن سے عین وقت پرناطہ توڑ کر انہوں نے اپنی سوچ ظاہرکردی تھی لیکن یو پی میں وہ کونسا رخ اختیار کرتے ہیں یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا۔کیوں کہ بہار میں ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا لیکن یو پی میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے،’’ ایک طرف کنواں ایک طرف کھائی‘‘ لگتا ہے اِسی بات نے انہیں تذبذب میں ڈال رکھا ہے۔ملائم سنگھ کو اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ بی جے پی اپنے این ڈی اے کے حمائتیوں کو ایک ایک کرکے کنارے لگا رہی ہے۔ اصول بھی یہ ہے کہ بڑے درخت کے نیچے چھوٹے پودے پنپ نہیں سکتے۔ اترپردیش کی دوسری اہم پارٹی بہوجن سماج پارٹی ہے جس کے ماضی کے تجربات نہ ہی بہت کامیاب رہے اور نہ ہی اتنے مایوس کن کہ اُسے یکسر نظر انداز کیا جا سکے۔پہلے سوشل انجینئرنگ اور پھر دلت مسلم اتحاد کی بدولت مسرز مایاوتی ماضی میں اقتدار کے مزے لوٹ چکی ہیں، ان کے دور اقتدار میں نظم و نسق تو بر قرار رہا لیکن ترقیاتی کاموں میں مایاوتی عوام کو متاثر نہیں کر سکی تھیں۔ پوری ریاست بھر میں جگہ جگہ قدآور مجسمے ابھار کر عوام کے مسائل سے چشم پوشی مایا وتی کو مہنگی پڑی تھی، امید ہے کہ پانچ برسوں تک اقتدار سے محرومی نے مایاوتی کی آنکھیں کھول دی ہوں گی۔ بوتھ لیول سے لیکر حلقوں کی سطح تک باریک بینی سے منصوبہ بندی کی کچھ کوشش بہوجن سماج پارٹی نے بھی ضرور کر رکھی ہوگی کیونکہ بی ایس پی کے پاس بھی بہت فعال اور مخلص کیڈر موجود ہے ، اس کی ذیلی تنظیموں کی موجودگی میں یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اب کی بار مسرز مایاوتی کوئی غلطی نہیں کریں گی۔ سماجوادی پارٹی سے ناراض اور مایوس مسلمان جو ریاست میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ان کیلئے بی ایس پی ایک بہترمتبادل ہو سکتا ہے بشرط یہ کہ مایاوتی مسلمانوں کے مسائل پر اپنی سنجیدگی کا اظہار کرے اور انہیں اقتدار میں حصہ دار بنانے کا یقین دلائے۔ ایک زمانہ تھا کہ یو پی اور کانگریس لازم و ملزوم سمجھے جاتے تھے۔ جب تک کانگریس یو پی میں مظبوط تھی مرکز میں بلا شرکت غیرے اقتدار پر قابض رہی۔لیکن بابری مسجد سانحہ کے بعد مسلمانوں نے کانگریس پر یوپی کے دروازے ایسے بند کئے کہ وہ گذشتہ پچیس برسوں سے یو پی میں اپنے قدم جمانے کو ترس رہی ہے۔ ملک کی سب سے قدیم سیاسی پارٹی کے لئے اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ پچھلے عام انتخابات میں کانگریس یو پی میں اپنا کھاتا بھی نہیں کھول سکی۔آئیندہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس اگر انفرادی طور پر حصہ لیتی ہے تو اس کی کارکردگی میں کوئی نمایا فرق پڑنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ موثر قیادت کا فقدان اور سیکولر اقدار سے انحراف نے کانگریس کی ساکھ کو بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ اب کانگریس کی نشاط ثانیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ علاقائی پارٹیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعہ اپنے وجود کو برقرار رکھے۔ آج تک بائیں بازو کی کمیونسٹ پارٹیوں کو یوپی میں کبھی کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ملی، آگے بھی اس کے امکانات موہوم ہیں۔ بی جے پی کے رہتے ہوئے دیگر فرقہ پرست جماعتوں کے لئے بھی مشکل ہے کہ وہ اپنے دم پر کچھ سیٹیں حاصل کرسکے ۔ جہاں تک مسلم سیاسی پارٹیوں کا سوال ہے موجودہ ۴۰۴ رکنی اسمبلی میں پیس پارٹی کے چار، قومی ایکتا دل کے دو، اور اتحاد ملت کاؤنسل کا ایک رکن اسمبلی میں نمائندگی کر رہے ہیں۔ اب ان پارٹیوں کی کوشش تو ہوگی کہ وہ اپنی نشستوں میں اضافہ کریں لیکن فرقہ پرستی کا سیلاب ، ہندوتو ووٹوں کا پولارائزیشن اور مسلمانوں کے انتشار کے بیچ یہ پارٹیاں اگر اپنی نشستیں دوبارہ حاصل کر لیں تو یہی بہت غنیمت ہوگا ۔یو پی سے آنے والی اطلاعات کے مطابق حیدراباد کی کل ہند مجلس اتحاد المسلمین بھی پچھلے کچھ عرصہ سے ریاست میں سرگرم ہو گئی ہے۔ مجلس کے صدر اسد الدین اویسی کے جلسوں میں عوام کا اژدہام مقامی سیاسی پارٹیوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ جس تیزی سے مجلس کی مقبولیت کی خبریں آرہی ہیں اسی تیزی سے یہ افواہیں بھی گشت کر رہی ہیں کہ اتر پردیش میں مسلم ووٹوں کو بے اثر کرنے کے لئے بی جے پی ووٹ کٹوا پارٹی کے طور پر مجلس کو استعمال کر رہی ہے۔ خدا کرے کہ یہ افواہیں غلط ثابت ہوں۔ اس سے قبل بہار الیکشن کے وقت بھی مجلس پر یہ الزام لگ چکا ہے لیکن وہاں مجلس نے صرف چھ مسلم اکثریتی حلقوں میں اپنے امیدوارنامزد کئے تھے اور ایک بھی حلقہ میں ایسا نہیں ہوا کہ مجلس کی وجہہ سے بی جے پی کو فائدہ ہوا ہو، چنانچہ بہار میں مجلس کی عزت بچ گئی تھی۔ بہار میں سیکولر پارٹیوں کا عظیم اتحاد ہونے کی وجہہ سے بھی سیکولر ووٹوں کا بٹوارہ نہیں ہوا تھالیکن اتر پردیش میں ابھی تک ایسے کسی اتحاد کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔ سیکولر اتحاد کی عدم موجودگی میں ایک ایک ووٹ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ایسی حالت میں مسلم سیاسی پارٹیوں کو بہت سوچ سمجھ کر میدان میں اترنا ہوگا تاکہ ان پر فرقہ پرستوں کا آلہ کار ہونے کا لیبل بھی نہ لگے او ر مسلم سیاست کا بھرم بھی رہ جائے۔ کیا ہی بہتر ہوگا کہ مسلمانوں کی تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں الیکشن کو اپنی انا اور وقار کا مسئلہ نہ بناتے ہوئے آپس میں مل جل کر انتخابات میں حصہ لیں ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا