English   /   Kannada   /   Nawayathi

مغربی سماج اور قرآن کریم

share with us

قرآن پاک پر پابندی کا مطالبہ
قرآن‘ صاحب قرآن اور قرآن پر عمل کرنے والی امت کے تئیں مغرب کا رویہ عموماً معاندانہ رہا ہے کئی مغربی ملکوں میں ایسی کوششیں ہوئیں کہ قرآن پر پابندی لگادی جائے۔ ایسی ہی کوشش ایک ڈچ ممبر پارلیمنٹ Geert Wilders کی طرف سے ہوئی‘ جس نے ملک کی پارلیمنٹ سے ایک ایسا قانون پاس کرانے کی کوشش کی‘ جس کے تحت نیدرلینڈ میں قرآن کریم پر پابندی عائد کردی جائے۔ دایاں بازو کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اس ممبر پارلیمنٹ کا الزام تھا کہ(معاذ اللہ) قرآن کریم تشدد کو بڑھاوا دیتا ہے۔ یہودیوں‘عیسائیوں اور دیگر منکرین اسلام کو قتل کرنے کا حکم دیتاہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ایسی کتاب کے لئے ہمارے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔ جس فریڈم پارٹی نے یہ مطالبہ کیا‘ اس کے صرف 9ممبران ہی پارلیمنٹ میں تھے۔ 150 ارکان کی پارلیمنٹ میں اکثر نے قرآن پر پابندی کی مخالفت کی۔ فریڈم پارٹی کے ممبران کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ ملک میں مساجد کی تعمیر پر پابندی عائد کی جائے۔ نیدر لینڈ کی ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے قرآن کریم پر پابندی کامطالبہ اگرچہ منظور نہیں کیا گیا‘ مگر اس مطالبے کے بعد وہاں قرآن کے تعلق سے عوام وخواص کا تجسس ضرور بڑھ گیا۔ نہ صرف نیدرلینڈ کی پارلیمنٹ کے ممبروں نے قرآن کا مطالعہ شروع کیا‘ بلکہ عام لوگوں نے بھی اسے پڑھا اور دکانوں پر قرآن کریم کے نسخوں کی فروخت بڑھ گئی۔
قرآن سوزی کا اعلان
امریکا کے ایک مذہبی رہنما پاسٹرٹیری جونز نے اعلان کیا کہ 9/11 کی برسی کے موقع پر وہ قرآن کریم کے دوسو نسخے نذرآتش کرے گا۔ اس اعلان کے بعد پوری دنیا میں مسلمانوں نے احتجاج ومظاہرے کئے۔ 2010 میں یہ معاملہ میڈیا میں چھایا رہا۔ مذکورہ پاسٹر کاکہنا تھا کہ (معاذ اللہ) قرآن کریم تشدد کی حمایت کرتا ہے۔ امریکی قانون کے مطابق امریکا میں انجیل اور عیسائیت کی توہین جرم ہے‘ مگرقرآن اور اسلام کی توہین جرم نہیں۔ یہ بھی امریکا کی جمہوریت کا دوہرا رویہ ہے۔ بہرحال پاسٹر کے اس اعلان کی جہاں مخالفت ہوئی‘ وہیں مسلمانوں کی بعض تنظیموں نے اس نفرت انگیز اعلان کے جواب میں ایک نہایت مثبت قدم اٹھاتے ہوئے قرآن کریم کے نسخوں کی تقسیم شروع کردی۔ اس طرح ہزاروں کاپیاں لوگوں میں تقسیم کی گئیں اور عوام نے سچائی کو جاننے کی خود بھی کوشش کی۔ ہزاروں غیر مسلموں نے قرآن کریم کا مطالعہ کرکے پیغام الٰہی سے سے واقفیت حاصل کی۔
جعلی قرآن
امریکا کے ہی دوچھاپے خانوں نے جعلی قرآن چھاپاجسے نام دیا الفرقان الحق کا۔ Omega2001اور Wine Pressکی طرف سے شائع ہونیوالے اس جعلی قرآن کو اکیسویں صدی کا قرآن بھی کہاگیا۔ عربی اورانگلش میں شائع اس کتاب کو کویت لاکر اسکول کے بچوں میں تقسیم کیاگیا اور انہیں گمراہی کے راستے پر ڈالنے کی کوشش ہوئی۔
قرآن کی بے حرمتی

افغانستان کے بگرام ایربیس سے خبرآئی کہ امریکی فوجیوں نے قرآن کریم اور کچھ دیگر اسلامی کتابوں کو نذرآتش کردیاہے۔ اس خبر کے بعد گویا افغانستان میں آگ لگ گئی‘ عوام سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرنے لگے۔ غیر ملکی فوجیوں پر خودکش حملوں میں اضافہ ہوگیا۔ عوام اور پولس میں زبردست ٹکراؤ شروع ہوا مزار شریف ‘جلال آباداورکابل سمیت ملک کے دیگرحصوں میں درجنوں افراد کی موت ہوگئی‘ جبکہ سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ امریکا اور اقوام متحدہ کو اپنے دفاتر چھوڑنے پڑے۔
ذہنی اذیت کا طریقہ
امریکا نے اپنے مخالف مسلم جنگجوؤں کے لئے جو عقوبت خانے بنارکھے ہیں‘ وہاں قیدیوں کو مختلف طریقوں سے ٹارچر کیا جاتا ہے۔ جن قیدیوں کو رہائی ملی ‘انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ اسلام پسندو ں کو ذہنی کوفت میں مبتلا کرنیکا ایک طریقہ یہ بھی اپنایا جاتا ہے کہ ان کے سامنے قرآن کریم کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور امریکی سپاہی مختلف انداز میں اسلام کی توہین کرتے ہیں‘ تاکہ انہیں ذہنی اذیت میں مبتلا کیاجائے۔ یہی نہیں امریکا کی خواتین فوجی افسران تو مسلمان قیدیوں کوزنا کرنے پر بھی مجبور کرتی ہیں اور جنسی اعضاء کو سگریٹ سے داغتی ہیں۔
قرآن فہمی کا رجحان
یوروپ وامریکا کی اسلام دشمنی کوئی نئی بات نہیں۔ صدیوں سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے ۔ آج اس دشمنی نے ایک نئی شکل اختیارکرلی ہے۔ اس دشمنی کو سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے صلیبی جنگ قرار دیا تھا اور کچھ مغربی ماہرین اسے دوتہذیبوں کا ٹکراؤ قرار دیتے ہیں۔ قرآن اور اسلام کے تعلق سے مغربی معاشرے میں زبردست غلط فہمی پائی جاتی ہے اور بعض ذہنوں میں تعصب بھی پایاجاتا ہے‘ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مغرب میں اسلام کو سمجھنے کی چاہت بھی موجود ہے‘ جس کااظہار بارہا ہوجاتا ہے۔مختلف طرح کے مسائل سے الجھتا مغربی معاشرہ اب روحانی سکون چاہتا ہے اور اس کے لئے وہ قرآن کا مطالعہ بھی کر رہا ہے۔
ہرسماج کا ایک طبقہ تنگ ذہن ہوتاہے۔ صرف اس ایک طبقے سے ملک یا سماج نہیں چلتا۔ بالکل اسی طرح مغربی ملکوں میں بھی ہے۔ ہم نے اوپر کی سطروں میں جو باتیں کہیں‘ وہ سماج کا صرف ایک رخ ہے۔ ایسانہیں کہ یوروپ وامریکا کے تمام لوگ اسلام دشمن ہیں یا قرآن کریم کے تعلق سے منفی سوچ رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا ایک طبقہ قرآن اور اسلام کو سمجھنابھی چاہتا ہے۔ ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد انٹرنیٹ کے ذریعے قرآن اور اسلام سے متعارف ہوتی ہے‘ نیز بہت سے لوگ اسلامی سینٹرز پرجاکر اسلام کے بارے میں جانکاریاں بھی حاصل کرتے ہیں۔ حقیقت پسند لوگوں کے سامنے جب اسلام اور قرآن کی حقانیت واضح ہوتی ہے‘ تو ان کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کرلیتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکا اور یوروپ میں بہت تیزی سے اسلام پھیل رہا ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں بڑی تعداد گوروں کی ہوتی ہے اور خواتین بھی بڑی تعدادمیں اسلام سے متعارف ہونے کے بعداسلام قبول کرلیتی ہیں۔
قرآن پڑھ کر اسلام قبول کیا
حال ہی میں امریکا سے خبر آئی تھی کہ مشہور ماڈل اور اداکارہ سارہ بورکرنے اسلام قبول کرلیا ہے اور اداکاری وماڈلنگ سے تائب ہوکر اپناوقت خدمت خلق میں لگا رہی ہیں۔ سارہ بورکر 1974میں امریکا میں پیداہوئی تھیں۔ اپنے کیریئرکا آغاز فٹنس ٹرینر کے طورپر کیا اور بعد میں ماڈلنگ اور اداکاری کرنے لگیں۔ اسی دوران انہیں قرآن کریم پڑھنے کو ملا اور اس کے بعد ان کی زندگی کا رخ بدل گیا۔ وہ اب قرآن کی روشنی میں خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں ۔ انہوں نے حجاب کو اپنا لیا ہے اور دوسری خواتین کو بھی اس کے فائدے بتاتی ہیں‘ تاکہ وہ بھی حجاب اپنائیں۔ وہ کہتی ہیں کہ قرآن کریم نے ان کی زندگی بدل دی۔
قرآن کریم مغربی باشندوں کی زندگی پر کیسے اثرات ڈال رہا ہے‘ اس کی ایک مثال فرنچ خاتون مس فالوٹ ہیں ‘جو کہ ایک عیسائی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے ذہن میں اکثر مذہب کے تعلق سے سوالات ابھرتے تھے‘ جن کا تسلی بخش جواب انہیں نہیں ملتاتھا۔ اسی دوران قرآن کریم کا انہوں نے مطالعہ کیا۔ قرآن پڑھ کر انہیں یک گونہ سکون ملا اور پھرانہوں نے اپنے خاندانی مذہب کو چھوڑ کر اسلام کے دامن میں پناہ لی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے سامنے کئی طرح کے مسائل آئے‘ مگر وہ ہمت کے ساتھ ان سے لڑتی رہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اب وہ اپنے نئے مذہب میں روحانی سکون محسوس
کرتی ہیں۔ایسے ہی سارہ جوزف ایک برطانوی نومسلم خاتون ہیں۔ انہوں نے بھی قرآن کریم کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا۔ انہیں قرآنی تعلیمات میں انسانیت کی نجات اور خواتین کی فلاح نظرآئی۔ ان کا مانناہے کہ مغربی معاشرہ عورت کو اس کا مقام نہیں دیتا۔ عزت کا اصل مقام تواسے اسلام ہی دیتا ہے۔ ان سے جب یہ سوال کیاگیا کہ کیامغربی خواتین مسلمان مردوں سے شادی کے لئے اسلام قبول کرتی ہیں‘ تو انہوں نے بتایا کہ اسلامی طرز زندگی میں خواتین کو زیادہ عزت ووقار ملتا ہے۔ حالانکہ دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ صرف چند خواتین ہی مسلمانو ں سے شادی کے لئے اسلام قبول کرتی ہیں۔ بیشتر خواتین اسلام سے متاثر ہوکرہی اسلام قبول کرتی ہیں۔ اٹلی میں Padna یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹیفینو الیوی کا کہنا ہے کہ بعض لوگ قبول اسلام کو دوسرے معنوں میں لیتے ہیں لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ اسلام سیاست کو بھی روحانی شکل دے دیتا ہے۔
9/11کے بعد
مغربی ملکوں میں جہاں ایک طرف اسلام کےْ خلاف واویلا مچایاجارہا ہے‘ وہیں دوسری طرف سعید روحین اس میں جذب وکشش محسوس کر رہی ہیں۔ مغرب میں اسلام قبول کرنے والوں کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے‘ مگر ماہرین کا ماننا ہے کہ 9/11 کے بعد اسلام قبول کرنے کے رجحان میں اضافہ ہواہے۔ پہلے سالانہ جتنے افراد اسلام قبول کرتے تھے‘ اب اس سے زیادہ لوگ کر رہے ہیں۔ سمجھاتا ہے کہ 9/11 کے بعد مغرب میں قرآن کریم کو پڑھنے اور اسلام کو سمجھنے والوں کی تعداد بڑھی ہے۔ دنیامیں دہشت گردی کے نام پر جس طرح سے اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور قرآن کریم کو ہدف ملامت بنایاگیا‘ اس سے عام لوگوں میں اسلام اور قرآن کے بارے میں جاننے کا تجسس پیداہوا۔ اس تجسس کے تحت وہ قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھرانٹر نیٹ اپر اسلام کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک بہتر طریقہ زندگی ہے اور پھر وہ اسلام قبول کرلیتے ہیں۔
خواتین اور قرآن
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ عام طور پر قرآنی تعلیمات کو خواتین مخالف کے طور پر پیش کیاگیا اور افغانستان کی خواتین کو باربار ’’خاتون اسلام‘‘ کی مثال کے طور پر میڈیا نے پیش کیا‘ مگر حیرت انگیز بات یہ رہی کہ اسلام قبول کرنے والوں میں مردوں سے زیادہ خواتین کی تعداد ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مغرب کے جنس زدہ معاشرے سے وہاں کی خواتین عاجز آچکی ہیں۔ اب انہیں کسی ایسے سماج کی تلاش ہے‘ جہاں انہیں جنسی آسودگی کے سامان کے بجائے ایک معزز اور محترم انسان سمجھاجائے۔ جب وہ اسلامی حجاب کو دیکھتی ہیں‘ اس کا تجربہ کرتی ہیں اورخواتین کے تعلق سے قرآنی فرامین کو پڑھتی ہیں‘ تو احساس ہونے لگتا ہے کہ انہیں عزت کا مقام یہیں مل سکتا ہے اور پھر وہ اسلام قبول کرکے حجاب اپنالیتی ہیں‘ جہاں وہ جنس زدہ نظروں سے محفوظ ہوجاتی ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا